کراچی میں رینجرز کی کارروائیاں اور ان کے نتائج !
(Fareed Ashraf Ghazi, Karachi)
پاکستانی قوم باالعموم اور کراچی کے باشندے
باالخصوص ایک طویل عرصہ سے اس بات کے منتظر تھے کہ حکومتی یا عسکری قیادت
دہشت گردوں،بھتہ خوروں،سیاسی غنڈوں اور لینڈ مافیا کے کارندوں کے خلاف بلا
امتیاز ایسی بھرپور عملی کاروائیاں کرے جس کے اثرات نظر بھی آئیں۔ اﷲ اﷲ
کرکے اﷲ تعالیٰ نے قوم کی دعائیں سن لیں اور بالآخر وہ وقت آہی گیا جب
سیاسی اور عسکری قیادت نے ملک کے مختلف حصوں اور خاص طور پر کراچی میں ایک
بھرپور عملی آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کے لیئے سیاسی نمائندوں
اور عوامی حلقوں کی تائید بھی حاصل کی گئی اور پھر رینجرز کے ذریعے کراچی
میں جو نتیجہ خیز آپریشن شروع ہوا اور تادم تحریر کامیابی کے ساتھ جاری ہے
اس کے مفید نتائج منظر عام پر آئے تو عوام الناس کی جانب سے سیکوریٹی
اداروں کی شاندار کارکردگی کا بھر پور خیرمقدم کیا گیا کیونکہ پاک فوج اور
رینجرز کی جانب سے شروع ہونے والے اس آپریشن کے نتیجے میں کراچی کے باشندوں
کو ایک طویل عرصہ کے بعد پرسکون اور محفوظ زندگی گزارنے کا موقع ملا اور آج
ایک پھر کراچی روشنیوں کا شہر اور تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا ہے
اورکراچی کے شہری جو دہشت گردوں ،بھتہ خوروں ،سیاسی غنڈوں،اغواکاروں اور
لینڈ مافیہ کے کارندوں کی کارستانیوں کی وجہ سے شدید ذہنی اذیت اور عدم
تحفظ کا شکار تھے انہوں نے سکھ چین کا سانس لیا جس کا کریڈٹ بہرطور سیاسی
وعسکری قیادت کو جاتا ہے جس نے ہر طر ح کے تعصب اور مصلحت سے بالا طور ہوکر
کرمنل لوگوں کے خلاف بلا امتیاز کاروائی کرکے بہت کم وقت میں کراچی کا
دیرینہ مسئلہ حل کیا لیکن جہاں عام لوگ فوج اور رینجرز کے ان اقدامات کو
سراہتے ہوئے نظر آتے ہیں وہیں کچھ سیاسی قوتیں کراچی میں رینجرز کی
کاروائیوں کو ایک مخصوص طبقہ کے خلاف یکطرفہ اور تعصبانہ آپریشن قرار دے کر
اسے متنازعہ بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
جو لوگ رینجرز کی جانب سے شروع کیئے گئے آپریشن سے خوش نہیں ہیں ان کا کہنا
ہے کہ رینجرزصرف اردوبولنے والے مہاجروں کے خلاف کاروائیاں کررہی ہے اور
خاص طور پر متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف سب سے زیادہ عملی کاروائیاں اور
گرفتاریاں کی جارہی ہیں اور ان کے کارکنوں کو ماوارائے عدالت گرفتار کرکے
90 روز کا ریمانڈ لے کر ان پرلسانی تعصب کی بنیاد پر بے پناہ تشدد کیا جاتا
ہے جبکہ ان حلقوں کا یہ کہنا بھی ہے کہ کراچی میں ملنے والی انسانوں کی
تشدد زد ہ اکثر لاشیں ایجنسیوں کی جانب سے پھینکی جاتی ہیں جن کا الزام ایک
مخصوص سیاسی جماعت پر لگایا دیاجاتا ہے۔یہ طبقہ یہ الزام بھی لگاتا ہے کہ
رینجرز کے جوانوں کی اکثریت پنجابیوں اور پٹھانوں پر مشتمل ہے جو اردو
بولنے والوں کو لسانی تعصب کا نشانہ بناتے رہتے ہیں اور رینجرز کے کچھ جوان
بھی کرپشن میں ملوث ہیں جو پیسے لے کرمجرموں کو چھوڑدیتے ہیں اور اس آپریشن
کو صرف کراچی تک محدود رکھا گیا ہے جبکہ دہشت گرد اور قاتل سندھ میں بھی
موجود ہیں لیکن رینجرز وہاں کوئی کارروائی نہیں کررہی جوکہ انصاف کے تقاضوں
کے خلاف ہے جبکہ بعض مواقع پر رینجرز کے جوانوں کی جانب سے قانون کی خلاف
ورزی کے واقعات بھی منظر عام پر آچکے ہیں جہاں رینجرز نے کسی بھی عام شخص
کی ذرا سی مظاہمت پر اس پر فائر کھول دیا،اسی طرح یہ طبقہ یہ الزام بھی
لگاتا ہے کہ رینجرزکے جوانوں کو پیسے دے کر لوگ اپنے ذاتی دشمنوں کو بھی
جھوٹے الزامات کے تحت گرفتار کروانے کا کام لے رہے ہیں۔
مذکورہ بالا الزامات میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا جھوٹ ؟ اس کا جواب تو
متعلقہ سیکوریٹی ادارے ہی بہتر طور پر دے سکتے ہیں لیکن دیکھنے والی آنکھوں
کو آج کا کراچی پہلے سے بہت بہتر ،روشن ،پرامن اور ترقی کی جانب گامزن نظر
آرہا ہے اور کراچی کے باشندوں کے بہت سے مسائل رفتہ رفتہ حل ہوتے ہوئے نظر
آرہے ہیں ،آج اگر کراچی کے کسی عام آدمی سے کراچی آپریشن کے بارے میں رائے
لی جائے تو وہ اس کی حمایت اور تعریف کرتا ہوا ہی نظر آتا ہے جس سے مجموعی
تاثر تو یہی ابھرتا ہے کہ پاک رینجرز جو عملی اقدامات کراچی میں کررہی ہے
ان سے اس شہر کی اکثریت بہت خوش ہے۔لیکن کچھ عرصہ قبل کراچی میں پاک فوج کی
ملٹری فورس اورکراچی رینجرز کے جوانوں پر جان لیوا حملے قانون نافذ کرنے
والے اداروں کی لیئے لمحہ فکریہ ہیں کہ کس طرح دہشت گرد آسانی کے ساتھ اپنی
قاتلانہ کارروائی مکمل کرکے فرار ہوجاتے ہیں؟ جبکہ کراچی میں جہاں جگہ جگہ
رینجرز کے جوانوں کا گشت جاری ہے وہاں کیسے دہشت گرد کامیاب واردات کرنے
میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔دھشت گردوں کی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے
جوانوں پر یہ جان لیوا حملے اس بات کو بھی ظاہر کرتے ہیں کہ رینجرز کی تمام
تر کارروائیوں کے باوجود دھشت گردوں کے حوصلے ابھی پست نہیں ہوئے لہذا
ضرورت اس بات کی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ کیا جائے
اور جو دہشت گرد گرفت میں آجائیں انہیں فوری طور پر پھانسی پر لٹکا دیا
جائے تاکہ دیگر جرائم پیشہ افراد کو عبرت حاصل ہو اور ان کے دل میں قانون
کا خوف قائم ہو اور ساتھ ہی دہشت گردوں ،بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز کے
سہولت کاروں پر بھی کسی قسم کے حکومتی اور سیاسی دباؤ میں آئے بغیر ہاتھ
ڈالا جائے اورجن سیاست دانوں پر کرپشن اور دہشت گردوں کی سرپرستی جیسے
سنگین الزامات ہیں ان سب کے بارے میں مکمل تحقیقات کے بعد اگر ان پر جرم
ثابت ہوجائے تو انہیں کڑی سزائیں دی جائیں تاکہ آئندہ پھر کوئی سیاست یا
حکومت کی آڑ میں اپنے مظموم مقاصد کی تکمیل میں کامیاب نہ ہوسکے۔
ہمار ا کراچی کبھی امن وامان کا گہوارہ اوربے روزگاروں کا سہارا ہوا کرتا
تھا،یہاں پاکستان کے مختلف صوبوں اور علاقوں کے لوگ کسی بھی لسانی ،گروہی
یا سیاسی تفریق اورتعصب سے بالا تر ہوکرایک ساتھ نہایت دوستانہ ماحول میں
رہاکرتے تھے اس وقت اس شہر کا کوئی باسی خود کوسندھی،، بلوچی ،پٹھان،پنجابی
یا مہاجر نہیں سمجھتاتھا اور نہ ہی اس بات کو پسند کرتا تھا کہ اسے اس کی
قومیت کے حوالے سے پکارا یا پہچانا جائے اس وقت کراچی کے تمام باشندے خود
کو صرف پاکستانی کہلانا پسند کرتے تھے لیکن شہید ذوالفقار علی بھٹو کی
حکومت کے جبری خاتمے کے بعدجنرل ضیاالحق نے پاکستان پیپلز پارٹی کو نقصان
پہنچانے کے لیئے کراچی میں رائش پذیر اردو بولنے والوں کو لسانی طور پر
متحد کرکے ایک نئی سیاسی پارٹی کی تشکیل میں بھرپور کردار اداکیااور ایم
کیو ایم کے نام سے ایک نئی سیاسی پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔حب الوطنی
کے جذبے کو فروغ دینے والی ملکی سطح پر مقبول سیاسی جماعتوں کو کراچی کی
سیاست میں چاروں خانے چت کرنے والی نئی سیاسی جماعت ایم کیو ایم نے
انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد کراچی کا حلیہ ہی بدل کر رکھ دیا وہ
کراچی جہاں سب زبانیں بولنے والے صرف مسلمان اور پاکستانی بن کر رہا کرتے
تھے اور کراچی کے شہری جو ہمیشہ وفاقی سیاسی پارٹیوں کو ووٹ دے کر اسمبلیوں
میں پہنچایا کرتے تھے انہوں نے لسانیت کے جذبات سے مغلوب ہوکر ان ملک گیر
پارٹیوں کے مقابلے میں صرف کراچی اور حیدرآباد کے اردوبولنے والے باشندوں
کی نمائندگی کی دعویدار جماعت کی جھولی میں اپنا قیمتی ووٹ ڈال کر جو فیصلہ
آج سے 30 سال قبل کیا تھا اس کا خمیازہ یہ قوم آج تک بھگت رہی ہے آج سے 30
سال قبل لسانیت کا جو پودہ جنرل ضیاالحق نے لگایا تھا وہ آج ایک نہایت
طاقتوردرخت بن چکا ہے جسے جڑ سے اکھاڑنا اتنا آسان نہیں جتنا بعض ادارے اور
سیاست دان سمجھتے ہیں لیکن کراچی آپریشن شروع ہونے کے بعد سے کراچی کی
بدامنی ،دہشت گردی اور قتل وغارت گری میں جو نمایاں کمی واقع ہوئی ہے اس سے
اس بات کی امید کی جاسکتی ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب کراچی کے عوام کو جرائم
میں ملوث سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں سے نجات مل جائے گی۔
لسانیت کے بت نے سب سے پہلے کراچی کے باشندوں کو اپنی گرفت میں لیا اور پھر
اس کی دیکھا دیکھی مختلف زبانیں بولنے والوں نے بھی پاکستانیت کو ایک طرف
رکھ کر لسانی بنیادوں پر سیاست شروع کردی، پاکستان کا کوئی بھی صوبہ اب
ایسا نہیں جہاں صرف پاکستانیت کے نام پر ووٹ پڑتا ہو اب تو ہرجگہ زبان اور
برادری کے نام پر ووٹ لیئے جارہے ہیں جس کی ہر سطح پر مذمت اور بیخ کنی کی
ضرورت ہے ۔
جب سے کراچی میں رینجرز نے کنٹرول سنبھالا ہے دہشت گردی اور بھتہ خوری کی
وارداتوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے جس پر کراچی کے عوام رینجرز کے
افسران اور جوانوں کو سیلوٹ اور سلام پیش کرتے ہیں کہ پاک رینجرز کی وجہ سے
دہشت گردوں ،بھتہ خوروں ،لینڈمافیا اوران سب کے سیاسی سرپرستوں سے کراچی کے
شہریوں کو نجات مل رہی ہے اور امید ہے کہ اگر پاک فوج اور پاک رینجرز اسی
طرح ہر قسم کی سیاسی مصلحت اور دباؤ کا شکار ہوئے بغیرکراچی میں دہشت گردوں
اور ان کے سرپرستوں کے خلاف عملی کارروائیاں کرتی رہی تو انشاء اﷲ کراچی
ایک بار پھر امن وامان کا گہوارہ اور روشنیوں کا شہر بن جائے گا کہ کراچی
میں ایک طویل عرصہ بعد کافی امن قائم ہوا ہے جس کا کریڈٹ پاک فوج اور
رینجرز کو جاتا ہے جن کی وجہ سے دہشت گردوں اور بھتہ خوروں کے ہاتھوں یر
غمال کراچی کے باشندے اب بے خوف وخطر روزمرہ کے کاموں میں مشغول نظر آتے
ہیں لیکن دہشت گرد اپنے خوف کی سیاست کو قائم رکھنے کے لیئے کوئی موقع ہاتھ
سے جانے نہیں دیتے جیسا کہ گزشتہ دنوں نامور قوال امجد صابری کودہشت گردوں
نے ماہر ٹارگٹ کلرز کی مدد سے لیاقت آباد کراچی میں دن دہیاڑے قتل کرے شہید
کردیا جس کے بعد کراچی میں ایکبارپھر رینجرز کی موجودگی کو ایک مخصوص سیاسی
گروپ کی جانب سے متنازعہ بنانے کی کوششیں شروع کردی گئی ہیں لیکن پاک
رینجرز کو کسی بھی قسم کے دباؤ میں آئے بغیر دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز کے
خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھنی چاہیئں کہ کراچی کے باشندوں کی امیدوں کا
مرکز اب پاک فوج اور رینجرز سے وابستہ ہیں کہ سیاسی لوگوں کو تو سیاسی
چالوں اور کرپشن سے ہی فرصت نہیں ملتی جو وہ عوام کی جان ومال کے تحفظ کے
بارے میں کچھ سوچیں۔
پاک رینجرز کو پوری قوت کے ساتھ اس بات کوبھی یقینی بنانا ہوگا کہ کراچی
میں ہونے والے ہر سطح کے الیکشن کے جو نتائج آئیں وہ حقیقی ہوں ورنہ الیکشن
مہم سے لے کر الیکشن کے نتائج والے دن تک دھونس ،دھمکی اور دھاندلی کے زور
پر کراچی کے عوام کے مینڈیٹ کو ایک طویل عرصہ سے چوری کیا جارہا ہے ۔
پاکستان میں برسراقتدار آنے والی مختلف حکومتوں کی سیاسی مصلحتوں نے ان
دھاندلی کرنے والی سیاسی پارٹیوں کو انتہائی بااثر اور مضبوط بنا دیا ہے جن
کا کراچی کے عوام کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ کراچی کے عوام ایک طویل عرصہ سے اﷲ
تعالی سے جس غیبی مدد کے لیئے دعا ئیں کررہے تھے شاید وہ اب پوری ہوجائیں
کیونکہ پاک فوج اور پاک رینجرز کی قیادت سچے اور مخلص افراد کے ہاتھ میں ہے
اور اہلیا ن کراچی اس بات کے متمنی ہیں کہ رینجرز کراچی میں بلاخوف وخطر
اور کسی بھی سیاسی یا حکومتی دبا ؤ میں آئے بغیر ہر سیاسی پارٹی کے دہشت
گردوں کو کیفر کردار تک پہنچا کر یہ بات ثابت کرے گی کہ پاکستان میں آج بھی
فوج اور رینجرز ہی وہ ادارے ہیں جن پر پوری قوم کو اعتماد اور فخر ہے کراچی
کے باشندوں کو امید ہے کہ پاک فوج اور پاک رینجرز جوہر قسم کی دہشت گردی پر
قابو پانے کی مکمل اہلیت اور صلاحیت رکھتی ہے اس بار سیاسی دہشت گردوں اور
ان کے سرپرستوں کو کسی قیمت پر معاف نہیں کرے گی اور تمام جرائم پیشہ افراد
کے خلاف بلاامتیاز کاروائیاں کرکے کراچی کو ایک بار پھر روشنیوں کا شہر اور
امن کا گہوارہ بنا کردم لے گی۔
آج کل نئی سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی کی جانب سے ایم کیو ایم سے وابستہ
دہشت گردوں کو معافی دے کر سدھرنے کا ایک موقع دینے کی بات کی جارہی ہے جو
اس حد تک تو قابل قبول ہوسکتی ہے کہ معمولی جرائم میں ملوث نوجوانوں کو
سدھرنے کا ایک موقع فراہم کرنے کے لیئے ان کے جرائم کو معاف کرکے ان کو
قومی دھارے میں شامل کیا جاسکے لیکن اگر اس مطالبے کا مطلب یہ ہے کہ دہشت
گردی اور قتل وغارت گری جیسے سنگین جرائم میں ملوث لوگوں کو معاف کردیا
جائے تو اس مطالبے کو ماننے کا کوئی جواز نہیں ہے کہ شرعی اور قانونی طور
پر ان ظالم دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز کومعاف کرنے کا اختیار صرف مقتول کے
ورثہ یا ملک کی عدالتوں کو ہے کوئی فرد واحد یا کوئی ادارہ کسی بھی طور پر
اس بات کا اختیار نہیں رکھتا کہ وہ متعد د لوگوں کے قتل میں ملوث افراد کو
معاف کردے اور نہ ہی اس طرح کا مطالبہ اخلاقی ،عقلی ،شرعی اور قانونی طور
پر جائز ہے لہذا مقتدر اداروں کو دہشت گردوں اور قاتلوں کے ساتھ کسی بھی
قسم کی رعایت برتے بغیر انہیں سخت ترین سزادے کر نشان عبرت بنانا چاہیئے
تاکہ کراچی میں ایک طویل عرصہ سے جاری دہشت گردی اور قتل وغارت گردی کو ختم
کیا جاسکے۔
فوج اور رینجرز کے جوانوں کی دلیرانہ کاروائیوں کی بدولت حال ہی میں سندھ
ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا اغوا شدہ بیٹا اویس شاہ رہا ہوااور گزشتہ روز
پہلی بار کراچی سے تعلق رکھنے والے تین فعال سیاستدانوں وسیم اختر،رؤف
صدیقی ،انیس قائم خانی اور پیپلز پارٹی کے قادر پٹیل کو گرفتار کیا گیا جو
کہ کراچی آپریشن کے حوالے سے ایک بہت بڑی پیش رفت ہے کہ اس کاروائی سے قبل
پیپلز پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عاصم کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے صرف کارکنوں پر
ہی ہاتھ ڈالا جاتا رہا لیکن مرکزی رہنماؤں کے خلاف کوئی عملی کارروائی نہیں
کی گئی تھی ۔پاک فوج ،رینجرز ،عدالت اور پولیس نے اگر اسی طرح سیاسی
جماعتوں کے مبینہ طور پرمختلف جرائم میں ملوث رہنماؤں کو گرفتار کرکے
عدالتوں میں پیش کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تو بہت جلد کراچی آپریشن کا اصل
مقصد حاصل ہوجائے گا البتہ سیاسی جماعتوں کے ان گرفتار شدہ رہنماؤں میں سے
اگر کسی کے خلاف کوئی جرم ثابت نہ ہو تو عدالت سے اسے باعزت طور پر رہا
کرکے سیاسی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کی پوری آزادی دی جائے۔
کراچی کے عوام کی اکثریت کراچی میں قائم ہونے والے امن و امان سے بہت خوش
ہے البتہ لسانی بنیادوں پر سیاست کرنے والی سیاسی جماعتوں کے ورکروں نے
کراچی میں رینجرز کی موجودگی پر اعتراض اٹھاتے ہوئے ان کی کاروائیوں کو
جانبدارانہ قرار دیا اور اس بات کی شکایت کی کہ کراچی میں رینجزز کے آپریشن
کا اصل محور اردو بولنے والے لوگ ہیں جن کے ساتھ نانصافی کرتے ہوئے صرف ایک
مخصوص پارٹی کے ورکروں کو دہشت گردی اور بھتہ خوری کے الزامات عائد کرکے
پکڑا جارہا ہے ،کراچی کا ایک مخصوص طبقہ جو پاک رینجرز کی جانب سے کراچی
میں شروع کیئے گئے آپریشن سے خوش نہیں ہے اس کا کہنا ہے کہ رینجرزصرف
اردوبولنے والوں کے خلاف کاروائیاں کررہی ہے اور خاص طور پر متحدہ قومی
موومنٹ کے خلاف سب سے زیادہ عملی کاروائیاں اور گرفتاریاں کی جارہی ہیں اور
ان تمام کارروائیوں کا مرکز صرف کراچی کو بنایا گیا ہے جبکہ دہشت گردی اور
قتل وغارت گری میں سندھ سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی ملوث ہیں لیکن سندھ میں
رینجرز کوئی کارروائی نہیں کررہی جو کہ انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے اس رائے
میں کتنا وزن ہے اس کاجواب متعلقہ حکام اور ادارے ہی دے سکتے ہیں لیکن
مجموعی طور پر کراچی کے عوام کی اکثریت جن میں اردو سمیت ہر زبان بولنے
والے لوگ شامل ہیں کا کہنا ہے کہ ہم سب پاک فوج اور رینجرز کی کامیابیوں کے
لیئے دعاگو ہیں جنہوں نے دہشت گردوں ،بھتہ خوروں اور لینڈ مافیا کے ہاتھوں
یرغمال کراچی کے مظلوم عوام کو پرامن کراچی واپس دلوانے کے لیئے جو کارہانے
نمایاں انجام دیئے ہیں ان پر پاک فوج اور رینجرز کو جتنا بھی خراج تحسین
پیش کیا جائے کم ہے ۔
اب یہ پاک رینجرز کے ترجمان کا کام ہے کہ وہ ان لوگوں کے اعتراضات کا
اطمینان بخش جواب دے جو کراچی میں رینجرز کی کاروائیوں سے خوش نہیں ہیں
اورانہیں جانبدارنہ قرار دیتے ہیں جبکہ ساتھ ہی پاک رینجرز کو ان لوگوں کی
توقعات پر بھی پورا اترنا ہوگا جو ان سے کراچی کو دوبارہ امن وامان کا
گہوارہ اور روشنیوں کا شہر بنانے کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔( ختم شد) |
|