جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کی رخصتی……جنرل قمر جاوید باجوہ کی آمد
(عابد محمود عزام, Lahore)
جنرل ہیڈ کوارٹرز میں پاک فوج کی کمانڈ میں
تبدیلی کی پروقار تقریب میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے سبکدوش ہونے والے جنرل
راحیل شریف کی جگہ آرمی چیف کا عہدہ سنبھال لیا ہے۔ جنرل ہیڈ کوارٹرز
راولپنڈی میں پاک فوج کی کمانڈ میں تبدیلی کی پروقار تقریب میں چیئرمین
جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات، سربراہ پاک بحریہ ایڈمرل
ذکا اﷲ، ایئر فورس چیف سہیل امان اور پاک فوج کے کور کمانڈرز سمیت اعلیٰ
ترین افسران کے علاوہ وفاقی وزرا خواجہ آصف، عبدالقادر بلوچ، مریم اورنگزیب
سمیت دیگر پارلیمینٹرینز، غیر ملکی سفرا اور سفارت خانوں میں تعینات ملٹری
اتاشی نے شرکت کی۔ تقریب کا آغاز قرآن پاک کی تلاوت سے ہوا، جس کے بعد پاک
فوج کے چاک و چوبند دستے نے جنرل راحیل شریف اور کمان سنبھالنے والے جنرل
قمر جاوید باجوہ کو سلامی پیش کی، جس کے بعد جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر
جاوید باجوہ نے گارڈ آف آنر کا معائنہ کیا۔ گارڈ آف آنر میں این ایل آئی،
فرنٹیئر فورس اور سندھ رجمنٹ کے جوان شامل تھے۔ پاک فوج کی کمانڈ کی تبدیلی
کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف نے کہا کہ پاک فوج کی
قیادت بہت بڑا اعزازتھا، وہ اﷲ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ انہیں دنیا کی
بہترین فوج کی قیادت کا اعزاز بخشا۔ انہوں نے ہر فیصلہ کرتے ہوئے قومی مفاد
کو ترجیح دی اور قومی مقاصد حاصل کرنے کے لیے اپنی اور فوج کی صلاحیتیں
بروئے کار لایا۔ بلوچستان اور کراچی میں امن کا قیام ہو یا سی پیک ہرجگہ
کامیابی حاصل کی۔ پاک فوج نے ضرب عضب میں وہ معیار قائم کیے جن کی مثال عصر
حاضر میں نہیں ملتی، اس کامیاب سفر میں رینجرز، پولیس اور انٹیلی جنس
اداروں نے اہم کردار ادا کیا۔
جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف تین سال اپنی ذمہ داریاں بھرپور طریقے سے ادا کر
کے کمان جنرل قمر جاوید باجوہ کے سپرد کردی ہے۔ سابق جنرل راحیل شریف نے
اپنا دور شاندار اور بے مثال گزارا ہے۔ اس بہادر، نڈر اور بے خوف عسکری
لیڈر نے اپنے تین سالہ دور قیادت میں لیڈرشپ کا وہ اعلیٰ معیار قائم کیا
جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سگے گی۔ جنرل راحیل شریف نے اپنے سپہ سالاری
کے دور قیادت میں شاندار روایات کو جنم دیا۔ایک جرنیل اور سپہ سالار کی
حیثیت سے انہوں نے فوج کے جوانوں اور افسروں میں ہی اپنا مقام نہیں بنایا،
بلکہ عوام کے دلوں میں پر راج کیا ہے۔ کوئی عید گھر پر نہیں گزاری، بلکہ ہر
عید کو سرحدوں پر جوانوں کے ساتھ وقت گزارتے تھے۔ وہ اپنے دور میں انتہائی
زیادہ متحرک ثابت ہوئے۔ آرام کرنا شاید ان کی عادات میں شامل ہی نہیں تھا،
یہی وجہ ہے کہ وہ جب اور جہاں ضرورت پڑتی تو فوری پہنچ جاتے تھے۔ ایسا بھی
ہوا کہ ایک ایک دن میں کئی کئی ملکوں کا سفر کیا۔ ملک کے کسی حصے میں کوئی
سانحہ ہوا تو وہ سب سے پہلے وہاں پہنچے۔ پشاور میں آرمی پبلک سکول میں
معصوم بچوں کی قربانی کے بعد فوج نے ان کی قیادت میں دہشت گردوں کی کمر توڑ
کے رکھ دی ہے۔ افغانستان اور بھارت کی حکومتوں کے لیے جنرل راحیل شریف کا
جرنیلی کردار بھی ہمیشہ یاد رہے گا۔ انہوں نے ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی
سرحدوں کی حفاظت کے لیے دن رات ایک کیا ہے۔ وہ چاہتے تو سیاست کے میدان میں
بھی اتر سکتے تھے، لیکن انہوں نے اپنے آپ کو کسی بھی غیر جمہوری عمل کا حصہ
نہیں بننے دیا۔ عوام کی خواہشات کے برعکس انہوں نے اپنی مدت ملازمت میں
توسیع نہیں لی۔ راحیل شریف کو جس بات نے عزت اور احترام دیا وہ ملک کے
حالات سے نمٹنے کے لیے ان کی کامیاب حکمت عملی ہے۔ جنرل راحیل شریف نے جب
پاکستان کی کمان سنبھالی تو ملک معاشی اور عسکری دہشت گردی کی دلدل میں
دھنس رہا تھا۔ ملک میں چھوٹے چھوٹے پاور سینٹر اْبھرے ہوئے تھے۔ دہشت گردوں
کو بیرون ملک بھارت اور افغانستان جیسی پناہ گاہیں میسر تھیں تو اندرون ملک
بھی انہیں پناہ اور آمدورفت، علاج معالجے کی سہولت حاصل تھی۔ ملک کے وسائل
بری طرح لوٹ کر بیرون ملکوں میں منتقل کیے جا رہے تھے۔ ریاست کے اندر ایک
ریاست تو دہشت گردوں نے قائم کررکھی تھی، ایک اور ریاست غیر ملکی بنائے
ہوئے تھے جو کنٹریکٹرز، سفارت کاروں، سیاحوں، این جی اوز کے پردے میں ملک
میں اپنے پیر جمائے ہوئے تھے۔ دہشت گردوں کے نیٹ ورک اور اس غیر ملکی نیٹ
ورک میں گہرے روابط تھے۔ راحیل شریف نے دہشت گردی کے خلاف اقدامات کا
انتہائی تلخ اورمشکل فیصلہ کیا اور اپنی حکمت عملی میں کامیاب بھی رہے۔
انہوں نے قومی اور سیاسی قیادت کو اس عمل میں ساتھ لے کر چلنے کی روایت
قائم کی اور اگر کسی نے ناراض ہو کر بدکنے کی کوشش بھی کی تو اسے واپس
مرکزی دھارے میں لایا گیا۔ راحیل شریف نے بھارت کے ساتھ پاکستان کے اصولی
اور تاریخی اختلافات کو اوونر شپ دی۔اب جبکہ راحیل شریف نے ڈھائی فٹ کی
کمانڈ سٹک اپنے جانشین کو پیش کی ہے تو پاکستان اندرونی اور بیرونی طور
پرہمیشہ سے زیادہ مستحکم اور ایک واضح سنگ میل کے ساتھ درست سمت میں محو
سفر ہے۔ اب نئے جنرل نے فوج کی کمان سنبھال لی ہے۔ پاک فوج کے نئے سربراہ
جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کے پیش رو جنرل راحیل شریف میں ذاتی اور پیشہ
وارانہ لحاظ سے کئی باتیں مشترک ہیں۔ ذرایع کے مطابق جنرل جاوید قمر باجوہ
کے بارے میں ان کے ساتھ ماضی میں کام کرنے والے بعض افسروں کا خیال ہے کہ
ان کے ساتھ کسی بھی وقت کسی بھی موضوع پر بے تکلف گفتگو کی جا سکتی ہے۔
پاکستانی فوج کے سینیئر افسر عام طور پر اپنے آپ کو سیاسی وابستگیوں سے
بالاتر رکھنے کی جستجو میں سیاسی معاملات پر گفتگو کرنے سے عموماً اپنے
قریبی دوستوں کے علاوہ نجی محفلوں میں بھی پرہیز ہی کرتے دکھائی دیتے ہیں،
لیکن جنرل قمر باجوہ اس معاملے میں مختلف مزاج رکھتے ہیں۔ ان کے ساتھ کام
کر چکے بعض افسروں کا کہنا ہے کہ وہ نا صرف سیاسی معاملات پر پختہ رائے
رکھتے ہیں، بلکہ اس کا اظہار کرنے سے بھی نہیں گھبراتے۔ جنرل باجوہ فوری
فیصلہ کرنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھنے والے افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں،
جنرل راحیل اور جنرل باجوہ کے درمیان یہ قدر بھی مشترک پائی جاتی ہے۔
نو منتخب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا تعلق پنجاب کے شہر گکھڑ منڈی سے
ہے۔ جنرل باجوہ نے بھی 24 اکتوبر 1980ء میں فوج میں کمیشن حاصل کیا۔ ان کا
تعلق پاک فوج کی یونٹ 16 بلوچ رجمنٹ سے ہے۔ وہ اس رجمنٹ سے آرمی چیف بننے
والے چوتھے افسر ہیں۔ ان سے پہلے پاک فوج کے سربراہان بننے والے جنرل یحییٰ
خان، جنرل مرزا اسلم بیگ اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کا تعلق بھی اسی رجمنٹ
سے تھا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نیول پوسٹ گریجویٹ یونیورسٹی مونٹری
کیلیفورنیا امریکا کے فارغ التحصیل ہیں۔ وہ کینیڈین فورسز کمانڈ اینڈ اسٹاف
کالج اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کے بھی گریجویٹ ہیں۔ جنرل قمر
باجوہ انفینٹری اسکول میں انسٹرکٹر کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔ جنرل
قمرجاوید باجوہ چیف آف دی آرمی اسٹاف کے پرنسپل اسٹاف آفیسر اور جی ایچ کیو
میں انسپکٹر جنرل آف دی ٹریننگ اینڈ ایویلیوایشن کے فرائض انجام دے رہے
ہیں۔ انسپکٹر جنرل آف دی ٹریننگ اینڈ ایویلیوایشن وہ عہدہ ہے، جس پر آرمی
چیف مقرر ہونے سے قبل جنرل راحیل شریف بھی فائز تھے۔ نومنتخب آرمی چیف جنرل
قمر جاوید باجوہ اقوامِ متحدہ کے تحت کونگو میں پاک فوج کے امن مشن کی
قیادت بھی سنبھال چکے ہیں، جب کہ انفینٹری اسکول، کوئٹہ میں کمانڈانٹ اور
پاک فوج کی سب سے بڑی 10 کور کے کورپس کمانڈر کے عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کا شمار پاک فوج کے ماہر اور بہترین جنرلز میں ہوتا
ہے۔ نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کامیابی کے ساتھ اہم اہداف اور
پالیسیوں کو مکمل کرنے میں انتہائی مہارت رکھتے ہیں۔ پاک فوج کے نئے سربراہ
بھی ملک میں جمہوری و پارلیمانی نظام کی بالادستی، حکومت کے ساتھ مضبوط
ورکنگ ریلیشن شپ کے تحت رابطوں کے ذریعے قومی امورکوحل کرنے پریقین رکھتے
ہیں۔ دفاعی امورسے وابستہ ذرائع سے معلوم ہواہے کہ نئے آرمی چیف قمرجاوید
باجوہ کی عہدہ سنبھالنے کے بعد ابتدائی طور پر 5 ترجیحات ہوں گی۔ انہوں نے
پانچ کاموں کو ترجیحات میں رکھا ہے۔ ان کاموں میں دہشت گردی و انتہا پسندی
کا خاتمہ کرنا اور امن کے قیام کے لیے حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر موثر
پالیسی میں بھر ساتھ دینا، ملک کے خلا ف ہونے والے پروپیگنڈے میں مصروف
دشمن کو کرارا جواب دینا، ضرب عضب کی تکمیل اور کراچی آپریشنز سمیت دہشت
گرد تنظیموں اور معاونین کو ختم کرنا اور پاک چین رہداری کی طرف اٹھنے والے
ہر ناپاک ارادے کو مٹا دینا شامل ہے۔ ذرائع نے کہا ہے کہ نئے آرمی چیف
بھارتی جارحیت کا جواب دینے کے لیے سخت پالیسی اختیار کریں گے۔ نومنتخب
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے تقرری کے فوراً بعد اپنے دشمن بھارت کو
واضح پیغام بھی دیا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہیں اور وقت آنے پر اپنے
دشمنوں کو منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ پاک فوج کے نئے سربراہ بھی فوج کو
سیاسی امور سے لاتعلق رکھنے کی پالیسی کو جاری رکھیں گے۔ جنرل قمر جاوید
باجوہ کی بطور آرمی چیف تقرری کے بعد سول ملٹری تعلقات کے نئے دور کا آغاز
ہوگا۔ حکومت اور فوج کے درمیان فاصلے کم ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق جنرل قمر
جاوید باجوہ سر تا پا پیشہ ور سپاہی ہیں۔ وہ تمام تر توجہ فوج کا امیج بہتر
بنانے پر مرکوز کریں گے۔ ذرائع کے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ جنرل راحیل
کی طرح سیاسی ایڈونچر کرنے والے عناصر کی حوصلہ شکنی کریں گے اور جمہوری
نظام کے لیے استحکام کا باعث بنیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نئے آرمی کی
مزید ترجیحات میں چیف جنوبی وشمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے
خاندانوں کی دوبارہ آباد کاری کے عمل کو تیز کرنے، بلوچستان میں مکمل قیام
امن، پاک افغان بارڈر مینجمنٹ نظام کی تکمیل، افغانستان کے لیے وفاقی حکومت
کی پالیسی کے تحت دفاعی رابطوں کومزید موثر بنانا اور دیگر عسکری پالیسیوں
کی تکمیل بھی شامل ہوگا۔
نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد کئی
قسم کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا، جن میں اگر دہشت گردی سے نمٹنے کا
مسئلہ ہے، تو کشمیر کنٹرول لائن پر بھارتی مسلح افواج کی مسلسل ایسی
کارروائیاں ہیں جن کی وجہ سے آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں میں سویلین آبادی
کے خلاف جارحیت بھی شامل ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں شدید عوامی مزاحمت کے نتائج
سے خوفزدہ بھارت پاکستان کے ساتھ جنگی کشیدگی سے مقبوضہ کشمیر کے منظر نامے
کو بدلنے کی کوشش میں ہے۔ یہ بات اب واضح طور پر محسوس کی جاتی ہے کہ کشمیر
کاز کے حوالے سے سرگرم اور موثر حکمت عملی نہیں اپنائی گئی۔ پاکستان کے
خلاف بھارت کے دیرینہ مذموم عزائم کو ناکام بنانے کے لیے لازم ہے کہ کشمیر
کے حوالے سے مضبوط پالیسی اپنائی جائے۔ اسی طرح سی پیک کے منصوبے کی تکمیل
کی ذمہ داری اور گوادر بندرگاہ کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات بھی خصوصی
توجہ کے مستحق ہوں گے، جبکہ بلوچستان میں گنتی کے چند باقی رہ جانے والے
علیحدگی پسندوں کی سر کوبی اور ان کو اپنے مذموم مقاصد سے باز رکھنے کے لیے
اٹھائے جانے والے اقدامات کو بر قرار رکھنے کی ضرورت بھی اپنی جگہ اہمیت کی
حامل ہے۔ اسی طرح افغانستان میں جاری جنگ کے بھی اثرات پاکستان پر لا محالہ
پڑنے کے امکانات رہتے ہیں اور جب تک افغانستان میں مکمل امن قائم نہ ہو، اس
وقت تک پاکستان میں امن وآتشی کی توقعات مثبت نتائج پیدا نہیں کر سکتے۔ اب
تازہ ترین مسئلہ بھارتی حکمران مودی کی وہ دھمکیاں ہیں جو اس نے پاکستان کو
پانی سے محروم رکھنے کے حوالے سے دی ہیں۔ یہی وہ چیلنجز ہیں جو پاکستان کی
نئی عسکری قیادت کو درپیش ہیں۔ امید ہے کہ قوم اپنی نئی عسکری قیادت سے جو
تو قعات لگائے بیٹھی ہے، ان پر عسکری قیادت پوری اترے گی۔ |
|