جنگ بندی لائن توڑنے کی تاریخ میں توسیع کیوں؟
(Mian Kareem Ullah Qureshi, )
آزاد و مقبوضہ کشمیر اور پاکستان بھر کے
عوام کو ۲۴ نومبر کا شدت سے انتظار تھا کہ اس روز صدر آل جموں و کشمیر مسلم
کانفرنس کے اعلان کے مطابق مقبوضہ و آزاد کشمیر کے مابین حائل جنگ بندی کی
منحوس لائن کو پامال کیا جانا تھا لیکن صدر جماعت نے کسی خاص حکمت عملی کے
تحت اس تاریخ میں توسیع کر دی جس سے بعض حلقوں بالخصوص جنھوں نے اس وقت پر
غور نہیں کیا یا یہ کہ وہ مشاورت میں شامل نہیں تھے نے کچھ شکوک و شبہات کا
اظہار کیا ہے اور سوال اٹھایا کہ جنگ بندی لائن توڑنے کے لیے حکمت عملی اور
ہر شعبہ زندگی سے وابستہ افراد سے رابطہ مہم کے لئے وقت بہت تھوڑا ہے اس
لیے ضروری ہے کہ تاریخ میں توسیع کی جائے۔
ان حضرات کا یہ سوال اپنی جگہ معقول اور حب الوطنی و ملی جذبے پر مبنی ہے
اور یہ سوال پوچھنا ان کا حق ہے۔ صدر آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس اور ان
کے کارکنان ان حضرات کے جذبات کی قدر کرتے ہیں اور ان کے جذبات کا اعتراف
کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس اعتراض وا احتجاج کو اپنے اعلان اور
تجویز کی کھلی حمائت اور بھارت کے لیئے تنبیہ اور وارننگ سمجھتے ہیں۔
صدر مسلم کانفرنس کی طرف سے مقررہ تاریخ میں توسیع کے اعلان سے جہاں اور
بھی کئی رموز آشکار ہوتے ہیں وہاں اس بات کا بھی اندازہ ہو گیا ہے کہ صدر
مسلم کانفرنس کے اس دلیرانہ اور تاریخی اعلان کو آزاد و مقبوضہ کشمیر اور
پاکستان بھر میں کراچی سے خیبر تک کروڑوں عوام کی حمائت اور تائید حاصل ہے
جب کہ بیرون ملک لاکھوں کشمیری اور پاکستانی بھی اس مہم میں شرکت کے لیئے
ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے ہیں ،یہی اﷲ تعالیٰ کا وہ فضل ہے جس کے لیئے ہم
دعا گو تھے۔ ایسے میں یہ حقیقت آشکار ہو چکی ہے کہ صدر مسلم کانفرنس سردار
عتیق احمد خان نے مسلم کانفرنس کی تاریخ کے تسلسل میں یوم نیلہ بٹ کے مقام
سے ۲۳ اگست ۲۰۱۶ کو مقبوضہ کشمیر کے نہتے بہن بھائیوں کی جدو جہد آزادی میں
عملی شرکت کے لیئے جنگ بندی لائین توڑنے کا جو اعلان کیا تھا وہ بروقت اور
صحیح فیصلہ تھا جس پر اب پوری طاقت سے عمل کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔
صدر مسلم کانفرنس کی جانب سے جنگ بندی لائن توڑنے کی مقررہ تاریخ میں توسیع
کے فیصلے پر تو حتمی بات ان ہی سے معلوم کی جاسکتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے
کی فی الوقت وہ بعض مخصوص حالات کی وجہ سے کھل کر وضاحت کرنا مناسب خیال
بھی نہ کریں لیکن یہ بات کسی فلسفے اور منطق کی متقاضی نہیں کہ جنگ بندی
لائن توڑنے کے مضمرات سے باخبر ہونا کتنا ضروری ہے اور اس کے لیے ہم تاریخی
حقائق کو مد ِ نظر رکھ کر ہی بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ کے فضل
و احسان سے اب جب کہ تمام گراؤنڈ ورک مکمل ہے جنگ بندی لائن کی مسماری کے
لیئے آگے بڑھنے میں حائل رکاوٹیں انسانوں کے سیلاب کو نہیں روک سکتیں۔
مقررہ تاریخ ۲۴ نومبر ۲۰۱۶ میں توسیع کے باعث پیدا ہونے والے چند شکوک و
شبہات سے ہونے والے فوائد پر بات ہو چکی ہے تاہم ان شکوک کو رفع کرنے کے
لیئے تاریخی اور زمینی حقائق کی روشنی میں اتنی وضاحت ضروری ہے کہ مقبوضہ و
آزاد کشمیر کے مابین حائل جنگ بندی لائن ہی کی طرح ۱۳ اگست ۱۹۴۱ ء سے ۹
نومبر ۱۹۸۹ ء تک مغربی اور مشرقی جرمنی کے درمیانــ’’ دیوار برلن ‘‘ کے نام
سے ایک جنگ بندی لائن حائل رہی جب کہ دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں ۳۵ برس
جاپان کے زیر قبضہ رہنے والا ملک کو ریا ۱۹۴۵ ء میں آزاد ہوا اور امریکہ
اور روس کی نظریاتی کشمکش کے باعث ۱۹۵۰ ء میں مکمل طور پر جنوبی اور شمالی
کوریا کے نام سے دو حصوں میں بٹ گیا اور دونوں کے مابین جنگ بندی نے مستقل
صورت اختیار کر لی۔
آزاد و مقبوضہ کشمیر کے زمینی حقائق ماضی قریب کے مشرقی و مغربی جرمنی سے
ساٹھ سے ستر فیصد مماثلت رکھتے ہیں جب کہ جنوبی اور شمالی کوریا سے آزاد و
مقبوضہ کشمیر کے زمینی حقائق کی ایک فیصد بھی مماثلت نہیں کیونکہ جنوبی
کوریا اور شمالی کوریا کے مابین نظریاتی اختلاف ہے -
جنوبی کوریا امریکی نواز ہونے کے ناتے شروع سے جمہوری نظریئے کا پرچارک ہے
جب کہ شمالی کوریا روسی نواز ہونے کے ناطے کمیونزم کا پرچارک ہے اور ان
دونوں نظریات میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور دونوں کی سمت ایک دوسرے کے
متوازی ہے اس کے برعکس آزاد و مقبوضہ کشمیر دونوں ملت اسلامیہ کی اکائی
ہونے کے ناطے ملت کے ایک بڑے جزو ’’پاکستان‘‘ سے الحاق کے حامی ہیں اور
دونوں بانی تحریک آزادی جموں و کشمیر مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان کا’’
کشمیر بنے گا پاکستان ‘‘کا نعرہ لگا رہے ہیں ۔
جنوبی اور شمالی کوریا دونوں آزاد ملک ہیں اور ان کی اپنی اپنی حکومت ہے جب
کہ آزاد و مقبوضہ کشمیر میں حقیقت اس کے برعکس ہے اور وہ یہ کہ آزاد کشمیر
میں کشمیریوں کی اپنی حکومت ہے لیکن مقبوضہ کشمیر جو آبادی اور رقبے کے
اعتبار سے تین گنا بڑا ہے بھارت کے زیرِ قبضہ ہے ۔ اس کے برعکس مشرقی جرمنی
اور مغربی جرمنی کے درمیان حائل دیوار برلن صرف ۲۹ برس ہی استادہ رہ سکی
کیونکہ جرمن قوم کسی مذہبی عقیدے کی بنیاد پر نہ بلکہ سیاسی بنیاد پر منقسم
ہوئی تھی اور جرمن عوام نے جب قومیت کو سیاست پر ترجیح کے راز کو سمجھ لیا
تو دیوار برلن کو ڈھا دیا لیکن ان کو اس بات کا فائدہ ملا کہ دونوں حصوں پر
جرمن خود حکمران تھے اسی طرح اگر کشمیری ریاست کے دونوں حصوں پر خود حکمران
ہوتے تو اپنی خدا داد صلاحیتوں اور عقل و دانش کے طفیل چند ہی برسوں میں
جنگ بندی لائن کو مسمار کر دیتے جیسے کہ ۱۹۵۳ ء اور ۱۹۵۸ میں دسیوں ہزار
افراد نے جنگ بندی کی طرف مارچ کیا لیکن مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضے اور
اقوام عالم کی عدم توجہی اور دہری پالیسی کے باعث نہ صرف یہ کہ جنگ بندی
لائن کو مکمل طور پر مسمار کرنے کا اپنا ہدف حاصل نہ کر سکے بلکہ ہزاروں
افراد کو قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا پڑیں لیکن اس سب کے باوجود جذبہ
آزادی تو سرد ہوا نہ اس میں کمی واقع ہوئی۔۱۹۵۸ میں جنگ بندی لائن توڑنے کی
تحریک جوکے۔ ایل ۔ایم کے نام سے جانی جاتی ہے سے متعلق چوہدری غلام عباس کے
سیکریڑی بشیر قریشی اپنی نصنیف ’’قائد کشمیر ‘‘ میں لکھتے ہیں۔
’’ ملک کے قومی پریس نے اپنے زور دار اداریوں کے ذریعے تحریک اور اس کے
قائد کو مکمل حمائت اور تعاون کا یقین دلایا ۔اس کی تفصیل جناب خواجہ
عبدالصمد وانی نے اپنی کتاب ــ’’کے۔ایل ۔ایم‘‘ میں دی ہوئی ہے ۔صمد وانی
صاحب کے تجزیہ کے مطابق اس تحریک میں تقریباََ تین لاکھ کشمیروں نے حصہ لیا
جن میں پچاس ہزار رضا کاروں کو پاکستان کی مختلف جیلوں اور سب جیلوں میں
رکھا گیا۔۔۔۔‘‘
اس وقت ۱۹۵۳ ء اور نہ ہی ۱۹۵۸ ء جیسے حالات ہیں ۔بھارت نے مقبوضہ ریاست پر
اپنے جابرانہ قبضے کو اور زیادہ مستحکم کر لیا ہے۔ اپنی دہشت گرد افواج کی
تعداد سات لاکھ سے بڑھا دی ہے اور روز بروز اس میں اضافہ کیئے جا رہا ہے ۔
اقوام متحدہ ، او۔آئی ۔ سی اور نہ ہی کسی دوسرے عالمی ادارے کے نمائندے
حتیٰ کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور عالمی ریڈ کراس کے نمائندوں کو بھی مقبوضہ
کشمیر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔
اقوام عالم کی ترجیحات آئے دن بدلتی جا رہی ہیں اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر پر
اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کرانے میں لیت و لعل سے کام لے رہا ہے۔ ایسے
میں جنگ بندی لائن توڑنے کی موجودہ تحریک میں ۱۹۵۸ ء کی کے۔ایل۔ایم کی
تحریک میں شامل تین لاکھ افراد کی نسبت کم سے کم دس گنا زیادہ افراد کی
شمولیت درکار ہے اور تمام سیاسی،مذہبی اور سماجی جماعتوں کی عملی شرکت اور
حمائت ضروری ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مسلم کانفرنس کی رابطہ مہم اور
حکمت عملی کے باعث تمام سیاسی جماعتوں کل جماعتی حریت کانفرنس اور پرنٹ و
الیکٹرانک میڈیا کا مکمل تعاون حاصل ہو چکا ہے جب کہ عوام کا پیمانہ صبر
بھی لبریز ہے بس اب حتمی تاریخ کے اعلان کا انتظار ہے۔ صدر مسلم کانفرنس کی
طرف سے پہلے مقرر کی گئی تاریخ کی توسیع کے پیچھے تحریک کو اسی عروج تک لے
جانے کی حکمت کار فرما تھی اور ایسا بعض سیاسی حلقوں بالخصوص قائدین کل
جماعتی حریت کانفرنس کی تجویز اور مشاورت سے کیا گیا ہے تاکہ آزاد و مقبوضہ
کشمیر کے مابین حائل جنگ بندی کی اس دیوار کو اس طاقت سے زیادہ طاقت اور
جذبے کے ساتھ گرایا جائے جس سے جرمنیوں نے دیوار برلن کو گرایا تھا۔ لہذا
مسلم کانفرنس اور اس کے قائد کے اس تاریخی اعلان کو غیر سنجیدہ ہر گز نہ
تصور کیا جائے کیونکہ یہ ۱۹۵۳ ء اور ۱۹۵۸ ء کی اسی تحریک کا تسلسل ہے جس کے
بارے میں قائد ملت چوہدری غلام عباس کی سنجیدگی کا حوالہ دیتے ہوئے مجاہد
اول فرماتے ہیں کہ:
’’ان دنوں Time اخبار کا ایک طویل القامت رپورٹر آیا ہوا تھا ۔اس نے چوہدری
صاحب سے کہا کیا آپ یہ تحریک چلانے میں سنجیدہ ہیں؟ چوہدری صاحب نے پوچھا
کہ آپ اس کے بعد کدھر جائیں گے۔ اس نے کہا کہ دہلی جاؤں گا ۔کہنے لگے کہ
ہندو سے پوچھنا کہ چوہدری غلام عباس نے تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے آپ کا
کیا خیال ہے؟ اس سے خود بخود اندازہ ہونا چاہیئے کہ چوہدری غلام عباس اس
تحریک کے بارے میں کتنے سنجیدہ تھے۔ـــ‘‘ (مجاہد اول کے افکار صفحہ نمبر
۸۰)
صدر مسلم کانفرنس سردار عتیق احمد خان چوہدری غلام عباس صاحب اور مجاہد اول
کے جانشین ہیں لہذا اس تحریک کے معاملے میں ان کی سنجیدگی کا بھی اﷲ تعالیٰ
کے فضل و احسان سے وہی معیار ہے بلکہ مقبوضہ کشمیر میں شیطان کو بھی شرما
دینے والے بھارتی مظالم کے باعث ان کی سنجیدگی اور بھی دو چند ہو گئی ہے
اور ایسا ہونا ایک فطری امر ہے۔ ایسے میں حکومت پاکستان کا ہر مثبت اقدام
تحریک کی تقویت کا باعث ہو گا جب کہ ذرا سی غفلت یا مصلحت کو شی اس تحریک
میں رکاوٹ اورمجاہد اول کے نعرہ کشمیر بنے گا پاکستان کی مخالفت کے مترادف
ہو گا۔ کیونکہ بھارت مسلم کانفرنس کے اسی نعرے سے خائف اور پریشان ہے۔
چنانچہ ۱۹۹۰ ء میں کشمیر ہاؤس اسلام آباد میں وزیر اعظم نواز شریف کے اعزاز
میں دئیے گیئے عشائیے میں اپنے خطاب کے دوران بھارت کے لیئے کشمیریوں کی
تحریک آزادی سے زیادہ کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے کو ایک چیلنج قرار دیتے
ہوئے کہا تھا:
’’بھارت کے لیئے کشمیر کی آزادی بذات خود ایک بہت بڑا چیلنج ہے لیکن اس سے
بھی بڑا چیلنج اس کے لیے کشمیر بنے گا پاکستان کا تصور ہے۔ اس کے لیئے حضرت
قائد اعظم کی دوربین نگاہو ں نے تقسیم ہند سے پہلے ہی آل جموں کشمیر مسلم
کانفرنس کو ریاست کا سواد اعظم قرار دیا اور اس کو مسلم لیگ کا نظریاتی
دستہ سمجھا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کی آنکھ بند ہوتے ہی اسی مسلم
کانفرنس کے خلاف سازشیں شروع ہو گئیں تاوقتیکہ شھید صدرجرنل ضیا ء الحق نے
یہ اعلان کیا کہ اگر میں کسی پارٹی میں شامل ہوا تو مسلم کانفرنس میں شامل
ہوں گا۔‘‘(نظریاتی کشمکش صفحہ نمبر۷۷)
مجاہد اول کے مندرجہ بالا ارشادات اپنے اندر علم و حکمت اور سچائی پر مبنی
حقائق کا ایک سمندر سموئے ہوئے ہیں جن سے مورخ خاموشی سے مگر لگاتار اپنی
پیاس بجھا رہا ہے اور جب مورخ کے بیباک قلم نے ان تمام حقائق کو Public کر
دیا تو مسلم کانفرنس کے پروردہ تمام حضرات اپنے وقتی عہدوں سے خود نفرت
کرنے لگیں گے ۔خیر بات کہیں دوسری طرف جانے کی ہم کشمیر بنے گا پاکستان کے
نعرے کی بھارت پر ہیبت کی بات کر رہے تھے۔ بھارت کے آزاد کشمیر کے نہتے
عوام اور بچوں کو بلا اشتعال نشانہ بنانے کے وحشیانہ اقدام کے پیچھے اس
نعرے کی ہیبت کے امکانات کو خارج نہیں کیا جا سکتا۔
آزاد کشمیر و پاکستان کے حکومتی ذمہ داران اگر اس وقت کسی مصلحت کوشی کا
شکار ہوں تو یہ ان کے لیئے ایک امتحان سے کم نہیں ہو گا۔تاہم صدر مسلم
کانفرنس نے اپنا اور جماعت کا دو ٹوک موقف ان پر واضح کر دیا ہے اور حکومت
آزاد کشمیر کے ذمہ داران کے اس استفسار کے جواب میں کہ جنگ بندی لائن توڑنے
کے اقدام سے اور خرابی پیدا ہو گی صدر مسلم کانفرنس نے کہا کہ مسئلہ کشمیر
خود ایک بڑی خرابی ہے جسے حل کرنے کے لیئے اس سے بڑی خرابی درکار ہو گی
ویسے ہی جیسے لوہے کو کاٹنے کے لیئے لوہا درکار ہوتا ہے اور زہر کا اثر ختم
کرنے کے لیئے زہر ہی دیا جاتا ہے ۔اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں امید ہے کہ
اپنی شمولیت کو یقینی بنانے اور تیاری کے لیئے مزید وقت مانگنے والے عوامی
نمائندے اب صدر جماعت کے اعلان کے منتظر کھڑے ہوں گے۔اﷲ تعالیٰ ہم سب کا
حامی و ناصر ہو۔
پاکستان زندہ باد ،افواج پاکستان زندہ باد،کشمیر بنے کا پاکستان۔ |
|