الیکڑونک میڈیا کے ایک ٹاک شو میں پاکستانی
فلمی اداکار کے بیٹے، ( اینکر ہیں) نے مختلف تجزیہ نگاروں کے سامنے سول
ملٹری تعلقات کی بنیاد پر وزیر اعظم نواز شریف آرمی چیف جنرل قمر جاوید باج
کے درمیان پہلی ملاقات کے دوران پہلی ملاقات کے حوالے سے ایسا خود ساختہ
سوال اٹھایا جس میں بد نیتی نمایاں تھی۔تجزیہ نگاروں میں ایک معروف پروفیسر
صاحب نے ان کی حمایت کی لیکن ، پروگرام میں موجود کئی تجزیہ نگاروں نے اس
سوال کو موضوع بحث بنانے پر ناراضگی کا اظہار کیا کہ ایسے موقع پر کہ آج
پہلا دن ہے اور فوج کے نئے انچارج نے ابھی ابھی اپنے منصب سنبھالا ہے ،
ایسے وقت اس قسم کے سوالات اٹھانا انتہائی غیر مناسب ہے ۔ اس پروگرام میں
سیاسی جماعتوں کے نمائندے بھی تھے ، ان کا بھی یہی موقف تھا ۔ ، خاص طور پر
اس وقت جب چیف آف آرمی اسٹاف میڈیا سے مخاطب ہے کہ فوج کا مورال بلند کرنے
کرنے میں تعاون کریں ۔ لیکن حیرانی ہوتی ہے کہ الیکڑونک میڈیا بعض ایسے
موضوعات کو اٹھاتا ہے جس کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا ، اور پھر الیکڑونک
میڈیا کی تو یہ عادت ثانیہ ہے کہ وہ اسی ڈگر پر چلتا ہے جس پر کوئی ایک
معروف چینل نے ہچکی لے لی ہو۔ پاکستان میں ملک دشمن لابی اپنے ایجنڈے کے
تحت اپنے سہولت کاروں کو کھلے عام استعمال کرتی ہے ۔ فوج کے اعلی ترین
افسران کے خلاف سینیٹر ساجد میرہزرہ سرائی پر کوئی ایکشن نہ لینا ، جو اگر
اپنے حلقے سے کونسلر کے الیکشن کیلئے بھی کھڑے ہوجائیں تو شاید ان کا جیتنا
مشکل ہو ، لیکن حکمران جماعت کی جانب سے انھیں سینیٹ میں بار بار منتخب
کرنا ، کم از کم مجھے سمجھ نہیں آتا ۔ کچھ عرصے قبل نام نہاد جعلی ڈگری
والے ڈاکٹر نے اپنا ایک مذہبی پروگرام چھوڑ کر دوسرے بڑے میڈیا ہاؤس کو
جوائن کرلیا ، جس پر ان کے خلاف وہ ویڈیوز سوشل میڈیا میں آگئیں ، جو آف
ریکارڈ تھیں ۔ موصوف کچھ عرصہ ظالم آن لائن میں چلتے رہے ، رمضان ٹرانسمشن
بھی کی ، ریٹنگ کیلئے ، صحابہ رضوان اﷲ اجمعین کے توہین کے بھی مرتکب ہوئے
، جب فوج کے خلاف اس میڈیا ہاوس پر پابندی لگی تو ان سے صبر نہ ہوسکا اور
پھر دوسرے میڈیا ہاوس میں رمضا ن شوز ، جیسے وہ مذہبی پروگرا م قرار دیتے
تھے ، رمضان کے تقدس کی پامالی کی تمام حدود کو پھلانگتے چلتے گئے۔جیسے
پابندی ہٹی ، انھوں نے دوبارہ جمپ لگا کرپرانے چینل کو جوائن کرلیا ۔ انھوں
نے تمام معروف اینکروں کو آڑے ہاتھوں لیا ، سچ کہا یا جھوٹ کہا، لیکن جس
طریقے سے وہ پروگرام کررہے تھے ، شرمندگی ہو رہی تھی کہ کیا کوئی معیارِ
صحافت نہیں بچا۔ یہاں صرف ایک مثال نہیں ہے ، ایک اور چینل پر سیاسی جماعت
کے بعد اینکر بننے اور پھردوبارہ تازہ تازہ ایک سیاسی جماعت جوائن کرنیوالے
، جو کل تک اسی جماعت کے لیڈر کو انتہائی بھونڈی زبان استعمال کرتے تھے ،
اُن کی ذات میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر کیڑے نکالتے تھے ، ایک اچھی تنخواہ ملنے پر
میڈیا کی نوکری تو چھوڑ کر اب وہ اسی جماعت کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں ، جس
کے سب سے بڑے مخالف تھے۔ہمارا میڈیا ، ان کو اُسی طرح جگہ دے رہا ، بلکہ
پہلے ایک پروگرام میں ہوتے تھے اب کئی پروگراموں میں بیک وقت نظر آتے ہیں
اور اپنا تھوکا چاٹ رہے ہوتے ہیں۔یہی ہمارا میڈیا ہاوسز ہیں ، کہ مسابقت کی
دوڑ میں پراپرٹی آئیکون اور اینکر پرسز کی آف دی ریکارڈ گفتگو کو میڈیا میں
چلایا کہ کس طرح فون پر سولات و جوابات کے احکامات لئے جاتے ہیں۔اینکروں کو
ملنے والے لفافوں کی تفاصیل کوئی پوشیدہ بات نہیں رہی ۔جعلی ریٹنگ حاصل
کرنے کیلئے میڈیا ہاوسز کیا کیا طریقے اختیار کرتے ہیں ، بڑے میڈیا ہاوسز
کے درمیان جنگ کس نتیجے پر پہنچی ، کیا مک مکا ہوا ، عوام بے خبر رہی۔ عوام
یہ آج تک نہیں سمجھ سکی ، کہ میڈیا کو کیا ہوجاتا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کے
رہنما کے ایک سو افراد کے اجتماع کو ہفتوں ہفتوں کوریج اس طرح دی جاتی ہے
کہ ڈی ایس این جی مستقل بنیادوں پر اس بنگلے کے آگے کھڑی رہتی ہے ، صرف
رپورٹر کی ڈیوٹی تبدیل ہوتی تھی ، لیکن کئی لاکھ افراد کے سیاسی جلسے کو
صرف 30سیکنڈ سے زیادہ وقت نہیں دیتے ۔بعد میں وہی لیڈر جس کے بنگلے کے آگے
کئی ہفتوں تک تمام میڈیا ہاؤسز کی ڈی ایس این جی کھڑی ہوتی ہیں ، جب ان کا
ورکز کنویشن کرتا ہے تو انھیں ایک منٹ کی کوریج نہیں ملتی،پاکستان میں ایک
لسانی تنظیم کا وجود نہیں ہے ، رجسٹرڈ نہیں ہے ، لیکن اس کی پریس کانفرنسوں
کو گھنٹوں گھنٹوں دکھایا جاتا ہے ۔ یہی ہمارا میڈیا ، مذہبی جماعتوں کو
کالعدم قرار دیتا ہے ، لیکن گورنمنٹ نے ایسے فورتھ شیڈول میں ضرور رکھا
ہوتا ہے لیکن کالعدم قرار نہیں دیتا ۔ لیکن جب اس کے جلسوں کو دکھانے کا
موقع آتا ہے تو یہی میڈیا ان کی بھرپور کوریج کرتا ہے۔ الیکڑونک میڈیا کے
کسی 40ویں نمبر پر چلنے والے چینل کے کسی صحافی کے ساتھ ، اسی کی اشتعال
انگیز ی پر ری ایکشن ہوتا ہے ، تو اس کی پشت پناہی کی جاتی ہے ، لیکن یہ
میڈیا ہاوسز سیاسی معروف شخصیات کی شکل بگاڑ کر ان کے خلاف ہتک آمیز
پروگرام ، بھانڈوں سے کرائے جاتے ہیں تو اس پر انھیں کچھ کہنا اظہار رائے
پر پابندی کے مترادف ہوجاتا ہے۔ہمارے میڈیا ہاؤسز کس چال اور پالیسی پر چل
رہے ہیں ، مجال ہے کہ اونٹ کی کروٹ کی طرح ان کی بھی سمجھ آسکے ۔ دنیا میں
کیا ہورہا ہے ، ان کو اس بات سے غرض نہیں ہے ، بلکہ اس بات سے غرض ہے کہ
فلاں تصویر نے سوشل میڈیا و دنیا میں دھوم مچا دی ۔مملکت شام میں کیا ہو
رہا ہے ۔ الیکڑونک میڈیا خاموشِ، عراق میں کیا ہورہا ہے ، الیکڑونک میڈیا
خاموشِ۔یمن میں کیا ہورہا ہے ، الیکڑونک میڈیا خاموشِ۔سعودی عرب میں کیا
ہورہا ہے ، الیکڑونک میڈیا خاموشِ، افغانستان میں کیا ہو رہا ہے ، الیکڑونک
میڈیا خاموشِ،لبنان میں کیا ہورہا ہے ، الیکڑونک میڈیا خاموشِ۔ترکی اور مصر
کے خلاف کس نے اصل سازش کی، الیکڑونک میڈیا خاموشِ۔روہنگیا کے مسلمانوں کے
ساتھ کیا ہورہا ہے ، الیکڑونک میڈیا خاموشِ، چین میں مسلم مساجد کے حوالے
سے پالیسیوں پر ، الیکڑونک میڈیا خاموشِ۔ایران کی پالیسیوں پر ، الیکڑونک
میڈیا خاموشِ، بھارت کے پروپیگنڈوں پر خاموش، لیکن جب پاکستان میں مدارس کی
بات آجائے تو میڈیا کو پَر لگ جاتے ہیں ۔ جب کسی سیاسی جماعت اور اداروں کے
درمیان محاذ آرائی کرانی مقصود ہو ، ان کی باڈی لینگوئج پر خصوصی پروگرام
مرتب کرنا شروع کردیئے جاتے ہیں ، خود کو الیکڑونک میڈیا ، آزاد کہتا ہے ،
لیکن خوف یا مصلحت یا مفادات کی وجہ سے ملک دشمن ایجنٹ ملزم کی گرفتاریوں
کے کوائف ، اس کی پارٹی وابستگی ، اس کے کیس کے فالواپ نہیں بتاتا ۔
نامعلوم افراد ، نامعلوم ، کسی سیاسی جماعت کا کارکن ، مذہبی جماعت کا
کارکن۔ بس اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ واقعی سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ جرنلزم وقت
کا ضائع ہے یاایک گمراہ کن کاروبار ۔ہم صحافت دانوں کو اپنی خامیاں کبھی
نظر ہی نہیں آتی ، کبھی کوئی کرپشن کیس صحافت دانوں میں نہیں ، کوئی ٹیکس
چوری صحافت دانوں میں نہیں ، پاکستان کی واحد مقدس گائے ہے ، جس کا احتساب
کوئی نہیں کرسکتا ، لیکن پاکستان کے کسی بھی ادارے کے خلاف کچھ بھی سچ ،
جھوٹ بولنا ہو ، تو کسی میں جرات نہیں کہ اس کے خلاف کوئی ایکشن لے سکے ۔
جب ایکشن لے لیا جاتا ہے تو سب مفاداتی تنظیمیں یکجا ہو جاتی ہیں ۔ ان
تنظیموں کے صحافت دانوں کو اس بات سے بھی کوئی غرض نہیں کہ کسی غریب صحافی
کو وقت پر تنخواہ کیوں نہیں ملتی ، ان کا روزگار مستقل کیوں نہیں ہے ،
انھیں صحت و تعلیم کی انشورنس کیوں نہیں دی جاتی ، ان کی سیکورٹی کیلئے کیا
کچھ حاصل کیا ، پریس کلبوں میں سات سات سال سے ممبر شپ پر پابندی ہے ،
پرانے چہرے ، ان نئے صحافیوں کے نمائندہ بن کر گورنمنٹ سے پلاٹ ، مراعات ،
اور فنڈز وصول تو کرتے ہیں ، لیکن انھیں پریس کلب کی ممبر شپ نہیں دیتے کہ
جگہ کم ہے ، اصل میں دلوں میں جگہ تنگ ہے ، ہر صحافت دان کے مفادات اپنے
ادارے ، اپنی سیاسی تنظیم اور اپنے لفافے سے وابستہ ہوتے ہیں۔میڈیا آزاد
نہیں ہے بلکہ پہلے سے زیادہ غلام ہے ، اس کو پابند کردیا ہے اشتہاریوں
کمپنیوں نے ، انھیں پابند کردیا ہے ، سرکاری اشتہاروں نے ، کوئی سیاست دان
پلاٹ لے لئے ، تو آسمان سر پر اٹھالیتے ہیں ، لیکن کوئی صحافت دان سرکار
نوکری یا پلاٹ لے لے ، تو چپ سادھ لیتے ہیں اور اس کی تشہر نہیں کرتے ، ٹاک
شوز کے ایجنڈے مختلف لابیاں مرتب کرکے دیتی ہیں ،واقعی سمجھ نہیں آتا کہ
جرنلزم اب ایک مقدس پیشہ کیوں نہیں رہا ، گمراہ کن کاروبار کیوں بن گیا ہے
؟۔یہ بھی عرض کردوں کہ تمام صحافت دان ایک جیسے نہیں ہوتے ، لیکن ان کی
آواز سننے کو کوئی تیار نہیں یا پھر وہ "شاہ جی" کی طرح مصلحت کا شکار
ہوگئے ہیں۔ |