نابھا جیل سے فرار کی داستان اس قدر دلچسپ
ہے اس کو پڑھ کر ہندی جاسوسی دنیا کا بےتاج بادشاہ وید پرکاش شرما بھی شرما
جائے اور اگرمعروف فلمساز رام گوپال ورما اس پر اگلی فلم بنائے تو پہلے ہی
دن باکس آفس پر سو کروڈ جمع کرلے۔ اس میں پرمندر اور ستنام کا عشق ہے،
غوندر کا جرم ہے، ہرمندر کی دہشت گرد ی ہے،ارمان گروپ کا رقص و سرود، اس کی
رقاصہ نیہا کی موت اور اسے گولی مارنے والے حوالدارشمشیر سنگھ کا گاوں
والوں کے ذریعہ یرغمال بنا لیاجانا تک ہے۔خالصتان لبریشن فرنٹ کے ہرمندر
سنگھ منٹو کا اس قدر آسانی سے فرار ہوکر دوبارہ گرفتار ہوجانا کئی سوالات
کو جنم دیتا ہے۔ منٹو کی کہانی کے ابتدائی حصے میں بھوپال کی طرح بالی ووڈ
کے جھول نظر نہیں آتے مگر غور سےدیکھا جائے تو وہ بھی ہالی ووڈ کی فلمی
کہانی لگتی ہے۔
اس ڈرامہ کا پردہ اٹھتے ہی جیل توڑنے والاپرمندر اپنے ساتھیوں کے ساتھ پولس
کی وردی میں نمودار ہوتاآغاز دھماکے دارہے۔ پرمندر کے ساتھ قیدیوں کے بھیس
میں ہتھکڑیاں ڈال کر براجمان دولوگ سونے پر سہاگہ ہیں ۔ ان قیدیوں کے ذریعہ
یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ انہیں عدالت سے واپس لایا جارہا ہے۔ پہلے
دروازے پر چوکیدار جھانسہ میں آگیا ۔ دوسرے نے اعتراض کیا تو اس پر قابو
پالیا گیا ۔ اس کے بعد۱۰۰ روانڈ ہوائی فائرنگ ، حسب توقع حفاظتی دستوں کا
اپنی جان بچانے کیلئے اِدھر اُدھر چھپ جانااور اس کے بعدٹوتھ برش یا لکڑی
کی چابی کے بجائے پستول کی گولی سے تالہ توڑا جانا۔ اسی کے ساتھ ۴ خوفناک
مجرم اور ۲ خطرناک دہشت گردوں کا مختلف گاڑیوں میں بیٹھ کرالگ الگ سمتوں
میں بلے ّ بلےّفرارہوجانا ۔
یہاں پر سب سے بڑا جھول یہ واردات اتوار کے دنرونماہوئی جبکہ عدالت کی چھٹی
ہوتی ہے۔شک شبہ سے بچنے کیلئے اس دلچسپ منظر نامہ کو لکھنے والوں نے کوئی
اوردن منتخب کیوں نہیں کیا ۔ فلموں میں قلمکار کےغلطی کو ہدایتکار دور
کردیتا ہے لیکن یہاں تو پہلادرباننےبھی توقعات کے عین مطابق بلاتردد جیل کا
دروازہ کھول دیا۔ اس طرح گویا سعادت حسن منٹو کی کہانی میں ’’ٹوبہ ٹیک
سنگھ‘‘ کیلئے’’ دروازہ کھول دو‘‘ والی صورتحال پیداہوگئی۔ ان مناظر میں
پولس کی شبیہ خاصی بگڑ گئی تھی لہٰذہ اس کو بحال کرنے کی خاطرپنجاب کے
علاوہ ہریانہ، اتر پردیش اور راجستھان کی بھی ناکہ بندی کردی گئی ۔
یہ ناکہ بندی بھی نوٹ بندی کی طرح تھی کہ ماسٹر مائنڈ پرمندر ان سارے
انتظام کے باوجود شاملی جاپہنچامگرارمان گروپ کی بے قصور رقاصائیں پولس
گولی باری کا شکار ہوگئیں ۔ ان میں سے ایک زخمی ہوئی اور دوسری جان سے گئی
۔ وہ لوگ پٹیالہ کسی شادی کی تقریب میں خوشیاں بکھیرنے جارہے تھے کہ راستے
میں صف ماتم بچھ گئی۔ یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے کالے دھن والے بنک افسران کا
منہ پر کالک پوت کے اپنا دھن سفید کروا رہے ہیں نتیجے میں عوام بلی کا بکرہ
بنے ہوئے ہیں ۔ حکومت نے جب یہ دیکھا کہ اس سے کالادھن سفید توہورہا ہے مگر
سرکاری خزانے میں نہیں آرہا تو اس نے نیاقانون بنادیا ۔ جو بھی ۱۰۰ کروڈ
کالادھن لاکر سرکاری خزانے میں جمع کرے گا اس کا ۵۰ کروڈ سفید ہوجائیگا ۔
اسی کے ساتھ دھمکی بھی دے دی کہ بعد ازاں پکڑے جانے والے کالے دھن کا ۸۵
فیصدحکومت ضبط کرلے گی اور صرف ۱۵ فیصد لوٹائیگی۔
سچ تو یہ ہے اس گیدڑ بھپکی کا کالے دھن والوں پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ کالے
بازار میں جب ان کا کالا دھن ۱۰ تا ۳۰ فیصد میں سفید ہوجاتا ہے تو وہ سرکار
کی نظر میں آنے کا خطرہ کیوں مول لیں۔ کون جانے کب سرکار کی نیت بدل جائے
اور وہ دیش بھکتی کا سوم رس پی کر پورے سو فیصد پر دعویٰ ٹھونک دے ۔ سرکار
یہ بھول گئی ہے کہ چوری کا کاروباربھی اعتماد پر چلتا ہے جس کی اعتباریت
ختم ہوجائے اس بے ایمان کو تو چور بھی منہ نہیں لگاتے ۔ آج کل نوٹوں کا
بھوت ہمارے قلم پر ایسا سوار ہوگیا ہے کہ وہ ہر طرف سے بہک کر ازخود اس
جانب نکل آتا ہے جیسے اچھے دن راستہ بھٹک کر جرائم کی دنیا میں نکل گئے۔
بات چل رہی تھی نابھا جیل سے فرار کی تو اس کا ماسٹر مائنڈ پرمندر سنگھ ہے
جسے عرف عام میں پندا کہہ کر پکارا جاتا ہے ۔ یہ صاحب ایک قتل کے الزام اسی
نابھا جیل میں آرام فرما رہے تھے ان کی ملاقات جیل کے اندر ستنام کور سے
ہوگئی اور پھر وہ ہوگیا ھو کہیں بھی ہوسکتا ہے مطلب عشق ۔ ستنام کو منشیات
کی اسمگلنگ کے معمولی سے الزام میں ضمانت مل گئی تو پرمندر دل جیل سے اٹھ
گیا ۔ اس نے دل کے بجائے دانت کے درد کا بہانہ بنایا اور اسپتال سے فرار
ہوگیا۔ پرمندر پر سنگین جرائم کا الزام تو تھا مگر دہشت گردی کا نہیں اس
لئے اس کا جیل سے نکل بھاگنا کوئی بڑی خبر نہیں بنا ۔
جیل سے باہر آنے کے بعد پرمندر کو اپنے جیل کے ساتھیوں کی یاد ستانے لگی ۔
اب اس کے پاس دو متبادل تھے ۔ ایک تو خود دوبارہ جیل چلا جائےمگر پولس کو
تو اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ اسے گرفتار کرکے جیل بھیج دے اوراس لئے
اس نے دوسرے متبادل کے طور اپنے ساتھیوں کو رہا کرانے کا عزم کرلیا ۔ آجکل
ہمارے ملک میں عدالت کے ذریعہ کسی معصوم کی رہائی بھی بے حد مشکل ہے کجا کہ
ہرمندر کے وکیغوندرجیسے ساتھی ۔ عدالت میں ججوں کی کمی کا شکوہ چیف جسٹس
ٹھاکور کئی مرتبہ کرچکے ہیں ۔ انہوں نے وزیراعظم کے سامنے آنسو بھی بہائے
لیکن کسی کا دل نہیں پسیجا ۔ اس بار تو جب تقرری میں کوتاہی اور سہولیات کے
فقدان کی شکایت کی گئی تو وزیرقانون نے اسے ببانگ دہل مسترد کردیا ۔ کاش کے
ججوں کی توہین کے خلاف بھی قانونی چارہ جوئی کی گنجائش ہوتی تو روی شنکر
پرشاد کو جیل بھیج دیا جاتا لیکن خیر پرمندر اس سے درسِ عبرت لیتے ہوئے
قانون کو خود اپنے ہاتھوں میں لے کر اپنے ساتھیوں کو چھڑانے کیلئے اپنی
پرانی قیام گاہ نابھا جیل پہنچ گیا۔
بارسوخ ذرائع کے مطابق پر مندر سیدھا سادہ مجرم پیشہ انسان ہے اس کا دہشت
گردی سے کوئی واسطہ نہیں ہے وہ تو بس منشیات اور قتل و غارتگری پر اکتفاء
کرنے والوں میں سے ہے۔ اس کا ارادہ جیل میں موجودخطرناک دہشت گرد ہرمندر یا
کشمیر سنگھ کو چھڑانے کا نہیں تھا بلکہ وہ وکی غوندر اور اس خدمتگاروں کی
رہائی کیلئے وہاں پہنچا تھا لیکن دیواروں کو بھی کان ہوتے ہیں کی مصداق اس
منصوبے کی خبر کسی طرح مذکورہ دہشت گردوں کو مل گئی ۔ اس طرح کا نادر موقع
بھلا کون گنوا سکتا تھا وہ دونوں بھی بن بلائے مہمان جائے واردات پر پہنچ
گئے ۔ پرمندر کو بادلِ ناخواستہ انہیں بھی اپنے ساتھ لینا پڑا۔ جیل سے
نکلنے کے بعد یہ سارے لوگ مختلف گاڑیوں میں الگ الگ سمتوں میں نکل کھڑے
ہوئے اس لئے کہ انہوں نےبھوپال کی کہانی پڑھ رکھی تھی اور جانتے تھے کہ ایک
ساتھ فرار کروانے کے بعد پولس کیا سلوک کرتی ہے ۔
کہانی کے اس موڑ پر پرمندر کی جرأت دیکھیں کہ وہ روپوش ہونے کے بجائے
بلاخوف و خطر شاملی میں اپنی معشوقہ کے پاس چلاگیا۔ اپنے سارے ہم سفر
دوستوں کو راستے میں اتار دیا مگرجس گاڑی کو لے کر وہ نابھا جیل گیا تھا اس
سے نجات حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ یہاں تک کہ اس میں سے اسلحہ نکالنے کی
زحمت بھی گوارہ نہیں کی گئی ۔ ایسے احمق مجرم تو صرف بالی ووڈ میں پائے
جاتے ہیں ہالی ووڈ میں نہیں ۔ اس طرح انٹرویل کے بعد یہ فلم انگریزی کے
بجائے ہندی بلکہ پنجابی کی شیرا ڈاکو بن گئی۔ اس کے بعد پولس کمال سرعت کے
ساتھ پرمندر کو گرفتار کرلیتی ہے اوروہ بڑی شرافت سے اپنے سارے ساتھیوں کا
شجرۂ نسب اور مکمل منصوبہ پولس کے گوش گذار کردیتا ہے پھر بھی ۵ دن بعدتک
ایک فراری پولس کے ہتھے چڑھ پاتا ہے۔
پرمندر کو ۶ گھنٹوں میں گرفتار کرنے والی پولس کے بارے میں یہ سمجھ میں
نہیں آتا کہ اگر وہ اس قدر مستعد اور باخبر ہے تو اس نے جیل سے فرار ہونے
کےکئی ماہ بعد تک اسےگرفتار کیوں نہیں کیا؟ وکی غوندر کے فرار کا منصوبہ ہر
مندر اور کشمیر سنگھ کو تو معلوم ہو گیا لیکن پولس غافل رہی!پرمندر اگر اس
قدر احمق تھا تو وہ جیل سے فرار کیسے ہوا اور ساتھیوں کو چھڑانے میں کیسے
کامیاب ہوگیا؟یہ ایسے ہی سوالات ہیں جیسےعوام الناس کو ہزار مصیبتوں میں
گرفتار کرنے کے باوجود بی جے پی مہاراشٹر اور گجرات کے بلدیاتی انتخابات
میں کیسے کامیاب ہو گئی ؟ اب یہ کہا جارہا ہے چونکہ نوٹ بندی کے سبب امیر
کبیر لوگوں کو پریشانی ہورہی ہے اس سے خوش ہوکرغرباء و مساکین اپنی مشکلات
بھلا کربی جے پی کو ووٹ دے رہے ہیں ایسے میں یہی کہنا پڑتا ہے ؎
سیاست میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو ووٹ دے دیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
نابھا کی کہانی کا سب سے دلچسپ موڑ اس وقت آیا جب ۴۵ دنوں تک نجیب احمد
جیسے سیدھے سادھے طالب علم کو برآمد کرنے میں ناکام ہونے والی دہلی پولس
نے ہرمندر سنگھ کو نظام الدین ریلوے اسٹیشن پر گرفتار کرلیا ۔ اس گرفتاری
نے سارے معاملے کو مشکوک بنا دیا ۔ بتایا گیا کہ ہر مندر پنویل کا ٹکٹ لے
رہا تھا تاکہ گوا جاسکے۔ ہرمندر کے اعزہ و اقارب گوا میں رہتے ہیں لیکن
دہلی سے گوا کیلئے براہِ راست ٹرین ہے ایسے میں پنویل کا ٹکٹ لینا حیرت
انگیز ہے۔ ہرمندر چونکہ دہلی سے گرفتار ہوچکا ہے اور اس شہر میں اہم ترین
لوگوں کی آمدورفت کے سبب پولس بندو بست سخت ہوتا ہے اس لئے اس کو گوا جانے
کیلئے کسی ایسے شہر کی جانب نکل جانا چاہئے جہاں وہ گاڑی رکتی ہو تاکہ
شناخت مشکل ہوتی۔
ہر مندرکا گوا جانابھی خودکشی کے مترادف ہے۔ جیل سے فرار ہوجانے کے بعد
پولس نے اس کے اہل خانہ کی نقل و حرکت پر ضرور نگاہ رکھی ہوگی ۔ ایسے میں
ملک سے باہر جانے کیلئے گوا آنا تو از خود شکاری کے دام میں چل کر آنے
جیسا ہے۔ ملیشیا اور جرمنی جانے کیلئے گوا آنا بے معنیٰ ہے؟ ہر مندر اگر
ایسا بے وقوف ہے تو اس کو خالصتان لبریشن فرنٹ کا سربراہ کس احمق نے بنایا؟
بھری ہوئی پستول اور زندہ کارٹرج کے ساتھ ہرمندر کا بلامزاحمت گرفتار
ہوجانا بھی ناقابلِ فہم ہے۔ اگر پستول استعمال کرنا ہی نہیں تھا تو ساتھ
کیوں رکھا ؟ اور رکھ ہی لیا تو استعمال کیوں نہیں کیا؟
شیوراج چوہان نےبھوپال انکاونٹر یہ جواز پیش کیا تھا کہ اگر دہشت گردوں کو
چھوڑ دیا جاتا وہ نہ جانے کون سی تباہی پھیلاتے ؟ کیا ہر مندر سنگھ منٹوسے
بی جے پی کی رشتے داری ہے جو اس کے ساتھ یہ حسن سلوک کیا گیا۔ پولس کو یہ
حق حاصل نہیں ہے کہ وہ جزا اور سزا کا فیصلہ کرے بلکہ اس کا فرض ملزم کو
گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرنا اور عدالت کے ذریعہ سنائی گئی سزا کو نافذ
کرنا ہے ۔ دہلی کی پولس نے ہر مندر کے معاملے میں اپنی ذمہ داری ادا کی
لیکن بھوپال میں اس نے جو مجرمانہ غلطی کی اس کی سزا کون دے گا؟ جن کے
ایماء پر وہ ظلم ہوا اور جن لوگوں اس کی پشت پناہی کی ان کو کیا سزاملے گی؟
بھوپال کے ملزمین کے پاس پولس نے چھرا رکھ دیا تھا پنجاب کا یہ ملزم تو نیم
خودکا پستول کے ساتھ تھا۔
سوشیل میڈیا پر دہشت گردوں کو انکاونٹر کرنے کی حمایت بہت سارے بھکت کرتے
ہی مگر جب ان کویاددلایا جاتا کرنل پروہت اور سادھوی پرگیہ بھی دہشت گردی
کے الزام میں بند ہیں کیا ان کے ساتھ بھی یہی کیا جائے تو سٹیّ گم ہوجاتی
ہے۔ ہرمندر سنگھ نےحالیہ گرفتاری کے بعد دو اہم انکشافات کئے اول تو وہ
پاکستان میں موجود ہرمیت کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھا ۔ یہ کیسا ملک ہے اور
ہائی ٹیک جیل ہے کہ جہاں دہشت گردی کا ملزم جیل میں بیٹھ کر دشمن ملک کے
اندر موجود دوسرے دہشت گرد کے ساتھ سکائپ پر دہشت گردی کے منصو بے بناتا
ہے۔ اگر یہ کام جیل کے اند اس قدر آسان ہے تو باہر کیا رکاوٹ ہے؟ ہرمندر
نے یہ بھی بتایا کہ اس نے جرائم پیشہ لوگوں کی مدد سے پنجاب انتخاب کع درہم
برہم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ غوندر کے گروہ کا اس
کے ساتھ فرار ہونا کوئی اتفاقی واردات نہیں بلکہ سوچا سمجھی سازش ہے۔ ہر
مندر نے اس کو مالی تعاون دینے والےتجندر شرما حلوائی کا نام بھی بتادیا۔
اسے بھی ان پولس اہلکاروں کے ساتھ حراست میں لےلیا گیا ہے جن کے سازش میں
شامل ہونے کا خدشہ ہے۔
ہرمندر کے انکشاف پر پھر ایک بار پاکستان کے خلاف ہوا گرم ہوسکتی ہے لیکن
بلوچستان کے متعلق وزیراعظم کے بیانات نے اس معاملے میں ہمارے موقف کو خاصہ
کمزور کردیا ہے۔ اس سے قبل حکومت ہند نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں
مداخلت کے اعتراف سے گریز کیا تھا ۔ شرم الشیخ کے مشترکہ اعلامیہ بلوچستان
کے ذکر کو بی جے پی نے پہاڑ جیسی غلطی قرار دے کر آسمان سر پر اٹھا لیا
تھا لیکن لال قلعہ سے تقریر کرتے ہوئے بلوچستان کے حریت پسندوں کی حمایت کے
اعلان نے پاکستان کو خالصتان اور کشمیر کے علٰحیدگی پسندوں کی حمایت کا
جواز فراہم کردیا ہے۔
جیل کے اندر وکی غوندر کے عیش و آرام کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے
کہ اس ٹولی کے تین ارکان اپنے فیس بک صفحہ کوبرابر اپڈیٹ کرتے رہےاور فرار
سے چند گھنٹے پہلے تک تبصرے لکھتے رہے۔ وکی نے ۲۱ نومبر کو کالج انتخاب میں
کامیاب ہونے والے طلبہ کو مبارکباد دی اور مئی میں مخالف گینگ کے سیاستداں
جسوندر سنگھ کے قتل پر بدلہ لینے کا دعویٰ بھی کیا۔ اچھے دنوں کی امید میں
بنک کے آگے قطار باندھے عوام اب معلوم ہوجانا چاہئے کہ جرائم کی دنیا میں
اچھے دن آچکے ہیں ۔ وکی کے ساتھی گرپریت سنگھ شیخون نےتو کمال کردیا فرار
سے ایک دن قبل اس نے لکھا ’’کام ایسا کرو کہ نام ہوجائے‘‘ اور دوسرے دن
کارنامہ کردکھایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فرار ہونے والے مجرم پیشہ افراد میں
سے ابھی تک کوئی گرفتار نہیں ہوا ہے۔
غوندر کی ٹولی میں کل پریت سنگھ عرف نیتا بھی شامل ہے جس نے جیل سے نکلنے
کے دوگھنٹے بعد اپنے فیس بک صفحہ پر ایک تبصرہ کرکے اس کہانی کو ایک نیا
ٹویسٹ دے دیا ۔ نیتا رقمطراز ’’پولس بھوپال کی طرز پر ڈرامہ کھیل رہی ہے۔
ان لڑکوں کے فرار کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ ان کےکیس میں کوئی ثبوت نہیں
ہے۔ ایک دوسال میں بری ہوجاتے۔ یہ کوئی الیکشن سٹنٹ بھی ہوسکتا ہے۔ ہمیں
اپنے لڑکے سہی سلامت واپس کریں۔ پولس کسی کے اہل خانہ پر بھی جھوٹا مقدمہ
ڈال سکتی ہے۔ وہ پہلے بھی یہ میرے بھائی اور والد کے خلاف جھوٹا مقدمہ قائم
کرچکے ہیں ۔یہ پولس کی چال ہے وہ اس طرح فرار نہیں ہو سکتے ۔ اگر ان لڑکوں
کے ساتھ کچھ بھی ہوا تو پولس ذمہ دار ہوگی۔ پولس کا خیال ہے کہ یہ نیتا کے
بھائی کی تحریر ہوسکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس کا بھی قوی امکان ہے کہ اسے
خود نیتا نے لکھا ہو۔
بھوپال سانحہ کےپس منظر میں اس تحریر کو نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔ جب
ملک میں ایک ایسی جماعت برسرِ اقتدار ہو جس کا صدر قتل کے الزام میں ریاست
بدر کردیا گیا تھا تو ایسے میں پولس کو جرائم میں ملوث کرنا کون سی حیرت کی
بات ہے؟ گجرات کے اندر اس کے کئی کامیاب تجربات کئے جاچکے ہیں اور ان کا
بھرپور سیاسی فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ ان جرائم پیشہ سیاستدانوں کے زیر اثر
اگر جرائم پیشہ لوگوں کے اچھے دن آجائیں اوروہ جب تک چاہیں جیل کے اندر
عیش وعشرت کی زندگی گذاریں نیز اپنی مرضی فرار ہوجائیں تو اس میں تعجب کی
کیا بات ہے؟یہ حسنِ اتفاق ہے وزیراعظم پنجاب کا دورے پرپہلے پاکستان کا
پانی روکنے کی پرانی دھمکائی دوہرائی اور اس کے بعد پڑوسی ملک کو غربت ،
بدعنوانی ، مہنگائی اور کالے دھن کے خلاف لڑنے کا مشورہ دے کر دہلی لوٹے ہی
تھے کہ دودن بعد نابھا کا یادگار واقعہ رونما ہوگیا ۔ وزیراعظم نے اسی طرح
کا مشورہ اڑی حملے کے بعد بھی کیرالا سے دیا تھا اب پنجاب سے دیا ہے ایسے
میں یہی عرض کرنا ہے کہ ؎
نئے جملے تلاشو واقعی گر تم مقرر ہو
ہر اک تقریر میں جملوں کو دہرایا نہیں جاتا |