کشمیرمیں جاری جدوجہدآزادی اورقربانیوں
کاسلسلہ پانچویں مہینے میں داخل ہوگیاہے اور اہالیانِ کشمیراپنے رہنماؤں کی
طرف سے دی گئی ہرکال پربے اختیاراپنی وفائیں قربان کرنے سے دریغ نہیں کررہے
لیکن میرے ایک انتہائی عزیز الطاف حسین ندوی کی کرب وستم کے حقائق پرمبنی
تحریریں پڑھ کردل خون کے آنسوروتاہے کہ آخرعالمی ضمیرکی بے حسی کب ختم
ہوگی؟ہرباضمیربے اختیارپکار اٹھا ہے کہ کشمیرکا تنازعہ اقوام متحدہ کی
قراردادوں کے مطابق اب مزیدکسی تاخیرکے حل ہوناچاہئے۔کشمیری خواتین،بچے
بزرگ،جوان بھارت کی غاصب سات لاکھ فوج کے انسانیت سوزمظالم کے سامنے کئی
عشروں سے سینہ سپرہیں۔عالمی دہشتگرد اسرائیل کے خلاف مظلوم فلسطینی عوام
اوردرندہ صفت غاصب مکاربھارت کی غلامی سے نجات کیلئے کشمیری عوام نے جس
قدرطویل جدوجہدکی ہے اور جان ومال عزت آبروکی جس بڑے پیمانے پرقربانیاں دی
ہیں، انسانی تاریخ شائدہی اس کی کوئی مثال پیش کرسکے، کشمیر صرف کشمیریوں
کی آزادی کامسئلہ نہیں بلکہ اقوام متحدہ نے جو قراردادیں منظورکی ہیں ان کے
مطابق پاکستان اس مسئلے کابنیادی فریق ہے۔ اس حیثیت میں وہ تمام قوت
اوروسائل کے ساتھ کشمیرکی آزادی کیلئے جدوجہد کرنے اورجدوجہدکرنے والے
کشمیری عوام کی پشت پناہی کانہ صرف قانونی اخلاقی پوراحق رکھتاہے بلکہ اس
پرفرض ہے کہ ہرپہلوسے ہرسطح پرتحریک آزادی کو جلابخشنے اوراس کوتواناکرنے
کیلئے کام کرے۔اس سے بھی بڑھ کر حقیقت ہے کہ بانی پاکستان حضرت قائداعظم نے
کشمیرکوپاکستان کی شہ رگ قراردیاتھا گویا بھارت نے پاکستان کی شہ رگ کو
غاصبانہ طورپرگرفت میں لے رکھاہے جسے دباکروہ کسی وقت بھی ہماری سلامتی
کوخطرے میں ڈال سکتاہے۔کسی کی شہ رگ سفاک،مکار،قاتل، دہشتگرد اورازلی دشمن
کے قبضے میں ہوتوکیاوہ چین کے ساتھ بیٹھ سکتاہے؟کیاقائداعظم اور لیاقت علی
خان کے بعدآنے والی اب تک کی حکومتوں،فوجی اورسول اسٹیبلشمنٹ اورحکمران
طبقات نے اپنی شہ رگ کودشمن کی گرفت سے چھڑانے کیلئے اپنی ذمہ داریاں پوری
کی ہیں؟ان سوالوں کے جواب کیلئے ہردور کے حکمرانوں کو اپنے گریبان میں
جھانکناچاہئے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بھارتی چانکیہ ذہنیت رکھنے والی قیادت نے اوّل روز
سے آج تک پاکستان کوایک آزادخودمختار اسلامی ریاست کی حیثیت تسلیم نہیں
کیاہے۔اس لئے تقسیم ہندکے وقت گاندھی،نہروسمیت بھارتی قیادت نے برملا اپنے
خبثِ باطن کااظہارکرتے ہوئے کہاتھاکہ پاکستان زیادہ دن نہیں چل سکے
گااورپھربھارت کاحصہ بننے پرمجبورہو جائے گا۔یہ صرف زبانی نہیں کہاتھا بلکہ
اپنے مذموم مقاصدکے حصول کیلئے بھارتی حکومت نے اوّل روز سے ہی سازشیں شروع
کردی تھیں۔
کراچی سے جموں وکشمیرکے فلک بوس پہاڑوں اوروادیوں تک دریائےسندھ کاپھیلاؤ
ہے اوران تمام علاقوں میں بہنے والےتمام دریاؤں کے پانی کامنبع مقبوضہ
کشمیرمیں ہے ،یہ تمام آبی نظام دراصل دریائے سندھ کاحصہ ہے۔باقی تمام
دریاؤں کے معاون کی حیثیت رکھتے ہیں جوکہ پنجندپریکجاہوجاتے ہیں۔ انگریز
دورِحکومت میں بھی مشرقی پنجاب اور مغربی پنجاب اورسندھ کے درمیان دریائی
پانی کی حصہ داری کاتنازعہ موجودتھااوراس کیلئے کمیشن کام کررہاتھا۔اس
دوران ہندوستان تقسیم ہوگیااورپاکستان اوربھارت دوملک وجودمیں آگئے۔ دونوں
ملکوں کے درمیان اثاثوں کی تقسیم کیلئے ایک ٹریبونل قائم کیا گیا تھاجس طرح
انگریز نے کشمیرمیں بھارت کومداخلت کاموقع دینے کیلئے سازشی منصوبے کے تحت
تقسیم میں بددیانتی کرکے گورداس پورکاعلاقہ غیر قانونی طورپربھارت کے حوالے
کردیاتھا اس ٹریبونل نے بھی اس طرح انصاف کاخون کیا،اس ٹریبونل کے
روبروبھارت نے مؤقف اختیارکیاکہ دریاؤں کی تقسیم کاکوئی تنازعہ نہیں ہے
اور۳۱مارچ ۱۹۴۸کویہ ٹریبونل ختم کردیاگیااوراگلے روزہی یکم اپریل کوپاکستان
کی طرف بہنے والےتینوں دریاؤں کاپانی بند کردیا۔ ستلج ،بیاس اور راوی
دریاؤں کے پانی کی تقسیم کامعاملہ پہلے چل رہاتھا۔آزادی کیلئے جوحدبندی
ہوئی اس نے دریائے سندھ کے آبی نظام کوبھی تقسیم کردیا۔ دریاؤں کے زیریں
حصے پاکستان کی طرف آئے اوراس کی بڑی نہروں میں سے دوکے ہیڈورکس بھارت میں
رہ گئے جن کوبھارت نے بند کرکے پاکستان کے خلاف پہلی بڑی آبی جارحیت
کاارتکاب کیااور پاکستان کوریگستان بنانے کے منصوبے بنانے کے منصوبے پرعمل
کی ابتداکردی۔وقفے وقفے سے جہاں پاکستانی سرحدوں اورکشمیرکنٹرول لائن
پربھارت جنگی جنون کامظاہرہ کرتا رہتاہے وہیں آبی جارحیت بھی مختلف
اندازمیں جاری رہتی ہے۔ان دنوں بھارت کوعالمی اورعلاقائی حالات کی وجہ سے
امریکاسمیت بڑی اورجارح طاقتوں کی حمائت حاصل ہے۔اس لئے اس کے جارحانہ
اقدامات میں کئی گنااضافہ ہوگیا ہے ،نہ صرف پاکستان اورآزادکشمیرمیں سرحدوں
پرگولہ باری کرکے بے گناہوں کوقتل ،تخریب کاری اوردہشتگردی کرارہاہے بلکہ
سندھ طاس معاہدے کوختم کرنے کی بھی دہمکیاں دے رہاہے۔بھارت کاکشمیر میں حق
خودارادیت کیلئے استصواب رائے سے مسلسل انکار،کشمیریوں کاقتل عام ،پاکستانی
دریاؤں کاپانی روکنااور سندھ طاس معاہدے کوختم کرنے کی دہمکیاں دینادراصل
اقوام متحدہ اورعالمی برادری کوچیلنج کرنے کے مترادف ہے مگرچونکہ بڑی
طاقتوں کے انصاف اورانسانی حقوق کے سلسلے میں دوہرے معیارہیں،مسلمانوں اور
کمزورقوتوں کوخلاف بدترین جارحیت پربھی ان کا ضمیرنہیں جاگتا،اس لیے بھارت
کوبھی اس سے شہ ملتی آرہی ہے اوروہ پاکستان سمیت اپنے پڑوسیوں کے خلاف ظلم
وبربریت کامسلسل ارتکاب کررہاہے اورخطے کاپولیس مین بننے کامذموم خواب دیکھ
رہاہے۔ بھارت کایہ خوفناک کھیل صرف پاکستان ہی نہیں پورے خطے کیلئے بڑے
خطرے کاباعث ہے۔
صوبہ خیبرپختونخواہ میں نظام آبپاشی محدوہے۔اس لئے ۱۹۹۱ ء کے معاہدۂ آب کے
مطابق خیبر پختونخواہ کے پانی کاجوحصہ بنتاہے ۔وہ اسے استعمال نہیں
کرپاتا،صوبہ بلوچستان میں نظام آبپاشی کادائرہ زیادہ وسیع نہیں ہے، وہاں
بھی ایسی ہی صورت حال ہے مگربلوچستان کوشکائت رہتی ہےکہ گدواورسکھربیراج کی
نہروں سے اسے طے شدہ حصے کے مطابق پانی نہیں دیاجاتا اورسندھ اس حصے کاپانی
ناجائزطورپر استعمال کرتاہے۔سندھ اورپنجاب کے درمیان اکثرپانی کا
جھگڑاسراٹھاتارہتاہے۔ مارچ ۱۹۹۱ء میں نوازشریف حکومت صوبوں کے درمیان پانی
کی تقسیم کامعاہدہ طے پایاتھا،یہ اس لحاظ سے تاریخی تھا۔تقسیم سے پہلے
اوربعد میں پانی کی تقسیم کاایساکوئی معاہدہ موجودنہیں تھاجس پرصوبوں میں
اتفاق رائے ہو اگرچہ پیپلزپارٹی اور قوم پرستوں نے اس معاہدے کی مخالفت کی
تھی لیکن پیپلز پارٹی کی بے نظیرحکومت اوربعدمیں اس معاہدے کوختم کرنے کی
بات شائدہی سنائی دی ہو۔عمومی طورپریہی مطالبہ کیاجاتا رہا کہ معاہدے پراس
کی اصل روح کے مطابق عملدر آمد یقینی بنایاجائے۔اب بھی نئے آبی ذخائر
اوردیگرکئی ایشوزپراس معاہدے کی ایک دوشقوں پراختلاف سامنے آتارہتاہے
مگرعمومی طور پراتفاق موجودہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں صوبوں خصوصاًسندھ اورپنجاب کوزیرکاشت رقبے کےلحاظ سے
ربیع اورخریف کی فصلوں کیلئے جس قدرپانی کی ضرورت رہتی ہے وہ دستیاب نہیں
ہوتااوراس وقت بھی یہی صورتحال ہے۔ارسامعاہدے پر عملدر آمد کرانے کاذمہ
دارآئینی ادارہ ہے جواس کے باعث اکثردباؤمیں رہتاہے۔موسمی حالات کے باعث
بھی انڈس ریور سسٹم میں پانی کی کمی آرہی ہے۔ موزوں فصلوں کی کاشت کاری کے
جدیدذرائع کے استعمال کے حوالے سے پاکستان بہت پیچھے، سندھ میں خصوصاًپرانے
طریقوں کوہی زیرِ استعمال لایا جارہاہے جس کے باعث پانی کاضیاع بہت زیادہ
ہے ۔سندھ طاس معاہدے کے نتیجے میں تربیلا،نگلاڈیم اور لنک نہروں کاایک نظام
قائم ہواتھا،اس کے بعد پاکستان کی کوئی حکومت کوئی نیاپانی کاذخیرہ
تعمیرنہیں کرسکی۔بدقسمتی سے کالاباغ ڈیم پرسوئی اٹکی رہی جس کوبعض تحفظات
اور مفادات کے باعث شدیدمتنازعہ اورسیاسی مسئلہ بنادیاگیا۔اب
جاکردیامیربھاشاڈیم کی تعمیرکاحتمی فیصلہ کیاگیا ہے اور ابھی ابتدائی کام
ہی ہورہاہے۔آبی ذخائرکی تعمیرمیں غیر معمولی تاخیر نے پورے ملک کوشدیدنقصان
پہنچایاہے۔چھوٹے ڈیموں اوربندوں کی تعمیربھی تیزی سے نہیں ہوسکی جس کی
شدیدضرورت تھی،نتیجہ یہ ہے کہ دن بدن پانی کی قلت کے مسائل سنگین ہوتے جا
رہے ہیں۔ |