مسئلہ کشمیر اور قومی مکالمۂ عظیم

میدانِ جنگ سے لوٹتے ہوئے اﷲ کے آخری رسولؐ نے فرمایا کہ آؤ ہم جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر کی طرف چلتے ہیں۔ صحابہ کرام ؓ نے پوچھا کہ یارسول اﷲؐیہ جہادِ اکبر کیا ہے؟ تو نبی پاکؐ نے فرمایا کہ ’’اپنی روحوں کے میلے رجحانات کو دھو ڈالنا، کذب، انتقام، حسد غیبت اور ادنیٰ آرزؤں سے نجات‘‘ نبی پاکؐ کے ارشادات کو ہم مجموعی طور پر ’تزکیۂ نفس‘ کا عمل کہہ سکتے ہیں۔

اب آئیں مسئلہ کشمیر کی طرف۔ مقبوضہ کشمیر میں گذشتہ 70 سال سے بھارتی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں بے گناہ اور معصوم کشمیریوں کا خون بہہ رہا ہے۔ پتھر یا نعرے کا جواب بندوق کی گولی سے دیا جا رہا ہے۔ کشمیر دنیا کی سب سے بڑی ریاستی دہشت گردی کا شکار ہے۔ عورتوں کی بے حرمتی ہو یا معصوم بچوں کا خون یا پیلٹ گنوں کے ذریعہ ِان کی بینائی چھیننے کاظُلم ہو، اس کا نہ کوئی حساب لینے والا ہے اور نہ ہی کوئی جواب دینے والا۔ ہم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ لاکھوں معصوموں کے مقدس خون کی قربانیاں کیوں رنگ نہیں لا رہی ہیں اور بقول فیض ارضِ وطن کے چہرے کو گلنار کرنے کیلئے اور کتنا لہو چاہیئے ہوگا۔ مقبوضہ کشمیر میں جب بھی خون کی اَرزانی ہوتی ہے تو پتہ نہیں کیوں ہم پر اُمید ہوجاتے ہیں کہ آزادی کی منزل تو اب بس چند قدم ہی رہ گئی ہے لیکن:
راستہ ہے کہ کٹتا جاتا ہے
فاصلے ہیں کہ کم نہیں ہوتے

لیکن اُسی وقت ہم یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ دنیا کشمیریوں کے قتلِ عام پر خاموش کیوں ہے؟ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر جو کشمیریوں کے حق میں ہیں، اِن پر عالمی ضمیر کو چپ کیوں لگی ہوئی ہے؟ بہتر ہے کہ ان سوالات کے جوابات دوسروں سے پوچھنے کے بجائے ہم خود ان سوالوں کے جوابات اپنے اپنے من سے پوچھیں کہ تزکیۂ نفس تو اپنے من سے کرنے اور اس کے درست تجزیہ کرنے کا ہی نام ہے اور یہ انفرادی تزکیے، قومی سطح پر قومی خارجہ پالیسی کے ’’قومی تزکیہ‘‘ کا موقع فراہم کر سکتے ہیں۔

میرے خیال میں کشمیریوں کا گل رنگ لہو اُس وقت تک بہنے سے نہ رُکے گا اور نہ ہی اِس کی آبیاری سے آزادی کے پھول کھِل سکیں گے جب تک ہم اپنی موجودہ کشمیر پالیسی کا تزکیہ اُس طرح نہیں کرینگے جس طرح تزکیہ کرنے کا حکم ہمارے نبیؐنے ہمیں دیا ہے۔

کیا وہ وقت نہیں آگیا کہ ہم وسعتِ قلب کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیر کے بارے میں تصّوراتی مفروضوں کی دنیا سے نکل کر حقائق کی دنیا میں قدم رکھیں اور ہماری وزارتِ خارجہ اور سیاستدان قومی بیانیے کو نئے سانچے میں ڈھال کر مسئلہ کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان علاقائی تنازعہ کے بجائے کشمیریوں کی آزادی کے مسئلے کے طور پر دنیا میں پیش کریں تاکہ مسئلہ کشمیر، جموں و کشمیر دو ملکوں کے درمیان قبضے کے علاقائی تنازعہ کے رنگ سے آزاد ہو سکے۔ دوسری بات یہ کہ کشمیر میں مسلح کارروائیاں کشمیر کی آزادی کو نہ صرف دور کرتی ہیں بلکہ یہ بھارت کیلئے آسانیاں پیدا کرتی ہیں کہ وہ چند مسلح تصاویر دنیا کو دکھا کر کشمیریوں کا خون بہانے کا لائسنس حاصل کرے اور پاکستان کو موردِ الزام بھی ٹھہرائے کہ پاکستان کشمیر میں دہشت گردی میں ملوث ہے اور پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دلوانے کیلئے سفارتی لابی کرے۔ کشمیر سے متعلق ہمیں اپنے گذشتہ 70 سال کی پالیسیوں پر بھی دوبارہ غور کرنا چاہیئے اور جہاں جہاں کوتاہیاں یا غلطیاں ہوتی ہیں انہیں تسلیم کرکے نئی راہیں متعین کرنا چاہیئے کیونکہ کہتے ہیں انسان غلطیوں سے برباد نہیں ہوتا بلکہ غلطیوں کے اصرار پر اور ان کے دہرائے جانے پر برباد ہوتا ہے اور بین الاقوامی تعلقات میں تو غلطی کی گنجائش بھی بہت ہی کم ہوتی ہے۔ کشمیر پالیسی میں ہمیں ’’قومی مکالمہ عظیم‘‘ (گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ) شروع کرنا چاہیئے۔ مسئلہ کشمیر پر چند عناصر کی اجارہ داری ختم کر کے قوم کے ہر فرد کو یہ اختیار ہونا چاہیئے کہ وہ اِس پر اپنی رائے کا اظہار کرے کہ آخر افراد ملکر ہی قوم کی تشکیل کرتے ہیں اور قوموں کے اجتماعی فیصلے ہی مستقل، دیرپا اور قومی مفاد میں ہوتے ہیں اور نبی پاکؐ کا ارشاد ہے کہ:
’’میری امت کسی غلطی پر یکجا نہیں ہو گی۔‘‘ جنگ کے بجائے امن کے راستے تلاش کر کے مسئلہ کو حل کرنا اور مذاکرات کی بات کرنے کو ملکی دشمنی یا بھارت دوستی کا الزام نہ دیا جائے۔ وہی قومیں آگے بڑھتی ہیں جو اپنی غلطیوں سے سیکھ کر اپنے مستقبل کے فیصلے حقیقی قومی مفاد میں کرتی ہیں اور قومی مفاد وہی ہوتے ہیں جو ملک کے لوگوں کی معاشی و معاشرتی حالت بہتر کرے اور تعلیم و صحت کی بنیادی سہولت دستیاب ہوں اور انہیں موت نہیں حیات کی نوید دیں۔ اقبال نے کہا تھا کہ:
افکار تازہ سے ہے تازہ جہانوں کی نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا

آخر یہ بھی تو تاریخ کا حصہ ہے کہ 1999ء میں ہندوستانی وزیراعظم مینارِ پاکستان پر آکر پاکستان کو تسلیم کرنے کا اعلان کرتا ہے اور 2004ء میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں مسئلہ کشمیر کے حل پر پیش رفت ہوئی اور یہ دونوں ملکوں کے ان کے مستقبل بنائیے سے انحراف تھا یہ اقدامات کس جنگلی بلا نے نگل لئے اور امن کے بجائے خون کا کھیل دوبارہ کیوں شروع ہوا؟ یہ بھی سوچنے کی باتیں ہیں اگر گذشتہ 70 سال سے دہرائے جانے والا قومی بیانیہ لہو رنگ ہونے کے باوجود نتائج پیدا نہیں کر رہا تو کیا اب وقت نہیں آگیا ہے کہ کشمیری بچوں کی آنکھوں کے صدقے اپنی قومی پالیسیوں کا دوبارہ ’تزکیہ‘ کریں جو انہیں موت نہیں بلکہ زندگی کا پیغام دے۔ کیا وقت نہیں آگیا کہ ہم اپنی سوچ کو وسعت دیں اور جامع قومی بیا نئے اور Status Quo کے ساتھ چمٹے رہنے کے بجائے وہ بادِ بہاری لائیں جو نہ صرف کشمیر کے ڈیڑھ کروڑ لوگوں کو آزادی اور پر امن زندگی گزارنے کا حق دلا سکے اور برصغیر کے ڈیڑھ ارب انسانوں کو بھی انسانوں کی طرح زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کر سکے کہ آخر کب تک ہم کشمیریوں کی آزادی کو صرف پوائنٹ سکورنگ اور نعرہ بازی کی نذر کرتے رہیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم جھوٹی انا کے خول سے نکل آئیں تو نہ صرف مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہو گا بلکہ برصغیر کے ڈیڑھ ارب لوگ بھی ترقی و خوشحالی کی منزل پر رواں دواں ہونگے۔
Akram Sohail
About the Author: Akram Sohail Read More Articles by Akram Sohail: 15 Articles with 11645 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.