محسن بھوپالی کا اصل نام عبدالرحمن تھا۔ آپ
کے والد محمد عبدالرزاق لاڑکانہ (سندھ) میں ڈپٹی پوسٹ ماسٹرتھے۔محسن
بھوپالی کی پیدائش ۲۹ ستمبر ۱۹۳۲ء میں بھوپال سے متصل ضلع ہوشنگ آباد کے
قصبے سہاگ پور میں ہوئی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم حبیبیہ مڈل سکول اور
الیگزینڈرا ہائی سکول بھوپال سے حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد ستمبر ۱۹۴۷ء
کو آپ والدین کے ہمراہ پاکستان آ گئے اور لاڑکانہ (سندھ) میں سکونت اختیار
کی۔ ۱۹۵۱ء میں ہائی سکول لاڑکانہ سے میٹرک اور ۱۹۵۴ء میں گورنمنٹ کالج سے
انٹر کیا۔ بعدازاں ۱۹۵۷ء میں این ای ڈی گورنمنٹ کالج کراچی سے انجینئرنگ
میں تین سالہ ڈپلومہ کیا اور ۱۹۷۴ء میں جامعہ کراچی سے بی۔اے کی ڈگری حاصل
کی۔ ۱۹۵۹ء میں آپ نے سندھی زبان کا محکمہ جاتی امتحان بھی پاس کیا۔ ۱۹۷۹ء
میں جامعہ کراچی سے ایم۔اے اُردواور ۱۹۸۷ء میں اردو کالج کراچی سے ایم ۔اے
صحافت کیا۔
۱۲ جون ۱۹۵۲ء کو آپ حکومت سندھ کے محکمہ تعمیرات میں اورسیئر بھرتی ہوئے
اور ۲۸ جولائی ۱۹۹۳ء کو بحیثیت ایگزیکٹو انجینئرریٹائرہوئے۔ آپ کیشادی۱۹،فروری۱۹۵۶ءکومسماۃمقبول
کشورسے ہوئی جن سے دو بیٹیاں اور چار بیٹے پیدا ہوئے ۔آپ کے فنی سفر کا
آغاز ۱۹۴۷ء میں پاکستان آمد کے ساتھ ہی ہو گیا تھا تاہم ۱۹۴۸ء میں ملک
کے معروف ادبی جریدوں میں آپ کا کلام شائع ہونا شروع ہو گیا۔
نیرنگئی سیاست دوراں تو دیکھیئے ۔
منزل انہیں ملی جو شریک ِسفر نہ تھے
زیست ہمسائے سے مانگا ہوا زیور تونہیں ۔
ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے کھوجانے کا
اسطرح کے ایک دو نہیں سینکڑوں اشعار محسن بھوپالی نے اُردو شاعری کے دامن
میں ڈالے ہیں ۔ محسن بھوپالی نے اپنی درد مندی، سوزو گذار اور حساس طبعیت
کو غزل کے لوازم سے اسطرح مربوط کیاکہ ان کی آواز سب سے الگ سنائی دینے لگی۔
اوروں سے مراطرزِ نگارش ہی الگ تھا ۔
نقصان مجھے اپنی ہی تحریر سے پہنچا
محاذِجنگ سے پسپائیاں تو جائز ہیں ۔
محبتوں میں مگر واپسی نہیں ہوتی
میں یہاں آیا تھا لیکر صبح کی پہلی کرن ۔
تم نے مجھ کو ڈوبتے سورج کے منظر میں رکھا
میں کب تلک یونہی تیرا طواف کرتا رہوں ۔
بھنورکی طرح کسی دن سمیٹ لے مجھ کو
محسن بھوپالی محکمہ تعمیرات ِعامہ میں انجینئرتھے اورساری زندگی مشینوں کے
شور اورمزدوروں کے جھرمٹ میں گزاری ۔مشینوں کی اس گھن گرج میں بھی انہوں نے
خوبصورت
شعرتخلیق کئے۔ مشینوں کی گھڑ گھڑاہٹ اور مزدوروں کی محرومیوں نے محسن بھوپالی
کی شاعری کو خارجی حقیقتوں کا ترجمان بنا دیا۔ اُن کے ہاں لب و رخسار کی
بات اورگُل و بلبل کے نغمے بھی سنائی دیتے ہیں مگر حالات کی ستم ظریفی کا
رونا زیادہ نمایاں ہو کرسامنے آتا ہے۔ اُن کے کہے ہوئے اشعار آج بھی حسبِ
حال ہیں ۔
پھ نئے عہد کرنے آئے ہیں ۔
تم پہ احسان دھرنے آئے ہیں
مفلسو اب کوئی گلہ نہ رہے ۔
پیٹ وعدوں سے بھر نے آئے ہیں
مصلحت کوشی ہے یا ہے شوخی طرزِ بیاں ۔
راہبر خود کہہ رہا ہے قافلہ خطرے میں ہے
چاک دامانوں پہ محسن انگلیاں اُٹھتی ہی ہیں ۔
آج لیکن کج کلاہوں کی قبا خطرے میں ہے
عوام کی سادہ لوحی سے اہل اِقتدار نے ہمیشہ فائدہ اُٹھایا۔ سیاسی خلفشار کا
فائدہ سرمایہ داروں کو ہوا مگراستحصال عوام کا مقدر بنا۔
جو ہمارے کسی طرح نہ ہوئے ۔
ان کو پائندہ باد کہتے ہیں
موت ارزاں ہوئی ہے جن کے طفیل ۔
ہم انہیں زندہ باد کہتے ہیں
(نظم سادہ لوح)
محسن بھوپالی کے ہا ں استحصالی قوتوں کے تحت وجود میں آنے والے نظام کا
تذکرہ جابجا ملتا ہے مگر یہ استحصال انہیں استقامت عطا کرتاہے
اور ان کے حوصلوں کو جوان رکھتا ہے۔
ہماری فکر میں گھلتے ہو کیوں ریا کارو ۔
ہم اپنے بگڑے مقدر کو خود بنائیں گے
ہم اپنے خون سے سینچیں گے گلستانِ وطن ۔
ہماری بزم ہے ہم اس کو خود سجائیں گے
(نظم ۱۴، اگست)
ایسے گمراہ ہوئے زادِ سفر کھو بیٹھے ۔
روشنی لینے گئے حسنِ نظر کھو بیٹھے
ذہن و دل جن کی صداقت کے بھی منکر ہوجائیں ۔
سانحے ایسے کئی آ کے گزر جاتے ہیں
منحصر اہلِ ستم پر ہی نہیں ہے محسن ۔
لوگ اپنوں کی عنایت سے بھی مر جاتے ہیں
یہ اُس کا طرزِ تخاطب بھی خوب ہے محسن ۔
رُکارُکا سا تبسّم خفا خفا آنکھیں
عمرِ مصروف کوئی لمحہء فرصت ہو عطا ۔
میں کبھی خود کو میسر نہیں ہونے پاتا
آپ کی شعری کتب میں شکستِ شب (۱۹۶۱ء )، جستہ جستہ (۱۹۶۹ء) ، نظمانے
(۱۹۷۵ء) ، ماجرا(۱۹۹۵ء) ، گردِمسافت (۱۹۸۸)، موضوعاتی نظمیں (۱۹۹۳ء)،
منظر پتلی میں (۱۹۹۵ء)، روشنی تو دیئے کے اندر ہے (۱۹۹۶ء) اور شہر آشوب
کراچی (۱۹۹۷ء) شامل ہیں۔ آپ کی نثری کتب میں کینڈااور امریکاکا سفر نامہ،
حیرتوں کی سرزمین، نقد ِسخن (مضامین) اور قومی یکجہتی میں ادب کا کردار (مشاہرادب
کے انٹرویوز) شامل ہیں ۔ آپ ۱۷ جنوری ۲۰۰۷ء کوکراچی میں فوت ہوئے اور
انہیں پاپوش نگر کراچی کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔
غم نہیں مجھ کو اپنے بجھنے کا
۔بجھ رہا ہوں میں روشنی دے کر
|