عبید اللہ سندھی کا فکر۔۔۔۔۔۔شخصیت پرستی اور مذہبی گروہیت کے نقصانات(۲)

بدلتے ہوئے دور کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ سیاسی نظاموں میں بھی تبدیلیاں واقع ہوتی گئیں۔اسلام بحیثیت سیاسی نظام کم و بیش ایک ہزار سال دنیا کی مختلف خطوں میں موجود رہا ہے۔جب سیاسی انقلابات دنیا میں رونما ہوئے ،سائنس اور ٹیکنالوجی کا ارتقاء ہوا تو اس کے نتیجے میں سماجی،سیاسی ،اقتصادی نظریات بھی بدل گئے۔حکومت تشکیل دینے اورحکومت چلانے کا طریقہ کار بدل گیا۔یورپ سے چلنے والی جدت کی تحریکوں نے پوری دنیا کو متاثر کیا۔اب ہونا یہ چاہئے تھا کہ بدلتے ہوئے اس دور کے تقاضوں کے مطابق اسلامی نظریہ و اصولوں کی بنیاد پہ نئے اور جاندار سیاسی ڈھانچے بنائے جاتے۔سائنس اور ٹیکنالوجی کو اپنایا جاتا اور سائنسی نقطہ نظر سے سیاسی تبدیلیوں کا مشاہدہ کر کے اپنے خطے اورحالات کے موافق منصوبہ بندی کرنی چاہئے تھی۔لیکن ہوا یہ کہ اسلامی دنیا میں نہ تو سائنسی علوم پہ توجہ دی گئی اور نہ عصری تقاضوں کے مطابق سائنسی طرز فکر اپنایا گیا۔بلکہ سینکڑوں سال پہلے کی کتب کو ہی اوڑھنا بچھو نا بنایا گیا ۔فقہ میں نئی تحقیق سے غفلت یا مصلحت برتی گئی۔نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام فقط عبادات اور اخلاقیات کی دروس تک محدود ہو گیا اور سائنسی ،سماجی،معاشی علوم وغیرہ میں نہ تو تحقیق کی گئی۔بلکہ عام طور پہ یہ رویہ سامنے آیاکہ معاشی،سیاسی یا سماجی امور یہ سب دنیا داری والی باتیں ہیں۔صرف اور صرف آخرت کے لئے سوچنا چاہئے۔لہذا پوری اسلامی دنیا کا تجزیہ کریں تو کہیں بھی دور جدید کے تقاضوں کو پورا کرنے والی عالمی سطح کے معیار کی یونیورسٹی نظر نہیں آتی جس میں گذشتہ اسلامی دور کے تمام فقوں کی تدوین عمل میں آئی ہو اور کھل کے اجتہاد کیا گیا ہو اوردور جدید کے تقاضوں کے مطابق سیاسی،اقتصادی نظاموں کو متعارف کروایا گیا ہو جو اسلامی اصولوں پر مبنی ہوں۔ اس علمی وشعوری پسماندگی کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی دنیا کے بڑے بڑے علماء صرف فروعی مسائل میں پھنس کے رہ گئے ہیں اور بقیہ جو کہ سیاسی میدا ن میں اسلام کے مشن کو لے کر نکلے ہیں وہ ذہنی طور پہ آج سے ہزاروں سال پہلے کے دور میں جی رہے ہیں۔اسلامی نظام کے قیام کے ان کے نعروں کے پیچھے نہ تو انسانی حقوق کا کوئی پروگرام موجود ہے،اور نہ سماجی خدمت یا جمہوری رویوں کا کوئی عنصر،عصری تقاضوں سے بے شعوری یا تغافل کا نتیجہ یہ ہے کہ تشدد ،جبر و زبردستی،عقلیت کا انکار،سائنسی علوم سے اجتناب اور تخلیق اور تحقیق کے کلچر سے بے زارگی موجود ہے۔ مولانا سندھی اسی وجہ سے نہایت سخت زبان استعمال کرتے ہوئے مسلمان مذہبی طبقہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں
’’یہ سیاست ،یہ اجتماع ،یہ معیشت اور یہ تمہارا اسلام زیادہ دیر نہیں چل سکے گا۔‘‘(1 )
ُ مولانا سندھی کے شاگردپروفیسر سرور لکھتے ہیں
’’مولانا سندھی کے اس خیال کی تائید جماعت اسلامی اور دوسرے علماء کی تحریروں اور بیانات سے ہوتی ہے کہ وہ جس قسم کی اسلامی حکومت کا برابر مطالبہ کرتے آرہے ہیں وہ کسی اعتبار سے بھی جمہوری نہیں۔ہمارا ایک عالم دین خواہ وہ مولانا مودودی صاحب جیسا کتنا روشن خیال کیوں نہ ہو ،صحیح معنوں میں ایک جمہوری حکومت کے قیام پر کبھی راضی ہو ہی نہیں سکتا۔اور تو اور غلام احمد پرویز جیسے صاحب قلم جو بہت سی مروجہ اعتقادی بندھنوں اور روایتی زنجیروں کو توڑ چکے ہیں اور آزاد ذہن کے ساتھ سوچتے اور دیکھتے ہیں تو وہ بھی جمہوری نظام حکومت کے شدید ترین مخالف ہیں اور وہ یہ برداشت کرنے کو تیار نہیں کہ ایک وطن میں رہنے والے لوگ بلا تمیز مذہب ایک جمہوری اور سیکولر حکومت بنا کر رہیں۔واقعہ یہ ہے کہ آج اسلام کے نام سے جو بھی حکومت بنے گی وہ غیر جمہوری ہو گی موجودہ مذہبی اور اسلامی ذہن جمہوریت کو مع اس کے جملہ لوازم اپنانے کو تیار نہیں۔‘‘(2)
در اصل مولانا سندھی اس بات پہ کڑھتے تھے کہ دنیا میں اتنی ساری تبدیلیاں آ چکی ہیں اور مسلمان رہنماؤں کے دماغ اس پرانے ڈگر میں پھنسے ہوئے ہیں۔وہ یہ جاننے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ اسلامی خلافت کو کن اسباب کی وجہ سے شکست ہوئی اور اسلامی سیاسی نظام دنیا سے کیوں شکست کھا گیا۔مولانا یہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی میدان میں فرسودہ ذہنیت کو ترک کرنا پڑے گا۔جمہوری طرز فکر اپنانا پڑے گا۔سیاسی تبدیلی کے لئے عصری طریقوں سے رو گردانی کر کے کبھی کامیابی نہیں ہو سکتی۔اب آمریت ،شاہیت کی بجائے اداروں کی حکمرانی کا دور ہے۔لہذا پرانے خیالات کے مطابق اسلامی حکومت سے مراد شاہی حکومت ہی تصور ہوتی ہے۔جس میں خلیفہ کی آمریت اور اس طرح کے دوسرے لوازمات جو کہ آج کے دور میں کسی بھی صورت میں انسانی دنیا میں قابل قبول نہیں۔مولانا سندھی کے بقول:
’’کہ اس دور میں اسلام کے نام اور اس کی دعوت پر مسلمانوں کی جو بھی حکومت بنے گی وہ مزاجاً شاہی حکومت ہو گی،جمہوری نہیں اس لئے کہ صدیوں سے مسلمانوں کے ذہنوں میں اسلامی حکومت مرادف بن کر رہ گئی ہے کہ ایک مسلمان بادشاہ کی حکومت کی اور جب آپ اسلامی حکومت کو خیال سے عملی زندگی میں لائیں گے تو ابو بکرؓ اور عمرؓ کی حکومت نہیں ہو گی بلکہ وہ حکومت ہو گی جو ایک ہزار برس مع اپنی تمام روایات کے مسلمانوں کے ہاں چلی آتی ہے ،کیوں کہ ہمارے ذہن ،جذباتی ،عملی اور تاریخی روابط اس آخر الزکر حکومت سے قائم ہیں اول الذکر حکومت سے نہیں۔‘‘(3)
مولانا سندھی اس ذہنیت کو ترک کرنے کا نظریہ دیتے ہیں۔وسعت نظری اور زمانے کی تبدیلیوں کا ادراک کرنے کی ضرورت پہ زور دیتے ہیں نیز وہ انقلابی نقطہ نظر اپنانے کی دعوت دیتے ہیں۔جس کی رو سے پرانے خیالات کو ترک کرنے اور نئے خیالات کو اپنانے پہ زور دیتے ہیں۔اور خاص طور پہ جمہوریت کو سمجھنے اور اسے اختیار کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔مولانا کہتے ہیں
’’ہمارا ذہن صدیوں کی فرقہ پرستی ،تنگ نظری ،جمود اور عقلی غلامی ،جذبات پرستی اور آگے جانے کے بجائے ہمیشہ پیچھے دیکھنے کی عادت سے نہیں نکل سکتا،اس ذہن کو اپیل کر کے اور اسے متحرک بنا کر جو نظام حکومت بروئے کار آئے گا وہ مزاجاً شاہی اور شخصی ہو گا،جمہوری نہیں،ہمیں جمہوری نظام حکومت کی طرف جانے کے لئے نیا راستہ اختیار کرنا ہو گا اور نئے راستے کے لئے پچھلے راستے کو ترک کرنا پڑتا ہے۔‘‘(4)
عام طور پہ مسلمان سیاسی جماعتوں اور علماء کے ہاں حکومت قائم کرنے کا تصور یہ ہے کہ اوپر سے ایک اسلامی نظام قائم کر دیا جائے۔جس میں خاص طور پہ اشرافیہ یا خواص کا تصور موجودہے جو کہ اسلامی نظام قائم کریں۔یا شریعت کا نفاذ کریں۔عوام سے رابطہ اور عوامی مرضی یا رائے کا اس میں کوئی کردار نہیں ہے۔مولانا کے بقول’’مسلمانوں کا تخیل اوپر سے حکومت کا ہے۔وہ رائے عامہ سے حکومت بنانے کا تصور نہیں کرتے اس لئے وہ منتشر خیال ہیں۔‘‘(5)
اس وقت معاشرے کا جائزہ لیا جائے تومعاشرہ اس سوچ سے بالکل خالی نظر آتا ہے کہ معاشرے میں جمہوری طریقے سے لوگوں کو منظم کر کے ان کے مسائل حل کئے جائیں ،اور ان کے اندر سیاسی مساوات قائم ہو اور ہر شخص کو رائے کی آزادی ہو اور اداروں کی تشکیل میں سارے معاشرے کا ایک جیسا حصہ موجود ہو۔مولانا خاص طور پہ مذہبی طبقہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں’’ہمارا مذہبی ذہن جمہوریت کا سوچ بھی نہیں سکتا۔‘‘(6)
مولانا سندھی مذہبی گروہیت کی بنیاد پہ سماجی خدمت کے کام کی بھی ممانعت کرتے ہیں کیوں کہ اس کے اندر سے ہمہ گیریت ختم ہو جاتی ہے اور پورے معاشرے کی سوچ یعنی قومی سوچ کی جگہ فقط ایک مذہبی گروہ کی خدمت کی سوچ پیدا ہو جاتی ہے۔اور اس طرح سے سیاسی عمل کے لئے اور جمہوری اداروں کے استحکام کے لئے معاشرے کے تمام افراد کو بلا تفریق منظم کرنے کا عمل معطل ہو جاتا ہے لہذا سی اہمیت کے پیش نظر مولانا سندھی ایسے کسی بھی کام کو درست نہیں سمجھتے تھے اس طرح کا ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں۔مولانا سندھی کے شاگرد پروفیسر سرور لکھتے ہیں
’’ڈاکٹر(ذاکر حسین ،جامعہ ملیہ کے مہتمم) صاحب چاہتے تھے کہ تبلیغی جماعت اپنی سر گرمیاں صرف دیہات میں رہنے والے مسلمانوں کو کلمہ کی تلقین کرنے تک محدود نہ رکھے بلکہ اس کے ارکان سوشل خدمت کا کام بھی کریں۔غالباً اس خیال سے ذاکر صاحب نے جامعہ کے سکاؤٹس کو تبلیغی جماعت سے متعلق کرنے کا سوچا اور اس سلسلے میں کچھ ابتدائی کاروائیاں بھی ہوئیں۔مولانا سندھی کبھی کبھار مولانا الیا س صاحب کے پاس بستی نظام الدین جایا کرتے تھے اور بعض دفعہ جب وہ جامع مسجد دہلی نہ پہنچ پاتے وہ جمعہ کی نماز بھی وہاں پڑھتے،لیکن جب مولانا سندھی کو معلوم ہوا کہ ذاکر صاحب اس طرح سوچ رہے ہیں اور وہ جامعہ سکاؤٹس کو تبلیغی جماعت کے متعلق کر کے ان سے دیہات میں سوشل کام لینا چاہتے ہیں تو وہ کافی برہم ہوئے۔اور اس پر انہوں نے راقم الحروف سے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔مولانا ذاکر صاحب سے خود ملے اور جیسا کہ ان کا طریقہ تھا ذاکر صاحب سے بڑے انکسار اور نہایت درد مندی کے ساتھ لیکن بڑے قطعی اور فیصلہ کن انداز میں در خواست کی کہ آپ یہ نہ کریں۔آپ کو اس طرح کی تحریک میں حصہ نہیں لینا چاہئے جو صرف مسلمانوں کی ہو۔اس سے لازمی طور پر غلط فہمیاں پیدا ہوں گی اور آپ جو چاہتے ہیں وہ نہیں ہو پائے گا۔مولانا کہتے تھے کہ میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ یہ ملک ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کا ہے او دونوں ایک ہی معاشرے میں ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔آپ جو بھی کام کریں،دونوں کے لئے یکساں کریں اور سوشل خدمت ہو تو دونوں کی۔‘‘(8)
مولانا اس سلسلے میں تاریخ کا تجزیہ کرتے ہیں اور یہ دلیل دیتے ہیں کہ مذہب کے نام پہ بننے والی سیاسی جماعتیں اور سیاسی ادارے لازمی رجعت پسندی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔اور ان میں شخصیتی تقدس کے نتیجے میںآمریت پیدا ہو جاتی ہے۔لہذا وہ زوال کا شکار ہو جاتے ہیں۔مولانا سندھی اس کی مثال دیتے ہوئے سید احمد شہید کی تحریک کو پیش کرتے ہیں۔کہ جب سید احمد شہید سکھوں کے خلاف لڑ رہے تھے انہوں نے پشاور میں اپنی حکومت بنائی ۔لیکن ہوا یہ کہ وہاں کے مقامی عوامی نمائندوں کو اہمیت نہ دینے اور اپنی شخصی اہمیت کو بڑھانے کی وجہ سے پوری تحریک ناکام ہو گی اور جن علاقوں پہ قبضہ تھا وہ ہاتھوں سے نکل گئے اور با لاخر شہادت پہ یہ سلسلہ ختم ہوا۔مولانا کہتے ہیں
’’تحریک ولی اللہی کی سیدھی سادی عوام مسلمانوں کی جدو جہد آزادی کا آج کی سیاسی زبان میں سب سے بڑا تاریخی انحراف یا ترمیم پسندانہ اقدام وہ تھا،جو سید احمد شہید کی زندگی میں ہوا چنانچہ بجائے اس کے یہ تحریک قومی اور عوامی شاہرا پر آگے بڑھتی یہ مذہبی فرقہ پرستی کی ایک رجعت پسندانہ تحریک بن گئی۔‘‘(9)
اس پہ تنقید کرتے ہوئے مزیدبیان کرتے ہیں
’’حضرت سید احمد شہید کتنے بڑے بزرگ تھے لیکن دیکھو وہ بھی اسی رو میں بہہ گئے بجائے اس کے کہ وہ افغاں نمائندں پر مشتمل ایک جمہوری نمائندہ حکومت بناتے وہ خود امام مہدی بن گئے اور اس طرح سارا معاملہ عزر بود ہو گیا،تقریباً اسی زمانے مہدی سوڈانی ہوئے(۱۸۴۳۔۔۱۸۸۵ء)ان کی بغاوت سوڈانی عوام کی بغاوت تھی لیکن وہ بھی اسے جمہوری رنگ نہ دے سکے وہ مہدی بن گئے اب ان کے نام پر ایک گدی ہے جس کے نام لیوا رجعت پسندی کے سب سے بڑے نقیب ہیں،ہمارا مذہبی ذہن جمہوریت کا سوچ ہی نہیں سکتا۔‘‘(10)
مولانا سندھی جب سیاسی حوالے سے تجزیہ کرتے ہیں تو وہ تقدس اور کسی طرح کی بھی عقیدت کو درمیان میں نہیں آنے دیتے۔ نیز وہ چاہتے ہیں کہ اس تحریک کے فکری ارتقاء کو جاری وساری رکھا جائے ۔ ماضی میں ہونے والی کوتاہیوں سے سبق سیکھنا اور آنے والے زمانہ میں انہیں نہ دھرانا اور بہتری پیدا کرنا۔ ہی ارتقاء کا ذریعہ بن سکتا ہے ۔ اور بالخصوص زمانے کی تبدیلی کے ساتھ جمہوری قدروں اور جمہوری اداروں کی اہمیت کے تحت مولانا سندھی اس تحریک کو بھی اسی تناظر میں دیکھتے ہیں اور تنقید کرتے ہیں۔اگرچہ وہ سید احمد کووہ اپنا بزرگ مانتے ہیں اور ان سے حد درجہ حقیقت بھی رکھتے ہیں۔مولانا سندھی کہتے ہیں
’’امیر شہید کو ایک معصوم امام مان سکتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ مولانا شہید انہیں اس طرح منوانا چاہتے تھے۔۔۔۔مگر جس وقت ہم انہیں امارت کی ذمہ داری سپرد کرتے ہیں تو اجتماعی غلطیوں کی مسؤلیت سے انہیں مبرا ثابت نہیں کہیں گے ورنہ اس نادر مثال سے تحریک کی آئندہ ترقی میں استفادہ نا ممکن ہو جائے گا۔‘‘(11)
مولانا سندھی تفصیلی تجزیہ کرتے ہوئے مزید بیان کرتے ہیں
’’سید احمد شہید کی جماعت نے سر حد میں جو شکل اختیار کی وہ منشائے حقیقی کے خلاف تھی۔ان کی حکومت موقۃ عارضی اور Provisionalتھی۔اصل مرکز دہلی تھا۔بد قسمتی یہ ہوئی کہ سید صاحب نے امامت اور مہدیت کے دعوے کر دئیے اس سے خواہ مخواہ سر حد کے امراء و خوانین میں بد مزگی پیدا ہوئی،دوسری طرف امامت اور مہدیت کے بعد جماعتی فیصلوں کی اہمیت نہ رہی۔اس سے عوام پٹھان بھی بگڑ گئے نتیجہ یہ نکلا کہ سید صاحب شہید ہو گئے۔طبعاً مہدی اور امام کی شہادت سے ان کے متبعین کے دل ٹوٹ گئے اور ان سے منتسب تحریک اہل حدیث رفع یدین تک محدود ہو کر رہ گئی۔‘‘(12)
وہ قومیں جو نظاموں کے جبر اور ظلم کا شکار ہوتی ہیں اور غلامی میں جی رہی ہوتیں ان میں شخصیت پرستی اورعقیدت پرستی کے جذبات کو ہوا دے کر اان سے سیاسی فوائد حاصل کئے جاتے ہیں۔ایسا ہی بیسویں صدی میں ایران میں ہوا ،ایک مذہبی انقلاب جو کہ یقیناً سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کے خلاف آیا اور ایرانی قوم کو ایک مصیبت سے نجات دلائی لیکن رفتہ رفتہ وہ انقلابی سوچ اب رجعت پسندی کی طرف بڑھ چکی ہے، سوسائٹی میں ایک کشمکش جاری ہے، ایک طرف جمہوری سوچ موجود ہے جو کہ عالمی و عصری تقاضوں کی روشنی میں ریاستی ڈھانچے کو تشکیل دینے کے لئے سرگرداں ہے لیکن اس سوچ پہ پہرہ ہے، آزادی اظہار رائے،افراد معاشرہ کی نمائندگی صرف نامزدگی ہے ناکہ انتخاب، جمہوری رویوں کی بجائے اس انقلاب نے ریاستی نظام میں ایک مخصوص مذہبی گروہ کو اجارہ دار بنا دیا،مرکزی نظام چند مخصوص مقدس شخصیات کے کنٹرول میں چلا گیا، ان پہ کسی بھی قسم کی تنقید اور سوال اٹھانے ولا راندہ درگاہ سمجھا جاتا ہے۔اس وقت ایرانی نئی نسل اس سسٹم کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہی ہے۔وہ سیاسی آزادی اور معاشی مساوات کے عمل کو آگے بڑھانا چاہتی ہے۔وہ ایسی تنگ نظری جو لبرل ازم ،ر سیکولر ازم اور جمہوریت کے خلاف ہو کو رد کرتے ہیں۔ایک نظریاتی کشمکش اس وقت ایرانی معاشرے میں موجود ہے۔مولانا سندھی کے وہ الفاظ’’مذہبی گروہیت کی بنا پہ قائم ہونے والی سیاسی جماعت یا نظام لازم رجعت پسندی کا شکار ہو جاتے ہیں‘‘کی عملی مثال اس وقت ایرانی نظام کی شکل میں موجود ہے۔ایک طرف ایرانی انقلاب اپنے معاشرے کے اندر جمہوری رویوں کی آبیاری میں ناکام ہوا ہے وہاں وہ خطے کے ممالک اور عالمی سطح پہ اجتماعیت اور انسانیت کے نظرئیے کو پھیلانے میں ناکام ہوا ہے۔ خطے میں حالات یہ ہیں کہ فقط ایک مذہبی فرقہ کے مفادات کی نگہبانی ہو رہی ہے، مڈل ایسٹ کی اقوام کے ساتھ باقاعدہ ایک جنگ شروع کر رکھی یا اس جنگ میں حصہ دار ہیں جس کی بنیا د صرف ایک مذہبی فرقہ کی مضبوطی کے سوا کچھ نہیں، ایرانی انقلاب کی محدودیت کی حالت یہ ہے کہ انسانیت تو دور کی بات ہے اسلامی اجتماعیت کی بھی نمائندگی کرنے سے بھی قاصر نظر آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے جو مولانا سندھی نے بیان کی ہے کہ جب مذہبی گروہیت پہ کوئی تحریک کھڑی کی جائے گی تو وہ ایک محدودیت میں پھنس کر اپنے اثرات کھو دے گی۔ مولانا سندھی مہدیت کے حوالے سے سید احمد کی تحریک کو اسی وجہ سے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں مولانا کا کہنا تھا:’’سید صاحب شہید جیسی خوبیوں کا آدمی ملنا مشکل ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے امام و مہدی بننے سے اتنی اچھی تحریک کس طرح تباہ ہوئی۔جب مجاہدین نے پشاور فتح کیا۔تو جماعت چاہتی تھی کہ اسے اس پہلے حاکم کو واپس نہ دیا جائے۔لیکن سید صاحب نے یہ بات نہ مانی ۔جب نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حکم تھا کہ صحابہ سے مشورہ کر لیا کرو (وشاورھم فی الامر)تو وہ لاکھ امام و مہدی ہوں،انہیں کیا حق تھا کہ وہ جماعت کے فیصلے کے خلاف جاتے۔‘‘(13)

(حوالہ جات)
1 ۔محمد سرور،پروفیسر،افادات و ملفوظات حضرت مولانا عبید اللہ سندھی،لاہور،سندھ ساگر اکادمی،۱۹۹۶ء،،ص۱۰۵
2 ۔ایضاً،ص۱۶۶
3 ۔ایضاً،ص۱۶۵
4 ۔ایضاً،ص۱۶۵
5۔ عبید اللہ سندھی،مولانا،امالی عبیدیہ مولانا عبید اللہ سندھی کے امالی کا نو دریافت قلمی نسخہ،(ترتیب وتدوین شیخ بشیر احمد بی اے لدھیانوی)،اسلام آباد،رتن پبلیکیشنز ،۲۰۰۶ء،ص۲۴
6۔محمد سرور،پروفیسر،افادات و ملفوظات حضرت مولانا عبید اللہ سندھی،محولہ بالا،ص۱۶۶
8۔ایضاً،ص۴۳۹تا۴۴۰
9 ۔ایضاً،ص۳۴۸
10۔ایضاً،ص۱۶۶
11 ۔محمد سرور ،پروفیسر،خطبات ومقالات،لاہور،سندھ ساگر اکیڈمی،۱۹۹۶ء،ص۲۳۲
12 ۔محمد سرور،پروفیسر،افادات و ملفوظات حضرت مولانا عبید اللہ سندھی،محولہ بالا،ص۳۴۹
13۔ایضاً،ص۳۴۹تا۳۵۰
Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 136061 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More