بیسویں صدی میں اسلامی فکر کے احیاء
و تجدید میں شا عرِ مشرق علا مہ اقبال کا نام ایک روشن ترین مینار کی حیثیت
رکھتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا بھر کی ادبی تاریخ میں بہت کم ایسی
شخصیات ملتی ہیں جنھوں نے علامہ اقبال کی طرح ذہنوں پر اتنے گہرے اثرات
مرتب کئے ہوں اور سیا سی و سماجی دھا رے کا رخ موڑ دیا ہو۔ انکا خطبہ الہ
آباد ہندوستانی مسمانوں کی بیداری کی اساس بنا۔ علامہ اقبال نے پا کستان کا
خواب دیکھا اور صاف صاف بتا یا دیا کہ ’’خو دی کی تلوار‘‘ سے مسلما نان ہند
کا ایک الگ آزاد اسلامی ملک وجود میں آنے والا ہے۔ اقبال کا ہی احسان ہے
اور کارنامہ بھی کہ قائد اعظم کو اس جدو جہد کا رہبر بننے پر را ضی کیا۔
علامہ انیس سو اڑتیس میں فوت ہوئے لیکن انکے افکار سے پاکستان، انڈیا، ایرا
ن ،ترکی، افغانستان اور مشرق کے ساتھ ساتھ مغرب بھی استفا دہ کر رہا ہے۔
اقبال نے با لکل ٹھیک کہا تھا: کہ
ع اک ولولہء تازہ دیا میں نے دلوں کو
لاہور سے تا بہ خاک بخارا و سمر قند
علامہ اقبال کی شا عری کا بنیا دی مرکز ’’فلسفہء خودی ‘‘ہے۔ انھوں نے خودی
کے فلسفے کو اس قدر شا ندار اور بے مثال ا نداز میں پیش کیا ہے کہ اس پر
غور و فکر کرنے اور پھر عمل کرنے سے نہ صرف فرد بلکہ اقوام بھی اپنی
زندگیوں میں انقلابی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ اور وہ شیطان کی پیروی کی بجائے
ایک اﷲ کی بندگی کی طرف لوٹ سکتے ہیں۔
اب ہم اس پر تفصل کے ساتھ بات کرتے ہیں۔
انسان کا وجود: انسان کا وجود دو چیزوں کا مجموعہ ہے۔ ایک اسکا بدن ہے،
اسکا ’’خاکی وجود‘‘ ہے اور دوسری چیز اُسکی ’’روح ‘‘ہے۔
در حقیقت نسان ’’خاکی وجود ‘‘کے تقاضے پورے کرنے میں دن رات مصروف ہے۔ وہ
اس عمل میں اتنا مگن ہو جا تا ہے کہ وہ اپنا ’’اصل وجود‘‘ اپنی ’روح ‘ کو
بھول جا تا ہے۔ وہ کھانے، پینے، معاشی سرگرمی، خاندان کے ضروریات پورے کرنے
اور دیگر انسانی معاملات میں بہت آگے نکل جا تا ہے۔ یوں آہستہ آہستہ و ہ
مادہ پرست، دنیا پرست اور آخرکار شیطان کا کارکن بن جا تا ہے۔ وہ روح کے
تقاضے پورے کرنا بھول جا تا ہے ۔ وہ دنیا کی بھول بھلیوں میں اپنے خالق،
اپنے رب کو فراموش کر دیتا ہے۔ وہ دن رات مادی وجود کی پرستش کرنے لگتا ہے۔
یہ ’’نفس اَمارہ‘‘ کی کیفیت ہے اور بہت بڑی تباہی ہے۔
انسانی روح کیا ہے؟
انسان کی اصل حقیقت اسکی پاکیزہ روح ہے۔ انسانی روح کی و جہ سے اسے مسجود
ملائک کا درجہ ملا ہے۔ روح کا تعلق مذہب اور رحمانیت سے ہے۔ یہی روح اسے
دیگر حیوانوں سے الگ کرتی ہے۔ جسم کے مرنے سے روح نہیں مرتی۔ وہ واپس اپنے
خالق کی پاس چلی جاتی ہے۔ اور تب انسان دنیاوی ز ندگی کا جواب دہ ہو تا ہے۔
محض جسم کے تقاضے پورے کرنے سے ’’ روح‘‘ کو چین نہیں مل سکتا۔
ااقبال کا فلسفہء خودی ڈارون کی زہریلی تھیوری آف ہیومن ایویلویشن کا تریاق
ہے:
ڈارون نے کہا تھا کہ انسان حیوان کی ترقیافتہ شکل ہے۔ حیوان اور انسان ایک
ہی چیز ہے۔ بس انسان نے ذرا ترقی کی اور مو جودہ تہذیب تک پہنچا۔ اسکے
مطابق انسان محض حیوانی جبلتوں کا حامل ہے۔ مان، بہن ، بیٹی اور بیوی میں
کو ئی فرق نہیں۔ حیوان کی طرح انسان جس سے چاہے اور جب چاہے، جنسی اختلاط
کر سکتا ہے۔ حیوانوں کی طرح انسانوں کا بھی کوئی مذہب نہیں ہونا چاہئے۔
گویا ’’جانور‘‘ انسان کا باوہ آدم ہے۔ چو نانچہ ’’ڈارون ‘‘کے اس تباہ کن
نظریئے نے مذہب، ادب، اخلاقیات، شرف انسانیت کا جنازہ نکال دیا ہے ۔
اقبال کا ’’فلسفہء خودی‘‘ ڈارون کے اس تھیوری کا توڑ ہے ۔ اور اسکے زہریلے
اثرات کا تریاق بھی ہے۔اقبال کی خودی کا فلسفہ انسان کو جانور سے بلند تر
مخلوق بتاتا ہے۔ یہ ہمیں حیوانی طرز حیات سے بلند کر کے رحمانیت کا راستہ
دِکھاتا ۔انسان کے خاکی وجود سے ماوراء بھی اسکی ایک عظیم ہستی ہے، جسے فنا
نہیں۔انسان کی زندگی کا اصل مقصد اﷲ کی خو شنو دی ہے۔
تو رازِکُن فکاں ہے، اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا راز داں ہو جا، خُدا کا ترجماں ہو جا
خو دی کی معنی: خودی کے دو معنیٰ ہیں۔ ایک یہ کہ خودی محمود ہے، مقبول ہے ،
قابل قبول ہے، قا بل ستائش ہے، اچھی چیز ہے۔ یہ ہر باطل سے استغنا ء اور بے
نیا زی ہے۔ اس میں انسان اپنے اندر کی روشنی کو پہچاننے کی کو شش کرتا ہے،
وہ اپنی اصلیت کی تلاش کرتا ہے۔ وہ نفس مطمئنہ سے بھی آگے کے سفر پر ریا ضت
کرتا ہے اور وہ اپنے روحانی تقا ضوں کو پورا کرتا ہے اور یوں اپنے مالک،
اپنے رب تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ خودی انسان کی انا ہے، عزت ہے ، غیرت ہے ،
اسکی اندر کی ’’میں‘‘ ہے ، اسکی روح ہے۔ ا ور یہی ا سکی اصل پہچان ہے۔ خاکی
وجود کے علاوہ جو اسکی روح ہے اسکی پہچان اور عرفان انسان کا اصل مقصد حیات
ہے۔ اسی عرفان کی وجہ سے بندہ اپنے رب کی رضا کے لئے دن رات لگ جاتا ہے۔
حیوانی خواہشوں کی پوجا کی بجائے انسان اﷲ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق زندگی
گزارتا ہے۔
اسکا ایک دوسرا مطلب بھی ہے :کہ انسان جب نفس امارہ کا پُجا ری بن جاتا ہے
تو ایسے بندے کی خودی اسے حیوان کے برابر کر دیتی ہے۔ اس حالت میں انسان
اپنے نفس کا غلام بن جاتا ہے۔ وہ اپنے اندر کی روشنی کو بھول کر اپنی دنیا
پرستی اور ہوس پرستی کی وجہ سے خاکی وجود کی پرستش کرتا ہے۔ تب یہ خو دی
بری چیز ہے، قا بل مذ مت ہے اور خودی کی یہ کیفیت بہت مذموم ہے۔
اقبال خود ی کو ان دو نوں مطالب میں استعمال کرتا ہے۔ وہ نفس اما رہ والی
خودی کو ترک کرنے اور نفس مطمئنہ والی خودی کو اپنانے کی تلقین کرتا ہے ۔
’’طلوع سحر‘‘ میں اقبال کہتا ہے:
خودی میں ڈوب جا غافل ! یہ سرِ زندگانی ہے
نکل کر حلقہ شام و سحر سے جاوداں ہو جا
فلسفہء خودی کی اساس : علامہ اقبال کے فلسفہء خودی کا ماخذ قرآن حکیم کی
’سورۃ حشر آیت نمبر آٹھارہ ہے‘ ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم متعدد مرتبہ
اپنے لیکچرز میں اس حقیقت کی گواہی دے چکے ہیں۔ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ
جب انسان اپنے پیدا کرنے والے ا ور تخلیق کرنے والے رب کو بھلا دیتا ہے، تو
اﷲ تعالیٰ بھی ایسے انسان کو اپنا آپ بھلا دیتا ہے۔ اﷲ نے انسان کو پیدا
کیا تا کہ وہ اپنے من میں ڈوب کر اپنے رب کو تلاش کرے ۔ وہ دیکھے کہ اسکی
اصل حقیقت کیا ہے، ۔ ملائکہ سے اسکو سجدہ کروایا گیا ہے۔ وہ ایک بلند مخلوق
ہے۔ وہ حیوان نہیں ہے بلکہ اﷲ نے اسے اشرف الامخلوقات بنا یاہے لہذا وہ
اپنی پاکیزہ روح کو پہچا نے۔ اپنے اندر جھا نکے تو اسے معلوم ہوگا کہ اسکی
زندگی کا کوئی عظیم مقصد ہے۔ اس مقصد کے حصول میں اپنی زندگی گزارے۔ لیکن
اگر انسان ایسا کرنے کی بجائے اپنے خالق کو بھول بھال کر نفس اَما رہ کا
غلام بن جائے، شیطان کا پُجاری ری بن جائے اور دن رات اپنے خاکی وجود کی
ضرورتیں پوری کرنے میں لگ جائے تو پھر اﷲ تعا لیٰ ایسے انسان کو اپنی رحمت
اور ھدایت سے دور کر دیتا ہے، وہ مردود ہو جا تاہے۔ جوانسان اپنے رب کا نا
شکرہ بن جا تا ہے، اﷲ سے بے خوف ہو جاتا ہے تو اسکا لازمی نتیجہ یہ نکلتا
ہے کہ وہ اپنی اصلیت اور حقیقت کو بھی بھول جا تا ہے۔ پھر وہ نفس آمارہ اور
نفس آوارہ میں ڈوب جا تا ہے۔ یہ عظیم خسارہ ہے۔ یہ سب سے بڑی تبا ہی
ہے۔اقبال مسلمانوں کو کہتا ہے کہ:
ع بے خبر تو جو ہر آئینہ ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا اخری پیغام ہے۔
وہ کہتا ہے کہ مسلمان اپنے آپکو، اپنے تن من کو نفس امارہ کی پیروی کرنے
میں فقط چند دنیاوی اشیاء کے حصول میں نہ کھپائے۔ اگر وہ اپنے رب کا نا
شکرا ہے تو پھر اﷲ تو بے نیاز ہے۔ پھر خسارے میں تو انسان ہی رہے گا۔
لہذا اقبال نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کو اس خسارہ عظیم اور نفسانی آوارگی
سے واپس روحانی زندگی میں لانے کا واحد نسخہء کیمیا ’ فلسفہ خودی‘ میں ہے۔
جب فلسفہء خودی سے وہ اﷲ تعالیٰ کی طرف مراجعت کا سفر اختیار کر لیں گے تو
دین و دنیا دو نوں میں فلاح پا لیں گے۔ انکے خیال میں مسمانوں کی پسماندگی،
غلامی، جہالت اور دنیا پرستی کا علاج ’’ فلسفہء خودی ‘‘میں پنہاں ہے۔
اقبال کہتا ہے:
ع دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئی صبح و شام پیدا کر
میرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
خودی کے خواص:
اقبال کے شاہین کے جو صفات ہیں، وہی فلسفہء خودی کے خواص ہیں
بلند پرواز، تیز نگاہ، کسی اور کا مارا ہوا شکار نہ کھانا، خلوت پسندی۔
جب انسان نفیس ترین خودی کی منزل کی طرف اپنا سفر شروع کرتا ہے تو وہ ان
صفات کا حامل ہوتا ہے۔ وہ فقر و عشق سے بھی معمور ہوتا ہے۔ تب وہ اپنی منزل
کے اختتام پر مرد مومن اور مرد حق بن جاتا ہے۔ تب وہ خودی کے دیگر مدارج
بھی طے کر کے ﷲ کا صحیح کارکن اور قبول بندہ بن جاتا ہے۔
خودی کے میٹھے پھل کا حصول: عشق وہ سر زمین ہے جس پر خودی کے میٹھے پھل کا
درخت اُگتا ہے۔
عشق کے بغیر کوئی انسان نفس امارہ سے بلند ہو کر نفس راضیہ کے مدارج طے
نہیں کر سکتا۔ سچی بات یہ ہے کہ انسان نفس امارہ کے دلدل سے خا کی وجود کو
نکال کر ’خو دی محمود ‘ کی طرف کا روح پرورسفر، عشق کے بغیر نہیں کر سکتا۔
خودی کے مدارج :
نفس امارہ۔ نفس لوامہ۔ نفس ملحمہ۔ نفس مطمئنہ۔ نفس مرضیہ۔ نفس راضیہ۔
نفس امارہ: اسکا مطلب ہے ، دنیا پرستی، مادہ پرستی اور شیطان پرستی۔ تکبر،
غرور اور انکار حتیٰ کہ انسان کفر کے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔
نفس لوامہ: انسان جب مادہ پرستی ترک کرتا ہے اور رب کی رضا کی طرف سفر شروع
کرتا ہے۔ اپنے رب کی رضا کے لئے عبادات اور ریاضت شروع کرتا ہے۔ یہ کامیابی
کا راستہ ہے۔ یہ وہ مقام ہے جب ایک مسلمان کو اپنی اصلیت کا احساس ہو جا تا
ہے کہ اﷲ نے اسے خاکی وجود کے ساتھ ساتھ اسکے اندر ایک نفیس روح بھی عطاء
فرمائی ہے۔ اس روح کی پہچان اور اسکے تقاضے پورے کرنا لازم ہے۔ رب نے اسے
اپنی بندگی کے لئے پیدا کیا ہے۔ اور یہ کہ مادہ پرستی اور خدا کی مرضی کے
خلاف دنیا پرستی خسا رے کا سودا ہے۔
نفس ملحمہ: خودی اور خود آگاہی کے راستے پر سفر کرتے کرتے انسان اس مقام پر
آجاتا ہے جب رب کی طرف سے نیک اور پاکیزہ خیالات آنے لگتے ہیں۔ اﷲ تعا لیٰ
کی طرف سے رہنمائی ملتی ہے۔
نفس مطمئنہ: اس مقام پر انسان خدا کا مخاطب ہو جاتا ہے۔ وہ خدا کے قریب اور
شیطان سے کافی دور چلا جاتا ہے۔ انسان کو اطمنانِ قلب نصیب ہو جاتا ہے۔
دنیاوی آسائشیں اور دلکشیاں بے معنی ہو جاتی ہیں۔ وہ ہر حال میں اپنے رب کی
رضا پر خوش رہتا ہے۔ کوئی شکوہ شکایت نہیں رہتی۔
نفس راضیہ: بندگی اور خودی کا سفر جب مز ید آگے بڑھتا ہے تو اﷲ تعالیٰ
انسان سے راضی ہوجاتا ہے۔بندہ اپنی بندگی کے اس مقام پر اپنے رب کو راضی
کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ ایک مسلمان اپنی عبادات اور ریا ضتوں سے اپنے
محبوب رب کو خوش کر دیتا ہے۔ تب اﷲ اپنے بندے فرماتا ہے کہ تو میرا سچا
بندہ ہے۔ میں تیری بندگی سے راضی ہوا۔ اقبال کہتا ہے:
ع ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اﷲ کی بُرہان
نہ تاج و تخت میں ہے نہ لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مر دِ قلندر کی نگاہ میں ہے
نفس مرضیہ: خودی اور کامل بندگی کی بلندی کا یہ آخری مقام ہے خدا تعالیٰ سب
سے بڑا قدردان ہے۔ یہ وہ مقام ہے جب اﷲ پاک اپنے بندے سے اتنا خوش ہو جائے
کہ اپنے بندے کی مرضی کے مطابق فیصلے کرنے لگے۔ جب انسان مقتدر بن جائے۔ اس
مقام پر انسان اپنے تقدیر خود لکھوانے لگتا ہے۔ اﷲ اسکی ہر مراد پوری کرتا
ہے۔ ہر سفارش قبول کرتا ہے۔ اﷲ رعا لیٰ اپنی خلائق اسکے تابع کر دیتا ہے۔
خودی کے اس آخری درجے پر بندہ اپنے خالق کی اس قدردا نی کا حقداربن جاتا
ہے۔
علامہ اقبال نے اس مقام کی صحیح عکاسی کے لئے ہی وہ مشہور شعر کہا ہے:
خو دی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پو چھے بتا تیری رضا کیا ہے
اور
کوئی اندازہ کر سکتا ہے ُاسکی زورِ بازُو کا
نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
حضرت علامہ اقبال کا ’’فلسفہ خودی ‘‘انکی شاعری کا نچوڑ ہے۔یہ وہی فلسفہ ہے
جسے برصغیر کے کمزور اورغلام مسمانوں نے اپنا کر اپنے لئے ایک الگ آذاد وطن
پاکستان حاصل کیا۔اس فلسفے پر عمل پیرا ہو کر ہم آج بھی اپنی دنیاوی زندگی
کا رخ موڑ سکتے ہیں تا کہ فا نی انسان جو کہ اپنی اصلیت، اپنی روح کی
تقاضوں کو بھول چکا ہے وہ ایک اﷲ کی مرضی کے مطابق اپنی روح کی پرورش شروع
کرسکے۔
قرآن مجید کی سورۃ حشر میں اﷲ نے جس نوع کے انسانوں کو نا پسند فرمایا ہے ،
ہمیں چاہئے کہ ہم ایسے ا نسانوں کا راستہ چھوڑ دیں جنھوں نے رب کو بُھلا
دیا ہے۔ وہ خسارے اور مکمل تباہی کا راستہ ہے ۔ اقبال ہمیں تعلیم دیتا ہے
کہ فانی وجود کو اتنا وقت دو جتنا انسانی بدن نے ا س دنیا میں رہنا ہے اور
اپنی ـ’’ روح‘‘ کی پاکیزگی کو اِتنا وقت دیں جتنا اس نے وہاں اُس جہاں میں
اپنے خالق کے پاس رہنا ہے۔
اقبال کا ’’ فلسفہء خودی‘‘ اپنانے میں انسانیت کی فلاح ہے۔ اس میں شیطان کی
غلامی سے نجا ت ہے۔ سچ یہ ہے کہ مادہ پرستی اور نفس اَ مارہ کا راستہ چھوڑ
کر اقبال کے فلسفہء خود ی کو اپنا کر اور سورۃ حشر کے مطابق ہم اپنے رب کی
رضا کا راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔
’ اسرارِ خودی ‘ میں اقبال کہتا ہے:
اے مسلمان! تُو خودی کو نہ چھوڑ اور خود کو اس طرح بنالے، جسکا انجام بقاء
پر ہو۔
تیری چمک دمک خودی کی نور سے ہے ۔ اگر تُو اپنی خودی کو مضبوط کر لے، تُو
تجھے دوام حاصل ہو جائے۔ |