ملک کو درپیش خطرات،پانامہ کیس اور ہٹ دھرمی کی سیاست!
(Athar Massood Wani, Rawalpindi)
سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کی طرف سے
پاناما لیکس معاملہ کی تحقیقات کیلئے کمیشن کے قیام کے مطالبے سے منحرف
ہونے پر پاناما کیس کی سماعت خود کرنے کا فیصلہ سنا یا ہے۔سپریم کورٹ میں
پانامہ کیس کی از سر نو سماعت جنوری کے پہلے ہفتے میں شروع ہوگی۔چیف جسٹس
آف پاکستان نے کمیشن بنانے یا نہ بنانے کا معاملہ عدالت اور نئے آنے والے
چیف جسٹس پر چھوڑتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کی ہے۔عدالت نے آبزرویشن دی ہے
کہ کمیشن کا قیام ہمارا صوابدیدی اختیار ہے۔وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے
بچوں کی طرف سے کہا گیا ہے کہ انہیں اس بات پہ کوئی اعتراض نہیں ہے کہ
پانامہ کیس کی سماعت سپریم کورٹ کرے یا اس کے لئے کمیشن بنایا جائے۔لیکن
دوسری طرف عمران خان نے پانامہ کیس پر کمیشن بنانے کے اپنے پہلے مطالبے سے
'یو ٹرن' لیتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ ہی اس مقدمے کی سماعت کرے ۔عمران
خان کی طرف سے کہا انہی کی طرز سیاست کے مطابق کہا گیا کہ اگر سپریم کورٹ
نے کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا تو تحریک انصاف اس کا بائیکاٹ کرے گی۔تحریک
انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے دھمکی دی کہ عدالت خود اس کیس کا فیصلہ کرے،
اگر کمیشن بنا یا گیا تو اس کی کارروائی کا بائیکاٹ کریں گے۔کیس کی سماعت
کمیشن سے کرانے کی تجویز پر وزیر اعظم اور ان کے بچوں کے وکلا نے کہا کہ
عدالت کمیشن بنائے یا خود سماعت کرے انہیں ہرفیصلہ منظور ہو گا۔
کچھ ہی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ جب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے
گزشتہ الیکشن میں دھاندلی کے یکطرفہ الزامات لگاتے ہوئے ملک کو شدید عدم
استحکام سے دوچار کرنے کے کاروائیاں شروع کی تھیں۔عمران خان کی پوری کوشش
رہی کہ الیکشن میں دھاندلی کے بارے میں کسی متعلقہ ادارے کے بجائے مسلم
لیگ(ن) کی حکومت کو زور زبر دستی ختم کر ا دیا جائے۔لیکن ملک کو شدید نقصان
سے دوچار کرنے کے بعد عمران خان اپنے ہٹ دھرمی کی سیاست سے ہونے والی ہزیمت
کا احساس نہ کر سکے۔اور نہ ہی عمران خان اور ان کی ساتھیوں نے اس بات کا
کوئی احساس کیا کہ ہٹ دھرمی اور زور زبر دستی کے اس انداز سیاست سے عوام
میں تحریک انصاف ،عمران خان کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ۔طالبان کی طرح''
میں نہ مانوں'' کا انداز اختیار کرنے سے عمران خان نے خود کو ایک غیر ذمہ
دار ار،ہٹ دھرم اور آئین و قانون کو تسلیم نہ کرنے والے شخص کے طور پر پیش
کیا ۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارت سے آزادی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی
قراردادوں کے مطابق رائے شماری کے مطالبے پر کشمیریوں کی جدوجہد 154دنوں سے
سخت عوامی مزاحمت کے طور پر بھارت کے لئے بڑی پریشانی کا موجب ہے۔دنیا کی
توجہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں سے ہٹانے
کے لئے پاکستان کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو پاکستان
بھارت کشیدگی کی صورتحال میں چھپانے کی کوشش میں ہے۔پاکستان میں دہشت
گردی،بد امنی اور غیر یقینی پیدا کرنے کے لئے بھارت افغانستان کے علاوہ
بنگلہ دیش کو بھی استعمال کر رہا ہے۔بھارت کی کوشش ہے کہ جنوبی ایشیائی
ممالک میں پاکستان کو دبائو کی حالت میں لایا جائے۔دوسری طرف امریکہ اس بات
کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ بھارت اور افغانستان مل کر پاکستان کے خلاف
سنگین نوعیت کی کاروائیوں میں مصروف ہیں،پاکستان پر افغان حقانی گروپ کی
حمایت کے الزامات لگا رہا ہے۔یوں بھارت اطراف سے پاکستان کے خلاف اپنی
کاروائیوں میں اضافہ کرتے ہوئے مہلک اقدامات کے بھی درپے نظر آرہا ہے۔
پاکستان کو درپیش اس سنگین صورتحال کا پہلا تقاضہ ملک میں اتفاق رائے اور
اشتراک عمل کا قیام اور اس کو مضبوط بنانا ہے۔لیکن بندقسمتی سے ہمیں
پاکستان کی سیاست میں ہی ایسے عناصر نظر آ رہے ہیں جو عوام کو درپیش حقیقی
مسائل اور مصائب کے عنوانات کو نظر انداز کرتے ہوئے ملک میں اقتدار کی ایسی
جنگ لڑنے کے درپے ہیں ،جس جنگ کا کوئی اصول اور اخلاقیات نہیں ہوتی۔ایک طرف
عمران خان اور ان کے ساتھی سپریم کورٹ پر اعتماد کا اظہار کر تے ہیں اور
دوسری طرف سپریم کورٹ کو اپنی مرضی کے مطابق فیصلوں کا پابند بھی کرنے کے
خواہشمند ہیں۔اب پانامہ کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ،یہ بات سپریم
کورٹ کا ہی اختیار ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے پانامہ کیس کے حوالے سے کیا
فیصلہ کیا جاتا ہے،وہ خود اس کی سماعت کرتے ہیں یا اس کے لیئے کمیشن کے
قیام کو مناسب سمجھتے ہیں۔عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی ' ' میںنہ مانوں''
کی منفی سیاست سے ایک طرف عوامی مشکلات کے امور بری طرح نظر انداز ہو رہے
ہیں اور دوسری طرف ملک کو درپیش سنگین خطرات میں کمزور کرنے کی کوشش کی جار
ہی ہے۔ |
|