Say No to Corruption
(Anwar Graywal, Bahawalpur)
شام کی چائے عادت سی بن گئی ہے، عمل نہ کیا
جائے تو کمی سی محسوس ہوتی رہتی ہے۔ گزشتہ روز ابھی چائے کا کپ اٹھایا ہی
تھا کہ موبائل پر مواصلاتی پیغام کی ایک مُنّی سی گھنٹی بجی، عام طور پر تو
میں اس قسم کی گھنٹی پر فوری توجہ نہیں دیتا، اب چونکہ فراغت کے لمحات تھے،
اس لئے موبائل اٹھایا، تو ’’نیب‘‘ کا میسج تھا۔ ایک عام اور گمنام آدمی کو
نیب جیسے ادارے کا میسج آنا چھوٹی بات نہ تھی، فوراً اسے پڑھا گیا،یہ
اختصار نویسی کی خوبصورت مثال تھا، کوزے میں دریا بند کردیا گیا تھا۔ نہ وہ
جملہ وضاحت طلب تھا اور نہ ہی جواب طلب، بس ایک بات تھی جو کہ موبائل کے
مالک سے کردی گئی تھی۔ جملہ تھا، Say No to Corruption، چونکہ حکم نیب کی
طرف سے تھا اور نیب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جس طرح کسی ملزم پر دفعہ
302لگ جاتی ہے، تو وہ جیتے جی مر جاتا ہے، اسی طرح جس سرکاری ملازم کو نیب
لگ جائے تو اس کے سوتے بھی خشک ہو جاتے ہیں۔ اس کی جمع پونجی خطرے میں پڑ
جاتی ہے، اور عموماً لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ جو مال کھایا ہوتا ہے، وہ
تو واپس کروایا ہی جاتا ہے، ساتھ ہی اصل زر بھی جاتا رہتا ہے، یوں نیب کے
ہتھے چڑھنے والا آسمان سے جب زمین پر گرتا ہے، تو پھر اس کی ہڈی پسلی ایک
ہو جاتی ہے۔ نیب کے حکم کو ٹالنا ہمارے بس میں نہ تھا، کرپشن کو فوراً
Noکہہ کر نیب کا حکم بجالایا۔
میں نے تعمیلِ ارشاد تو چند لمحوں میں ہی کردیا، مگر فوراً بعد مجھے خیال
آیا کہ نیب نے مجھ پر ہی نظرِ کرم کیوں کی، میں تو سرکاری ملازم بھی نہیں،
اور جہاں تک میری معلومات ہیں، کسی نمایاں کرپشن میں میرا ہاتھ بھی نہیں،
تو میں نیب کی نگاہوں میں کیسے آگیا؟ ابتدا میں تو خوف کی ایک لہر سی بھی
میرے جسم میں دوڑ گئی، حواس بحال ہوئے تو اندازہ لگایا کہ نیب کا مخاطب صرف
میں اکیلا یا میرے جیسے چند لوگ ہی نہیں، یہ پیغام اُن تمام لوگوں تک
پہنچایا گیا ہے، جن کے ہاتھ میں یا جیب میں موبائل ہوتا ہے۔ بہرحال کرپشن
کو ’نو‘ کہنے اور چائے پینے کے بعد کسی کام کی غرض سے مجھے مارکیٹ جانا تھا،
کیا دیکھتا ہوں کہ سبز نمبر پلیٹ والی ایک تیز رفتار گاڑی’ زآں‘ کرتی ہوئی
آئی اور’ چاں‘ کرتی ہوئی رک گئی۔ ایک نوعمر لڑکا گاڑی چلا رہا تھا، گاڑی سے
دو ایک خواتین ایک دو بچے اترے اور سامنے والی جوتیوں کی فرنچائز پر چلے
گئے۔ کچھ ہی دیر میں بڑے بڑے شاپر اٹھائے نکلے اور گاڑی ’’زآں چاں‘‘ کرتی
نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ صرف یہی نہیں، سکولوں،ہوٹلوں اور مارکیٹوں کے باہر
اکثر سرکاری گاڑیاں چلتی پھرتی پائی جاتی ہیں، یقینا حکومت نے تو اِ ن
لوگوں کو سرکاری کام کی انجام دہی کے لئے یہ گاڑیاں دی ہوتی ہیں، مگر یہ
انہیں ذاتی گاڑی کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ صرف گاڑیاں ہی استعمال نہیں
کی جاتیں، دوستوں کو پٹرول بھی سرکاری پرچی پر ڈلوا کے دیا جاتا ہے۔
حکمران خود بھی راوی ہیں کہ تھانوں میں کرپشن کی حد ہے، مدعی سے بھی حصہ
لیا جاتا ہے اور ملزم سے بھی۔ عوام کی خواری کا سلسلہ بہت طویل ہو چکا ہے۔
حکومت کے ذمہ داران کو یہ بھی علم ہے کہ دفاتر میں وقت پر نہ آنا، سائل کو
مسلسل ٹرخانا، انہیں خوار کرنا اور پریشان کرنا بھی کرپشن کی مد میں ہی آتا
ہے۔ مگر اپنے دفاتر میں یہ کام بھی نہایت تسلسل اور ذمہ داری سے انجام دیا
جاتا ہے۔ اپنے ہاں ترقیاتی کاموں میں ٹھیکیداری نظام اور کمیشن مافیا کے
بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ واحد کرپشن ہے جس میں ہر کسی کا حصہ نہایت
ایمانداری سے ادا کیا جاتا ہے۔ سڑکیں ہوں یا عمارتیں ، تعمیر کے بعد بہت
جلد مرمت طلب ہو جاتی ہیں۔ ہسپتالوں میں ڈاکٹر ڈیوٹی نہیں دیتے اور مشینری
خراب ہے۔ سکولوں میں ٹیچر نہیں پڑھاتے۔ تحصیلدار اور پٹواری تو ضرب المثل
ہیں۔ ہر دفتر میں کوئی نہ کوئی صاحب ’کرپشن کنگ‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
واپڈا میں اوور بلنگ اور بجلی کی چوری اور بعد ازاں ملی بھگت سے کھاپے
کرپشن کی کہانی سناتے ہیں۔ اپنے معزز ممبرانِ اسمبلی حاضر نہیں ہوتے، ذمہ
داریاں نہیں نبھاتے، کورم پورا نہیں ہوتا ، مگر تنخواہ اور ٹی اے ڈی اے میں
کمی واقع نہیں ہوتی۔ اور حکمران خود مراعات اور پروٹوکول کی عیاشیوں میں
کانوں تک دھنسے ہوئے ہیں۔ ’نیب‘ نے میری طرح یقینا سب کو کرپشن کو Noکہنے
کا حکم دیا ہوگا، میں نے Noکہہ کے فرض نبھا دیا ہے، باقی دیکھیں فرض کب
نبھاتے ہیں۔ |
|