جئےللتا کا نام ہی کچھ ایسا تھا کہ کے
مخالفین ہکلاتے ہوئے کہتے جے جے للتا۔ ان کے حامی خوشی سے جھوم کر جئے جئے
للتاکہہ کر پکارتے یابصد احترام اماّ ں پر اکتفاء کرلیتے۔ تمل ناڈو کی
سیاست کا ایک اہم باب جئے للتا کےوفات سے بند ہوگیا غیر معمولی مقبولیت کی
حامل رہنما طویل علالت کے بعد پرلوک سدھا رگئیں۔ جئے للتا کا سب سے بڑا
سیاسی کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے اٹل جی کی سرکار ۱۳ ماہ بعد گرادی نیزتمل
ناڈو کے اندربی جے پی کے نفوذ کوروکنے میں کامیاب رہیں ۔جئے للتا کی زندگی
اس حقیقت کی غماز ہے کہ ہندوستانی عوام بالعموم اورتمل بالخصوصبدعنوانی،
رعونت ،شخصیت پرستی اور اخلاقی اقدار کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے ۔ انہوں
نے ملک کے سوچنے سمجھنے والوں کے سامنے یہ حقیقت بھی واضح کردی کہ انتخابی
سیاست کس طرح ڈی کے جیسی طاقتور نظریاتی تحریک کو کھوکھلا کردیا ہے۔
جئے للتا نےفلمی دنیا سے سیاست سے میدان میں قدم رکھا تھا۔ تمل فلموں کے
علاوہ انہوں نے ہندی فلم عزت میں بھی کام کیا ۔ سابق وزیراعلیٰ ایم جی رام
چندرن کے ساتھ ۲۸ کامیاب فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے ۔ایم جی آر کی
طبیعت جب ناساز ہوگئی تو انہوں نے پارٹی کی کمان جئے للتا کو سونپ کر انہیں
ایوانِ بالا کا رکن بنوادیا۔ ایم جی آر کے فوت ہوجانے پر وہ بیوہ کے لباس
میں تعزیت کیلئے آئیں اور ستی ہونے کی تیاری دکھلائی۔ ایم جی آر کی چالاک
بیوی جانکی نے ایم جی آر کو انا دورائی کے بغل میں دفنا دیا اور پھر دونوں
سوتنوں نے ایک دوسرے کے خلاف انتخاب لڑا ۔ عوام نے اندر والی پر باہر والی
کو ترجیح دی اس طرح جئےللتا سب کم عمر وزیر اعلیٰ بن گئیں۔ آگے چل کر وہ
سب سے امیر ترین وزیراعلیٰ بھی بنیں اور بالآخر جہان فانی کو خیر باد کہنے
کے بعد ایم جی آر کے بغل میں مدفون ہوئیں۔
اس امیر کبیر سیاستداں کا بچپن نہایت کسمپرسی کے عالم میں گذراوہ ۲سال کی
عمر میں یتیم ہوگئی تھیں۔ سوتیلی ماں نے باپ کی جائیداد پر قبضہ کرکے ان کی
ماں کو دانے دانے کا محتاج کردیا۔ اپنی اکلوتی بیٹی کو بہن کے پاس
بنگلورومیں چھوڑ کر مجبور ماں چنئی فلموں میں کام کرنے کیلئے چلی گئی اور
ہونہار بیٹی کو بھی فلموں میں آنا پڑا ۔ جئے للتا غریبوں کے دکھ درد سے
واقف تھیں۔ انہوں نے غرباء اور مساکین کو براہِ راست فائدہ پہنچانے والی
بہت ساری اسکیموں کو پیش کرکے خواتین کا دل جیت لیا اور اماّں کے لقب سے
نوازی گئیں لیکن وہ خود ایک نہایت پرتعیش زندگی گزارتی رہیں ۔ بدعنوانی کی
بے شمار دولت کو انہوں نےدھڑلے سےاستعمال کیا جب انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ نے ان
کے گھر پر چھاپہ مارا تو ان کے پاس ۱۰ ہزار ساڑیاں اور ۷۵۰ جوڑے جوتے تھے
لیکن عوام نے اسے اہمیت نہیں دی۔ ایم جی آر کے ساتھ تعلقات بھی عوام پر
اثر انداز نہیں ہوسکے اس سے پتہ چلتا کہ ملک کے رائے دہندگان ایمانداری اور
اخلاقیات کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے۔
جئے للتا نے جس رعونت کے ساتھ شخصیت پرستی کو فروغ دیا اس کی مثال آمریت
تو کجا بادشاہت میں بھی نظر نہیں آتی ۔ عوام کی رائے منتخب ہونے والے
نمائندوں کو ان کے آگے سربسجود ہوتے ہوئے ساری دنیا نے دیکھا ۔ جمہوریت
میں عوام کی حکمرانی کے دعویداروں کیلئے وہ تصاویر عبرت کاسامان ہیں ۔
بدعنوانی کے الزامات کے باعث انہیں دو بار اقتدار کی کرسی سے چھوڑنی پڑی۔
ان کے وفادار پنیر سیلوم نے کبھی بھی ان کی کرسی پر بیٹھنے کی جرأت نہیں
کی ۔ کرسی کو خالی رکھا جاتا اور ان کی تصویر کو سامنے رکھ کرنام نہادعوامی
نمائندے اپنا کام کاج کرتے تھے ۔ جئے للتاکے ولیعہد کی پہلی اور آخری صفت
کامل تابعداری تھی۔ عوام کی فلاح بہبود کیلئے اس کا مناسب ہونا ثانوی حیثیت
رکھتا تھا۔
وزیراعظم نریندر مودی بھی جئے للتا کے نقش قدم پر گامزن ہیں ۔ یہ کہا جاتا
تھا کہ حکومت کی نکیل ناگپور میں ہے لیکن ہر اہم عہدے کیلئے مناسب آدمی
ناگپور کے بجائے گجرات سے آتاہے۔ پارٹی صدر کے بعد آر بی آئی چیف اور اب
سی بی آئی سربراہ کی ذمہ داری بھی گجرات کیڈر کےبھروسہ منداور وفادارراکیش
استھانہ کو سونپ دی گئی ہے۔اس کیلئے سابق سربراہ سنہا کی سبکدوشی سے دو دن
قبل ان کے نائب آر کے دتاّ کا وزارت داخلہ میں تبادلہ کیا گیا تاکہ
استھانہ کیلئے راستہ صاف کیا جاسکے ۔ ضابطے کے مطابق اس عہدے کا انتخاب
وزیراعظم ،حزب اختلاف کے رہنما اور چیف جسٹس کی کمیٹی کرتی ہے لیکن اس کی
ضرورت بھی نہیں محسوس کی گئی ۔ یعنی چنئی سے دہلی تک جمہوریت کے پردے میں
آمریت کارفرما ہے۔
دنیا بھرکے حکمراں انتقال کرتے ہیں لیکن بادشاہوں کی موت پر بھی ایسی
کشیدگی نہیں دیکھی جاتی ۔صرف ۵ لوگوں کو جئے للتا کے کمرے میں جانے کی
اجازت تھی جن میں ان کی بھتیجی تک شامل نہیں تھی ۔ اپولو اسپتال کے کمپیوٹر
میں جئے للتا کا ریکارڈ نہیں تھا ۔۲یا۳ اہلکاروں کو کمپیوٹر کے اندر اسے
دیکھنے کی کوشش کرنے کے الزام میں نکال دیا گیا ۔ ۴۷ لوگوں کے خلاف موت کی
افواہ پھیلانے کا مقدمہ درج ہوا اور ۸ گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ معالجین کو
موبائل کے ساتھ ان کے کمرے میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ آخری دن ایوان
پارلیمان میں ڈپٹی اسپیکر سمیت اناڈی ایم کے کا کوئی رکن موجود نہیں تھا۔
سارے ارکان اسمبلی بھی پارٹی کے دفتر میں جمع تھے۔ اسکولوں کو چھٹی دے دی
گئی کئی بنک وقت سے پہلےبند کردیئے گئے ۔ تحفظ وسلامتی کے پیش نظرنجی دفاتر
میں تک عملہ کو گھر جانے اجازت دے دی گئی ۔ دہلی کے اندر تو ایک دن کا مگر
تمل ناڈو میں ایک ہفتے کے سوگ کا اعلان کیا گیا اور تعلیمی اداروں میں ۳ دن
کی تعطیل کا اعلان کردیا گیا۔ ایساکچھ تو بادشاہت میں بھی نہیں ہوتا ۔
ایک خبر کے مطابق جب جئے للتا کی حالت نازک ہوگئی تو پولس کی چھٹیاں منسوخ
کردی گئی تھیں اب اگلے حکم تک انہیں گھر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ سو نفری
۱۰ تا ۱۵ ریپڈ ایکشن فورس کے دستوں کو دہلی میں تیار رکھا گیا تھا کہ حسبِ
ضرورت چنئی پہنچایا جاسکے۔کرناٹک جانے والی ۴۷۰ بسیں منسوخ کردی گئیں ۔
اسپتال کے باہر جمع عوام کےجم غفیر سے خدشہ تھا کہ موت کی خبر پاتے ہی وہ
بے قابو ہوجائیگا اور سرکاری اثاثوں نیز اسپتال کو نقصان پہنچائے گا۔ یہ
اندیشہ اس لئے تھا ایم جی آر کی موت کے بعد دو دنوں کیلئے چنئی بالکل
مفلوج ہوکر رہ گیا تھا دوکانیں بند ،ضروریات زندگی کا فقدان، مسافر ریلوے
اسٹیشنوں اور ہوائی اڈے پر پریشان یہاں تک کہ نائب صد ایس ڈی شرما بھی ۳
گھنٹوں تک ہوائی اڈے پر پھنسے رہے۔
ایم جی آر کی موت کے بعد پورے صوبے سے ۴۰ لاکھ لوگ جنازے میں شرکت کیلئے
چنئی آئے تھے اور باوجود یہ کہ تقریباً چار سالوں سے ان کی طبیعت ناساز چل
رہی تھی لوگ یہ کہتے سنے گئے تھے کہ ہائے ہمارا رہنما ہمیں بتائے بغیرکیوں
چلا گیا۔ ایم جی آر کی لاش کوتدفین سے قبل ۲۹ گھنٹوں تک درشن کیلئے رکھا
گیا تھا ۔ان کے مداحوں نے شہر میں انارکی پھیلا دی۔ ہوٹلوں پرسنگ زنی
اوربسوں کی توڑناجلانا عام ہوگیا۔ دلیل یہ تھی جب ایم جی آر نہیں رہے تو
زندہ رہنے کا کیا فائدہ؟ ایم جی آر کے چلے جانے کے بعد اس شہر کی کیا
ضرورت۔کرونا ندھی کے پتلوں کوایسےبگاڑا گیا گویا وہ قاتل ہیں ۔ اس بار خوش
قسمتی سے ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا لیکن ان کی حیات میں دوبار غیر
معمولی ہیجان کا برپا ہوچکا ہے اس لئے پولس چوکنا تھی۔
۱۹۹۲ میں جئے للتا نے کومبکونم کے مہاکام تہوار میں حصہ لینے کا فیصلہ
کیا۔ اس کو جنوبی ہندوستان کا کمبھ میلا تصور کیا جاتا ہے ۔ جئے للتا کو اس
میں روایت کے مطابق مقدس غسل لینا تھا ۔ عوام کو جب اس کی اطلاع ملی تو
ایسی بڑی بھیڑ امڈی کے وہاں ہونے والی بھگدڑ میں ۵۰ جانیں تلف ہوئی نیز
سیکڑوں لوگ زخمی ہوئے۔ اسی سال موسم گرما میں انتخابی مہم چلی جس میں
خطابات عام کا اہتمام دوپہر کے وقت کیا گیا تاکہ جئے للتا ہیلی کاپٹر کے
ذریعہ شرکت کرسکیں ۔ ان جلسوں میں شریک ہونے والے کئی لوگ بیمار ہوئے اور
کچھ لوگوں کی موت بھی ہوئی جس کے بعد عدالت کو مداخلت کرنی پڑی ۔ یہ کیسی
جنونی جمہوریت ہے جس میں لوگ اپنے رہنما کو اقتدار پر فائز کرنے کیلئے اپنی
جان کی پرواہ نہیں کرتے؟
آج کل ملک کی عوام کا ایک اہم کام لائن میں لگ کر روپیہ نکالنا ہے۔ ایسے
کئی واقعات ہوئے کہ جن میں لائن کے اندر کھڑے آدمی کو دل کا دورہ پڑا اور
اس نے دم توڑ دیا لیکن اس کی ہمدردی میں کوئی لائن چھوڑ کر باہر نہیں آیا۔
بھٹنڈا کی ایک شادی میں خوشی سے چلائی جانے والی ایک گولی سے ایک رقاصہ کی
موت ہوگئی۔ اس کی لاش کو گھسیٹ کے اسٹیج سے نیچے لایا گیا۔ وہاں موجود جم
غفیر میں سے کسی کے دل میں اس مظلوم حاملہ عورت کے تئیں ہمدردی نہیں آئی ۔
پولس نے بھی کمال بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان سیاسی مجرمین میں سے کسی
گرفتار کرنے کی زحمت نہیں کی اس کے برعکس بھوکے پیاسے لوگ اپنے رہنما کی
لاش کی جھلک دیکھنے کیلئے گھنٹوں کھڑے رہے اور پولس کا پہرہ توڑنے سے بھی
پس و پیش نہیں کیا۔ جئے للتا کی موت کی خبر سن کر ۳ لوگوں کا دل کا دورہ
پڑا اورفوت ہوئے نیز دو افرادنے خودکشی کی ۔ اس جنون کو کیا نام دیا جائے؟
تمل ناڈو کی لسانی شدت پسندی اور علاقائیت بہت مشہور ہے لیکن یہ بھی حسن
اتفاق ہے کہ کیرالہ کے رہنے والے ایم جی رامچندرن کی فلموں پر عوام ایسے
فدا ہوئے کہ اپنی ریاست کا بے تاج بادشاہ بنادیا۔ کرناٹک اور تمل ناڈو کے
درمیان پانی کا تنازع کئی مرتبہ احتجاج ، مظاہرے اور فسادات برپا کرچکا ہے
۔ تمل عوام پانی کے مسئلہ پر تو کنڑ لوگوں کے خون کے پیاسے ہیں مگر میسور
کی جئے للتا کو انہو ں نے پانچ مرتبہ اپنا سربراہ بنایا۔ مہاراشٹر اور
کرناٹک کے سرحد پر واقع بیلگام کے رہنے والے مراٹھی رجنی کانت کو بھی
جئےللتا کی مانندتمل ناڈو میں پوجا جاتا ہے ۔ غیر تملوں کے دشمن اس ریاست
کے لوگ جب کسی کے سحر میں گرفتار ہوتے ہیں توعلاقائیت کا فرق و امتیاز
بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔
ہندوستان میں براہمنی فکر و نظر کے خلاف سب سے زبردست تحریک ای وی راماسامی
پیری یار نامی مفکر نے چلائی اور تمل براہمنوں کا ناطقہ بند کردیا۔ پیری
یار کو صف اول کے دلت مفکرین مہاتما پھلے اور بابا صاحب امبیڈکر کی صف میں
شمار کیا جاتا ہے۔ راماسامی کا خیال تھا کہ برصغیرہند میں جو افراد اور
تحریکیں سماجی برائیوں کی بیخ کنی کرناچاہتی ہیں انہیں اس مقصد کیلئے مکمل
یکسوئی اور زبردست ایثار و قربانی کے ساتھ بغیر مصالحت کے اور انحراف کے
آگے بڑھنا چاہئے۔ اگر انہوں نے اقتدار کے حصول کی خاطر انتخاب لڑنا شروع
کردیا وہ جذبۂ عمل اور مقصد کے شعور سے محروم ہوجائیں گے۔ پیری یار کے دست
راست انادورائی نے ان سےاختلاف کیا اور انتخاب لڑنے کیلئے ۱۹۴۹ میں ڈی ایم
کے قائم کی ۔ اس علاقائی پارٹی کامراج اور راجہ جی جیسے قومی رہنماوں والی
کانگریس کا صفایہ کردیا ۔ انادورائی کے موت کے بعد ڈی ایم کے تقسیم ہوگئی
اور ان کے نام پر ایم جی آر نے اے آئی ڈی ایم کے بنائی۔ اس طرح جن
براہمنی اقدار کے خلاف ڈی کے اور ڈی ایم کے بنی تھی اب اس کی ایک شاخ کا
سربراہ نائربن گیااور اس کی ولیعہد براہمن نکلی ۔
ایم جی آر کی موت کے بعد کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ نظریات سے خالی شخصیت
پرستی پر قائم یہ جماعت اپنے آپ ختم ہوجائیگی۔ اس کی ایک وجہ اے آئی ڈی
ایم کے کی داخلی چپقلش اور تقسیم بھی تھی ۔ اس وقت تک تمل ناڈو کی سیاست
میں کانگریس کا اثر و رسوخ باقی تھا۔ اسمبلی میں جہاں اے آئی ڈی ایم کے
۱۳۰ ارکان تھے کانگریس کے ارکان کی تعداد ۶۵ تھی اور ڈی ایم کے صرف ۱۰ پر
تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ایم جی آر کی جگہ جئے للتا نے لے لی اورابپارٹی
میں ان کی جگہ چناّما یعنی ششی کلا نٹراجن لینے جارہی ہیں ۔وقت کے ساتھ
دراوڑ ی سیاست ابن الوقتی کا شکار ہوکر رہنماوں کی نجی ملکیت بن گئی ۔ یہ
حیرت انگیز بات ہے جئے للتا کی موت پر کسی نے ڈی کے کے اصول و نظریات تو
کجا پیری یار یا انا دورائی تک کو تک یاد نہیں کیا۔ جئے للتا کے ساتھ پیری
یار کی تحریک کا بھی جنازہ اٹھ گیا اور ان کےانقلابی نظریات کی بھی تدفین
عمل میں آگئی۔انتخاب کے زہر نے انقلاب لانے والوں کو ایسے تبدیل کیا کہ
کسی اور کو تو کیا خود انہیں بھی پتہ نہ چلا ۔ اس طرح عظیم مفکرپیری یار کی
پیشن گوئی حرف بہ حرف درست ثابت ہو گئی ۔
خزاں کی رت میں بہاروں کی آس تھی لیکن
یہ پت جھڑوں کے سلاسل نہ ٹوٹنے پائے
کچھ اس طرح سے پڑیانتخاب کی زنجیر
کہ لحظہ بھر کے لیے بھی نہ چھوٹنے پائے
تمل ناڈو میں عرصۂ دراز سے علاقائی حریفوں ڈی ایم کے اور انا ڈی ایم کے کی
حکومت ادل بدل کر چلتی تھی ۔ قومی جماعتیں صوبے میں حمایت کرتیں اور مرکز
حمایت لیتی تھیں۔ ۱۹۹۶ میں جب اٹل جی نے این ڈی اے کی مخلوط حکومت قائم کی
تو جئے للتا ان کے ساتھ تھیں ۔ اس زمانے میں تمل ناڈو کے رہنے والے جنتادل
رہنما سبرامنیم سوامی نے جئے للتا کے خلاف حساب سے زیادہ اثاثے کا مقدمہ
ٹھونک دیا۔ جئے للتا کو یقین تھا مرکزی حکومت ان کو بچا لے گی لیکن ایسا
نہیں ہوا۔ ۱۹۹۷ میں جیسے ہی جئے للتا کو گرفتار کیا گیا ان کی جماعت نے
مرکزی حکومت کی حمایت واپس لے لی اور حکومت گرگئی۔ اٹل جی نے کارگل کی
تصاویر دکھلا دکھلا کر دوبارہ انتخاب جیت لیا۔ جئے للتا کی گرفتاری کا انا
ڈی ایم کے کو یہ فائدہ ملا کہ عوامی ہمدردی ان کے ساتھ ہوگئی اور انہوں نے
بڑی آسانی سے ۲۰۰۰ کا اسمبلی انتخاب جیت لیا۔ اس کے بعد انہوں نے وزارت
اعلیٰ کے عہدے حلف لیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے سبب انہیں اقتدار چھوڑنا
پڑا مگر پھر ان کی سزا موقوف ہوگئی اور وہ دوبارہ وزیراعلیٰ بن گئیں۔
یہ حسنِ اتفاق ہے اپریل ۲۰۱۴ میں نریندر مودی نے اپنی قدیم دوستی کا
واسطہ دے کر جئے للتا کو اپنے ساتھ آنے کی دعوت دی لیکن جئے للتا نے انکار
کردیا اور ایوان زیریں میں زبردست کامیابی درج کراتے ہوئے ۳۹ میں سے ۳۷
حلقۂ انتخاب میں کامیابی درج کرائی۔۔مرکز میں حکومت سازی کے بعد وزیراعظم
نریندر مودی نے انتقام کے جذبے سے ستمبر ۲۰۱۴ میں پھر ایک بارجئے للتا کو
جیل بھیج دیا۔ اس بار سبرامنیم بی جے پی کے فعال رہنما تھے۔ جئے للتا کو
مجرم قراردیا گیا۔ انہیں ۴ سال قید کے ساتھ ۱۰۰ کروڈ جرمانہ کی سزا سنائی
گئی۔ اس کے نتیجے میں جئے للتا کے تئیں پھر ایک بار زبردست ہمدردی کی لہر
چلی اور۲۰۱۶ کے اندر ان کی جماعت کو تمل ناڈو کی روایت کے خلاف صوبائی
انتخاب میں زبردست کامیابی ملی ۔
جئے للتا کے بعد بی جے پی تمل ناڈو میں پرامید تو ہے لیکن کیا تمل عوام
اماّں کے ساتھ اس کا یہ ناروا سلوک بہ آسانی بھول جائیں گے؟اپنی آخری
کامیابی سے جئے للتا پوری طرح مستفید نہیں ہوسکیں ۔ جیل میں قیام نے ان کی
صحت کو تباہ کردیا۔ستمبر کے اواخر میں وہ بیمار ہوکر اسپتال میں داخل کیا
ہوئیں کہ وہاں سے زندہ نہ لوٹ سکیں۔ ۷۵ دنوں کی علالت کے بعد ان کا انتقال
ہوگیا ۔ کامیابی کے افق پر ستاروں کی مانند جگمگانے والی جئے للتا نے سمی
گریوال سےایک انٹرویو میں اپنے دل درد یوں بیان کیا کہ غیر مشروط محبت
خیالی ہے مجھے کبھی نہیں ملی۔ بچپن ماں کی نذر ہواجوانی ایم جی آر کی مرضی
کے مطابق گذری اب اپنی مرضی سے جینے کی کوشش کررہی ہوں ۔ مگر وقت نے ساتھ
نہیں دیا بقول شاعر؎
زندگی ہے دوسروں کے حکم پر مرنے کا جشن
موت ہے، اپنی رضامندی سے مر جانے کا نام |