قدرتی آفات پر امریکی اور پاکستانی سرمایہ دار حکمرانوں کا ایک جیسا ردعمل

’’ملک کا ایک حصہ قدرتی آفات کی وجہ سے سخت تباہی سے دوچار تھا جبکہ جناب صدر نے، جو چھٹیوں کی وجہ سے ملک سے باہر تھے، سخت تنقید کے باوجود واپس آنے سے انکار کردیا۔ کچھ دن کی تاخیر کے بعد جب وہ واپس آئے تو ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں صدرِ مملکت نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ مصیبت کی اِس گھڑی میں لوگ سیاست نہیں کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک ایسی قدرتی آفت ہے کہ جس کا سامنا ہمارے ملک نے شاید پہلے کبھی نہیں کیا۔‘‘

آپ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ میں شاید پاکستانی صدر جناب آصف علی زرداری پر کی جانے والی تنقید کا ذکر کررہا ہوں۔ یا پھر ایسے ہی کسی اور ترقی پذیر ملک کے کرپٹ صدر کا ذکر کررہا ہوں۔ نہیں جناب والا مندرجہ بالا پیراگراف معروف امریکی جریدے the new york times کی 2ستمبر2005کی اشاعت سے لیا گیا ہے۔ اور اِس میں کسی ترقی پذیر ملک کے صدر کا ذکر نہیں بلکہ دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ کے صدر جارج ڈبلیو بش کا ہے، جو امریکہ میں آنے والے بدترین طوفان کیٹرینا کے موقع پر سرکاری چھٹیوں پر تھے اور باوجود مطالبے پر اپنی چھٹیوں سے واپس آنے سے انکاری تھے۔

اِسی طرح امریکہ کےNational Hurricane Center نے طوفان آنے سے تین دن قبل ہی بدترین طوفان آنے کی پشین گوئی کردی تھی تاہم امریکی حکومت یہ بتانے سے قاصر رہی کہ آیا انہوں نے حالات سے نبٹنے کے لیے ایمرجنسی جیسے اقدامات کیوں نہ کئے۔ بلکہ طوفان زدہ علاقوں میں حکومتی اقدامات نہایت سست روی سے جاری تھے اور جو کچھ کیا جاسکتا تھا وہ نہیں کیا گیا جس کا ثبوت شکاگو کے میئر Richard Daleyکے بیان سے ملتا ہے جو Chicago Tribuneکے 2ستمبر 2005کی اشاعت میں شائع ہوا اُس کا کہنا تھا کہ ’’ میں اُس وقت نہایت حیرت زدہ رہ گیا جب وفاقی حکومت نے نہایت ہی کم مدد کا تقاضا کیا حالانکہ ہم اُس سے کئی گنا زیادہ مدد کرنے کو تیار تھے ‘‘

جہاں تک طوفان زدہ لوگوں کے لیے ریلیف کا معاملہ تھا تو بُش نے بھی سابقہ صدر کلنٹن کے ساتھ مل کر ’’بش کلنٹن کیٹرینا فنڈ‘‘قائم کیا تھا۔ لیکن اِس فنڈ کا کیسا استعمال ہوا۔ اِس کو جاننے کے لیے ایک مثال ہی کافی ہے ۔ بُش کی ماں باربرا بش نے بھی اِس ریلیف فنڈ میں کچھ رقم جمع کروائی تھی جس کا زوروشور سے اعلان بھی کیا گیا بعد میں پتہ چلا کہ اِس فنڈ میں سے باربرا بش کے دوسرے بیٹے Neil Bushکی سوفٹ ویئر کمپنی کو ایک بھاری ٹھیکہ دے دیا گیا۔ یعنی کہہ سکتے ہیں کہ گھر کا پیسہ گھر والوں کے ہی کام آگیا۔ اِسی طرح حکومتی سطح پر فنڈز میں خرد برد کے کئی واقعات سامنے آئے۔

امریکہ کی جس ریاست میں یہ طوفان آیا تھا وہاں کے گورنر نے یہ بات میڈیا کے سامنے بیان کی کہ طوفان زدہ علاقوں میں امدادی کاروائیوں کے لیے نیشنل گارڈز کی شدید کمی کا سامنا تھا جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ متاثر ہوئے۔ اِس کی اصل وجہ یہ تھی ریاست کے نیشنل گارڈز میں سے 40فیصد اُس وقت عراق جنگ میں تعینات تھے، یعنی مقامی آفات سے نبٹنے سے زیادہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی خاطر جنگ زیادہ عزیز تھی۔
چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ 2005 میں کیٹرینا Katrinaکے طوفان نے اس بات کو ظاہر کر دیا کہ حکومت کو لوگوں کا کوئی خیال نہیں تھا۔ وہاں قیادت کا فقدان نظر آیا اور خاص طور پر نیو آرلینز(New Orleans) میں حکومت نے امداد پہنچانے میں تاخیر کی۔ لوگ حکمرانوں کی مدد کے انتظار میں پیاس اور تھکاوٹ سے مر گئے۔ لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا، اور چوریاں اور حکومت کے ساتھ تصادم شروع ہو گیا، جس کے نتیجے میں گولیاں چلنے کے کئی واقعات رونما ہوئے۔ اور 2 ستمبر 2005 کو ہونے والے ABC Newsکے ایک سروے نے ظاہر کیا کہ لوگوں کی اکثریت کے نزدیک بحران کے سنگین ہونے کی ذمہ دار حکومت ہے۔

یہ اتفاق کی بات ہے یا پھر کوئی اور معاملہ تاہم پاکستان میں جب سیلاب کی تباہ کاریاں سامنے آئیں تو پاکستان کے حکمرانوں کا ردعمل بھی ہوبہو امریکہ کے حکمرانوں جیسا ہی تھا۔ ہم نے دیکھا کہ صدر زرداری نے اپنے یورپ کے دورے کو کینسل کرنے سے انکار کردیا۔ حالانکہ ملک کے طول وعرض میں اِس پر تنقید جاری تھی اور جب اُن کے پاس کوئی جواب نہ بن پایا تو اُنہوں نے بھی اپنے انٹرویوز میں یہی کہا کہ لوگوں کو اِس مسئلے پر سیاست نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ملک نے سیلاب کی ایسی تباہ کاریاں پہلے کبھی نہیں دیکھیں۔

حکومت پاکستان نے بھی ممکنہ سیلاب کی پشین گوئی پر کوئی تیاری نہیں کی بلکہ وزیراعظم کی طرف سے کابینہ کا ہنگامی اجلاس بھی اُس وقت طلب کیا گیا جب سیلاب سینکڑوں دیہاتوں اور شہروں کو روندتا ہوا کافی آگے بڑھ چکا تھا۔ حکومتی امداد کا یہ حال ہے کہ میڈیا پر جو رپورٹ دیکھیں اُس میں لوگ حکومتی اقدامات پر سخت تنقید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

جہاں تک ریلیف فنڈ کی بات ہے تو حکومت اور اپوزیشن دونوں نے یہ محسوس کیا کہ لوگ کرپشن کی وجہ سے اُنہیں فنڈ دینے سے گریزاں ہیں جس کی وجہ سے ہی میاں نواز شریف کو یہ ضرورت پڑ گئی کہ ایک مشترکہ فنڈ بنایا جائے جس میں کچھ ’’صاف‘‘ لوگوں کو بھی ڈالا جائے تاکہ لوگ اُن پر اعتبار کریں اور انہیں فنڈ دیں۔ تاہم یہ بات بڑی شدومد سے محسوس کی جا سکتی ہے کہ لوگ نہ تو حکومت پر اعتبار کرنے کو تیار ہیں اور نہ ہی نام نہاد اپوزیشن پر کیونکہ انہیں دونوں اطراف کی کرپشن کا اندازہ ہے۔ وہ جانتے ہیں پہلے بھی زلزلہ زدگان کے نام پر اکٹھی کی گئی امداد کے کئی ٹرک ضلعی اور یونین لیول کے عہدیداروں کے گھروں میں دیکھے جاچکے ہیں۔

اور جہاں تک امدادی کاموں کا تعلق ہے تو کئی ہفتوں تک پورے خیبر پختونخوہ کے تین کشتیاں اور دو کروڑ متاثرین کے لیے فقط 14ہزار فوجی جوان متحرک کئے گئے جس کی وجہ سے امدادی کاروائیاں نہایت سست روی سے جاری ہیں جبکہ امریکہ کی خاطر نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے صرف قبائلی علاقوں میں پاک فوج کے ڈیڑھ لاکھ کے قریب فوجی تعینات کئے گئے ہیں اور جب ISPR کے ترجمان سے اِن فوجیوں کے متعلق سوال کیا گیا تو اُنہوں نے کہا کہ امدادی کاموں کے لیے مزید فوجیوں کی ضرورت نہیں ہے مطلب یہ کہ مقامی آفات سے نبٹنے سے زیادہ امریکی مفادات زیادہ عزیز ہیں جبکہ دوسری طرف یہ خبریں بھی اخبارات کی زینت بن چکی ہیں کہ سیلاب زدگان کی مدد کے نام پر ایک ہزار سے زائد امریکی فوجی پاکستان میں داخل ہو چکے ہیں۔

دونوں ملکوں کی حکومتوں کے درمیان یہ مماثلت کوئی اتفاقی نہیں بلکہ اِس کی وجہ دونوں ملکوں میں نافذ سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ جمہوریت ہی ہے جو حکمران ٹولے کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے قوانین بنائیں۔ چنانچہ ایسے نظام کے اندر سرمایہ دار سرمائے کے زور پر اقتدار کی کرسی تک پہنچ جاتا ہے اور اپنے مفادات کو محفوظ بنانے کے لیے قانون سازی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام سرمایہ دارانہ نظام کے حامل ملکوں میں حکمران ٹولے کو ایک آئینی تحفظ حاصل ہوتا ہے چنانچہ اِسی آئینی تحفظ کی وجہ سے آپ اِن سرمایہ دار حکمرانوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کرسکتے۔ چنانچہ ایسی آفت کے موقع پر اِنہیں اِس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ ہزاروں جانوں کے ضیاع اور کروڑوں لوگوں کی بربادی پر اِن کی کوئی بازپرس ہوگی کیونکہ جس آئین کے تحت باز پرس ہونی ہے وہ تو اِنہی سرمایہ داروں کا بنایا ہوا ہوتا ہے۔

اِس سرمایہ دارانہ نظام کا واحد متبادل اسلام کا نظامِ خلافت ہے جو کسی حکمران کو کوئی خاص رعایت نہیں دیتا۔ یہی وہ واحد نظام ہے جو حکمرانوں کی کوتاہی پر سخت قسم کی پکڑ کا میکنزم دیتا ہے،اور یہ نظام خلافت ہی تھا کہ جس نے حضرت عمرؓ جیسی قیادت پیدا کی ، جواپنے حکومتی معاملات میں نہایت فکرمند رہتے تھے اور جانتے تھے کہ اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا پیاسا مرگیا تو اُس کا ذمہ دار عمرؓ ہوگا۔
Saleem Sethi
About the Author: Saleem Sethi Read More Articles by Saleem Sethi: 9 Articles with 8241 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.