جب قومیں جمہوریت سے مایوس ہوجائیں......؟؟؟؟

کیا سیاستدان ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے بیان کو سمجھ گئے ہیں..؟
سیاستدان طیش میں نہ آئیں......؟؟حقیقت کا ادراک کریں !!....

یہ حقیقت ہے کہ جب قومیں ایسی جمہوریت سے مایوس ہوجائیں جس سے متعلق شاعر بشیر فاروق کہتے ہیں کہ:-
سلطانی جمہور کا آیا ہے زمانہ جو کار نظر آئے نئی اُس کو چُرالو
ٹوکے کوئی شخص اگر راہزنی سے اُس شخص کو پستول کی گولی سے اُڑا دو

تو ایسے میں کوئی خواہ کتنا ہی بڑا جمہوریت کا علمبردار کیوں نہ ہو وہ بھی زبان سے نہیں تو دل میں ضرور ایسی جمہوریت کو کوس رہا ہوتا ہے جس میں قانون اور ضابطوں کی دھجیاں بکھیری جارہی ہوتی ہیں اور وہی کچھ اِس جمہوریت میں ہو رہا ہوتا ہے جس کی جانب شاعر نے مندرجہ بالا سطور میں اپنے شعر میں ایک معاشرتی بُرائی کا تذکرہ کیا ہے تو ایسے میں یقیناً ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ ایسی جمہوریت سے جان چھوٹے اور جرنیل ہی ملک پر مسلط ہوجائے جو ایسے جمہوریت پسندوں کو اپنے طریقے سے چلائے جیسے ہمارے ملک میں سابقہ چار جرنیلوں نے اپنے اپنے طور طریقوں سے اپنی حکمرانی کی اور پھر جیسے تیسے چلے بھی گئے یہ اور بات ہے کہ ملک میں آنے والے گزشتہ چار جرنیلوں کی طرزِ حکمرانی سے ملک کو کن نقصانات کا سامنا کرنا پڑا وہ ایک الگ مسئلہ ہے یہاں مجھے اِس بحث میں جانے کی قطعاََ کوئی ضرورت نہیں بلکہ اِس موقع پر میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ جب جب ہمارے یہاں کرپٹ سیاستدانوں، جاگیرداروں اور لُٹیروں نے جمہوری حکومت کے سہانے خوابوں کے سہارے جمہوریت کی دیوی کی آڑ میں اِس کا دامن او ر پلّو تھامے عوام پر اپنی مرضی مسلط کرنی چاہی اور عوام کے حقوق کھلم کھلا غضب کر کے یہ جمہوری حکومتیں عوامی توقعات پر پوری نہیں اتریں تو تب کسی نہ کسی جرنیل نے ملک میں مارشل لا جیسے اقدام کرکے جمہوری حکومت کا دھڑن تختہ کردیا اور ملک پر قابض ہوگیا اور آج بھی ملک میں قائم جمہوری حکومت کے اقدامات کچھ ایسے بھی تسلی بخش نہیں کہ عوام اِس جمہوری حکومت کے حکمرانوں!سیاستدانوں اور اِس کے کرتا دھرتاؤں سے مطمئن ہے۔ میں یہاں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ میرا تعلق نہ تو کسی سیاسی ومذہبی جماعت سے ہے اور نہ ہی کسی گروہ سے میں صرف ایک محب وطن پاکستانی ہوں اور ہر ملکی معاملے پر پاکستانی بن کر سوچتا اور لکھتا ہوں اور میں ایک ایسا پاکستانی ہوں جس کو اپنی افواج پر فخر ہے اُس افواج پر جس نے ہر مشکل وقت میں ملک کی حفاظت اور اِس کی ترقی اور خوشحالی اور اپنے عوام کی بقا و سالمیت کے لئے ہر وہ قدم اٹھایا ہے جس کو اِس نے بہتر جانا اور سمجھا یہ اور بات ہے کہ فوج کو اپنے ہر اچھے اقدام کے پیچھے سیاستدانوں کی جانب سے ہر دور میں تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا ہے مگر اِس کے باوجود بھی آج یہ حقیقت ہے کہ ملک کے عوام آج بھی اِس مشکل گھڑی میں فوج کی جانب ہی دیکھ رہے ہیں اور یہ اَب تک فوج کے کردار سے خوش ہیں اور اُمید رکھتے ہیں کہ فوج عوام کو ملک کی موجودہ درپیش گھمبیر سیاسی، مذہبی و سماجی اور سیلاب جیسی خطرناک صورت حال سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔

اَب اگر ایسے میں گزشتہ دنوں ملک کے محب وطن نوجوان لیڈر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے لال قلعہ گراؤنڈ عزیزآباد کراچی میں ایم کیو ایم کے جنرل ورکر اجلاس میں ٹیلیفون پر خطاب کے دوران ملک اور عوام کو درپیش جن اہم مسائل کا برملا اظہار کیا ہے میں اِن نکات کو یہاں بیان کرتے ہوئے آگے بڑھوں گا تاکہ وہ بات واضح ہوسکے جو میں مندرجہ ذیل سطور میں اپنے حکمرانوں، سیاستدانوں اور عوام سے کہنا اور اِنہیں سمجھانا چاہتا ہوں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کہا کہ آج پورے ملک کے محب وطن عوام کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ گزشتہ 63برسوں کے دوران غریب متوسط طبقے کے ایماندار لوگوں کو حق حکمرانی نہیں دیا گیااور بڑے بڑے جاگیردار اور وڈیرے میوزیکل چیئر کے کھیل کی طرح اقتدار پر براجمان ہوتے رہے ملک کو دوسنوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا رہا اور ہمارے ارباب اقتدار اور اسٹیبلشمنٹ یہ سب کچھ دیکھتی رہی ہے اور اِس کے ساتھ ہی الطاف حسین نے کہا کہ جب 2005میں تاریخ کا بدترین زلزلہ آیا اُس وقت ہیلی کاپٹرز کا رونا رویا جاتا تھا آخر اُس وقت پاکستان کو اربوں کھربوں کی جو غیر ملکی امداد ملی تھی وہ کہاں گئی؟اِس امداد سے قدرتی آسمانی آفات اور حادثات سے نمٹنے کے لئے آلات، حفاظتی مشینیں، ہیلی کاپٹر اور امدادی سامان کیوں نہ خریدا گیا؟ڈیزاسٹر مینجمنٹ سیل کیوں قائم نہ کیا گیا؟اور اُنہوں نے کہا کہ آج ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ہمیں اِنہی جاگیرداروں،اور وڈیروں کے لئے کام کرنا ہے جو نہ صرف غریبوں کا خون چوستے ہیں بلکہ قدرتی آفات کو بھی غریبوں کے متھے لگا کر جاگیردار زمینیں بچا لیتے ہیں کیا ہم زندہ باد کے نعرے لگا کر انہی کی سپورٹ کرتے رہیں گے جو ملک اور ملک کے عوام کو لوٹتے رہے ہیں اور ملک کو دولخت کرنے کے ذمہ دار ہیں اور آج باقی ماندہ ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے پر بضد ہیں اور اِس کے علاوہ اُنہوں نے واضح اور دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ہماری خارجہ پالیسی آزاد اور خودمختار نہیں بلکہ بیرونی قوتوں کے زیراثر ہے اُس کے برعکس بھارت کی خارجہ پالیسی 99فیصد پاکستان کی خارجہ پالیسی سے زیادہ مؤثر ہے اُس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ارکان بیرون ملک دوروں پر پاکستان کا مقدمہ پیش کرنے کے بجائے وہاں بڑے بڑے شاپنگ سینڑوں کی سیر کرتے رہتے ہیں جبکہ انڈیا کے سفارتکار اپنے ملک کے مقدمے کو مؤثر انداز میں پیش کرتے ہیں ملک کی ناقص خارجہ پالیسی جاگیردار وڈیرے، سرمایہ کار اور کرپٹ فوجی جرنیلوں کے ذریعے تبدیل نہیں ہوسکتی۔انہوں نے کہا کہ فوج پاکستان میں بہت منظم اور ہر کڑے اور مشکل وقت میں قربانیاں دینے والا ادارہ ہے۔ اِس کے جوانوں کی اکثریت کا تعلق غریب، محنت کش یا متوسط طبقے سے ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو، فوج کے جوان اِس میں قربانیاں دیتے ہیں اور اُنہوں نے کہا کہ پاکستان میں فوجی جرنیلوںنے63برس میں آدھی سے زیادہ مدت تک بالواسطہ یا بلاواسطہ مارشل لا کے زریعے پاکستان پر حکومت کی، کروڑوں عوم کے مینڈیٹ کو ایک ہی جھٹکے میں ختم کرکے پارلیمنٹ اور بنیادی انسانی حقوق پر قدغن لگائی اگر فوجی جرنیل حکومتیں تبدیل کرسکتے ہیں، سیاسی اور جمہوری حکومتوں کا تختہ اُلٹ سکتے ہیں تو اُنہوں نے آج تک ملک سے جاگیردارنہ، وڈیرانہ اور کرپٹ کلچر کے خاتمہ کے لئے مارشل لا جیسا اقدام کیوں نہیں اٹھایا؟اِس موقع پر اُنہوں نے والہانہ انداز سے محب وطن جرنیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر محب وطن جرنیل اِس ظالمانہ جاگیردارنہ نظام کے خاتمہ اور کرپٹ اور لُٹیرے سیاستدانوں سے ملک کو نجات دلانے کے لئے مارشل لا طرز کا کوئی قدم اُٹھاتے ہیں تو ہم اَن کا ساتھ دیں گے ہم نے مارشل لا کے بہت ادوار دیکھے ہیں جو جرنیلوں نے اپنے اقدار اور ذاتی مفادات کے لئے نافذ کئے اگر فوج کے جرنیل ملک کو چوراچکوں، ڈاکوؤں، ملکی دولت لُوٹنے والوں سے نجات اور معاشرے کی اصلاح کے لئے کوئی قدم اُٹھاتے ہیں تو بڑی بُرائی کے خاتمہ کے لئے ہمیں چھوٹی بُرائی قبول ہے۔

ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے خطاب کے اہم نکات تحریر کرنے کے بعد میں اِس نکتے پر پہنچا ہوں اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اُنہوں نے اپنے اِس پورے خطاب میں کوئی ایک نکتہ اور ایک بات بھی ایسی ہرگز نہیں کہی ہے کہ جس پر بحث و تکرار کے پہاڑ کھڑے کردیئے جائیں اور یہاں مجھے یہ بھی کہنے دیجئے کہ یہ حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے اِس بیان کو سمجھے بغیر ملک کے بعض جمہوریت پسند سیاستدانوں نے بات کا بتنگڑ بنا کر ملک میں ایک عجیب بحث چھیڑ دی ہے جس کا نہ تو کوئی سر ہے اور نہ ہی پیر بس اِن کا مقصد اپنی سیاست چمکانا اور اپنا اپنا سیاسی قد اُونچا کرنا ہے اور اِس بحث میں الجھ کر خود کو متاثرین سیلاب کی مدد کرنے سے بچانا ہے۔اگرچہ اِس سے بھی کوئی انکار نہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کے اِس بیان کے بعد ملک میڈیا پر چھڑنے والی بے مقصد بحث و شور شرابے قبل ہی ایم کیو ایم کے مرکز سے اِس کی واضح تردید آگئی تھی کہ قائد تحریک الطاف حسین نے کوئی ایسی بات نہیں کہی تھی جس کو جواز بناکر ملک میں بحث وتکرار شروع کردی گئی ہے۔

یہاں مجھے یہ بھی کہنے دیجئے کہ ایم کیو ایم ملک کی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس کی اعلیٰ قیادت سے لے کر ایک کارکن تک کا تعلق ملک کے مڈل کلاس طبقے سے ہے اور یہی وجہ ہے کہ اِس کے ساتھ پاکستان کی عوام کا ایک گہرا تعلق جڑا ہوا ہے کیونکہ پاکسان کی سترہ کروڑ عوام کی اکثریت مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہے اور جب کسی بھی سیاسی جماعت میں کثیر تعداد میں لوگ ہوں تو پھر اُسے ملک پر آئندہ حکمرانی سے کوئی نہیں روک سکتا اور اِس کے ساتھ ہی مجھے یہ بھی کہنے دیجئے کہ آئندہ آنے والے وقتوں میں ملک پر اِسی جماعت ایم کیو ایم کی حکمرانی ہوگئی۔

اور آج شائد یہی وجہ ہے کہ ملک کے جاگیردار، وڈیرے، لٹیرے، سرمایہ کار سیاستدان اِس جماعت کی ملک بھر میں ہونے والی کامیابی سے خوفزدہ ہیں اورایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ سب اپنے لاکھ سیاسی اور ذاتی اختلافات کے باوجود اپنے مفادات کے خاطر کسی بھی موقع پر متحد اور منظم ہوکر اِس پر انگلی اٹھانے کا کوئی موقع اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیتے جیسے اِن سب نے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے گزشتہ دنوں ہونے والے خطاب پر اِس کی مخالفت میں اپنی اپنی کمریں کس لی ہیں اور اِس کی کھلم کھلا مخالفت کرنے اور اپنی اپنی سیاست چمکانے میں لگے پڑے ہیں۔

ہاں البتہ! ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے خطاب کو سمجھنے کے بعد سائیںپیر پگاڑا اور عمران خان کی جانب سے اِس کی تائید اور حمایت کرنا ایک حوصلہ افزا امر ہے کہ ملک کے اِن دونوں سیاستدانوں نے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے بیان کی روح کو اچھی طرح سے سوچنے اور سمجھنے کے بعد جس طرح بروقت اِن کے بیان کی حمایت کی وہ اِن دونوں سیاستدانوں کی اعلی ٰ فہم وفراست کا منہ بولتا ثبوت ہے اور ملک کے اُن جذباتی اور طیش میں آئے ہوئے اُن سیاستدانوں کے لئے ایک آئینہ ہے جو الطاف حسین کے بیان کو بغیر سوچے سمجھے لے اڑے ہیں اور اِن جمہوریت کے ٹھیکیداروں نے الطاف حسین کے اِس رائی جتنے بیان پر فضول کی تکتہ چینی کرکے اِسے رائی کا پہاڑ بنا ڈالا ہے۔

اور اِس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حسب روایت اِس بار بھی ملک کی موجودہ صورتِ حال کے حوالے سے ڈنکے کی چوٹ پر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے جتنا کہا وہ آنے والے وقتوں کے لئے الارمنگ صورت ضرور ہوسکتی ہے کیونکہ آج بھی ہم اگر اپنے انتہائی باریک بینی سے ماضی کو دیکھیں تو ایسی ہی صورت حال سے جب جب ہمارا ملک اور ہماری قوم دوچار ہوئی ہے تو فوج نے ہی ہر بار سول حکمرانوں سے اقتدار اپنے ہاتھوں منتقل کرکے ملک کی باگ ڈور خود سنبھال لی ہے۔ اور ملک کی ایسی صورت حال میں ملک اور قوم کو کسی مڈٹرم الیکشن کی نہیں بلکہ فوج کو ہی اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کی اصل ضرورت محسوس کی جارہی ہے اِس لئے کہ مڈ ٹرم انتخابات کی صورت میں بھی یہی سیاستدان دوبارہ اقتدار پر قابض ہوجائیں گے فرق صرف یہ ہوگا کہ جو آج صاحبِ اقتدار ہیں وہ حزبِ اقتدار میں بیٹھ جائیں گے اور جو اپوزیشن میں ہیں وہ اقتدار کی مسند پر اپنے قدم رنجافرمائیں گے۔ سو سیاستدانوں کے اِس چیئر گیم کا خاتمہ فوج کے اقتدار میں آنے سے ہی ممکن ہوسکتاہے۔اور قوم اَب ہر صورت میں فوج کو اقتدار میں دیکھنا چاہتی ہے کیونکہ موجودہ جمہوری حکمرانوں اورجمہوریت پسند سیاستدانوں کے قول و فعل میں تضادات کے باعث قوم کو لگائے گئے زخموں کا مداوا صرف فوج ہی کرسکتی ہے۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 895563 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.