فرد کی گنتی
(Abdul Jabbar Khan, Rajan Pur)
کسی گھر کے نظام کو فردکی تعداد
آمدنی و ضروریات کی بنیا د پرمرتب کر کے چلایا جاتاہے گھر کے پانچ فرد ہیں
اور کما نے والا ایک تو گھر کے آخراجات و حساب کتاب آمدنی اور تعد اد کو
سامنے رکھ کر تیا رکیا جاتا ہے جبکہ ہر فردکی ضروریات اس کی عمر اور جنس کو
مدنظر رکھ کر ایک با ضابطہ نظام ترتیب دیا جاتا ہے فرد بڑھنے یا پھر ان کی
عمر کی بڑھوتری پر ان کے آخراجات میں آضافہ کیا جاتا کیو نکہ عمر بڑھنے سے
اس فرد کے آخراجات میں آضافہ یقینی ہو جاتا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ چلتاہے
جہاں کما نے والے زیادہ ہو ں اور آمدنی زیادہ ہو تو بچت کے ساتھ بنیادی
ضروریات سے ہٹ کر سہولیات وآرائش پر خر چ کو بڑھایا جاتا ہے اور اس کے بر
عکس آمدنی کم ہو تو بنیادی ضروریات پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور دیگر غیر
ضروری آخراجات سے اجتنا ب کیا جا تا ہے اب یہ تو ایک گھر کی بات ہے جہاں
چند افراد کے لئے کتنی غورفکر کے بعد ایک با قاعدہ نظام ترتیب دیاجاتا ہے
کہ کسی کے ساتھ نا انصافی نہ ہو اور نہ ہی کوئی کسی کا حق نہ مارے جس کی
ساری ُذمہ دار ی اس گھر کے کفیل و سربراہ پر عائدہوتی ہے کہ وہ کسی کے ساتھ
ناانصا فی نہ ہونے دے پر کتنا عجیب لگتا ہے کہ ایک گھر اور چندافرادکی
فکرمندی تو ہر کو ئی کرتاہے پر جب بات ملک کی جائے تو یہ واقعی عجیب محسوس
ہو تا ہے کہ ایک پورا ملک جس کا نظام افراد کی گنتی کے بغیر اندازوں پر چل
رہا ہو وہ تو پھر ایسے ہے کہ کمانے والا باہر سے پیسہ بھیجے اور تقسیم کرنے
والا بے ترتیبی سے بڑے چھوٹوں جنس اور عمروں کا خیال کیے بغیر سب میں برابر
یا کسی کو کم زیادہ تقسیم کردے تومہینے کے ختم ہو نے سے پہلے پیسے ختم اور
ادھار لے کر گھر کا نظام چلایا جا ئے اور ہر ماہ ایسے کر کے اس باہر سے رقم
بھیجنے والے کے سر قرضوں کا ایک بوجھ تیا ر کیا جائے وہ ساری زندگی کماتا
رہے پر قرض نہ اتر پا ئے ِپاکستا ن کا نظام پچھلے بیس سال سے اندازوں پر چل
رہا ہے آئین کی روح سے ہر دس سال مردم شماری کروانا ہوتی ہے جو ایک مملکت
چلانے کے لئے ضروری سمجھتے ہو ئے اس کو آئین میں شامل کیا گیا تھاپاکستان
میں موجودہ حالات کے تناظر میں مردم شماری کی اشد ضرورت ہے مردم شمار ی سے
حقیقی معنوں میں بہت سارے فوائدہیں جس کے ثمرات عام آدمی کو پہنچ سکتے ہیں
مردم شماری سے عام انتخابات کے لئے نئی فہر ستوں کی تیاری اور نئی حلقہ
بندیاں کی جائیں گی جس سے صوبائی و قومی اسمبلی کے حلقوں کی تعداد میں
آضافہ ہو گا اور ایوان بالا سینٹ سینٹرز کی تعداد میں بھی آضافہ ہو گا جبکہ
آئند ہ کے لئے ترقیاتی منصوبوں کی تیاری میں مدد ملے گئی جن میں وسائل کی
تقسیم روزگار اور تعلیم صحت اور دیگر بنیا دی سہولیات کے منصوبہ جات کو
بہتر انداز میں تیار کر کے وسائل کی تقسیم منصفانہ بھی یقینی ہو سکے گی
پاکستان میں آخری مرتبہ مردم شماری 1998ء میں کر وائی گئی جو کہ دراصل
1991ء میں ہو نا تھی یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ مردم شماری سے مسلسل فرار
کیوں اختیار کیا جارہا ہے جس کو اتنے سال گزرنے کے باوجو د ہاتھ نہیں لگا
یا گیا ہے آزادی کے بعد پا کستا ن میں پہلی مرتبہ مردم شماری1951ء ہو ئی
دوسری 1961ء تیسری 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کی وجہ سے ایک سال تاخیر سے 1972ء
میں ہوئی اس کے بعد 1981ء میں ہوئی اور اس کے 1991ء میں ہو نا تھی جو
موجودہ حالات کی طر ح تاخیر کا شکا ررہی جو 1998 ء میں کرائی گئی 1998 ء کی
مردم شماری میں پاکستا ن کی کل آبادی 13 کروڑ سے زیادہ تھی اب پاکستان کی
آبادی کے بارے میں کہا جاتا رہا سولہ کروڑبعد میں وہ اٹھارہ ہو گئی اب آخری
اندازے کے مطابق بیس کروڑ بتا ئی جا تی ہے اب یہ تو اندازے ہیں اگر پا
کستان کے آس پاس پڑوس میں ممالک کا جائزہ لیں تو بھارت نے بھی پہلی مردم
شماری 1951ء میں اور با قی دس سال کی ترتیب سے
2001,1991,1981,1971,1966جبکہ آخری مارچ 2011ء میں بھارت مردم شماری کر وا
چکا ہے دوسری طرف ایران کا جا ئز ہ لیں توایران میں پہلی مر دم شماری 1956ء
میں کر وائی گئی پھر ترتیب سے ہر دس سال بعد 2006,1996,1986,1976,1966 میں
کروانے کے بعد دوبار ٹھیک پانچ سال کیبعد ایک اور مردم شماری 2011ء کرواچکا
ہے سابقہ مشرقی پاکستان مو جودہ بنگلہ دیش بھی اپنی آخری مردم شماری 2011ء
میں کروا چکا ہے جبکہ ریکارڈ کے مطا بق بنگلہ دیش نے 1991ء اور 2001 ء میں
بھی دس سال کے وقفے سے مردم شماری کا انعقاد کرواچکا ہے اب ادھر پاکستان
میں چھٹی مردم شماری مسلسل تعطل کا شکارہے جس کی اصل وجو ہات کاتو پتہ نہیں
پر اب سپریم کورٹ نے نوٹس لیتے ہو ئے کہا ہے مردم شماری کا شڈول دیا جائے
عدلیہ نے کہا ہے کہ ملک کی پا لیسیاں ہو ا میں بن رہی ہیں اور عوام کی قدر
کسی کو معلوم نہیں اس قومی معاملے پر کوئی سیاسی جماعت عدالت نہیں آئی
عدالت نے اپنے ریمارکس میں یہ بھی کہا گیا کہ مردم شماری ہو گی تو نئی حلقہ
بندیاں ہوں گی اس کے بغیر کیسے ممکن کہ ترقیاتی منصوبوں کے لئے پلا ئنگ کی
جاسکے ملک میں 1998 ء میں مردم شماری ہو ئی تھی اور اس کے بعد کوئی مردم
شما ر نہیں کی گئی اب اپنے ہمسائے ممالک کا ذکر کیاجائے تو وہا ں پر نہ تو
ان کی سپریم کورٹ نے آڈر جاری کیے ہیں بلکہ ان کے بنا ئے گئے نظام کے تحت
دس سال کے عرصہ میں ہر صورت مردم شماری کا انعقاد لازمی سمجھ جاتا ہے جس کے
لئے حکو متیں سالانہ بجٹ میں مردم شماری کے لئے رقم مختص کی جا تی ہے تا کہ
مردم شماری کے انعقاد کے سال میں بجٹ کی کمی کا سامنا نہ کر نا پڑے ہمارے
پاس کبھی وسائل کا عزر ہو تا ہے تو کبھی دہشت گردی آڑے آجاتی ہے اب سپریم
کورٹ نے بھی حکم جا ری کر دیا ہے کہ مئی 2017ء میں ہر صورت مردم شماری
کروائی جا ئے ایک وعدہ مارچ 2016ء میں مردم شماری کرانے کا کیا گیا تھا پر
پا ک فوج کی آپر یشن ضرب عضب میں مصروفیات کی وجوہات پر مخر کر دی گئی تھی
ہمارے ملک میں مردم شماری کے لئے فو ج کاکردار اہم گردانا جاتا ہے اور مردم
شماری کے تمام اموار میں فوج کی نگرانی میں سرانجا م دے کر مردم شماری کو
شفاف تصور کیا جا ئے گا ہمارے ملک میں فوج کا ہی واحد ادارہ ہے جس پر پوری
قوم بھر وسہ کرتی ہے فوج ہی پاکستان کی عوام کی ہر مشکل گھڑی میں ساتھ دیتی
ہے مردم شماری میں فوج کا کردار صرف ہمارے ملک میں ہے جبکہ دیگر ممالک میں
مردم شماری کا سٹاف یہ کام سرانجا م دیتا ہے دوسری طرف پاک فوج مشرقی
سرحدوں پر کشیدگی اور آپریشن ضرب عضب میں تا حال مصروف ہے اور بلوچستان میں
موجودہ حالات اور سی پیک کی نگرانی بھی پا ک فوج کے ذمے ہے پاک فوج کے پا س
لگ بھگ 5 لاکھ 50ہز ار کی افرادی قوت ہے اب ملک میں اس بات کی امید کی
جارہی کہ مردم شماری 2017ء میں مکمل ہو جائے اور نئی حلقہ بندیاں ووٹر
لسٹیں نئے منصوبے آبادی کے لحاظ سے بنائے جائیں اور وسائل کی تقسیم آبادی
کو سامنے رکھ کر کی جائے تو عوام کی حالت بہتر ہو جا ئے گی اور ساتھ ہی
موجودہ حکومت کا بہت بڑا کارنا مہ ہو گا کیو نکہ 1998ء کے بعد پرویز مشرف
کا طویل دور اقتدار اور پھر پیپلز پارٹی کا اقتدار بھی گز ر چکا ہے اب مردم
شماری کا کارنامہ موجودہ حکومت کے لئے مثبت ثابت ہو گا - |
|