دورہ کامیاب رہا!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
قوم اس خبر پر یقینا خوشی سے لوٹ پوٹ ہو
جائے گی کہ وزیراعظم پاکستان کے معاونِ خصوصی برائے خارجہ امور کا دورہ
امریکہ کامیاب رہا۔’’․․․ انہیں وہاں پاکستانی موقف پیش کرنے کا بہترین موقع
ملا، دورے کا مقصد اوباما اور ٹرمپ انتظامیہ سے تعلقات تھے۔ تاہم ٹرمپ کی
انتقال اقتدار سے متعلق ٹیم کے ارکان سے ان کی ملاقات نہیں ہو سکی، اگر
اِنہیں وقت ملتا تو دوسروں کو بھی دینا پڑتا۔ امریکہ کو دہشت گردوں کو ختم
کرنے سے دلچسپی ہے یا ختم کرنے کے طریقوں سے؟ پاکستان ڈکٹیشن نہیں لے گا۔
اور یہ کہ بھارت علاقائی تعاون کی بجائے علاقائی بالادستی پر یقین رکھتا ہے
․․․ ‘‘۔ یہی مختصر کہانی ہے وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی کی امریکہ
کے دورے کی۔ یہ دورہ چونکہ بہت اہم تھا اور کامیاب بھی ، اس لئے اس کا قدم
بہت اہمیت کا حامل تھا۔ سب سے اہم اس کی ٹائمنگ تھی، یعنی جانے والوں سے
الوداعی اور آنے والوں سے استقبالی ملاقاتیں۔ اگر کچھ روز قبل جاتے تو وہاں
صرف اوباما سرکار ہی ہوتی، اگر کچھ روز بعد میں جاتے تو صرف ٹرمپ حکومت سے
واسطہ پڑتا۔ درمیان میں جاکر دونوں حکومتوں کو خوش کردیا۔ یہی کامیاب خارجہ
پالیسی کی علامت ہے۔
اس دورے کی دوسری اہم بات یہ ہوئی کہ ٹرمپ کی انتقال اقتدار سے متعلق ٹیم
سے ملاقات نہیں ہو سکی، اپنے پاس تو بہت سا وقت تھا، مگر وہ ظالم نئی حکومت
کی تشکیل میں مصروف تھے، ان کو سر کھجانے کی فرصت نہیں تھی، حالانکہ اگر وہ
لوگ چاہتے تو سر کھجانے کے لئے غیر ملکیوں کی خدمات حاصل کر سکتے تھے، مگر
شاید انہوں نے ابھی اس بارے میں کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔ وہ لوگ اخلاقیات
سے بھی عاری ہی دکھائی دیتے ہیں، کہ اپنے آئے ہوئے مہمانوں کو وقت نہ دینا
کتنی زیادتی ہے۔ ٹرمپ حکومت سے اسی قسم کی توقعات کا امکان ہے۔ چلیں کوئی
بات نہیں، سردیوں کے بعد دوبارہ پروگرام رکھ لینا، اس وقت تک ٹرمپ کی ٹیم
سے کیا، ٹرمپ سے بھی ملاقات ہو سکتی ہے، بشرطیکہ یہاں سے جانے سے قبل
وزیراعظم کا ٹرمپ کو فون کروالینا۔ جہاں تک ’’دوسروں‘‘ کی بات ہے، تو ہر
کسی کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں، کوئی امریکی صدر جب پاک بھارت کے دورے پر
آتا ہے تو بھارت تین روز اور پاکستان چند گھنٹے گزارتا ہے۔ پاکستان کی
خارجہ پالیسی کی کامیابی اس سے بڑھ کر اور کیا ہو کہ دس برس قبل جب امریکی
صدر بُش پاکستان آئے تو انہوں نے ایک رات بھی قیام کیا، یہ الگ بات ہے کہ
انہوں نے امریکی سفارت خانے میں ہی شب بسری کی۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی نے امریکہ کو باور کروایا کہ امریکہ دہشت گردوں کے
خاتمے سے غرض رکھتا ہے یا وہ طریقہ جاننا چاہتا ہے، جس سے دہشت گرد کا
خاتمہ کیا جارہا ہے، اور یہ بھی کہ پاکستان ڈکٹیشن نہیں لے گا۔اب پاکستان
کو ڈکٹیشن کی ضرورت نہیں، کیونکہ عقلمندوں کے لئے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے،
اب پاکستان عقلمند بن چکا ہے، اس کے لئے اب امریکہ اشارہ بھی کرے تو اسے
کافی سمجھا جائے۔ چنانچہ اب پاکستان ڈکٹیشن نہیں لیا کرے گا، اگر کبھی
امریکہ کا کوئی حکم اپنے ہاں پورا ہوتا ہوا دکھائی دے دیا تو کوئی کسی
بدگمانی میں نہ رہے کہ یہ کسی ڈکٹیشن کے نتیجے میں ہی عملدآمد ہوا ہے، یہ
پاکستان کی اپنی مرضی سے ایسا ہو رہا ہوگا۔ پاکستانی حکومت کی رضامندی کے
کئے جانے والے اقدامات کو ڈکٹیشن کہنا زیادتی ہے۔ امور خارجہ کے معاونِ
خصوصی کا دورہ اس لحاظ سے بھی مکمل کامیاب رہا کہ وہاں تمام خرچہ پاکستان
کے قومی خزانے سے ادا ہو رہا تھا، اچھے ا چھے ہوٹلوں میں رہنے کا موقع ملا،
سیر سپاٹے بھی ہوگئے، دوست احباب سے میل ملاقات کے مواقع بھی نکل آئے، وہاں
کے کاروباری لوگوں سے رسم وراہ بھی نکلنے کے امکانات پیدا ہو گئے۔ ویسے بھی
سرکاری خرچ پر سیر کا مزہ ہی کچھ اپنا ہوتا ہے۔ اس دورے میں مسئلہ کشمیر
بھی اجاگر ہو تے ہوتے رہ گیا، بس وقت ہی نہیں ملا، دراصل امریکی حکام سے
وقت لینے میں ہی اتنا وقت لگ گیا کہ مسئلہ کشمیر کے اجاگر کرنے کا وقت نہ
رہا۔ ویسے بھی جب سے اپنے مولانا فضل الرحمن کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں،
اس مسئلہ کو مزید اجاگر کرنے کی گنجائش بھی نہیں۔ اگر پاکستان کے خارجہ
امور کے معاون خصوصی اور وزیراعظم کے خارجہ امور کے مشیر کے بیرونی دورے
یونہی کامیاب ہوتے رہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک کی خارجہ پالیسی کو چار
چاند نہ لگیں،اور دنیا بھر میں پاکستان کا ’سوفٹ امیج‘نمایاں نہ ہو جائے۔
|
|