قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے سیاسی جانشین
(Raja Muhammad Latif Hasrat, )
18 دسمبر کو قائد ملت رئیس الاحرار
چودھری غلام عباسؒ کی 49 ویں برسی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جا رہی ہے۔
یہ دن ہرسال سرکاری سطح پہ منایا جاتا ہے۔ اس روز ریاست بھر میں عام تعطیل
ہوتی ہے۔ صدر اور وزیر اعظم آزاد کشمیر کیطرف سے مرحوم رہنماء کے مزار پر
پھولوں کی چادریں چڑھائی جاتی ہیں۔ اور قومی رہنماء کو خراج عقیدت پیش کرنے
کے لئے تقریبات کا اہتمام ہوتا ہے۔ قائد ملت کے نظریات و افکار کی وارث
جماعت آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس اس دن کو خصوصی عقیدت و احترام سے مناتی
ہے اور مرحوم کے مزار واقع فیض آباد راولپنڈی میں ایک بڑے جلسہ عام کا
اہتمام کیا جاتا ہے۔ جس میں آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کی مرکزی قیادت
اور ملک بھر سے آنے والے کارکن بھرپور طریقے سے شرکت کرتے ہیں۔جبکہ پاکستان
اور آزاد کشمیر کی مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما قائد ملت کو خراج عقیدت
پیش کرتے ہیں۔ اس موقع پر قائد ملت کے ایصال ثواب کے لیے صبح ساڑھے آٹھ بجے
مزار سے ملحقہ مسجد میں قرآن خوانی ہو تی ہے جس کے بعد ساڑھے نو بجے مرحوم
کے ایصا ثواب کے لیے اجتماعی دعا کی جاتی ہے۔اس موقعہ پر آزاد کشمیر پولیس
کا ایک چاک وچوبند دستہ کشمیری قوم کے عظیم قائد کو سلامی پیش کرتا ہے ۔
چودھری غلام عباسؒ کو ریاست جموں وکشمیر میں سیاسی طور پر قائد اعظم محمد
علی جناح ؒ کا جان نشین،دست راست اور مسلم کانفرنس کا بانی ہونے کا شرف
حاصل ہے۔ قائد ملت کی شخصیات و کردار اور عمل کے بارے میں آج تک بہت کچھ
لکھا جا چکا ہے اور آئندہ بھی لکھا جاتا رہے گا لیکن تحریک آزادی کشمیراور
پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال کے تناظر میں قوم کو یہ بتایا جانا ضروری
ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ اور قائد ملت چودھری غلام عباسؒ کے درمیان
قائم تعلقات کا پیمانہ اور معیار کیا تھا۔ آج کی اس پہلی قسط میں صرف قائد
اعظم محمد علی جناح اور رئیس الاحرار کے درمیان قائم تعلقات اعتماد کے رشتے
بھروسے اور شفقت کے بارے میں چیدہ چیدہ نقات اور اکاّ دوکاّ واقعات پر
روشنی ڈالی جائے گی۔ انشااﷲ آئندہ کی اشاعتوں میں مرحوم رہنما ء کے بارے
میں ان کے سیاسی مخالفین کی طرف سے وقتاً فوقتاً پیش کیے جانے والے خراج
عقیدت اور آراء کا ذکرکریں گے۔
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ مئی 1936 ء میں پہلی مرتبہ سیاحت کے
لئے کشمیر آئے ۔ جہاں انہوں نے کشمیری مسلمانوں کے ایک بڑے اجتماع میں شرکت
کی۔ اس اجتماع میں مسلم کانفرنس کی طرف سے رئیس الاحرار چوہدری غلام عباسؒ
نے اُن کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا۔ قائد ملت اپنی سوانح حیات ’’کشمکش‘‘
کے صفحہ132 پر رقمطراز ہیں کہ’’حضرت قائد اعظم ؒ کو دیکھنے اور اُن کی خدمت
میں باریاب ہونے کا میرا یہ پہلا موقع تھا اور میرے لئے وہ ساعت حقیقتاً
نیک اور زندگی کی سب سے سہانی گھڑی تھی جب میں نے پہلی بار حضرت قائد اعظم
سے مصافحہ کیا۔قائد اعظم محمد علی جناح اور رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس
ؒ کے درمیان دوسری ملاقات نومبر 1942 میں پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے
اجلاس منعقدہ جالندھر میں ہوئی۔ قائد اعظم محمد علی جناح اور قائد ملت
چوہدری غلام عباس کے درمیان تیسری باقاعدہ اور باضابطہ ملاقات 1944 ء میں
ہوئی ۔ اس ملاقات کے بارے میں قائد ملت چوہدری غلام عباسؒ سوانح عمری’’
کشمکش ‘‘کے اٹھارویں باب میں لکھتے ہیں’’ نیشنل کانفرنس کے قیام اور مسلم
کانفرنس کے دو بارہ احیاء کے بعد مسلمانوں کے خلاف حکومت کے معاندانہ رویے
میں سختی آ گئی۔مسلم کانفرنس کے لئے سری نگر شہر میں زندگی اجیرن بنا دی
گئی ۔ اس شش و پنج میں ، میں نے 1944 ء میں حضرت قائد اعظم سے ملاقات کے
لئے دہلی جانے کا عزم کیا ۔ وہاں تقریباً 3 گھنٹے تک کی تفصیلی ملاقات میں،
میں نے قائد اعظم کو کشمیر کی سابقہ اور موجودہ صورتحال سے آگاہ کیا۔
قائد اعظم نے میری تمام باتیں غور سے سنیں اور تذکرہ فرمانے کے بعد مسلم
لیگ کی جانب سے مسلم کانفرنس کو ہر قسم کی اخلاقی مدد دینے کا وعدہ فرمایا
۔ اس ملاقات کے بعد مسلم کانفرنس اور مسلم لیگ کے درمیان پہلا باقاعدہ
سیاسی رابطہ اور ایک خاص اخلاقی اور روحانی رشتہ بھی قائم ہو گیا۔ اس سے
ہمارے ارادے اور حوصلے بھی مضبوط ہو گئے۔ اسی ملاقات کے دوران میں نے قائد
اعظم کو کشمیر کے دورے اور مسلم کانفرنس کے سالانہ کنونشن میں شرکت کی دعوت
دی جو انہوں نے قبول فرمائی۔
قائد اعظم محمد علی جناحؒ 1944 ء میں کوئی ڈھائی ماہ تک سری نگر میں رہے۔
اس دوران اُنہوں نے مسلم کانفرنس اور نیشنل کانفرنس کے اختلافات ختم کرانے
کی کوششیں کیں لیکن بد قسمتی سے شیخ عبداﷲ اپنی راہ سے ہٹنے پر تیار نہ
ہوئے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اس دوران 16 جون 1944 کو مسلم کانفرنس کے
تیرھویں سالانہ اجلاس سے خصوصی خطاب بھی فرمایا۔ مسلم پارک سری نگر میں
منعقدہ اجلاس کی صدارت رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس ؒ نے کی ۔ جس میں
جماعتی مندوبین کے علاوہ مسلمانوں کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کشمیر کے سرحدی
علاقوں سے بھی لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی ۔ قائد اعظم کی شرکت کی وجہ
سے جلسہ گاہ کو خاص اہتمام سے سجایا گیا تھا۔ قائد اعظم جب جلسہ گاہ میں
داخل ہوئے تو لوگوں کا جوش و خروش دیدنی تھا ۔ کشمیرکی سرزمین میں اس سے
قبل اسلامی ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کا روح پرور مظاہرہ کبھی دیکھنے میں
نہ آیا تھا۔ پہلی رات کی کاروائی صدر مسلم کانفرنس قائد ملت چوہدری غلام
عباس کی صدارتی تقریر اور سبجیکٹس کمیٹی کے انتخاب تک محدود رہی ۔ جلسے کے
اختتام پر قائد اعطم موٹر پر سوار ہونے لگے تو قائد ملت چوہدری غلام عباس
سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ
’’تمہاری صدارتی تقریر پر تم کو مبارکباد دیتا ہوں یہ بہت اچھی تقریر تھی‘‘
دوسری شب جلسے کے آغاز پر قائد ملت چوہدری غلام عباس ؒ نے ان کی خدمت میں
ریاستی مسلمانوں کی طرف سے آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کی وساطت سے
سپاسنامہ پیش کیا۔سپاسنامے کے جواب میں حضرت قائد اعظم نے تقریر کرتے ہوئے
کہا کہ ’’چوہدری صاحب اور مسلمانان ریاست جموں و کشمیر کویقین دلاتا ہوں کہ
مسلم لیگ اور ہندوستان کے 10 کروڑ مسلمانوں کی خدمات اُن کے قدموں میں ہیں۔
قائد اعظم محمد علی جناح کو ئی ڈھائی ماہ تک سری نگری میں رہے ۔ اس دوران
وہ اکثر مجھے کھانے پر بلاتے رہے اور کبھی مجھے اس کی اجازت نہیں دی کہ میں
اپنی جیب سے سیگرٹ بھی نکال کر پیوؤں ۔ سری نگر سے لاہور روانہ ہونے سے ایک
دن پہلے انھوں نے مجھے کھانے پر بلایا ، کھانے کے دوران میرے سوالات کا
جواب دئیے بغیر اچانک فرمایا ’’چودھری صاحب میں تمہیں مبارک باد دیتا ہوں
‘‘اور یہی فقرہ انھوں نے وقفوں وقفوں میں تین مرتبہ دہرایا پھر اچانک
فرمانے لگے’’کہ اس ڈھائی ماہ کے عرصہ میں میرے پاس ہر قسم کے لوگ انفرادی
اورو فود کی صورتوں میں ہزاروں کی تعداد میں ملنے کے لئے آئے جن میں ہندو ،
سکھ، مسلم ، ملازم اور غیر ملازم ، نیشنلسٹ اور مہاسبائی سب ہی شامل تھے۔
اور میں ہر ایک سے یہی سوال کرتا تھا۔ کہ آپ کی غلام عباس کے بارے میں کیا
رائے ہے۔ مجھے دلی خوشی ہوئی ہے۔ کہ تمام ملنے والوں میں سے کوئی ایک فرد
بھی ایسا نہ تھا۔ جس نے سیاسی اور ذاتی دونوں حیثیتوں میں تمہاری تعریف نہ
کی ہو‘‘ قائد ملت چودھری غلام عباسؒ اس سلسلے میں قائد اعظم کی شفقت محبت
اور اعتماد کا ذکر کرتے ہوئے ایک اور جگہ رقمطراز ہیں’’کہ قائد اعظم مجھ پر
بے حد مہربانی اور توجہ فرماتے تھے اور اُن کو مجھ پر بے حد اعتماد بھی
تھا۔ میری اُن سے تین ، تین چار ، چار گھنٹے ملاقاتیں تھیں دوران گفتگو
مختلف موضوعات زیر بحث آتے لیکن کبھی قائد اعظم نے ماتھے پر شکن بھی نہ آنے
دی اور نہ ہی کبھی ڈانٹ ڈپٹ کی۔ سار ے عرصے میں وہ صرف دو مرتبہ ترش لہجے
میں مخاطب ہوئے ۔ پہلی مرتبہ 1943 ء میں جب میں نے انھیں کسی کو اپنا
جانشین مقرر کرنے کی استدعا کی تو انھوں نے فوراً ہی ذر ا تیز لہجے میں
فرمایا ’’کوئی نام تم ہی تجویز کرو ‘‘ دوسری مرتبہ 1944 ء میں کراچی کے
جلسے کے انتظامات کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا تو قائد اعظم تقریباً
ناراض ہو گئے۔رئیس الاحرار اپنے اور قائد اعظم کے درمیان قائم بھروسے اور
اعتماد کے رشتے کا ذکر کرتے ہوئے ’’کشمکمش‘‘ میں ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ
ہندوستان میں عبوری حکومت کے متعلق مذاکرات کے دوران مجھے قائد اعظم کے پاس
دہلی جانا پڑا ملاقات کے دوران قائد اعظم عبوری حکومت کے بارے میں میرے
سوال کو تین دفعہ ٹال گئے وقفہ کے بعد جب میں نے وہی سوال چوتھی مرتبہ
دہرایا تو وہ مسکرائے اور فرمایا کہ یہ ایک اہم اور نازک مسئلہ ہے۔ جس کے
بارے میں ابھی تک مجلس عاملہ کو بھی اعتما دمیں نہیں لیا گیا۔ مجھے تماری
بات سے پورا اتفاق ہے اور ایسا ہی ہو گا۔ابھی کسی سے ہر گز تذکرہ نہ کیا
جائے۔
قائد ملت چودھری غلام عباس کے پرائیوٹ سیکرٹری بشیر احمد قریشی قائد کشمیر
کے بارے میں لکھتے ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد رئیس الاحرار چودھری غلام
عباس قائد اعظم محمد علی جناح کو ملنے کراچی گئے وہ مقررہ وقت سے ایک گھنٹہ
قبل ہی گورنر ہاؤس پہنج گئے قائد اعظم کو چودھری غلام عباس کی آمد کا بتایا
گیاتو اُنہوں نے قائد ملت کو واپس بھیج کر مقررہ وقت پر آنے کے لیے کہاجب
رئیس لاحرار مقررہ وقت پر گورنرہاؤس پہنچے تو قائد اعظم محمد علی جناح نے
گیٹ پر آ کر خود اُن کا استقبال کیااور قبل از وقت واپس بھیجنے کی وجہ بھی
بتائی کہ چودھری صاحب میں خود آپ کا گیٹ پراستقبال کرنا چاہتا تھایہ واقعہ
میں متعدد بار سردار سکندر حیات خان سے بھی سن چکا ہوں ۔
قارئین کرام:-
مندرجہ بالا واقعات یقینا ن لیگ کے اُن لوگوں کے لئے چشم کشا ہیں جو ریاست
جموں و کشمیر میں مسلم کانفرنس کے قیام اور قائد اعظم کی سرپرستی پر انگلی
اٹھا رہے ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جو اس وقت آزاد کشمیر میں قائد اعظم محمد علی
جناح کے وارث بنے بیٹھے ہیں۔ |
|