جسٹس فائزعیسیٰ کمیشن کی رپورٹ

سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے سپریم کورٹ کے محترم جج جناب جسٹس فائزعیسیٰ کمیشن نے ایک اہم رپورٹ مرتب کی رپورٹ میں ماضی قریب کی غلطیوں ،کوتاہیوں اورحکومتی اداروں کی کارکردگی پرسوالات اٹھانے کے ساتھ ساتھ دیگر بہت سی باتوں کے علاوہ سانحہ کوئٹہ (جس میں 80کے قریب افرادجاں بحق اورسوسے زائدزخمی ہوئے تھے )جیسے واقعات کی روک تھام کیلئے قابل عمل تجاویزبھی دی گئی ہیں جوسنجیدہ توجہ کی متقاضی ہیں ان تجاویزپر خلوص دل کیساتھ عملدرآمدیقینی بنانے سے یقینا ً دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام اور تدارک میں خاطرخواہ مددمل سکتی ہے رپورٹ میں جہاں سیکیورٹی اہلکاروں کی اہلیت پرانگلیاں اٹھائی گئی ہیں وہاں وفاقی وزارت داخلہ میں قیادت کے فقدان کی بھی نشاندہی کی گئی ہے 110صفحات پرمشتمل رپورٹ کااگربغورجائزہ لیاجائے تو اسمیں ناصرف غلطیوں کوتاہیوں اورخامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے بلکہ اس کاحل پیش کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے دہشت گردی کے حوالے سے اسے ایک جامع اورمکمل رپورٹ قراردیاجاسکتاہے بلکہ اگرکہاجائے کہ سمندرکوکوزے میں بندکیاگیاہے توکچھ ایساغلط بھی نہیں ہوگاکون نہیں جانتاکہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ اورایکشن پلان میں خامیاں موجودہیں جنہیں دورکیاجاناازحدضروری ہے کالعدم تنظیمیں ہمارے ہاں نئے ناموں سے متحرک ہوجاتی ہیں مگرحکومت کوانکے تدارک کی توفیق نہیں ہوتی وہ حکومت ہی کیاجس کے زیرکنٹرول علاقہ میں ایسے افرادیاتنظیمیں متحرک ہوں جن پرریاست کی جانب سے پابندی لگائی جاچکی ہوہمارے ہاں ہسپتالوں کی ابترصورتحال سے بھی انکارممکن نہیں یہی کچھ سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے بھی ہواکہ وہاں ہسپتال میں فرسٹ ایڈکٹس تک موجودنہیں تھیں جس سے بہت سی قیمتی جانوں کاضیاع روکاجاسکتاتھایہ حالت محض کوئٹہ کی نہیں اسی سال کے وسط میں چارسدہ کے علاقے شبقدرکی تحصیل کچہری میں بم دھماکے کے وقت وہاں سپرٹ اورروئی تک دستیاب نہیں تھی جس پرزخمیوں کے لواحقین نے وزیرصحت کے خلاف احتجاج کیااوروزیرصحت صاحب کوایک کمرے میں بندہوناپڑاسیکیورٹی اہلکاروں کی تربیت کایہ عالم ہے کہ انہیں یہ تک معلوم نہیں کہ کس وقت کونساایکشن لیناہے اس حوالے سے رپورٹ میں سانحہ کوئٹہ کے فوری بعدسیکیورٹی اہلکاروں کی ہوائی فائرنگ کو ہدف تنقیدبنایاگیاہے جس سے عام لوگوں میں خوف وہراس کاپھیل جاناقدرتی تھااسی طرح وزیرداخلہ اوروزیراعلیٰ بلوچستان کے بیانات نے واقعی ابہام پیداکیاانکے درمیان روابط کافقدان ہے نیشنل ایکشن پلان پراسکی روح کے مطابق عملدرآمدنہیں ہورہا،نیکٹاغیرفعال ہے سیکیورٹی اداروں کی جانب سے جائے وقوعہ کے شواہدکومحفوظ نہ کرنابھی سوالیہ نشان ہے یہی صورتحال راولپنڈی میں بے نظیربھٹوقتل کیس میں بھی سامنے آئی تھی فرانزک لیبارٹری کی غیرموجودگی بھی بہت بڑی خامی ہے رپورٹ میں کہاگیاہے کہ کمیشن کی مداخلت کے بغیرخودکش حملہ آورکی شناخت تک نہیں کرائی گئی رپورٹ میں دہشت گردی کے خلاف لڑی جانیوالی جنگ کوزبردست تنقیدکانشانہ بناتے ہوئے کہاگیاہے کہ دہشت گردی کے خلاف ایک بے سمت جنگ لڑی جارہی ہے ،نیشنل ایکشن پلان ایک بے معنی اوربے سمت پلان ہے ،جس کے مقاصدکی نگرانی کاکوئی طریقہء کارہے اورناہی اس پرعمل ہوا،پلان کااطلاق کس نے کرناہے اس بارے میں تحریری سٹریٹیجی موجودنہیں، مغربی سرحدیں غیرمحفوظ ہیں اورانہیں محفوظ بنانے کیلئے کچھ نہیں کیاجارہا ،مذہبی ہم آہنگی کیلئے وزارت مذہبی امورنے اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کیں،مدارس کی رجسٹریشن اورمانیٹرنگ کاکوئی طریقہ کاروضع نہیں کیاگیا ،رپورٹ میں غلطیوں اورکوتاہیوں کی نشاندہی کے ساتھ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے قابل عمل تجاویزبھی شامل ہیں جن میں کالعدم تنظیموں پرفوری پابندی اوران سے وابستہ افرادکے خلاف مقدمات کااندراج،کالعدم تنظیموں کے بارے میں عوام میں آگاہی پیداکرنے ،دہشت گردی میں ملوث اورمشکوک افرادکاڈیٹابنک بنانے،ایک جدیدفرانزک لیبارٹری کاقیام ،واضح مقاصداورمکمل نگرانی کے ساتھ نیشنل ایکشن پلان بنانے اوراسے نافذکرنے ،مغربی بارڈرکومحفوط بنانے،ملک بھرمیں ہوائی فائرنگ پرمکمل پابندی اوراس میں ملوث افرادکے خلاف فوجداری مقدمات قائم کرنے کی سفارش کی گئی ہے کمیشن نے دہشت گردوں اورانکی تنظیموں کے بیانات نشراورشائع کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے اوردہشت گردی سے متاثرہ افرادکے لواحقین کومعاوضوں کی فوری ادائیگی کی بھی سفارش کی گئی ہے سانحہ کوئٹہ دہشت گردی کاایک المناک سانحہ تھا اوراس کاشماردہشت گردی کے بڑے واقعات میں ہوتاہے اس سانحے کاایک المناک پہلویہ بھی ہے کہ دہشت گردوں نے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کیلئے ہسپتال کاانتخاب کیاجہاں ایک سرکردہ وکیل کی لاش ٹارگٹ کلنگ میں نشانہ بنانے کے بعدلائی گئی تھی جہاں وکیلوں کے علاوہ شفاکی تلاش میں آئے ہوئے معصوم شہری بھی بڑی تعدادمیں موجودتھے جنہیں بلاامتیازاس بزدلانہ کارروائی کانشانہ بنایاگیا دیگر سانحات کی طرح اس سانحے کی بھی ملکی سطح پرپرزورمذمت کی گئی اوراسے قومی المیہ قراردیاگیااس سانحے کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے تجربہ کارجج کی نگرانی میں بنائے گئے کمیشن کی رپورٹ آنے سے ملک میں ایک بھونچال آگیااوراپوزیشن جماعتوں خصوصاًپیپلزپارٹی ( جوکہ پہلے ہی وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان پرتنقیدکاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی )نے وزیرداخلہ سے استعفے کامطالبہ شدت سے دہراناشروع کیااب صورتحال یہ ہے کہ کمیشن کی رپورٹ ایک طرف رکھ کرساری اپوزیشن کی سوئی وزیرداخلہ کے استعفے پراٹکی ہوئی ہے نیشنل ایکشن پلان پرعملدرآمدکی ذمے داری اکیلے وزیرداخلہ کی نہیں بلکہ اس میں تمام سیاسی جماعتوں نے اپنااپناکرداراداکرناہے خداخداکرکے ملک میں کسی کمیشن کی رپورٹ سامنے آئی ہے مگرلگتایہی ہے کہ اس رپورٹ کووزیرداخلہ پرتنقیداوراستعفے کے مطالبے کی نذرکیاجارہاہے ہوناتویہ چاہئے تھاکہ رپورٹ کے مندرجات پرغورکیاجاتااوراس پرعملدرآمدکیلئے زوردیاجاتاپیپلزپارٹی کے دورحکومت میں دہشت گردی کے بڑے بڑے واقعات رونماہوئے مگرکسی نے ذمے داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ نہیں دیادہشت گردی کی عفریت کامقابلہ سیاسی اناپرستی سے ممکن نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کوذمے داری کامظاہرہ کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں نیشنل ایکشن پلان اورجسٹس عیسیٰ کمیشن رپورٹ کے مندرجات پرعملدرآمدکیلئے اصرارکرناچاہئے اب تک ملک وقوم کے لاتعدادسلگتے مسائل کوسیاست کی بھینٹ چڑھایاجاچکاہے سیاسی بلیم گیم ،شورشرابا،الزامات درالزامات اورپوائینٹ سکورنگ مسائل کاحل نہیں بلکہ سیاسی بلوغت کامظاہرہ کرکے جسٹس فائزعیسیٰ کمیشن کی زمینی حقائق پرمبنی رپورٹ کومشعل راہ بناناوقت کی ضرورت ہے تاکہ قوم کو دہشت گردی کی لعنت سے چھٹکارانصیب ہو۔
Wisal Khan
About the Author: Wisal Khan Read More Articles by Wisal Khan: 80 Articles with 51904 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.