پی پی پی کیا چاہتی ہے؟

گذشتہ کئی برسوں سے پاکستا ن میں ہفتے کے ساتوں دن روزانہ کی بنیاد پر شام سات بجے سے لے کر رات کے بارہ بجے تک ہمارے نیوز چینلزکے ٹاک شو میں ہمارے ملک کے سیاست دان ایک دوسرے سے شدید تکرار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں،بلخصوص پاکستان تحریک انصاف اور ن لیگ والے خوب ایک دوسرے کی ہتک کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اورپھر ان ہی ٹاک شوز کے میزبانوں کے ہاتھوں سیاست دان اپنی درگت بنوا رہے ہوتے ہیں۔اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ میڈیا کے پاس سیاست دان کے علاوہ اور کوئی شخصیات دستیاب نہیں یہ ظرف صرف ان ہی سیاست دانوں کا ہی ہے کہ وہ روز ان کی لگائی گئی عدالتوں میں پیش بھی ہو ا و رپوچھے گئے سوالات کا ہنس کر، جواب بھی دے اور اگلے روز پھر اپنی ہتک کروانے کے لئے حاضر بھی ہو ۔ سیاست دانوں کے علاوہ ملک کے دوسرے ریاستی اداروں کے عہدیداروں کی ٹی وی پر حاضری اور ان سے پوچھے جانے والے سوالات کا تناسب نا ہونے کے برابر ہے۔کیا آپ نے کسی مل کے مالک یا کسی تاجر کوان سیاست دانوں کی طرح کسی نیوز چینل کے ٹاک شو میں اتنا روسوا ہوتے دیکھا ہے جتنا اس ملک کے کسی منجے ہوئے سیاست دان کو دیکھا ہوگا ۔ اور ناہی کسی تاجر سے ٹاک شو کے مزبان نے یہ سوال کیا ہوگا کہ آپ پاکستان سے رقم باہر کیوں منتقل کرتے ہو اور اپنا ٹیکس ادا کیوں نہیں کرتے ہو؟ کیا کوئی ریٹائرڈ جج یا کوئی ریٹائر جنرل کو کسی ٹی وی مذاکرے کے میزبان کے کٹہرے میں کسی نے کھڑا دیکھا ہے ؟ شاید نہیں! آٹھ ،نوسال کے مسلسل ان پروگراموں کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہے ہمارے ملک کے سیاست دانوں کو بعض میڈیا ہاوسزنے جھوٹ کی اتنی عادت ڈال دی ہے کہ جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ سوال پر سوال کرنا،ایک ہی سوال کو بار بار کرنا مختلف طور طریقے سے کرنا، یہی وہ وجہ ہے کہ ہمارے بعض سیاست دان جھوٹ در جھوٹ بولنے لگے ہیں ، نیوز چینلز والوں کا یہ کام بنتاہے کہ لوگوں تک یہ اطلاعات پہنچائیں کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، ان کے منتخب نمائندے کیا کر رہے ہیں، اور یہ بھی میڈیا ہی کی زمہ داری ہے کہ عوام کو سکے کا ایک نہیں دونوں رخ دیکھائیں اور دیکھائے کہ پاکستان میں عوام کی خدمت پر مامور تنخوادار نام نہاد عوامی خدما ت کے دعوے دار ارکان کیا کررہے ہیں ۔ کیا عوام کے یہ خدمت گار ارکان اپنے فرائض ادا کر بھی رہے ہیں یا نہیں؟ لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ایک تلخ حقیقت ہے اور اس کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ پاکستان کا میڈیا ابتک اس پہلو میں کامیاب نہیں ہو سکا ۔یہ بات بھی درست ہے کہ صحافت کے اس میدان میں بہت سے مسائل ہوتے ہے مگر اس کا یہ مطلب بھی ہر گز نہیں کے ہم ان سیاست دانوں کو اپنا ہدف بنا لیں اور آئے روز ان کی مٹی پلید کریں ۔اور سیاست دان بھی اپنے عزت نفس کا خیال رکھیں تھوڑی سی تشہیر کیلئے وہ اس قسم کے حرکتیں نہ کریں کہ ہمیں آپ سیاست دان کم ڈرامہ بازی زیادہ نظر آئیں ۔سیاست اور صحافت دو الگ الگ شعبے ہیں دونوں معتبر ہیں ۔دونوں ہر ملک کے اہم ستون سمجھے جاتے ہیں۔دونوں ہی امانت داری اور دیانت داری سے کام کریں تو کوئی بھی اس ملک کی ترقی کو روکنا پائے، ریاست کا چوتھا ستون صحافت ہے ۔مگر اس وقت ملک کے نامور سیاست دانوں نے اور بڑے بڑے میڈیا ہاوسز نے بعض ٹاک شو زنے ریٹنگ حاصل کرنے کیلئے مچھلی بازار بنا رکھا ہے ۔ اس وقت میڈیا کے ساتھ ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر سیکولرز جماعتیں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کے خلاف ایسے پڑ گئے ہیں کہ جیسے چوہدری صاحب پاکستانی ہے ہی نہیں ،چوہدری صاحب کا قصور بس اتنا سا ہے کہ وہ کچھ مذہبی جماعتوں کے قائدین سے ملے، دفاع پاکستان کونسل کالعدم جماعت نہیں ہے ، اسی طرح لدھیانوی صاجب ان سے ملتے ہیں یا پاکستان کی کوئی بھی مذہبی یا سیاسی جماعت کے رہنما ان سے ملاقات کرتے ہے تو کیا وہ انتہا پسند کہلایا جائیگا۔ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ جن جماعتوں کے رہنماؤں کو سیاسی جماعت والے کالعدم قرار دیتے ہیں ان کے قائدین کو انتہا پسند قرار دیتے ہیں ، وہ جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو وہ بھی باحیثیت وزیر ان سے ملتے ہیں ، کیا بھارت جیسے پاکستان دشمن کے ازلی دشمن سے بیک ڈور ہمارے مذاکرات نہیں چل رہے۔ جب بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے اور ہم ان سے مذاکرات کرسکتے ہیں تو ارباب اختیار ایم کیو ایم جیسی جماعت کو کنگ میکر پارٹی بنا دیتے ہیں، تو کبھی غدار وطن۔ یہ ایک طویل بحث ہے کہ آخر کس بنیاد پرچوہدری نثار صاحب کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ کہیں ڈاکٹر عاصم کے مقدمات پر مفاہمت تو نہیں چاہتے۔ جب بھی ملک پر اندرونی یا بیرونی خطرات کے سائے منڈلانے لگتے ہیں۔ بعض میڈیا چینل کے مالکان اور سیکولرز، لبرل ازم کی داعی جماعتوں کے قائدین پاکستان چھوڑ کر بیرون ملک میں پناء لے لیتے ہیں اوریہی مذہبی جماعتوں کے لوگ پاک فوج اور پاکستانی اداروں کے ساتھ ملکر ملک کا دفاع کرتے ہیں ۔ آج پاکستان پیپلز پارٹی سب سے زیادہ شور مچارہی ہے اور ان ہی کو لوگ کالعدم کالعدم کررہے ہیں ۔کیا ان کے دور میں ان ہی کہ صدر جناب آصف علی زرداری صاحب ایوان صدر میں ایک اور کالعدم جماعت تحریک نفاذ فقہ جعرفیہ کے بانی ساجد نقوی اور ان کے رفقا ء کے ساتھ ملاقاتیں نہیں کیا کرتے تھے۔ان کی تصویریں آج بھی سوشل میڈیا پر موجود ہے۔سنی تحریک بھی تو فورتھ شیڈول میں ہے۔ ان پر تنقید کیوں نہیں۔ اس وقت تمام سیکولرز جماعتیں شور مچارہی ہے کہ مولانا احمد لدھیانوی کے خلاف کاروائی کیوں نہیں ہوتی اگرسیاسی جماعت کے ذمہ دار کے ساتھ مولانا کی تصویر وائر ل ہوجاتی ہے تو سیکولرز کے ساتھ ساتھ میڈیا کے اینکرز شوروغوغا کرتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان کہا ں گیا ،نیشنل ایکشن پلان کا ہر گز یہ مطلب نہیں کے کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت جو کھل کر پاکستان کی سیاست میں حصہ لے رہی ہو اس کو ملیا میٹ کیا جائے ۔اس کا مطلب یہ ہے جو پاکستان کے آئین اور قانون کو تسلیم کرتا ہے تو ان کو قومی دھاے میں لایاجائے ، اگر بلوچستان کے وہ جنگجو جو پاکستان کے فوج سے لڑرہے تھے ان کو قومی دھارے میں لیا جاسکتا ہے۔ ان کے برخلاف مولانا احمد لدھیانوی کو یہ کریڈ ٹ جاتا ہے کہ تمام تر الزامات کے جواب میں وہ پاکستان کو تسلیم کرتے ہیں اور ہر مخالفین کو آئین پاکستان کے مطابق جواب دیتے ہیں ، فرقہ واریت کی نفی کرتے ہیں اور اتحاد بین المسلمین کے قائل ہیں۔ ، اس وقت پاکستان اور اسلام کے دشمن پاکستان میں امن نہیں چاہتے اور ہر وقت پاکستان میں کسی نہ کسی مسلے پر امن خراب کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہوتے ہیں ۔اس وقت پاکستان کے ہر سیاسی اور مذہبی جماعت کو چاہیئے کہ ملک میں بڑے مشکل سے امن آیا ہے اس ہی امن کو برقرار رکھنے کیلئے ایک پاکستان کے پرچم تلے جمع ہونا ہوگا ۔ آو بلا کسی رنگ و نسل کسی مسلک اور فرقے کے ملک اور اسلام کی خدمت کریں اگر اسلام و پاکستان ہے تو ہم ہے ۔ دنیا کی نظریں پاکستان کی ایٹمی اثاثوں پر لگی ہے اگر ہم اس ہی طرح ایک دوسرے سے لڑتے رہے تو دن دور نہیں کہ وعالمی طاقتیں اکر یہ کہے اپنے ایٹمی اثاثے ہمیں دو آپ کے یہاں محفوظ نہیں ہے ۔اﷲ تعالیٰ سلامت رکھیں پاک فوج کو جس نے ہراندرونی اور بیرونی فتنے سے ملک کا دفاع کیا ۔ اﷲ سے دعا ہے کہ اﷲ یوہی اپنا کرم رکھیوں پاکستان پر (آمین)
Inayat Kabalgraami
About the Author: Inayat Kabalgraami Read More Articles by Inayat Kabalgraami: 94 Articles with 84938 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.