ہر دلعزیز شخصیت ومعروف نعت خواں و مذہبی
اسکالر جنید جمشید اپنے اﷲ کے پاس، اپنے آخری سفر پر ’دنیا کے اے مسافر
منزل تیری قبر ہے ‘کا پیغام دیتے ہوئے روانہ ہو چکے ہیں ،جمعرات کومعروف
مذہبی اسکالر جنید جمشید کو دارالعلوم کورنگی کے احاطے میں سپرد خاک کردیا
گیا۔بیٹے کے ہاتھوں سپردخاک دیکھ کر ہر آنکھ اشکبار اور ہر چہرہ سوگوار
ہوگیا۔ جنید جمشید کے جسد خاکی کو نماز جنازہ کے لیے پی این ایس شفا ہسپتال
کے سرد خانے سے نیوی اہلکاروں کے اسکارٹ کے ساتھ ڈیفنس میں واقع معین خان
کرکٹ اکیڈمی کے برابر میں موجود اے کے ڈی گراؤنڈ منتقل کیا گیا جہاں پولیس
اور رینجرز کی سخت سکیورٹی میں ان کی نمازجنازہ ادا کی گئی۔ان کی میت کو
پاکستان کے قومی پرچم میں لپیٹا گیا تھا۔جنید جمشید کے بھائی ہمایوں جمشید
کا کہنا تھاکہ’’ دل دل پاکستان ان کی شناخت بنی تھی اور اسی پاکستان کے
جھنڈے میں ان کی میت کو لپیٹا گیا ہے، دل دل پاکستان کا اس قوم نے حق ادا
کردیا، اب تک جنید کو صرف اپنا بھائی سمجھتا تھا آج احساس ہوا جنید تو پورے
پاکستان کا بھائی تھا۔انہوں نے کہا کہ میں تینوں مسلح افواج کا بھی بے حد
مشکور ہوں، جس طرح قومی پرچم میں میت کو لپیٹ کر یہاں بھیجا گیا، وہ ہماری
فیملی کے لیے دلی تسکین کا باعث ہے‘‘۔ نماز جنازہ مولانا طارق جمیل نے
پڑھائی،نماز جنازہ میں مفتی تقی عثمانی ، ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ
فاروق ستار، سابق وزیرخارجہ خورشید قصوری، چیف سلیکٹرانضمام الحق، کرکٹر
محمد یوسف، محمد حفیظ، جماعت اسلامی کے رہنما حافظ نعیم الرحمان، پی ٹی آئی
رہنما خرم شیرزمان، فیصل واوڈا، پی ایس پی کے ڈاکٹرصغیر احمد، اداکار سعود،
نبیل ، اعجاز اسلم، گلوکار فاخر،گلوکار فخر عالم سمیت عزیزو اقارب اور
مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔نماز جنازہ کے موقع پر
اے کے ڈی گراؤنڈ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔واضح رہے کہ جنید جمشید کی خواہش کے
مطابق ان کی تدفین کے انتظامات دارالعلوم کورنگی کے احاطے میں کیے گئے تھے
۔اسی روز ان کی اہلیہ نیہا جنید کی نمازجنازہ لاہور میں ادا کردی گئی اور
ان کو کیولری گراؤنڈ قبرستان میں سپرد خاک کیا۔ نماز جنازہ سے قبل تبلیغی
جماعت کے معروف مبلغ مولانا طارق جمیل نے ایک طویل خطبہ دیا جو کئی ٹی وی
چینلز پر لائیو نشر کیا گیا۔مولانا طارق جمیل نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ’’
موت کے بعد سب انسان ختم ہوجاتے ہیں۔ ہم آج اﷲ کی امانت اﷲ کے سپرد کرنے
آئے ہیں،ایسے جنازے بادشاہوں کے بھی نہیں ہوتے، خوش نصیب ہوتے ہیں جن کے
ایسے جنازے ہوتے ہیں۔ جنازے میں شرکت کے لیے ایسے لوگ آئے ہیں جن کے پاس
واپس جانے کا کرایہ بھی موجود نہیں، ہر انسان کو موت کا مزہ چکھنا ہے ،
جنید جمشید ہمارے درمیان نہیں لیکن جب میں اس کا نام اپنی زبان پر لاتا ہوں
تو میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ اس کی موت کے وقت
اس کا خدا اس سے راضی ہو ، اگر اس کا خدا اس سے راضی ہو تو اس کی زندگی
کامیاب ہے اور اگر اس کا خدا اس سے راضی نہ ہوا تو اس کی زندگی کا کوئی
فائدہ نہیں‘‘۔ نماز جنازہ کے موقع پر رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے ، لوگ
پھوٹ پھوٹ کر روتے رہے۔نماز جنازہ سے قبل اے کے ڈی گراؤنڈ کی سرچنگ کی گئی
تھی۔ سگراؤنڈ کو سراغ رساں کتوں اور بم ڈسپوزل اسکواڈ سے چیک کرایا گیا۔
نماز جنازہ کے موقع پر سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کئے گئے تھے اور
تمام افراد کو مکمل چیکنگ کے بعد ہی گراؤنڈ میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی۔
تین سو سے زائد رینجرز اور پولیس اہلکار سکیورٹی انتظامات کے لئے گراؤنڈ
میں موجود رہے۔ گراؤنڈ کو جانے والے تمام راستوں کو بیریئرز لگا کر بند کر
دیا گیا اور صرف جنازے میں شرکت کیلئے آنے والوں کو ہی گراؤنڈ میں داخلے کی
اجازت دی گئی۔ اس سے قبل بدھ کو نور خان ایئربیس پر بھی جنید جمشید کی نماز
جنازہ ادا کی گئی تھی ،جس میں اعلیٰ سول و عسکری عہدے داران سمیت شہریوں کی
بڑی تعداد شریک ہوئی، جنازہ کے بعد ائیرفورس کے دستے نے جنید جمشید کی میت
کوگارڈ آف آنر پیش کیا تھا۔واضح رہے کہ معروف سماجی شخصیت عبدالستار ایدھی
کے بعد جنید جمشید دوسری غیر سرکاری شخصیت ہیں جنھیں گارڈ آف آنر پیش کیا
گیاہے۔بعد ازاں ان کی میت کو خصوصی سی ون تھرٹی طیارے کے ذریعے کراچی
پہنچایا گیا تھاجہاں اے کے گراؤنڈ میں نماز جنازہ پڑھائے جانے کے انتظامات
کیے گئے۔واضح رہے کہ7 دسمبر کو حویلیاں کے نزدیک پاکستان انٹرنیشنل
ایئرلائنز (پی آئی اے) کی پرواز پی کے 661 کے حادثے کے نتیجے میں جہاز کے
عملے سمیت 48 افراد جاں بحق ہوگئے تھے اوراس بدقسمت جہاز میں جنید جمشید
اور ان کی اہلیہ نیہا جنید بھی سوار تھیں ۔پی آئی اے کی جانب سے جاری کی
جانے والی مسافروں کی فہرست کے مطابق متاثرہ طیارے میں 31 مرد، 9 خواتین
اور 2 بچے سوار تھے۔جنید جمشیدچترال میں تبلیغی دورہ مکمل کرنے کے بعد
اسلام آباد آرہے تھے۔حادثے میں ہلاک مسافروں کی شناخت ڈی این اے ٹیسٹ کے
ذریعے کی گئی، جنید جمشید کے بھائی ہمایوں جمشید نے پمز ہسپتال میں ڈی این
اے ٹیسٹ کے لیے نمونہ جمع کرایا تھا، جس کے بعد چہرے کے ایکسرے اور دانتوں
کی ہسٹری سے جنید جمشید کی شناخت ممکن ہوئی۔معروف شوبز شخصیت فخر عالم کا
اس موقع پر کہنا تھا کہ’ ’جب تک دل دل پاکستان ہے، جنید جمشید کا نام زندہ
رہے گا‘‘۔شوبز کی چکا چوند کو خیرباد کہہ کر اپنی زندگی اسلام کے لئے وقف
کردینے والے اسٹار جنید جمشید کی ناگہانی موت پر دنیا بھر میں ان کے پرستار
سوگوار ہیں۔
1987ء میں موسیقی کی دنیا میں’جنید جمشید‘ تازہ ہوا کا جھونکا بن کر آئے۔
یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں سینما انڈسٹری آخری دموں پر تھی،پرائیویٹ
چینلز کا خواب بھی کسی نے شاید نہیں دیکھا تھا صرف پاکستان ٹی وی گھر گھر
دیکھا جاتا تھا وہ بھی شام سے نصف شب تک۔ ایسے میں جنید جمشید نے ایک پاپ
گروپ ترتیب دیا جس کا نام تھا’’وائٹل سائنز‘‘۔اس گروپ نے ٹی وی پر ایک ملی
نغمہ ’’دل دل پاکستان‘‘ متعارف کرایا جس میں مغربی آلات موسیقی استعمال کئے
گئے تھے۔’’دل دل پاکستان‘‘ ایک دوبار ہی ٹی وی اسکرین پر آیا اور اس کے بعد
تو گویا دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں دلوں کی آواز بن گیا۔ اس وقت کا شاید ہی
کوئی ٹی وی پروگرام، ٹاک شو، یا میوزک پروگرام ایسا ہوگا جس میں اس نغمے کا
ذکر نہ ہوتاہو ورنہ شادی بیاہ سے لیکر دیگر تمام نجی تقریبات تک میں جنید
جمشید اور ان کا ملی نغمہ چھایا رہتا۔ یوم آزادی ، یوم پاکستان اور دیگر
قومی دنوں پر تو اس کی دھنیں بجنا لازمی سا بن گیا تھا۔ اس نغمے کی بدولت
جنید جمشید موسیقی کی دنیا پر ایسے چھائے کہ اگلی پوری دہائی میں ان کا
کوئی جوڑ پیدا نہ ہوسکا،2003 میں ایک سروے کے مطابق ان کا ملی نغمہ ’’دل دل
پاکستان‘‘ دنیا کا تیسرا مقبول ترین گیت قرار پایا۔جبکہ آج’’ دل دل
پاکستان‘‘ کو ملک کا دوسرا قومی ترانہ سمجھا جاتا ہے۔لیکن پھر اچانک ہی
جنید کے ذوق نے ’’یوٹرن ‘‘ لیا۔ کہاں وہ کلین شیو اور مغربی طرز کے جدید
کپڑوں میں نظر آنے والا جنید اور کہاں وہ لمبی سی داڑھی رکھ کر نعتیہ کلام
اور حمد وثناء پڑھتے نظرآنے والا جنید۔ جنیدنے ایک نئی دنیا سے خود کو
روشناس کرالیا تھا اوروہ تبلیغ کو اپنا نصب العین بناچکے تھے۔گویا نرم آواز
اور ملائم لہجے والے جنید جمشید کی تمام زندگی ایک پڑاؤ سے دوسرے پڑاؤ کی
جانب سفر سے عبارت رہی۔وہ سفر جو کنسرٹ ہال سے شروع ہو کر مختلف موڑ مڑتا،
کہیں یو ٹرن لیتا، کہیں رکتا، پلٹتا، بالآخر سات دسمبر کو حویلیاں کے قریب
ایک پہاڑی پر ہمیشہ کے لیے انجام پذیر ہو گیا۔
قابل فخر بات یہ ہے جو ان کو دوسروں سے ممتاز کر گئی کہ بے پناہ شہرت اور
لاکھوں دلوں کی آواز بننے والے جنید گلوکاری کے پڑاؤ پر بھی نہیں رکے۔ اس
میدان میں شہرت، عزت اور دولت کمانے کے بعد انھوں نے ایک بار پھر اپنی سمت
بدل دی اور شوبزنس کی چکاچوند دنیا کو خیر باد کہہ کر مذہب کی دنیا کی طرف
نکل گئے۔وہ باقاعدہ سوچ سمجھ کر گلوکار نہیں بنے تھے۔جنید جمشید خود کہا
تھا کہ میں فائٹر پائلٹ بننا چاہتا تھا، نہیں بن سکا، ڈاکٹر بننا چاہتا
تھا، نہیں بن سکا۔ انجینیئر بننا چاہتا تھا، نہیں بن سکا۔ گلوکار نہیں بننا
چاہتا تھا لیکن بن گیا۔ ۔وہ کہتے ہیں کہ تمام تر عزت کے باوجود مجھے اندر
سے کسی ’’کمی‘‘کا احساس ستاتا رہتا تھا۔ ان کی یہ ’’کمی‘‘تبلیغی جماعت کے
مولانا طارق جمیل کے ہاتھوں پوری ہوئی، اور جنید سب کچھ چھوڑ کر مذہب کی
جانب مائل ہو گئے اور وہ جب اپنے خالق حقیقی کے پاس گئے تب بھی وہ اپنے اﷲ
اور اس کے رسول حضرت محمد ﷺ کا پیغام پھیلاتے ہوئے گئے۔
آنکھو ں سے تو نے اپنی کتنے جنازے دیکھے
ہاتھوں سے تو نے اپنے دفنائے کتنے مردے
طے کر رہا ہے جو تو ،دو دن کا یہ سفر ہے
انجام سے تو اپنے ،کیوں اتنا بے خبر ہے
یہ حقیقت ہے کہ اﷲ تعالیٰ جب کسی انسان کی بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو
اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے اور پھر ایک سجدہ ہی اس کی زندگی کو بدلنے
کی لیے کافی ہوتا ہے اور وہ اپنے آپ کو اسی لمحے اﷲ رب العزت کے سپرد کر
دیتا ہے جو اسے گناہوں کی دلدل سے نکال کر اپنے دین کی راہ پر چلا دیتا
ہے۔انسان کی فطرت ہے کہ وہ ہر لمحہ آرام دہ و پر سکون زندگی بسر کرنا چاہتا
ہے ،اس کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اس کے آگے پیچھے گھومیں ،اس کے پاس
دولت کے انبارلگے ہوں،اس دنیا میں بہت سے لوگ موجود ہیں جن کے پاس عزت
،شہرت اور پیسہ سب کچھ میسر ہوتا ہے اگر نہیں ہوتا تو سکون،بعض اوقات سکون
کی تلاش اسے ایک ایسا سجدہ کروانے میں معاون ثابت ہوتی ہے کہ وہ اﷲ کی راہ
پر چل کر وہ سکون پاتا ہے کہ اس کی روح تروتازہ ہو جاتی ہے اوربعض اوقات
ایسا بھی ہوتا ہے کہ مسلما ن ہوتے ہوئے بھی لوگ اﷲ کی پہچان سے ناآشنا ہوتے
ہیں اور ان کے نزدیک زندگی غفلت اور عیش میں گزارنے کا ہی نام ہوتی ہے اور
پھر ایک ایسا واقعہ جو ان کی غفلت زدہ زندگی میں شعور کے دریچے کھولنے میں
مدد دیتا ہے اور انہیں اﷲ کی نا صرف پہچان کرواتا ہے بلکہ اس کے دین کو
سمجھنے اور آخرت سنوارنے کا موقع فراہم کرتاہے۔اسی سکون کی تلاش ’جنید
جمشید ‘کو تھی اور انہوں نے اپنی خوبصورت آواز کو گانوں کی بجائے ’حمد و
نعت‘کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وقف کر دیا۔یقینا ان کے علاوہ بھی آپ نے
اپنی زندگی میں بہت سے ایسے لوگ دیکھے ہوں گے جنہوں نے اپنی پر آسائش زندگی
کو چھوڑ کر دین اسلام کی تبلیغ کے راستے کو اپنی زندگی کا منشور بنا یا۔اس
تبدیلی کے بدلے میں جنیدجمشید کو یقینی طور پر بہت سے مسائل کا سامنا کرنا
پڑا ہو گا۔۔۔بہت سے کم عقل لوگوں کی تنقید کا بھی سامنا رہا ہو گا۔۔۔مگر
انہوں نے ہمت نہ ہاری بلکہ حوصلہ سے اپنا سفر جاری و ساری رکھا اوران کے دل
کو اﷲ نے اپنے ایمان سے منور کر دیا اور وہ ایسے ہو گئے کہ انہیں دیکھ کر
ہمارا دل خوش ہو جاتا تھا، گلوکارسے نعت خواں تک کا سفر طے کرنے کے بعد
جنید جمشید کی تمام تر توجہ تبلیغ کی طرف مبذول ہو چکی تھی۔ وہ تقریباً فل
ٹائم مبلغ بن گئے اور عام دنیا کے علاوہ ٹیلی ویژن پروگراموں میں بھی دین
کی دعوت دینے لگے۔ لیکن چونکہ ان کی بنیادی دینی تربیت نہیں تھی، اس لیے
بعض اوقات ان سے چوک بھی ہو جاتی تھی۔جس پر انہوں نے باقاعدہ اﷲ کے حضور
روتے ہوئے معافی بھی مانگی تھی۔جنید کا نعتوں اور حمدیہ کلام پر مشتمل پہلا
البم ’’جلوہ جاناں‘‘ 2005ء میں ریلیز ہوا تھا۔اس کے بعد ’’محبوب یزداں‘‘
2006 میں ،’’بدر الدجا‘‘2008 میں ،’’بدیع الزماں‘‘2009 میں ریلیز ہوئے۔ان
کے معروف و ہر دل عزیز کلام’ الہی تیری چوکھٹ پر بھکاری بن کے آیا ہوں‘،’
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے‘،’دوِعالم تمہارا ہوا کملی والے‘،’محمدؐ کا
روضہ قریب آ رہا ہے‘،’میرا دل بدل دے‘،’ اے رسول امیں خاتم المرسلیں ؐ
‘،’اے طیبہ امت کا سفینہ ‘،’طلع البدر علینا‘،’میٹھا میٹھا ،پیارا پیارا
میرے محمد ؐ کا نام‘،’یہ صبح مدینہ ، یہ شام مدینہ‘وغیرہ آج بھی زبان
زدِعام ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔یعنی ’’گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہے
گا‘‘۔دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ جنید جمشید کو جنت الفردوس عطا فرمائیں(آمین)۔ |