پارکنسنز کسی کھیل ، ایکٹر ، پارک یا خلائی
مخلوق کا نام نہیں بلکہ ایک خطرناک بیماری ہے جسے دنیا بھر میں مختلف ناموں
سے پکارا جاتا ہے مثلاً موربُس پارکنسنز ،پیرا لائیسس ائجیٹینس ، آئی ڈیو
پیتھک پاکنسنز سینڈروم وغیرہ،یہ بیماری آلزائمر سے مناسبت رکھتی اور اعصابی
نظام کو شدید متاثر کرتی ہے خاص طور پر عمر رسیدہ افراد جن کی عمریں پچاس
سے زائد ہوں اور اسی برس تک کئی افراد اس کا شکار ہوتے ہیں ۔ اٹھارہ سو
سترہ میں برطانوی معالج جیمز پار کِنسن نے طویل مدت تحقیق کے بعد فالج اور
لقوہ زدہ افراد کی دوران تشخیص اس کی علامات ظاہر ہونے پر دریافت کی، کئی
نتائج ظاہر ہونے اور مکمل تحقیق کے بعد اس بیماری کو جیمز پارکنسن کے نام
نامزد کیا گیا۔پارکنسن بیماری میں مبتلا افراد کے خاص طور پر دماغی خلیات
آہستہ آہستہ کمزور ہو جانے یعنی ڈوپامن کی کمی سے مکمل طور پر ختم ہو جاتے
ہیں نیورو ٹرانسمیٹر ڈوپامِن کو کنٹرول نہیں کر سکتا اور علیحدگی کی صورت
میں دماغی توازن ،محرکات ، دماغی پٹھوں کا غیر مستحکم ہو جانے سے پارکنسن
کی علامات ظاہر ہوتی ہیں اس بیماری کا مکمل علاج ابھی تک دریافت نہیں ہو
سکا تاہم مختلف تشخیص اور تھیراپی سے مزید پھیلنے اور روکنے کی کوشش کی
جاتی ہے۔مغربی صنعتی ممالک میں روزمرہ زندگی میں متوقع طور پر تیزگی اور
مسلسل اضافہ ہونے کی صورت میں کثرت سے کئی عمر رسیدہ افراد میں اس بیماری
کا رحجان پایا جاتا ہے اور آنے والے برسوں میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ
ہے،ایک اندازے کے مطابق صرف جرمنی میں ڈیڑھ سے دو لاکھ افراد آئی ڈیو پیتھک
پارکنسز سینڈروم کا شکار ہیں جبکہ وسطی یورپ میں ایک لاکھ کی آبادی میں
پندرہ سے بیس افراد پارکنسن میں مبتلا ہیں۔ طویل تحقیق کے بعد ابھی تک
نتائج برآمد نہیں ہو سکے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر نیورو
ٹرانسمیٹر ،عصبی خلیات ،سوئیچنگ پوائنٹس ،سائی نیپسن وغیرہ تعطل پیدا کرتے
ہیں جس کی وجہ سے عام طور پر کمیونیکیشن میں روکاوٹ پیدا ہوتی ہے ، تاہم
اسی فیصد کیسسز میں بیماری کا پتہ لگایا جا سکتا ہے ، دوران تحقیق یہ بھی
ظاہر ہوا کہ جینیاتی نظام کے مطابق اس بیماری کا وراثت سے کوئی تعلق نہیں
لیکن دیگر ممکنہ وجوہات مثلاً ماحولیاتی اثرات، کیڑے مار ادویہ ،مختلف
اقسام کی گیسز ، بھاری دھاتیں ،ریڈیو ایکٹو ،مقناطیسی لیزرز اور دیگر
روزمرہ زندگی میں شامل وجوہات کو شمار کیا گیا، میٹابولک بھی اس بیماری کو
فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے،علاوہ ازیں مختلف بیماریوں کی علامات
اور ایک دوسرے سے منسلک ہونے سے بھی تحقیق کے بعد پارکنسن کا جنم ہوتا ہے
مثلاً عمر کے ساتھ ساتھ انسان مختلف ادویہ زیادہ مقدار یا طویل عرصے تک
استعمال کرے یا نفسیاتی علاج کیلئے نیورو لیپٹک کا استعمال یا اینٹا گونٹس
جس کا استعمال ہائی بلڈ پریشر اور قلبی امراض کیلئے کیا جاتا ہے ،پارکنسن
میں مبتلا ہو سکتا ہے۔اس کی علامات واپس بھی جا سکتی ہیں اگر مخصوص مقدار
یا مختصر مدت کے لئے ادویہ استعمال کی جائیں لیکن ادویہ کا استعمال ایک
ماہر ڈاکٹر ہی بتا سکتا ہے۔مزید برآں دماغی سوزش ،چوٹ، سٹروک یا انفیکشن سے
بھی پارکنسنز کا شکار ہونا ممکن ہے، موربس پارکنسن کی دیگر علامات میں
محرکات کی رفتار کا کم ہونا ،پٹھوں کا اکڑ جانا ،کانپنا یعنی بدستور کپکپی
طاری رہنا شامل ہیں، دوران علاج اگر انفیکشن ہو جائے ،غلط ادویہ کا استعمال
اور غلط اعضاء کا آپریشن وغیرہ سے پیچیدگی پیدا ہو سکتی ہے ممکنہ طور پر
مریض ہمیشہ کیلئے ساکت بھی ہو سکتا ہے ،بولنے اور خوراک نگلنے سے بھی قاصر
ہو سکتا ہے ،دیگر علامات میں زیادہ پسینہ آنا یا تیز رفتار پلز وغیرہ شامل
ہیں جو خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں کیونکہ تھوک نگلنے کی کوشش اور پھیپھڑوں کے
مختلف خلیات نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔موجودہ دور میں کمپیوٹر ٹومو گرافی ،
ایم آر ٹی، میگنٹ ری سو نینس ٹومو گرافی اور پی ای ٹی کے زریعے ڈوپامن اور
دیگر دماغی خلیات کی تحقیق کی جا سکتی ہے فزیو تھیراپی کے علاوہ آپریشن
آخری حربہ ہوتا ہے کہ ممکنہ طور پر کم سے کم انسان کی جان بچائی جا سکے۔ |