ترکی میں روسی سفیرکی ہلاکت۰۰۰انتقام یا سازش

ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں روس کے سفیر اندرے کارلوف کو 19؍ ڈسمبر کو فنون لطیفہ کی ایک نمائش کے دوران جبکہ وہ تقریر کے لئے آرہے تھے کہ ایک نوجوان مولود مرت التنتاش جو اﷲ اکبر کا نعرہ بلند کرتے ہوئے انہیں گولیاں مارکر ہلاک کردیا۔ 62سالہ روسی سفیر کی اس حملہ میں ہلاکت پر ترکی کے صدر رجب طیب اردغان نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اندرے کارلوف کی ہلاکت ترک قوم پر حملہ ہے۔خیال کیا جارہا ہے کہ یہ حملہ شام میں روسی مداخلت کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ جبکہ ترکی میں گذشتہ کئی دنوں سے شام میں روسی فوج کی ظالمانہ کارروائیوں کے خلاف مظاہرے کئے جارہے ہیں۔پولیس نے حملہ آورالتنتاش (جو خود پولیس اہلکار تھالیکن حملہ کے وقت وہ چھٹی پر تھا) کو ہلاک کردیا۔ذرائع ابلاغ کے مطابق التنتاش نے ترک زبان میں کہا کہ ’’: شام کو مت بھولو، حلب کو مت بھولو، وہ تمام جو اس ظلم میں ملوث ہیں ان کا احتساب ہوگا۔‘‘

روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخاروا کا کہنا ہے کہ دہشت گردی اس طرح نہیں رہ سکتی، ہم اس سے لڑنے کے لئے پر عزم ہیں۔ ترکی میں متعین سفیر پر حملہ انتقام بھی ہوسکتا ہے یا سازش بھی ۔ ویسے شام کے معصوم بچوں اور بے گناہ افراد پر بشارالاسد کی فوج اور روسی و ایرانی فوج کے مظالم دیکھنے کے بعد اس قسم کا جذبہ انتقامی کے پائے جانے کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق شام اور عراق میں کمسن بچوں کوجذبۂ انتقامی کے تحت خودکش بمبار بتایا جارہا ہے اس میں کس حد تک صداقت ہے یا کون ان خودکش بمبارمعصوموں کو موت کو گلے لگانے کی ترغیب دے رہاہے اس سلسلہ میں کچھ کہا نہیں جاسکتا کیونکہ معصوم کمسن بچے اس طرح کی انتقامی کارروائی کرنا محال ہے۔

روسی صدر ولادیمیر پوتن کا کہنا ہے کہ روسی سفیر پر حملے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھانا اور اس سے شام میں امن کی بحالی کی کوشش کو نقصان پہنچانا ہے۔حملہ کے دوران کئی دیگر افراد بھی زخمی ہوئے۔ روسی ٹی وی کے مطابق سفیر اندرے کارلوو جس نمائش میں شرکت کررہے تھے اس کا نام ’’ترکوں کی نظر سے روس ‘‘ تھا۔روسی وزارت خارجہ کی ترجمان کے مطابق اندرے کارلوف غیر معمولی شخصیت کے مالک سفارت کار تھے ۔ جنہوں نے دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے بہت کچھ کیا وہ ہمیشہ ہمارے دلوں میں رہینگے،وہ ایک منجھے ہوئے سفارتکار کی حیثیت سے جانے جاتے تھے، جنہوں نے 1980ء کی دہائی کا بیشتر حصہ شمالی کوریا میں بطور روسی سفیر گزارا۔1991ء میں سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد انہیں جنوبی کوریا منتقل کردیا گیا تھا اور 2001میں وہ واپس شمالی کوریا میں بطور سفیر گئے۔ جولائی2013ء میں اندرے کارلوف کو ترکی کے سفیر کی حیثیت سے تعینات کیا گیا تھا۔ ان کے دور میں روس اور ترکی کے درمیان تعلقات میں کشیدگی آئی اور گذشتہ سال شامی سرحد کے قریب ایک ترک طیارے نے روسی جنگی جہاز مار گرایا تھا ۔ اس کے بعد سے روس اور ترکی کے درمیان تعلقات خراب ہوگئے تھے اور ترکی پر روس نے اقتصادی پابندیاں عائد کردیں تھیں۔ دونوں ممالک کے درمیان گذشتہ چند ماہ سے تعلقات میں بہتری آرہی تھی لیکن شام میں روس کی خطرناک فضائی کارروائیوں کے باعث عوامی احتجاج میں اضافہ ہورہا ہے اور اسی کا نتیجہ ہوسکتا ہے کہ اندرے کارلوف پر حملہ کیا گیا۔

حلب سے شہریوں کو دوبارہ کیمپوں میں پہچانے کا آغاز
شام کے شہر حلب پر بشارالاسد کی ظالم قابض ہوتی جارہی ہے باغیوں اور شدت پسندوں کو ختم کرنے کے نام پر عام شہریوں بشمول معصوم بچوں کو ہلاک کیا جارہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق گذشتہ چند دنوں کے دوران شامی عوام پر بشارالاسد کی فوج، روسی فوج اور ایرانی فوج کی جانب سے ظالمانہ کاررئیوں کا سلسلہ جاری ہے جس میں ہزاروں معصوم افراد بشمول بچے اور زخمی ہورہے ہیں۔ شامی خانہ جنگی پر نظر رکھنے والی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق مارچ 2011ء میں شروع ہونے والی شامی خانہ جنگی میں اب تک 312,000 سے زائد انسانوں کی جان جا چکی ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق آبزرویٹری کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ان ہلاک ہونے والوں میں 90 ہزار سے زائد عام شہری تھے۔ لندن میں قائم اس تنظیم کے مطابق پانچ سال سے زائد عرصے سے جاری اس جنگ کے دوران 16 ہزار سے زائد بچے ہلاک ہوئے ہیں۔ 53 ہزار بشارالاسد کی فوج کے خلاف بغاوت میں حصہ لینے والے ،جبکہ 110,000 شامی ظالم فورسز یا ان کے حامی جنگجو ہلاک ہوئے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان میں سے 60 ہزار شامی فوجی تھے۔ آبزرویٹری کے مطابق 55 ہزار سے زائد جہادی بھی اس خانہ جنگی کا شکار ہوئے جن میں سے زیادہ تر کا تعلق القاعدہ سے منسلک فتح الشام گروپ سے بتایا جاتا تھا۔شام کے شہر حلب میں حکومت اور باغی ، دونوں کے زیر کنٹرول علاقوں سے شہریوں کو نکالنے کا عمل دوبارہ شروع کیا گیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق مشرقی حلب سے ہزاروں شہریوں کو نکال کر کیمپوں میں منتقل کیا جارہا ہے تاکہ انہیں طبی امداد اور خوراک فراہم کی جاسکے۔ بشارالاسد فوج کے زیر کنٹرول علاقوں سے بھی شہریوں کو نکالا جارہا ہے ۔

اقوام متحدہ کی جانب سے آنگ سان سوچی پر تنقید
اقوام متحدہ نے روہنگیا اقلیت کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی بنا پر آنگ سان سوچی کی قیادت میں قائم میانمار حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا ادارے کے مطابق اسے ہر روز زیادتی، قتل اور مختلف مظالم کے بارے میں رپورٹس موصول ہورہی ہیں لیکن آزاد مبصرین کو ان جرائم کی تحقیقات سے روکا جارہا ہے۔ ادارے کے سربراہ زیدراعد الحسین نے ایک بیان میں کہا ہے کہ نوبل انعام یافتہ رہنماء آنگ سان سوچی کی قیادت میں قائم میانمار کی حکومت کی طرف سے اختیار کیا گیا طرز عمل خلاف منشا اور بے حس ہے۔میانمار کی ریاست رخائن میں فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد کم از کم 76روہنگیا مسلمانوں کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے جبکہ 27ہزار کو اپنا گھربار چھوڑ کر نقل مکانی کے لئے بنگلہ دیش جانے پر مجبور ہونا پڑا۔راعد الحسین کے مطابق انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں کو بے بنیاد قرار دے کر رد کرنے کی حکومتی پالیسی مظالم کا نشانہ بننے والوں کی توہین ہے اور انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی قوانین کے تحت حکومت پر عائد ذمہ داریوں سے فرار کی کوشش ہے۔ انکا کہنا تھا کہ اگر حکام کا دامن صاف ہے تو وہ ہمیں تحقیقات کی اجازت دینے سے کیوں ہچکچا رہے ہیں؟ جس طرح سے ہمیں وہاں جانے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے، اسی سے ہمیں بدترین صورتحال کے خدشات لاحق ہورہے ہیں۔ انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کے ادارے کی ترجمان روینا شامداسانی نے کہا ہے کہ ان کے ادارے میں علاقے میں جانے کی باضابطہ درخواست دی ہے لیکن اسے اجازت نہیں دی گئی۔ ترجمان کے مطابق الحسین نے اس سال جون میں ہی اس بات کا غدشہ ظاہر کیا تھاکہ ہوسکتا ہے کہ میانمار میں انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب ہورہا ہے اور اگر حکومت نے صورتحال سے نپٹنے کے لئے احتیاط نہ کی اور روہنگیا اقلیت کی مشکلات پر توجہ نہ دی تو تشدد کا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔ انکا یہ خدشہ سچ ثابت ہورہا ہے حکومت نے صورتحال سے نپٹنے کے لئے احتیاط نہ کی اور روہنگیا مسلمانوں کی مشکلات پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے گذشتہ چند ماہ سے حالات ایسے ہی ہوچکے ہیں۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ روہنگیا کے مسلمانوں اور شامی شہریوں پر جس طرح کے مظالم ڈھائے جانے کا سلسلہ جاری ہے اس کے خلاف عالمی سطح پر خصوصاً عالمِ اسلام کو سخت مذمت کرنی چاہیے۔ سعودی عرب ، عرب امارات وغیرہ سخت ردّعمل ظاہر کرتے ہوئے روہنگیا اور شام کے مظلوموں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف متحدہ طور پر آواز اٹھاتے۔برما میں آنگ سان سوچی کی قیادت میں قائم حکومت کے خلاف عالمِ اسلام کے حکمراں شدید دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے۔ اب تو امریکہ اور روس کے درمیان تعلقات بہتر ہونے کی توقع کی جارہی ہے ، نومنتخبہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولایمیر پوتین کے درمیان دوستانہ بتائے جارہے ہیں اگر واقعی ان دونوں قائدین کے درمیان بہتر تعلقات ہوتے ہیں تو شام کے حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں کیونکہ روس پہلے ہی بشارالاسد کے اقتدار کو بچانے کی کوشش میں لاکھوں شامیوں کو ہلاک ، زخمی اور بے گھر کرچکا ہے۔ امریکہ اور اتحادی ممالک بھی شدت پسندی کے خاتمہ کے لئے شام میں ظالمانہ کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور اگر ٹرمپ اور پوتن کے درمیان دوستانہ ماحول بن جاتا ہے تو روس بشارالاسد کی حکومت کو بچانے کے لئے امریکی پایسی میں بدلاؤ لانے کیلئے جنوری میں جائزہ لینے والے نئے امریکی صدر کو منانے کی کوشش کرے گا۔ کیونکہ ان دنوں امریکہ خود روس کے سامنے بے بس ہوتا دکھائی دے رہاہے۔ امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی کامیابی اور ہلیری کلنٹن کی شکست کا ذمہ دارروس کو گردانہ جارہا ہے اس طرح ایک ایسی سوپر طاقت جو دنیا کو اپنی مٹھی میں رکھنا چاہتی ہے وہی روس کی مداخلت کو روکنے کے بجائے دنیا کے سامنے اپنی بے بسی کا اظہار کررہا ہے ۔

شدت پسندی اور دین میں غْلو کا مقابلہ کیا جائے گا،شاہ سلمان
سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے کہا ہے کہ جو کوئی بھی انتہاپسندی یا دین میں غْلو کی طرف دعوت دے گا مملکت اس کا مقابلہ کرے گی اور ہم نے ریاست کے امن اور معاشرے کے تحفظ اور حرمین شریفین کی خدمت کے واسطے تمام تر وسائل اور صلاحیتیں بروئے کار لانے کا مصمم ارادہ کیا ہوا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق گذشتہ دنوں نئی سعودی مجلس شوری سے خطاب کرتے ہوئے شاہ سلمان کا کہنا تھا کہ مملکت بین الاقوامی بحرانات کے کسی بھی سیاسی حل کے لئے تعاون کرتی ہے تاکہ ترقی کی کوششوں کے واسطے راہ ہموار کی جاسکے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہم عالمی امن کو یقینی بنانے کے لیے بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے۔خادم الحرمین الشریفین کے مطابق ویژن 2030 کا مقصد شہریوں کو اچھی زندگی گزارنے کا راستہ فراہم کرنا ہے اور اقتصادی اصلاحات کے سلسلے میں وسائل کی منصفانہ تقسیم کا سہارا لیا جانا ہے۔شاہ سلمان نے باور کرایا کہ یمن کا امن سعودی عرب کے امن سے ہے اور ہم یمن کے اندرونی امور میں مداخلت کے لیے کوشاں نہیں ہیں۔
Dr M A Rasheed Junaid
About the Author: Dr M A Rasheed Junaid Read More Articles by Dr M A Rasheed Junaid: 352 Articles with 210600 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.