سندھ اسمبلی کا نیا بل اور ہمارے سیاستدان

 قاضی کاشف نیاز

واہ رے آج کے مسلمان سیاستدان اورحکمران‘وہ کل کے مسلمان حکمران تھے جن کی زندگی کااوڑھنابچھونا ہی اسلام تھا اورجن کی زندگی کامشن زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اسلام کی دعوت پہنچانااورلوگوں کو کفروشرک اورظلم وجہالت کی تاریکیوں سے نکال کر امن ورحمت والے سراپا ہدایت دین اسلام کی طرف لاناتھا۔وہ حکمرانی کرتے تھے تواس لیے ‘سیاست کرتے تھے تواس لیے‘جہانگیر ی وجہا نبانی اور سپہ سالاری کرتے تھے توصرف اس لیے کہ پوری دنیا میں حق کی یہ روشنی ہر گم کردۂ راہ انسان تک کسی طرح پہنچ جائے‘اسلام کا پیغام دنیا کے قریہ قریہ میں پھیلانااور اہل اسلام کی مددکرنااورمظلومین چاہے مسلم ہوں یاغیر مسلم ‘ان کی نصرت کرناان کا شیوہ تھااوراس کے بدلے صرف رضائے الٰہی کاحصول ہی ان کا میوہ تھالیکن آج کے ہمارے مسلمان کہلانے والے سیاستدانوں‘حکمرانوں اور دانشوروں کاکیاطریق ہے‘جن کاکام دنیاکوکفروجہالت کے گھٹاٹوپ اندھیروں سے نکالنااور لوگوں کو اسلام کے جھنڈے تلے جمع کرناتھا‘وہ خود توکسی کواسلام کی طرف دعوت دینے کی اپنی اصل ذمہ داری سے منحرف ہو گئے ‘ کسی کو اسلام کی دولت سے بہرۂ مند کرنے کی تو انہیں توفیق نہ ہوئی مگر اس سے بھی بڑاظلم انہوں نے یہ شروع کردیا کہ جوخوش نصیب اہل کفرحق کی دعوت قبول کرنے پرآمادہ ہوئے اورجوداعیانِ کرام اسلام کی بے لوث خدمت کرتے ہوئے انہیں اس راہ روشن وراہ مستقیم اور شاہراہ ہدایت پر لانے میں معاون وموجب بنے‘یہ نام نہاد مسلمان حکمران‘سیاستدان ‘دانشور اور اسمبلی اراکین ان اہل حق کے سامنے دیواربن کے کھڑے ہوگئے۔

اسلام کی پوری تاریخ کو اگر کسی بات پرفخرہے تواس پرکہ کسی کو بالجبراسلام قبول کرنے پرمجبورنہیں کیاگیا‘نہ یہ اسلام کی تعلیم ہے۔ نہ ایساواقعہ کبھی ماضی میں ہوا‘نہ حال میں‘ نہ عرب میں‘نہ یورپ و عجم میں اورنہ آج کے سندھ میں جہاں یہ افسانہ گھڑا گیاکہ ہندؤوں کووہاں زبردستی مسلمان ہونے پرمجبور کیاجارہاہے۔اسی افسانے کی بنیاد پرسندھ اسمبلی نے اپنے آقاؤں کی خوشنودی کے لیے بیٹھے بٹھائے یہ قانون گھڑ دیاکہ18سال سے کم عمرمیں اسلام قبول کرناممنوع ہے اور جو18سال سے زیادہ عمر میں بھی اسلام قبول کرے گا توپہلے اسے 21دن تک ایک سیف ہاؤس میں رکھاجائے گاجہاں مختلف مذاہب کالٹریچر پڑھاکر اسے اپنے فیصلے پر ازسرنوغورکرنے کاکہاجائے گا‘یعنی اسے سمجھانے کی پوری کوشش کی جائے گی کہ جذباتی نہ بنو۔ اسلام کے علاوہ باقی مذاہب بھی بڑے سچے ہیں‘اس لیے اپنے مذہب پرقائم رہو۔تمہارے لیے اسی میں بہتری ہے۔اس قانون میں جبراً اسلام قبول کرانے والے ملزم کو5سال قیداورمعاون یاسہولت کارنکاح خواں وغیرہ کے لیے 3سال قید کی سزارکھی گئی۔کاش!یہ قانون بنانے والے ہمارے نام نہاد مسلمان اسلامی تاریخ کا تھوڑا سابھی مطالعہ کرتے توانہیں معلوم ہوتاکہ کتنے ہی جید صحابہ کرامyنے 18سال سے کافی کم عمری میں اسلام قبول کیا۔مثلاً حضرت علی tنے بچوں میں سب سے پہلے 11,10 سال کی عمر میں‘حضرت عمیربن ابی وقاص tنے16سال ‘حضرت معاذبن عمروtنے12سال ‘زید بن ثابتtنے 11سال ‘عمیربن سعید t نے10 سال ‘ابوسعید خدری tنے13سال اورانس بن مالک tنے8سال کی عمر میں قبول اسلام کاشرف حاصل کیا۔ اگر سندھ اسمبلی کاقانون اسلام کا قانون ہوتا تو کیااسلامی تاریخ کے ماتھے پر ہیرے کی طرح چمکتے یہ صحابہy ہمیں حاصل ہوسکتے؟اگرچہ ملک بھرمیں جماعۃ الدعوۃ، جماعت اسلامی سمیت تمام دینی جماعتوں کے بھرپوراحتجاج اور دباؤ کی وجہ سے سندھ حکومت نے اس بل میں ترمیم کااعلان کیاہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ پورا بل ہی غیراسلامی اور غیرمنصفانہ ہے اور پورابل واپس لینے کی ضرورت ہے۔ایک ٹی وی چینل پر سندھ میں ہندوبرادری کے ایک رہنما آتم پرکاش نے کھل کر کہا کہ سندھ اسمبلی میں یہ بل پیش کرنے والے ہمارے نمائندے نہیں ہیں۔یہ چند ایک لوگ ہیں جنہیں امریکہ ویورپ سے فنڈنگ ہوتی ہے اور یہ صرف اورصرف اسلام کوبدنام کرنے اوریورپ وامریکہ کوخوش کرنے کے لیے بل لایاگیاہے۔گزشتہ دنوں شراب کے معاملے پربھی بہت سے عیسائی اور ہندونمائندوں اور پادریوں نے یہ بیان دیا کہ ہمارے نام پر شراب کے لائسنس نہ دئیے جائیں۔ شراب ہمارے مذہب میں بھی حرام ہے‘ان باتوں سے ثابت ہواکہ جوتکلیف یاشکایت یامطالبہ ہمارے اقلیتی طبقے کے لوگ سرے سے نہیں کررہے‘ہمارے ان نام نہاد مسلمانوں کو یہ تکلیف یاشکایت کیوں محسوس ہورہی ہے؟ اس کامطلب صاف اور واضح ہے کہ اقلیتوں کی طرف سے ایسی کسی شکایت یامطالبے کا حقیقتاًکوئی وجودنہیں۔یہ صرف ان چند نام نہادلوگوں کامسئلہ ہے جنہیں امریکہ ویورپ سے فنڈنگ ہوتی ہے یااپنی سیاست اور حکمرانی کے لیے انہیں ایسے اقدامات کرنے پڑتے ہیں تاکہ امریکہ ویورپ کی نظر میں انہیں ’’روشن خیالی‘‘کا سرٹیفکیٹ مل سکے۔اس سرٹیفکیٹ کاحصول ہی آج ہمارے تقریباً تمام ہی سیاستدانوں اورحکمرانوں کامخمصہ ہے۔ نوازشریف اگر کبھی مودی یاکلبھوشن کے خلاف ایک لفظ نہیں بولتے‘ عاصمہ جہانگیر اور نجم سیٹھی جیسے مسلمہ بھارت نوازوں کو نوازتے رہتے ہیں‘قائداعظم یونیورسٹی کے فزکس سنٹر کوڈ اکٹرریاض احمد کے نام سے بدل کرقادیانی ڈاکٹر عبدالسلام سے منسوب کرتے ہیں‘پاک بھارت سرحدوں کو مصنوعی لکیریں کہتے ہیں اور دونوں طرف کی ثقافت کو ایک قرار دیتے ہیں تویہ سب کچھ اتفاقاً نہیں‘یہ صرف اورصرف امریکہ ومغرب کے سامنے اپناسیکولراور ’’روشن خیال‘‘ چہرہ بنانے کی مکمل شعوری اورمنصوبہ بندکوشش ہے۔

اسی طرح بلاول نے جب کہاتھا کہ پاکستان کاوزیراعظم غیرمسلم بھی ہوسکتاہے‘اس کے لیے وہ آئین میں تبدیلی لائیں گے اور پھر حال ہی میں بلاول نے جس طرح ہندؤوں کی دیوالی کی تقریب میں شرکت کی اور نہ صرف شرکت کی بلکہ ایک انڈین چینل (India news)کے بقول بلاول نے کلفٹن میں ہندؤوں کے شِومندرمیں بھگوان شِو کے لنگ (عضو مخصوصہ)کی پوجاکی اورشیولنگ پرپھول چڑھائے اور پھراس پردودھ بھی گرایا۔بعدازاں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے ساتھ مل کر شیولنگ کی پوجاپاٹ کی۔یہ سب کچھ کرتے بلاول کو چینل نے دکھایا۔ غرض بلاول نے ہندو اور مسلم کافرق ہی مٹادیا۔اوریہی سیکولرز کی منزل ہے۔اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے بلاول کو بے شک لندن ائیرپورٹ پرجوتے اتارکے بھی تلاشیاں دینی پڑیں توخوشی سے دیتے ہیں لیکن امریکہ ویورپ کی اسلام ومسلم دشمنی کے خلاف وہ کبھی ایک لفظ بولنے کی جرأت نہیں کرتے۔یہاں ان کی زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں۔

ہماری آج کی سیاست کے تیسرے بڑے اور اہم کردارعمران خان ہیں‘ویسے توانہوں نے شروع میں اپنی انتخابی سیاست کابڑا اچھاموٹوبنایاتھا‘ یعنی ’’إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُکہ اے اﷲ!ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں ۔‘‘لیکن عمران خان نے اپنے عملی کردار سے اپنی اس بات کو حقیقتاً کبھی ثابت نہیں کیا۔وہ بھی باقی سیکولرسیاسی جماعتوں کی طرز پر ہی ساری سیاست کرتے ہیں۔اپنے جلسوں میں جس طرح کے رویہ کا اظہار کیا جاتا ہے‘اس نے سب سیکولرسیاسی جماعتوں کو پیچھے چھوڑ دیاہے۔عمران خان اپنے اقتدار کے لیے مسلم لیگ (ن) کی مخالفت برائے مخالفت کے روایتی جمہوری انداز کا توبھرپور مظاہرہ کرتے ہیں ‘نوازشریف کے خلاف معمولی سی معمولی بات کو بھی ایک بہت بڑا ایشوبنائے بغیر نہیں رہتے اور صرف انہی مسائل پر پارلیمنٹ کے اندراورباہرخوب ہنگامے ‘دھرنے اور شور شرابے کرتے ہیں مگر بھارت وامریکہ کی مسلم دشمنی پرمبنی اقدامات کے خلاف ایک لفظ نہیں بولیں گے۔بھارت نے ایل اوسی اور ورکنگ باؤنڈری پر کافی عرصے سے بلااشتعال فائرنگ کرکے ہمارے کئی معصوم شہریوں کوشہیدکردیا۔عمران خان نے کبھی ہمارے اس اصل اور ازلی دشمن کے خلاف کوئی بڑا دھرنا‘کوئی بڑا جلسہ تودور کی بات ‘ایک چھوٹی سی ریلی تک کبھی نہیں نکالی۔اب بھارت سندھ طاس معاہدہ کوعملاً غیر فعال کرنے‘پاکستان کو صحرا بنانے کے مشن پر کاربندہے۔مودی خود پاکستان کوتوڑنے کااعتراف کرچکااور پاکستان کا بوند بوند پانی بند کرنے کی دھمکی بھی دے چکاجس پربھارت دھڑلے سے عمل بھی کررہاہے ‘ان باتوں کے خلاف ہماراکوئی سیاستدان اورحکمران نوٹس نہیں لیتااور انہیں سب سے غیراہم ایشو قرار دے کر بری طرح نظرانداز کردیاجاتاہے جبکہ دوسری طرف بھارت جسے ہمارے یہ سیکولرایک ماڈل سیکولرملک کے طورپر پیش کرتے نہیں تھکتے‘وہاں کی سب اپوزیشن وحکومتی سیاسی پارٹیوں کا متفقہ ایجنڈا پاکستان اور مسلمانوں کی مخالفت پراستوارہے۔ان میں اختلاف صرف پاکستان دشمنی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کاہے لیکن پاکستان میں یوں لگتاہے کہ ملک کی نظریاتی وجغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی ساری ذمہ داری صرف فوج پرہے اورباقی تمام سیاستدانوں کو پاکستان میں صرف اپنے اقتدار کی سیاست اور گلچھڑے اڑانے سے غرض ہے۔ اس کے عوض انہیں چاہے جتنی بھی امریکہ وبھارت نوازی کرناپڑے‘وہ تیار رہتے ہیں۔

ان حالات میں ہم اپنے ان سیکولر سیاستدانوں اورحکمرانوں کو یہی مشورہ دیں گے کہ وطن کی فکر کرناداں……آپ جس راہ پر چل رہے ہیں‘ا س سے ملک کی نظریاتی وجغرافیائی سرحدوں کو شدید نقصان پہنچے گا۔دشمن کی جی حضوری کرنے والوں کی دشمن کی نظرمیں بھی کوئی عزت نہیں ہوتی اور دشمن اپنا مفاد پورا کرتے ہی انہیں ہی سب سے پہلے اپنی راہ سے ہٹاتا ہے۔

اﷲ تعالیٰ ہم سب کو سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین
Munzir Habib
About the Author: Munzir Habib Read More Articles by Munzir Habib: 193 Articles with 134534 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.