سابق صدر آصف علی زرداری نے وطن واپسی کے
فوری بعد اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔27دسمبر کو گڑھی خدا بخش میں پیپلز
پارٹی اپنے آئیندہ کی حکمت عملی پر غور کر رہی ہے۔ اس دن پارٹی کے فارمولے
کا اندازہ ہو گا کہ وہ مسلم لیگ ن کی حکموت کے بارے میں کیا ایکشن دیکھنا
چاہتی ہے۔ تا ہم یہ سوالات بھی اہم ہیں کہ آصف زرداری کی وطن میں موجودگی
سے بلاول بھٹو زرداری کس طرح کھل کر ن لیگگ کو دھمکیاں دے سکیں گے۔ ان کے
والد کی مفاہمتی پالیسی کا کیا ہو گا۔ ان کی شہید والدہ محترمہ کے میثاق
جمہوریت کا کیا حال ہو گا۔
ڈیڑھ سال قبل ایک شا م پتہ چلا سابق صدر آصف علی زرداری ملک سے چلے گئے
ہیں۔وہ خاموشی سے دوبئی پہنچ گئے۔ یہ جون2015کا آخرہ ہفتہ تھا۔ صرف ایک
ہفتہ قبل زرداری صاحب نے اسلام آباد میں فوج کے بارے میں سخت بیان دیا۔
’’آرمی چیف ہر تین سال بعد آتے اور جاتے ہیں لیکن سیاسی قیادت یہاں ہی
موجود رہے گی‘‘۔ ’’اگرآپ نے سیاسی پارٹیوں کی کردار کشی بند نہ کی تو میں
قیام پاکستان سے آج تک جرنیلوں کی مبینہ کرپشن کی فہرست سامنے لاؤں گا‘‘۔
’’وہ اپنی ڈومین میں رہیں‘‘۔ یہ دھمکیاں دینے کے ایک ہفتہ بعد ہی وہ ملک سے
چلے گئے۔ ان کی روانگی سے ایک دن پہلے محترمہ فریال تال پور نے ملک چھوڑ
دیا تھا۔ تا ہم وہ بعد ازاں ملکی سیاست میں سرگرم رہیں۔ آزاد کشمیر
انتخابات ان کی نگرانی میں ہوئے۔ فوج کے خلاف آصف زرداری کے بیانات اس لئے
بھی حیران کن تھے کہ یہ الزامات ایسے تھے جن کے بارے میں کسی ٹھوس شواہد کی
بات نہیں کی گئی۔ اسٹیبلشمنٹ کا مطلب ہمیشہ فوج رہا ہے۔ تا ہم اب سول
اسٹیبلشمنٹ اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں نمایا فرق کیا جا رہا ہے سول
اسٹیبلشمنٹ کبھی بھی زیر عتاب نہیں رہی ہے۔ جب کہ سچ یہ ہے کہ وہی اس ملک
کی کرتا دھرتا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ سیاست اسی بیوروکریسی کی محتاج ہے۔ یہ
نہ ہو تو سیاستدان ایک نوٹ تک قلمبند کرنے کا محتاج ہو گا۔ آج تک تمام
الزامات سیاستدان پر ڈالے جاتے ہیں۔ یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ اس کے پیچھے
کون ہے۔ اگر بیوروکریٹ ٹھیکک ہوجائے تو ملک ٹھیک ہو جاتا۔ مگر بیورکریسی نے
ملکی مفادات کو نظر انداز کرتے ہوئے جب بھی اپنے مفادات کے لئے سیاستدان کو
کٹھ پتلی بنایا تو اس کی سزا عوام کو ہی بھگتنا پڑی۔ اگر بیوروکریسی ٹھیک
ہو جائے تو ہر مسلہ حل ہو جائے گا۔ اگر غیر قانونی احکامات تسلیم نہ کئے
جائیں اور قانونی اور آئینی پیچیدگیوں کو مدنظر رکھا جائے تو نوبت یہاں تک
نہیں پہنچتی۔ تا ہم جرم میں شریک ہو کر قواعد اور ضوابط کو نظر انداز کرنا
بھی سیاستدانوں کی دین نہیں۔ اصل مسلہ کیا ہے۔ یہ اختیارات اور ان کے
استعمال کا ہے ۔مفادات کے ساتھ انا پرستی آڑے آ جاتی ہے۔ اگر ہر کسی کو ملک
و قوم کی ہی فکر اول ہو تو انا ختم ہو جاتی ہے۔ اگر کسی کو چیلنج کیا جائے
تو وہ اپنی اصلاح کے بجائے ہتک اور وقار کو ٹھیس سمجھ کر انتقام پر اتر آتا
ہے۔ کل تک جو بہت اچھا ہوتا ہے وہ فوری طور پر نامعقول بن جاتا ہے۔ اپنی
زات کا تقدس اور احترام بحال رکھنے والے دوسروں کی بھی عزت نفس کا خیال
رکھیں تو کتنا ہی اچھا ہو۔
کراچی میں رینجرز نے کرپشن اور دہشتگردی کے خلاف آپریشن شروع کیا تو اس سے
ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی چیخیں نکل گئیں۔ اس آپریشن کو سیاسی انتقام
سے تعبیر کیا گیا۔ یہ کہا گیا کہ فوجی ایکشن اس کی ڈومین سے باہر کا ہے۔
18ویں ترمیم بھی زرداری صاحب کی دین ہے۔ جس نے صوبوں کو خودمختاری دی ہے۔
اس وقت سندھ پر پیپلز پارٹی بلا شرکت غیرے حکومت کر ری ہے۔ یہ جیسے اس کے
گھر کا مال ہے۔ ایم کیو ایم میں ٹوٹ پھوٹ کے بعد سے پی پی پی کو کوئی بڑا
چیلنج نہیں۔ عمران خان کی سیاست سے انہیں کوئی ڈر نہیں۔ ابتدا میں کچھ آثار
نظر آنے لگے تھے۔ بعد میں صورتحال تبدیل ہونے لگی۔ شاید وہ پی ٹی آئی کی
سیاسی سنجیدگی کے بارے میں عوامی آراء تھیں۔ نوجوانوں اور خواتین کے بڑے
حلقے پر پی ٹی آئی کا اثر ہے۔ اس کو زائل کرنے کے لئے بلاول بھٹو زرداری
میدان میں اتارے گئے ہیں۔انھوں نے بھٹو صاحب کا سا انداز اختیار کیا ہے۔ پی
پی پی اب پنجاب پر توجہ دے رہی ہے۔ وہ کسی بھی صورت میں پنجاب میں داخلے کے
اسباب پیدا کرنا چاہتی ہے۔ن لیگ سندھ میں سرگرم ہونا چاہتی ہے۔
آصف زرداری کی وطن واپسی جنرل راحیل شریف کی سبکدوشی کے بعد ممکن بنی ہے۔
زرداری صاحب نے واپسی سے پہلے ئے آرمی چیف کو مبارکباد پیش کی۔ نئے چیف بھی
اپنے پیشرو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دہشت گردی اور کرپشن کے خلاف آپریشن کو
تیز کرنا چاہتے ہیں وہ اتہائی مخلص اور سنجیدہ جرنیل ہیں۔ سیاست میں مداخلت
پر یقین نہیں رکھتے تا ہم ان کو قریب سے جاننے والے بتاتے ہیں کہ وہ کسی کو
بے لگام چھوڑنے کے حق میں نہیں۔ ایک دوسرے کا چیک ایند بیلنس ان کے مد نظر
ہے۔ ملکی داخلہ اور خارجہ پالیسی کے ساتھ سٹریٹجک معاملات میں سب کو کسی
ایک فورم میں جوابدہ ہونا چاہیئے۔ کوئی ایسی کماند کونسل جس میں سول حکومت،
بیوروکریس، فوج، عدلیہ سب ہوں۔ مگر بہرحال جمہورت میں سپریم ادارہ پارلیمنٹ
ہے۔ زرداری صاحب پارلیمنٹ کی بالادستی کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں۔ وہ بلاول
بھٹو کی پروایکٹو سیاست سے مطمئن ہیں۔ تا ہم رواداری اور اقدار کے دائرے
میں رہتے ہوئے سیاست سے میاں نواز شریف کو کوئی دقت نہیں۔ حکمران جس قدر
ایک دوسرے کے خلاف اپنی توانائیاں ضائع کرتے ہیں، اگر اس کا عشر عشیر بھی
ملکی ترقی، پیداوار میں اضافے ، تعمیر پر صرف کریں تو حالات کافی بہتر ہو
سکتے ہیں۔زرداری صاحب کا پارٹی پر مکمل کنٹرول ہے۔ دوبئی ، نیو یارک اور
لندن میں ڈیڑھ سال گزارنے کے دوران بھی وہی پارٹی کو کنٹرول کرتے رہے۔ یہ
خود ساختہ جلاوطنی اب ختم ہو چکی ہے۔ وہ کمپرومائز پر یقین رکھنے والی
شخصیت ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ انتخابات کی آج سے ہی تیاریاں شروع کر دیں۔ اس
لئے پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کے بجائے وہ ن لیگ کے ساتھ ہی تعلق داری
نبھانے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ ان کی واپسی سے پی پی پی کو نئی طاقت دستیاب
ہوئی ہے۔ بلاول بھٹو بھی ان کی نگرانی میں اپنا لب و لہجہ مزید بہتر کر
سکتے ہیں۔ تا ہم یہ بات یاد رہے کہ محاز آرائی اور کشمکش کی سیاست کے بجائے
ایسی سیاست کو لوگ یاد رکھیں گے جس کے مطابق ملک کی ترقی اور کامیابی ہی
پہلی ترجیح ہو۔جس نے کرپشن کی ، اس سے کیسی مفاہمت یا کمپرومائز، اسے سزا
ملنی چاہیئے۔ہو سکتا ہے زرداری صاحب کی واپسی پی پی پی کی مثبت سیاست کے
لئے نئے تبدیلیاں لائے گی۔ |