شام میں جو کچھ ہورہاہے اس پر امت مسلمہ کی
خاموشی اور چند عالمی طاقتوں کی جاری سازشیں اور اسلام دشمنی اب تک سوا تین
لاکھ سے زائد مسلمانوں کی جان لے چکی ہیں اکثر عام شہر اور بچے شامل ہیں۔
آئے روز میڈیا پر دیکھی جانے والی دلخراش قسم کی تباہی و بربادی کی تصاویر،
ویڈیوز مسلمانوں کی بے بسی، بے حسی اور مفاد پرستی کا رونا رورہی ہیں کہ ہم
تعداد، اسلحہ، افرادی قوت کے ہونے کے باوجود کسی بھی مسلمانوں پر ہونے والے
ظلم وستم کے خلاف آواز اٹھانے کے قابل نہیں ہیں۔ کہیں ہمارے مفادات اور
اقتدار کو ضرب نہ لگے ۔ ہم اسی پر پریشان ہیں۔ برما، کشمیر، افغانستان، یمن،
لیبیاء، مصر، فلسطین، غزا، صومالیہ، عراق، چیچنیا، بنگلہ دیش، نائیجیریا،
الجیریا، اتھوپیا اور دیگر ممالک میں کہیں اپنے مسلمانوں کے ہاتھوں اور
کہیں یہود و نصاری ، ہندوؤں، بدھ مت کے پیروکاروں کے ہاتھوں قتل و غارت
پرخاموش پالیسی اپناکر یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اپنے ملک اور اپنی فکر کرنی
چاہئے۔ اس مفاد پرستانہ پالیسی کے باعث کسی بھی اسلامی ملک کے اندرونی حالت
بہتر نہیں ہیں۔ سب پر اﷲ کی طرف سے معاشی، اقتصادی، بے روزگاری، دہشت گردی،
اپنوں کی جنگ، ابتر سیاسی حالات، سیاسی رسہ کشی، کرپشن، بے حیائی، قرضوں کا
بوجھ، سیلاب، بے وقت کی بارشوں، زلزلوں و دیگر عذاب کی صورت میں اﷲ کا عذاب
نازل ہے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کی غیرت نہیں جاگ رہی ہے۔ عوام میں ایسے لوگ
جرات و محبت والے موجود ہیں جو اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کی اخلاقی، مالی،
روحانی، دفاعی امداد کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے آڑے بھی ہمارے ہی حکمران
آجاتے ہیں۔ شام کے تاریخی اسلامی شہر حلب میں جسطرح درندگی کا مظاہرہ تین
ملکی فوج کے ہاتھوں دیکھنے میں آرہاہے اپنے سابقہ تمام ظلموں کو مات دے دی
ہے۔ عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں۔ ہزاروں قیمتی جانیں زندہ درگور
ہوگئیں ہیں۔ سڑکیں، گلیاں لاشوں اور زخمیوں سے بھری پڑی ہیں لیکن نہ تو
زخمیوں کی امدا دکرنے والا کوئی ہے اور نہ ہی لاشوں کو اٹھانے والا۔ اگر
کوئی زخمی شکستہ حال ہسپتال پہنچ بھی جاتاہے تو ان پر بھی بمباری کی جارہی
ہے۔ لیکن کوئی انسانی حقو ق کی علمبردار تنظیم او رادارہ اس پر احتجاج نہیں
کرتا۔ صرف رسمی کارروائی کی جار ہی ہے۔ الٹایہ اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ
امداد کے نام پر قصائی بشارالاسد کی حکومت کو اسلحہ کی ترسیل کی جارہی ہے۔
بمباری سے عمارتوں میں آگ لگنے کے واقعات عام ہیں جسکے دوران لوگوں کے زندہ
جلنے اور دھوئیں سے ہلاک ہونے کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔ ان حالات میں صرف
ترکی ایک ایسا ملک ہے جو حلب، شام کے مسلمانوں کی کسی حد تک مدد کرتا نظر
آرہاہے۔ ترکی کے صدر طبیب اردگان نے کہاہے کہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کا ذمہ
دار بشارالاسد ہے ۔ شامی پناہ گزینوں کی حلب سے ارلب او رپھر ترکی انخلاء
کے انتظاما ت کو شامی حکومت نے سبوتاژ کیاہے۔ لیکن اسکے باوجود ترکی پناہ
گزینوں کے پر امن انخلاء کی کوششوں میں مصروف ہے۔ شام میں ہونے والے
مسلمانوں کے قتل و عام پر مسلمانوں کا ادارہ OIC تو نہ بولا لیکن ہیومن
رائٹس برطانیہ کے مطابق حلب میں مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہاہے۔ ایک
دوسرے ادارے آئی سی آر سی نے شہریوں کی جان کے نقصان کو انسانیت کی تباہی
قرار دیا لیکن مسلمانوں کی سپر طاقت پاکستان او رواحد ایٹمی طاقت خاموش ہے۔
اخلاقی امداد اور دباؤ کے حربے بھی ہمارے بڑے بلکہ تمام اسلامی ممالک
اپنانے تک کو تیار نہیں ہیں۔ پاکستان میں JUIF کی جانب سے شہروں میں
مظاہروں کئے گئے جبکہ انڈونیشیاء میں ہزاروں کی تعدا دمیں مسلمانوں نے روس،
ایران، شامی حکومتوں کے خلاف مظاہرہ کیا۔انہوں نے روسی سفارتخانے کے سامنے
مظاہرہ کیا اور سوال کیا کہ کیا انسانی حقوق کی تنظیمیں صرف غیر مسلموں
کیلئے ہیں۔ انہیں دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف ہوتا ہو اظلم ، قتل و غارت
نظر نہیں آرہا، انہیں کیسے نظر آئے گا۔ جب اپنوں کو نظر نہیں آتا تو غیر
اور ان کی تنظیمیں ہماری مدد کیاکریں گی۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں صر ف کسی
حد تک رپورٹ جاری کرکے اور بیان دے کر اپنی جان خلاصی کروالیتی ہیں لیکن ہم
اور ہمارے حکمران تو یہ بھی نہیں کرتے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے
اپنی سالانہ رپورٹ میں انکشاف کیاہے کہ شام میں جاری تنازعہ کی وجہ سے اسی
لاکھ بچوں کو بالواسطہ اور بلاواسطہ خطرات لاحق ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 2011ء
سے لے کر اب تک شامی حکومت کی بیرل بموں سے حملوں اور گولہ باری سے ہزاروں
بچے، خواتین شہید ہوچکے ہیں۔ شامی بچو ں کو تشدد ، قید و بند ، اغواء او
رجنگ میں جبری طورپر استعمال کئے جانے سمیت کئی قسم کے مظالم کا سامناہے۔
بیس لاکھ بچے ایسے علاقوں میں رہائش پذیر ہیں جہاں لڑائی کی وجہ سے امداد
کی فراہمی ناممکن ہے بلکہ پورے شام میں بچوں ، بیماروں کیلئے کوئی محفوظ
مقام نہیں ہے۔ لاکھوں بچے جانی خطرات سے دوچار ہیں۔
آخر حلب کی عوام پر اتنا ظلم کیوں ہے اسکی بڑی وجہ وہاں کی عوام کا شام کی
بشارالاسد اور اس کے باپ حافظ الاسد کی حکومت کو تسلیم نہ کرناہے۔ ان باپ
بیٹا دونوں نے ظلم کیا، سابقہ ظلم جو حافظ الاسد کے دور میں ہوا ، کے وقت
میڈیا اتنا مضبوط نہ تھا او رنہ ہی موبائل فون، انٹرنیٹ کا زمانہ تھا جس کے
باعث سب کچھ چھپا رہا۔ لیکن اب حالانکہ میڈیا پر مکمل یہود و نصاری کا قبضہ
ہے کچھ نہ کچھ خبر ہم تک پہنچ جاتی ہے۔ حال ہی میں اسرائیل میں آگ کی صورت
میں جو اﷲ کا عذاب آیا اس کی کوریج ہمارے الیکٹرانکس میڈیا پر نہ ہونے کے
برابر تھی لیکن سوشل میڈیا ایسی خبروں او رتصاویر سے بھرا پڑا تھا۔ ہمارا
میڈیا جو انڈیاکی اداکار کو اگر چھینک بھی آجائے تو اس کی خبر کو نمایاں
جگہ دیتاہے لیکن مسلمانوں پر دنیا بھر میں ہونے والے ظلم و ستم اور یہو د و
نصاری کی اسلام ، مسلمان دشمن کارووائیوں کو بھی دکھا ناچاہئے تاکہ ہمارے
حکمرانو ں او رعوام کم از آگاہ تو رہیں کہ اگر ہم نے اﷲ کے احکامات ، نبی
کریمؐ کی تعلیمات کو چھوڑا، غیروں کی تقلید جاری رکھی، آپس میں اتحاد و
یگانگت اختیار نہ کی تو ہماری ایسی پٹائی ہوتی رہے گی ۔ اﷲ سے دعا گو ہو ں
کہ وہ مسلمانو ں پر رحم فرمائے اور ان کے یقین کو درست فرمائے۔ جب یقین اﷲ
کی ذات پر او رطریقہ حضور ؐ والا ہوگا تو دنیا کی کوئی بھی بڑی سے بڑی طاقت
ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑسکتی۔ امت مسلمہ کو متحد ہوکر مظلوم مسلمانوں بشمول
حلب ، برما، کشمیر و دیگر کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھانے ہوں گے ۔ بصورت دیگر
اگلی باری، مصر، عراق، لیبیاء، شام، افغانستان کے بعد ہماری بھی ہوسکتی ہے۔
|