امریکہ کے تھینک ٹینک:
20 ویں صدی کی آخری دہائی میں امریکہ "نیو ورلڈ آرڈر" کے تحت اپنے اثر و
رسوخ والے ممالک کے علاوہ دُنیا کے دو بڑے طاقتور ممالک چین اور روس کو بھی
اپنی مُٹھی میں کرنے کو خواہش رکھتا تھا۔ کیا امریکن تھینک ٹینک اُس وقت
جغرافیائی علم رکھتے ہوئے پاکستان کے" گوادر" کی اہمیت اور سی پیک جیسے
اعلیٰ ترین منصوبے سے بے خبر تھا؟یا بعدازاں ملنے والے شواہد کے مطابق
بھارت کے ذریعے بلوچستان کے حالا ت خراب کرواکر اس منصوبے کی ناکامی کیلئے
کوشش کر رہا تھا؟
گیم چیلنجر:
ان سوالات کی تاریخی حیثیت کیا ہو گی جلد واضح ہو جائے گئی ۔لیکن
13ِنومبر2016ء کو گوادر سے تجارتی سامان کا پہلا قافلہ روانہ ہونے تک چین
اور چند دوست ممالک کے بعد روس اور بہت سے دیگر ملکوں کی بھی اس منصوبے میں
دلچسپی نے اس منصوبے کو " نیو ورلڈ آرڈر " کی اصطلاح کے مقابل "گیم چیلنجر"
کی اصطلاح سے نواز دیا۔
سب سے بڑا معاشی پروجیکٹ:
2016ء کے وسط میں اسلام آباد میں ہونے والی سی پیک کانفرنس میں ماہرینِ
معاشیات کا کہنا تھاکہ " پاک چین اکنامک کوریڈوردنیا کا سب سے بڑا معاشی
پروجیکٹ ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان46ارب ڈالر کی لاگت سے یہ عظیم
منصوبہ مکمل ہو گا۔چین پر روز 60لاکھ بیرل تیل باہر سے درآمد کرتا ہے۔جسکا
سفر 12000کلومیٹر بنتا ہے۔جبکہ یہی سفر گوادر پورٹ سے صرف 3000ہزار کلومیٹر
رہ جائے گا۔
مصر کی نہرِ سوئیز سے پورے یورپ کیلئے روزانہ40لاکھ بیرل تیل بھیجا جاتا
ہے۔جبکہ گوارد پورٹ سے صرف چین کیلئے روزانہ60لاکھ بیرل تیل جائے گا۔چین کو
اس سے سالانہ 20ارب ڈالر بچت صرف تیل کی درآمد سے ہو گی۔جبکہ پاکستان کو
تیل کی راہداری کی مد میں 5ارب ڈالر سالانہ ملیں گے"۔
پاکستان اور روس :
روس جو پہلے پاکستان کے گرم پانیوں پر طاقت کے زور سے قابض ہونا چاہتا تھا
اس نے اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرتے ہوئے باضابطہ طور پر ان پانیوں تک رسائی
حاصل کرنے کیلئے پاکستان سے درخواست کی ہے۔ روس نے نہ صرف گوادر پورٹ تک
رسائی مانگی ہے بلکہ اقتصادی راہداری کا حصہ بننے کی خواہش کا اظہار بھی
کیا ہے۔ اسکے ساتھ ہی یہ بھی خبریں آرہی ہیں کہ روس اپنے زیرِ اثر یورپ
سمیت دیگر ممالک کو سی پیک میں شمولیت کیلئے کردار ادا کر رہا ہے۔ چین اور
روس جانتے ہیں کہ ایشیا اور افریقہ دُنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ ہیں اور یورپ
دنیا کی کُل آبادی 13فیصد بنتا ہے اور روس یہ بھی سمجھتا ہے کہ چین کے ساتھ
سی پیک کا حصہ بن کر وہ اپنے آپ کو اقتصادی طور پر مضبوط کر سکتا ہے۔
صدر پیوٹن:
اصل میں روس کے صدر پیوٹن نے وہاں پر گزشتہ چند سالوں میں جو معاشی ترقی کے
اہداف حاصل کیئے ہیں اُنکو مستقبل میں بھی قائم رکھنے کیلئے اپنی تجارتی
سرگرمیاں اس خطے میں کرنا چاہتا ہے۔اس کے لیئے روس کے پاس دو ہی راستے
ہیں۔ایران کی چار بہار بندگاہ ، جبکہ دوسرا راستہ گوادر کا۔چار بہار
بندرگاہ زیادہ گہری نہیں ہے۔اس لیئے روس گوادر کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔
روس نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا ہے کہ پاکستان اور روس کو ریلوے کے ذریعے
جوڑا جائے۔اس کے علاوہ روس پاکستان میں گیس پائپ لائن کی تعمیر کیلئے 2ارب
ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے ۔یہ پائپ لائن قطر سے درآمد شُدہ
گیس کی ملک بھر میں ترسیل کیلئے بچھائی جا رہی ہے۔ |