سانحہ سقوط ڈھاکا ایک ایسا گھاؤجس کو مندمل ہونے میں
نجانے کتنا عرصہ درکار ہوگا۔ اب تک اس سانحے کے اسباب کے بارے میں بہت کچھ
لکھا جا چکا ہے۔ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں ذمّے داروں تک کا تعیّن کیا
جاچکا ہے لیکن عوام کا تجسّس اس سانحے کے حوالے سے ابھی بھی برقرار ہے۔
سقوط ڈھاکا کے بعد سے لے کر آج تک، جب بھی ماہ د سمبر آتا ہے ۔ اس سانحے کے
زخم کی کسک بڑھ جاتی ہے اور ذرایع ابلاغ میں پھر سے اس سانحے کا تذکرہ شروع
ہوجاتا ہے۔ اخبارات میں مضامین شائع ہوتے ہیں اور ٹی وی چینلز پر مذاکرے
بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔ یہ عمل اب تک کیوں جاری ہے۔ اس کی بنیادی وجہ تو
یہی سمجھ میں آتی ہے کہ قوم کو اعتماد میں لے کر اب تک سقوط ڈھاکا کے اسباب
اورحقیقت سے آگاہ نہیں کیا گیا ہے۔
یوں تو مولانا ابوالکلام آزاد 1946 ء میں قیام پاکستان سے قبل ہی پیش گوئی
فرماچکے تھے کہ مشرقی پاکستان کا ، مغربی پاکستان کے ساتھ الحاق غیر فطری
ہے اور یہ ربع صدی سے زیادہ چلتا نظر نہیں آتا کیونکہ دونوں طرف کے باشندوں
کے رہن سہن ، بود باش اور زبان میں واضح فرق موجود ہے۔ لیکن مسلمانان
برّصغیر کا وہ طبقہ جو تقسیم کا حامی تھا۔ تقسیم برّصغیر کے مخالف مسلمان
رہنماؤں، دانشوروں ، جیّد علمائے کرام اور اولیاء اﷲ کے کسی صائب مشورے پر
بھی کان دھرنے کو تیار نہیں تھا اور اپنادشمن تصوّر کرتا تھا۔ اُن کے نزدیک
انگریز اور ہندو سے آزادی ہی تمام مسائل کا حل تھا۔ بحرحال قیام پاکستان کی
تحریک کامیاب ہوئی اور 1947 ء میں ا نگریز نے برّصغیر کو دو مملکتوں بھارت
اور پاکستان کی شکل میں آزادی دے دی۔ مسلم لیگ کا تو قیام ہی 1906 ء میں
ڈھاکہ میں عمل میں آیا تھا لہٰذا بنگال کے مسلمانوں نے مشرقی پاکستان کے
نام کے ساتھ ، مغربی پاکستان سے الحاق کو خوش دلی کے ساتھ قبول کیا۔ لیکن
اُس کے بعد سیاسی صورتحال کیسے یکسر تبدیل ہوئی اور محبتیں ، نفرتوں میں
کیسے تبدیل ہوئیں ۔ اُس کی وجوہ پر آج تک بحث جاری ہے۔
قیام پاکستان کے بعد اُس وقت کے انڈر سیکرٹری قدرت اﷲ شہاب نے اپنی کتاب
’’شہاب نامہ‘‘ میں تذکرہ کیا ہے کہ کراچی میں دفتری اور رہائشی عمارتیں اور
کوارٹر تعمیر ہورہے تھے۔ اس لیے سینیٹری سامان کی درآمد کامسئلہ درپیش تھا۔
میٹنگ میں وزراء اور افسران شریک تھے۔ جب سینیٹری کے سامان کا کوٹا طے
کرلیا گیا تو اُمور داخلہ، تعلیم اور اطلاعات کے وزیر مولوی فضل الرحمن نے
دبے لفظوں میں تجویز پیش کی کہ سامان کاکچھ حصّہ ڈھاکا کے لیے بھی مختص
کردیاجائے تو مناسب ہوگا۔ تجویز پر بڑی ہنسی اُڑی۔ ایک صاحب نے پھبتی
کــــسی کہ بنگالی کیلے کی گاچھ کی اوٹ میں فارغ ہوجاتے ہیں ۔ وہ ابھی سے
کموڈ اور واش بیسن لے کر کیا کریں گے۔ قدرت اﷲ شہاب آگے لکھتے ہیں ۔ میرے
خیال میں لاشعوری طور پر بنگلادیش کی بنیادوں کی کھدائی کا کام اُسی روز
شروع ہوگیا تھا۔ اِسی طرح سقوط ڈھاکا سے قبل بھی ابن انشاء سمیت کئی مخلص و
محبّ وطن ادیبوں ، صحافیوں اور سیاستدانوں نے ارباب اختیار سے بنگلا دیش کے
حوالے سے ہوش کے ناخُن لینے کو کہا لیکن مسئلے کو طاقت کے بل بوتے پر حل
کرنے کی کوشش کی گئی ۔ جس کا نتیجا بالآخر سقوط ڈھاکا کی شکل میں قوم کو
بھگتنا پڑا۔
سماجی رابطے کی پیغام رسانی کی ایپ پر محترم عزیز ، ریٹائرڈ کموڈور (ستارہ
ا متیاز،فوجی) سیّد خور شید عالم زیدی صاحب سے سقوط ڈھاکا کے حوالے سے
مکالمے کا موقع ملا۔ میرا نقطہ نظر جا ننے کے بعد، محترم خورشید صاحب نے
بتایاکہ ملازمت کے ابتدائی 15 سال مشرقی پاکستان کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ
رہا۔ دو دفعہ تعنیاتی کی صورت میں طویل قیام کا موقع بھی میسر آیا اور پھر
1992 ء میں ایک دفعہ نصف ماہ قیام کا موقع ملا۔ اس طرح سقوط ڈھاکا سے قبل
اور بعد کے حالات کا تجزیہ کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ دفاعی
نقطہ نظر سے موجودہ پاکستان علیحدگی کے بعد زیادہ مضبوط ہے اور اب بھارت سے
جنگ کی صورت میں بہتر طور پر نمٹنے کی صلاحیت پیدا ہوچکی ہے ۔ اِسی طرح
خواندگی کی بہتر شرح کی وجہ سے ایک عام بنگلا دیشی ، پاکستانی ہم عصر
مسلمان سے عملی طور پر زیادہ پُختہ اور راست باز مسلمان ہے۔ اِس وجہ سے اُس
کی دینی سوچ اُتنی ہی حساس ہے۔ جتنی کسی اور مسلمان یا پاکستانی کی ہوسکتی
ہے۔ یعنی بھارت کے لیے مسائل اب دُگنے ہو گئے ہیں اور اُس کے اکھنڈ بھارت
کے خواب میں مزید رخنے پڑ گئے ہیں۔ اس طرح سقوط ڈھاکا کے مثبت اثرا ت بحق
بنگلا دیش اور پاکستان معقول طور پر واضح ہیں۔
اِن تمام گزارشات کا تحریر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قارئین کو بھی اس مکالمے
میں شریک کیا جائے۔ ہوسکتا ہے ، اِس تجزیے سے ایک عام محب وطن پاکستانی کے
سقوط ڈھاکاکو لے کر لگے گھاؤ کو مندمل ہونے میں مدد ملے۔ |