انسان غلطی کا نہیں، غلطی انسان کی استاد ہوا کرتی ہے
، غلطیوں ، کوتاہیوں کو تسلیم کرنا اعلیٰ ظرفی کی علامت ہے ، انسان غلطی
کرنے سے نہیں غلطیوں پر اصرار کرنے سے تباہ ہوتا ہے ، ہاں بارہا اصرار! مگر
پہاڑ جیسی غلطیوں اور نادانیوں کا نتیجہ تباہی اور بربادی کے مقدر کے سوا
اور کیا ہو سکتا ہے ۔ شخصیت پرستی ، ذہنی بیماری کی علامت ہے ، ضد ، ہٹ
دھرمی اور انا کی پستی صلاحیتوں کو مفلوج کرنے کیلئے کافی ساماں حاضر ہے
اور قدرت کا عظیم شاہکار ’’ذہن‘‘ جس کے استعمال نے ستاروں پر کمندیں اور
پانیوں کے تہوں میں موجود ریت کے ذروں تک رسائی حاصل کر لی مگر صد افسوس کہ
شخصیت پرسی اور اناپرستی کے ہاتھوں مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے ۔ فیض صاحب نے
’’درد‘‘ کی شدت سے سرشار ہو کر کہا تھا
ضبط کا عہد بھی ہے ، شوق کا پیماں بھی ہے
عہد و پیماں سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے
درد اتنا ہے کہ ہر رگ میں ہے محشر برپا
اور سکوں ایسا کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
یہاں مگر دل کی ہر بات ’’دھیاں ‘‘ اور ساری ہستی’’ گمان ‘‘میں گزرتی ہوئی
نظر آرہی ہے ، راستے کا تعین بہرحال نہیں ہو سکا کہ دہشت گردی کے گرداب سے
کشتی کو کیسے بحفاظت نکالا جائے اس کیلئے مگر صرف زور بازو ہی نہیں ، بروقت
حکمت عملی بھی درکارہوتی ہے جب شخصیت پرستی ، مفاد پرستی اور انا پرستی
جیسے دیو ہیکلTriadکا امتزاج موجود ہوتو ’’پڑے جو وقت تو پانی نہ جال میں
آئے ‘‘والا حساب ہو جاتا ہے ۔ ڈیڑھ ماہ قبل ایک موقر انگریزی اخبار کی
Exclusiveسٹوری نے تہلکہ مچار دیا تھا بلکہ بہت سے لوگوں کے پیروں کے نیچے
سے زمین سرکنا شروع ہو گئی تھی ۔ نقصان مگر صرف شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار
رہنے والے وزیر باتدبیر ، پرویز رشید کو اٹھانا پڑا تھا ، پرویز رشید جیسے
سیاسی کارکن کو اس طرح ’’فراغت ‘‘ کی جھنڈی لہرا دینا ، سیاسی کارکنوں کو
مایوس کرنے کے مترادف تھا ، قصور ان کا مگر یہ تھا کہ بطور وفاقی وزیر
اطلاعات وہ اس Fabricatedخبر کو نہ روک سکے تھے جو ’’دریددل ‘‘ لوگوں کی
نازک طبیعت پر چنداں ناگوار گزری تھی ۔ ساتھ ہی قومی سلامتی کے تقاضے بھی
پامال ہو گئے تھے اور کچھ بقراتی اذہان کو قومی سلامتی کا وجود ،اﷲ معاف
کرے ،خطرے سے دوچار ہوتا نظر آنا شروع ہو گیا تھا مگر ’’مرد میدان ‘‘ اس
وقت بھی ٹھہرے تھے ہمارے دبنگ وزیر داخلہ چوہدری نثار ، جنہوں نے کوئیک
Responseدیتے ہوئے ، اس صحافی (Cyril Almeida) کا نام ای سی ایل میں ڈال
دیا تھا ۔ مگر دو دن بعد جب قومی سلامتی کے تقاضوں کی پامالی کی ’’تلافی ‘‘
ہو گئی تو اس صحافی کو بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی گئی ، یوں مجھے سمیت
کئی لوگوں پر یہ بات Clearہو گئی کہ 20کروڑ کی آبادی والے ملک کو قانون کے
مطابق چلایا جا رہا اور کسی کو بلاوجہ پریشان ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ۔
حالات نے مگر اب انگڑائی لی ہے ۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی رپورٹ سے جس
کیلئے اگست میں کوئٹہ میں فائرنگ اور خود کش حملوں کی شکل میں ر ونما ہونے
والے سانحہ کی چھان پھٹک کیلئے یک رکنی کمیٹی قائم کی گئی تھی ۔ جس میں کو
تاہیوں ، غلطیوں اور حکومتی اداروں کی کارکردگی کے بارے میں انتہائی سنگین
اور سنجیدہ قسم کے سوالات اٹھا دئیے گئے ہیں ایک سو دس صفحات پر مشتمل اس
رپورٹ میں بتا گیا ہے کہ جب وفاقی وزیر داخلہ کو مدعو کیا گیا تو وہ قیمتی
مصروفیات کیو جہ سے بالکل بھی وقت نہ نکال سکے ۔ رپورٹ پڑھنے کے بعد یہ کہا
جا سکتا ہے ، ہوئے تم دوست جس کے دشمن اسکا آسمان کیوں ہو۔ دہشت گردی
کیخلاف کارروائیوں کو مربوط کرنے کا کام ایک ادارے کے ذمے بھی ہے جو بظاہر
وزارت داخلہ کے ماتحت ہے ۔ وہ ادارہ ہے NECTA،جس کا ابھی تک صرف ایک اجلاس
ہوپایا ہے ۔ اس پر آشوب زمانے میں کچھ نئی اصلاحات نے عرف عام میں ایجاد
پائی تھی ۔ جس میں پہلے Facilitatorکا لفظ ظہور پذیر ہوا اور پھر جب ایکشن
کو ’’وسیع‘‘ کیا گیا تو Benefeciersبے چارہ بھی اس کی زد میں آگیا اور یقین
ہو چلا تھا کہ ُاس جی کی طرح ،جس کا جانا صبح یا شام ٹھہر جاتا ہے ،یعنی
دہشت گردی کا بھی جانا ٹھہرا چکا کیونکہ خدا خدا کر کے سب بزر جمہرکا پیج
Sameہو گیا تھا ۔ جسٹس قاضی کی رپورٹ نے حکومتی اداروں اور ذمہ داروں کا
تعین کر دیا ہے مگر اس سے سبق سیکھنے اور کوتاہیوں سے بچنے کیلئے وزیر
داخلہ نے پریس کانفرنس میں رپورٹ کو یک طرفہ قرار دے ڈالا ۔ NAPپر عمل
درآمد کو یقینی بنانے کیلئے سول ادارے اور حکومتی کارکردگی اونٹ کے منہ میں
زیرہ کے مترادف ہے ۔ سول اداروں میں اصلاحات کیلئے کچھ نہ کیا گیا ، پولیس
اب بھی ماضی کی طرح سیاسی ،عدالتوں میں بیان دینے کیلئے گواہوں کو
Protectionدینے سمیت قانون پر عملدرآمد کی ذمہ داری ریاست کے بنیادی اور
اولین فرائض میں شامل ہے مگر بالکل سنجیدگی کامظاہرہ نہ کیا گیا اور تو اور
Military - Courtsتک کا وجود سامنے آیا کہ ریاست کے باقی ادارے مفلوج ہو
چکے ہیں اور کرپٹ سسٹم دیمک کی طرح انہیں چاٹ رہا ہے ۔ NAPکے بیس نکات میں
سے اگر دس پر بھی مکمل عمل درآمد ہو جاتا تو حالات یقینا آج مختلف ہوتے اور
ویسے بھی وزیر داخلہ کیوں مستعفی ہوں ۔ بیس کروڑ کی آبادی والا ملک اس
روایت سے اب تک ’’خوش قسمتی ‘‘سے محروم رہا ہے ۔ رپورٹ میں کچھ
Communication Gapsکی طرف اشارہ کیا گیا ہے جب تک ان کو سنجیدگی ، نیک دلی
اور خلوص سے دور نہیں کیاجاتا ۔ ملک دشمن قوتیں فائدہ اٹھاتی رہیں گی ،Benefeciersاور
Facilitatorsکا ابھی تعین ہونا باقی ہے لیکن وہ روشن صبح کب بیدار ہو گی
اور اداروں کے درمیان How farاورWhat-Scaleکی کشمکش سے کیا بات آگے نکل
پائے گی ۔ اس کا تعین مزید آنے والے وقتوں میں ہو جائیگا فی الحال عوام
وزیر داخلہ کی پریس کانفرنسز سے اپنا جی بہلا سکتے ہیں۔ |