دنیا میں خوبصورت علاقوں کی کوئی کمی نہیں
بہت سے حسین وادیوں کو دانشوروں نے دنیا میں جنت قرار دیا ہے ان میں سے ایک
حسین وادی شانگلہ بھی ہے ۔جو قدرتی حسن سے مالامال سرسبز وشاداب وادی
شانگلہ قدرت کا حسین امتزاج ہیں،گھنے جنگلات،ٹھنڈے چشمے اور گنگناتی
آبشاروں نے قدرتی حسن کو اور بھی نکھار دیا ہے۔تقریباً ساٹھ لاکھ آبادی پر
مشتمل یہ ضلع شانگلہ پہاڑی اور میدانی علاقہ ہے، اس ضلع کو اﷲ تعالیٰ نے
قدرتی وسائل سے نوازا ہے لیکن اس کے باوجود یہ ضلع پسماندہ ترین علاقوں میں
صف اول پرہے ۔ضلع شانگلہ کے شمال میں ضلع کوہستان، مشرق میں ضلع بٹگرام اور
ضلع تور غر جبکہ مغرب میں ضلع سوات اور جنوب میں ضلع بونیر واقع ہے۔شانگلہ
ٹاپ ضلع شانگلہ کا سب سے اہم سیاحتی علاقہ ہے ۔بشام ،الپوری اور یخ تنگی کا
بھی کوئی ثانی نہیں ،یخ تنگی کے علاقے میں چار سے چھ ماہ تک مکمل طور پر
برف پڑی رہتی ہیں،اور سخت گرمی میں بھی یہاں پر آنے والے کو سردی محسوس
ہوتی ہے ۔علاقہ" یخ تنگی" کی ایک خاصیت یہ بھی کہ پہاڑوں سے نکل نے والے
پانیوں کو وہاں کے باشندوں نے ایک ٹینکی نما خوص میں جمع کیا ہوا ہوتا ہے
اور اس میں کولڈرنکس فروٹ رکھ کر ٹھنڈا کیا جاتا ہے یہ اتنا ٹھنڈا ہو جاتا
ہے کہ اس کو پینا یا کھانا بڑے دل گردے کا کام ہے ،جبکہ دریائے سندھ بھی
شانگلہ کے قریب بہتا ہے۔ جو بشام سے لیکر علاقہ جھٹکول پر کابلگرام اور آخر
میں دیدل کماچ سے ہو کر توربیلہ تک جاتا ہے ۔ ضلع شانگلہ اونچے پہاڑوں، تنگ
درّوں، صنوبر، چیڑ اور دیودار کے گھنّے جنگلات کی سر زمین ہے۔ جنگلات ہی
لوگوں کی معاشی زندگی اور آمدن کا واحد ذریعہ ہے۔صرف تنگ درّوں میں کچھ
کھیتی باڑی ہوتی ہے۔ لوگوں کی طرزِ زندگی قبائلی روایات اور مکمّل مذہبی
ماحول پر مشتمل ہے۔ انتظامی طور پر ضلع شانگلہ تین تحصیلوں بشام، الپوری
اور پورن پر مشتمل ہے۔ بشام، چکیسر،مارتونگ اور کابلگرام یہاں کے اہم
مقامات ہیں۔ پیرسر، چکیسر اور داوت کے مقامات پر قدیم یونانی اثرات کی حال
ہی میں دریافت ہوئی ہے۔ یہاں یہ خیال عام ہے کہ سکندر اعظم نے پیر سر کے
مقام پر کئی روز تک اپنے لشکر سمیت پڑاؤ ڈالا تھا۔ ہندو شاہی اور قلندر
اجمیری کے یہاں قیام اور اثرات ملے ہیں۔ ضلع شانگلہ کے ضلعی دفاتر الپوری
میں واقع ہیں۔ سرکاری طور پر ضلع متعین ہونے سے پہلے شانگلہ ضلع سوات کی
ایک تحصیل ہوا کرتاتھا اور یکم جولائی 1995ء کو اسے ضلع بنا دیا گیا۔ اس
ضلع کا کل رقبہ 1586 مربع کلومیٹر ہے۔2002میں شانگلہ کو پہلی مرتبہ قومی
اسمبلی کی نشست ملی اور اُس وقت سے لیکر آج تک ایک ہی شخصیت یعنی امیر مقام
ہی یہ نشست جیت تاآرہا ہے ، دومرتبہ امیر مقام اور اب کی بار امیر مقام کے
بھائی عباد خان نے یہ نشست اپنے نام کی اورجبکہ صوبائی اسمبلی کی دو سیٹوں
پر 2013کے انتخابات میں آزاد حیثیت سے حاجی عبدالمنیم نے مسلم لیگ (ن) کے
اُمیدوار کو شکست دیکر نشست حاصل کرلی تھی اور دوسری نشست پر ظاہر شاہ کے
بیٹامحمد رشادخان مسلم لیگ(ن) کی ٹیکٹ پر کامیاب ہوا ہے۔ضلع کے نمایاں
شخصیات جو قومی اور عالمی سطح پر جانے جاتے ہیں ۔ایک نام تو امیر مقام کا
ہے جو سابق وفاقی وزیر اور اس وقت وزیر اعظم کے مشیر خاص بھی ہے ۔اس کے
ساتھ ملالہ ہوسف زئی بھی شانگلہ کی ہے ۔ان علاوہ مشہور عالم دین مولانا ولی
اﷲ کابل گرامی مرحوم بھی اس ہی ضلع کے سپوت تھے ۔ مولانا کابل گرامی صاحب
اپنے علاقے میں 35سال سے زیادہ عرصہ تک درس قرآن و حدیث دیتے رہیں اور ہر
سال رمضان میں ملک بھر سے سینکڑوں طالبہ ان کے درس سنے کیلئے ضلع شانگلہ
آیا کرتے تھے ۔ ضلع شانگلہ میں جو قومیں آباد ہے ان میں سب سے زیادہ عزی
خیل ،اعوان،اخون خیل،سید ،نصرت خیل ،بابوزئی ہیں ۔نمایا خصوصیات میں بشام
سے گزرتا ہوا دنیا کا آٹھواں عجوبہ شارع قراقرم اور بشام میں ہی واقعہ
کروڑا ڈیم ہے ،کروڑا ڈیم سے تیرا میگاواٹ بجلی بنتی ہے ۔یہ تھی ضلع شانگلہ
کی خصوصیات اب آتے ہے شانگلہ کے مسائل کی طرف توضلع شانگلہ شمار پاکستان کے
سب سے پسماندہ اضلاع میں ہوتا ہے ۔ضلع کے بنیادی مسائل میں صحت ،تعلیم ،روڈ
،بجلی ،اور کاروبار ہے ،اس وقت پورے ضلع میں کوئی بڑا سرکاری ہسپتال نہیں
ہے ،شانگلہ کے کی عوام اپنا علاج ایبٹ آباد ،بٹگرام ،سوات یا پشاور سے کرتی
ہیں ۔جبکہ اس وقت ضلع کے امیر مقام وزیر اعظم کے خاص مشیر ہیں اور دوسرا
شخص حاجی عبدالمنیم صوبائی وزیر ہے مگر ابتک یہ حضرات اپنے ضلع کیلئے کوئی
بڑا ہسپتال نہیں بنواسکے ۔ضلع میں تعلیم کا نظام بھی کوئی خاص نہیں پورے
ضلع میں صرف دو کالج ہے اور ایک بھی یونیورسٹی نہیں ہے ۔ابھی کچھ دنو ں قبل
صوبائی وزیر شوکت یوسف زئی نے الپوری میں ایک کمپس کا اعلان تو کیا ہے مگر
اس کو بھی کچھ حضرات ضلع کی عوام کی آنکھوں میں سرما سے شمار کرہے ہیں ۔ضلع
شانگلہ کی پسماند گی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پوری ضلعے میں روڈ اکثر کچے
ہے ۔ضلع شانگلہ کا 65 فیصد علاقہ پہاڑوں پر مشتمل ہے ان ہی کچے روڈوں کی
وجہ سے آئے دن کو ئی نا کوئی حادثہ ہوتا رہتا ہے ابھی حال میں ہی عوامی
نیشنل پارٹی کے ضلع شانگلہ کے صدر ایک روڈ حادثے میں شدید زخمی ہو جاتے ہیں
،ان کے سات تین آفراد جاں بحق بھی ہوئے ۔بجلی کا مسلح ،تو اس وقت شانگلہ کے
شہری علاقوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ دس سے بارہ گھنٹے اور دیہی علاقوں میں
سولہ سے آٹھارے گھنٹے ہے ۔جبکہ کروڑا ڈیم سے حاصل شُدہ بجلی پر ضلع کے عوام
کا حق ہیں ۔ضلع کے عوام کو کئی پریشانیاں ہے مگر ان میں ایک پریشانی یہ بھی
ہے کہ یہاں کی عوام روزگار کے سلسلے میں زیادہ تر اپنے اپنے گاؤ ں سے دور
کراچی ،لاہور ،پنڈی اور اس طرح ملک کے دیگر حصوں میں آباد ہیں ۔ ضلع شانگلہ
2005کے زلزلے کے بعدآپریشن ضرب عضب، 2010کا سیلاب،پر زلزلہ اور پھر2016کے
سیلاب نے بدقسمت ضلع کے بنیادی ڈھانچے کو بُری طرح متاثر کیا ہوا ہے۔کئی
مہینے گزرنے کے باوجود سیلاب اور زلزلے کے باقیات اب بھی سڑکوں پر نظر آتے
ہیں۔یہ تو رہی انتظامیہ کی بے بسی اور حکومت کی بروقت پیسے نہ بھیجنے کا
نتیجہ ۔مگر ضلع شانگلہ کی پسماندگی کی وجہ شائد کوئی اور نہیں بلکہ ہم خود
ہیں آج تک ہم نے اجتماعی سوچ نہیں اپنا یا اور نہ ہی ایک قوم بن کر اس
علاقے کی ترقی کیلئے عملی اقدام کیا بلکہ انفرادیت کی اس دلدل میں پھنس کر
ترقی کی جانب قدم بڑھانے کی کوشش تک بھی نہیں کی۔پرانے وقتوں میں تو سب کچھ
چلتا تھا لیکن اس دور کے تقاضے اب بدل گئے ہیں کیونکہ ترقی کے بغیر کوئی
قوم نہیں نہیں چل سکتی اس کے بغیر جینا بھی مشکل ہیں۔ہماری ترقی میں رکاوٹ
اگر ایک طرف ہمارے سیاسی رہنماہیں تو دوسری طرف ہم نے اپنے مسائل کی
نشاندہی بھی بہتر انداز میں نہیں کی۔اور آخر میں دعا ہے کہ اﷲ ضلع شانگلہ
کو قدرتی اور انسانی آفات سے محفوظ رکھیں (آمین) |