سن 418ہجری میں سلطان محمود غزنوی کی وفات
ہوئی تو اس وقت وہ دنیا کا سب سے بہادر مشہور و مقبول مسلمان بادشاہ تھا ۔
سلطان محمود غزنوی نے 33سال افغانستان پر حکومت کی1974میں افغانستان کے
مشہور شہر غزنوی میں زلزلہ آیا تو تباہی کی وجہ سے محمود غزنوی کی قبر بھی
متاثر ہوئی اور قبر کی دوبارہ مرمت کی ضرورت پیش آئی اسو قت افغانستان میں
ظاہر شاہ کی حکومت تھی اس نے سلطان محمود کی قبر کشائی کرکے دوبارہ دفن
کرنے اور از سرِ نو قبر بنانے کا حکم دیا۔
جب اس مقصد کے لئے قبر کو کھو دا گیا تو وہاں موجود لوگ سارا منظر دیکھ کر
چکرا گئے سلطان محمود غزنوی کے انتقال کو لگ بھگ 1000سال گذر چکے تھے لیکن
قبر میں سلطان کا تابوت اور اس کی لکڑی با لکل اصل حالت میں پائی گئی اور
اسے معمولی سی دیمک بھی نہ لگی تابوت کی لکڑی کے کسی حصے کو کسی قسم کی
گزند نہیں پہنچی تھی یہی نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ
جب تابوت کو کھولنے کا حکم دیا گیا تو تابوت کھولنے والے یہ دیکھ کر حیران
رہ گئے سلطان کا جسد خاکی اصل حالت میں تھا جیسے آج ہی دفن کیا گیا ہو
دراصل یہ اﷲ تعالیٰ کی جانب سے اس بات کا انعام تھا کہ جو لوگ اﷲ اور اس کے
نبی ﷺ کے احکامات کی فرمانبرداری کرتے ہیں ان پر اﷲ کی خاص عنایات ہوتی ہیں
جو شخص اﷲ کی خوشنودی کے لئے مخلوقِ خدا کی بہتری بھلائی کے لئے سر گرم
رہتا ہے مرنے کے بعد بھی اﷲ اسے عطا کرتا ہے۔
بد قسمتی ہماری یہ ہے کہ ہمیں آج تک سوائے مرحوم جنرل ضیاء الحق کے کوئی
سربراہ مملکت نہیں ملا جس نے پانچوں وقت کی با جماعت نماز ادا کی ہو یہ شرف
اﷲ تبارک تعالیٰ نے صرف جنرل ضیاء الحق کو حاصل ہوا جو پانچوں نمازوں کے
علاوہ تہجد بھی بلا ناغہ اد ا کیا کرتے تھے رات کو اُٹھ اُٹھ کر قوم و ملک
کی سلامتی اور خوشحالی کے لئے گڑ گڑا کر دُعائیں مانگتے تھے جوں جوں وقت
گذرتا جارہا ہے ایسے حکمران نا پید ہو تے جارہے ہیں جو اﷲ اور اس کے پیارے
رسولﷺ کی تعلیم کی پیروی کرتے ہوں آج ہمارے حکمرانوں پر نہ صرف کرپشن بلکہ
دیگر کئی ایک بے حیائی و بے شرمی کے الزامات بھی لگائے جاتے ہیں اآج بے
حیائی ، بے شرمی اور فحاشی کے عام مواقع فراہم ہورہے ہیں نئی نسل کو تباہی
و بربادی کے گُر و ہنر سیکھائے جارہے ہیں لیپ ٹاپ، موبائل اور کمپیوٹر
ٹیکنالوجی نے جہاں سائینسی علوم مہیا کئے ہیں وہاں بے حیائی و بے غیرتی بھی
عام کردی ہے ایسے ایسے مشاغل کا عام ہونا آسان ہوگیا ہے جس سے نئی نسل خود
کوتباہی و بربادی کی طرف لے جارہی ہے ہمارا کوئی وزیر ، مشیر اور آفیسر
ایسا نہیں جس کی مثال دے کر ہم فخر کر سکیں حکمرانوں کا یہ حال ہے کہ سودی
کاروبار کو از خود فروغ دے رہے ہیں آج تک ہم اسلامی نظام کے قیام کے لئے
ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کر پائے ہمارا ہر قدم ہمیں بُرائی کی طرف دھکیل رہا
ہے اور ہم نے کبھی غور تک نہیں کیا کہ ہم کدھر جارہے ہیں اور جس رستے پر چل
رہے ہیں یہ سیدھا دوذخ کو جاتا ہے اسی لئے تو کہتے ہیں جیسے حکمران ویسے
عوام نہ حکمران ایسے اقدامات کرنے کو تیار ہیں جس سے ہماری اسلامی شناخت
ہوسکے یورپ اور مغرب مٰیں حضرت عمر فاروق ؓ کے نظام کی تقلید کی جارہی ہے
اس کے نظام کو اپنا کر عوام کو ہر نوع کی سہولتیں مہیا کی جارہی ہیں ہر قسم
کے وظائف دئیے جاتے ہیں بے روزگاروں کو بے روز گاری کا احساس تک نہیں ہوتا
ہمارے حکمران آج تک کشکول توڑ نہیں سکے دعوے وعدے سب ٹھس ہوجاتے ہیں ہم روز
بروز قرضوں کے شکنجوں میں جکڑے جارہے ہیں ہمارا ہر قدم ہمیں خسارے کی دلدل
میں دھنسا رہا ہے ہر شہری جانتا ہے کہ وہ قرض تلے دبا جارہا ہے مگر کوئی
احتجاج نہیں ہم میں سے بیشتر لوگ ایسے ہیں جو انتخابات میں ٹکے لے کر ووٹ
دیتے ہیں یا پھر یہ کہہ کر کہ ہم جس کو ووٹ دے رہے ہیں وہ علاقہ کا با اثر
بدمعاش ہے جو تھانے چوکیوں سے ہمیں چھڑالے گا ہمارے علاقے کی جاگیر دارانی
سیّد ہ نیلو فر نے متعدد بار عوامی حلقوں میں کہا تھا کہ آپ لوگوں کو شریف
، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باعزت لیڈر نہیں چاہیے جو آپ کی نسلوں کو سنوارنے
کی سبیل پیدا کرے آپ کو حرام خور چاہئیں جو آپ کو حرام خور بنائے ائیر
مارشل اصغر خاں ہمارے ہیرو تھے با اصول ، دیانتدار ، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور
مثالی کردار کے حامل جن کو ہم نے قبول نہیں کیا اور مچھندروں کو کندھوں پر
چڑھایا اور پھر ہم اپنا انجام دیکھ رہے ہیں بد قسمتی ہم نے خود خرید رکھی
ہے ہم اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کلہاڑی چلا کر زخمی ہورہے ہیں کسی کا کوئی
قصور نہیں اﷲ تعالیٰ بھی ان کی حالت نہیں بدلتا جو خود اپنی حالت نہیں
بدلنا چاہتے جب ہم چور، ڈاکو ، لیٹروں سے جان چھڑا لیں گے اور تہجد گذار
حکمرانوں کو ووٹ دیں گے تو کفن کو کبھی گزند نہیں پہنچے گی اﷲ کے ولی آج
بھی ہیں جن کو حکمرانی سونپ کر حالات بدلے جاسکتے ہیں ہمارے سیاستدان تو
کہتے ہیں جر نیلوں کا کیا کام کہ وہ حکمرانی کریں وہ سرحد پر جا کر چوکی
دارہ کریں ہمارے پیارے نبی محمدﷺ سربراہ مملکت بھی تھے اور سپہ سالار بھی
اورپھر یہ ریت مغلیہ حکمرانوں تک چلتی رہی۔ حبیب جالب نے پاکستانی قوم کا
تجزیہ کرتے ہوئے یہ شعر کہا
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر |