2016ء کی کرنیں ، کشمیر ی چناروں پر
(Syed Amjad Hussain Bukhari, )
2016ء کی بس چند ساعتیں رہ گئی ہیں۔یوں ماہ
و سال کا یہ پہیہ سبک رفتاری سے رواں ہے۔ اس سال دنیا بھر میں کئی اہم
واقعات رونما ہوئے، مگر یہ سال مقبوضہ کشمیر کے عوام کی بیداری اور طویل
جدو جہد کا سال ثابت ہوا۔انسانی تاریخ کی ایک عظیم جدوجہد جس میں قربانیوں
کی لا تعداد مثالیں۔ اس بلاگ میں کشمیر میں2016ء کا ماہانہ جائزہ لیا جائے
گا
جنوری2016ء
7جنوری کو کشمیر کے وزیر اعلیٰ مفتی کے انتقال کے بعد محبوبہ مفتی کو ان کا
جانشین نامزد کیا گیا۔ مفتی سعید کا آخری دور اقتدار مرکزی حکومت سے تعلقات
میں گرما گرمی کا دور تھا، وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ سری نگر کے
باوجود تعلقات بہتر نہیں ہو سکے ، اس وقت محبوبہ مفتی کا خیال تھا کہ دہلی
سرکار نے ان کے والد کے ساتھ کچھ بہتر سلوک نہیں کیا۔ بی جے پی سے
کشمیرحکومت میں شامل اتحاد (پی ڈی پی) کی جماعتوں کا اختلاف عروج پر تھا۔
اس وقت تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ محبوبہ مفتی ان چیلنجز سے نبر دآزما
نہیں ہو پائیں گی ۔ شاید اس بات کو زیادہ تحریک نامزد وزیراعلیٰ محبوبہ
مفتی کی جانب سے ایک طویل عرصہ تک وزارت اعلیٰ کاحلف نہ اٹھانے نے دی۔جبکہ
دوسری جانب پی ڈی پی کے ارکان کی جانب سے بی جے پی کے خلاف مہم اور کانگریس
سے پینگیں بڑھائے جانے نے حلف سے پہلے ہی محبوبہ مفتی کے لئے مشکلات کھڑی
کردی تھیں۔دوسری جانب 4جنوری کو پٹھان کوٹ پر حملے کے بعد پاکستان بھارت
تعلقات شدید خراب ہونا شروع ہو گئے۔
فروری2016ء
5فروری کو دنیا بھر میں کشمیریوں سے اظہار یک جہتی کا عالمی دن منایا گیا،
اس دن کی مناسبت سے پاکستان نے پہلے سالوں کی نسبت بہترین انتظامات
کئے،وزیر اعظم پاکستان نے آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے اجلاس سے خطاب
کیا، اپنے خطاب میں انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ مسئلہ کشمیر کو
پاکستان بھارت باہمی مذاکرات سے حل کریں گے۔ اسی ماہ کے دوران جوال لال
نہرو یونیورسٹی میں کشمیری پروفیسر سعید عبد الرحمان گیلانی اور کشمیری
طلبہ کو گرفتار کیا گیا ۔ جب کہ آر ایس ایس کی جانب سے جے این یو میں
کشمیری طلبہ ، طالبات اور اساتذہ کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔جس کے بعد
کشمیری نوجوانوں میں بھارت کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا۔ نئی دہلی اور بھارت
کے دوسرے شہروں میں سینکڑوں کشمیری طلبا و طالبات زیرتعلیم ہیں۔ یہاں کے
سیاسی حلقوں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ جے این یو بحران کے بعد میڈیا میں
ہندوقوم پرستانہ جذبات کو بھڑکایا جا رہا ہے جس کے باعث ان طالب علموں کی
سلامتی خطرے میں پڑگئی ہے۔لیکن یونین کی جانب سے آرایس ایس کو ہی تمام
بحرانوں کی بنیاد قرار دیا گیا۔ بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں ضلع پلوامہ میں
یونیورسٹی کی طالبہ سمیت 3 کشمیریوں کے قتل کے خلاف پیر کو مکمل ہڑتال کی
گئی، پلوامہ میں طالبہ شائستہ حمید اور نوجوان دانش فاروق کے جنازے میں
شریک ہزاروں افراد نے پاکستانی پرچم لہرا دیے، اس دوران مقبوضہ وادی
پاکستان اور آزادی کے نعروں سے گونجتی رہی۔
مارچ 2016ء
فروری میں جوال لال نہرو یونیورسٹی سے شروع ہونے والے کشمیری طلبہ سے رویے
نے بھارت کی اکثر یونیورسٹیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔جادو و پور یونیورسٹی
میں طلبہ وطالبات نے کشمیر کی آزادی کے لئے اور افضل گورو کی پھانسی کے
خلاف مظاہرے کئے۔ جس کے بعد بھارتی حکومت نے کشمیری طلبہ وطالبات کی خفیہ
نگرانی شروع کردی، پولیس اور خفیہ اداروں کی جانب سے مسلسل انہیں دھمکایا
جانے لگا۔اس دوران جے این یو کے طلبہ وطالبات نے آر ایس ایس ، پولیس اور
انتظامیہ کے خلاف مظاہرے کئے جس کی وجہ سے یونین رہنما کنہیا کمار، عمر
خالد اورانوربن بتھا چاریہ کو گرفتار کرلیا ، ان کی گرفتاری کے بعد
ہندوستان بھر میں پرتشدد مظاہرے ہوئے۔ اسی دوران حریت کانفرنس میر واعظ
گروپ نے نیپال میں سرتاج عزیز اور سشما سوراج کی ملاقات کا خیرمقدم کیا اور
امید ظاہر کی کہ دونوں ممالک مستقبل میں بہتری کی جانب سفر کریں گے۔ پہلی
خاتون وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے خلاف بی جے پی اور اتحادی جماعتوں کی جانب
سے ’’ بھارت ماتا کی جے‘‘ کے نعرے کو لے کر بہت بحث کی گئی جبکہ گانگریس کا
مؤقف تھا کہ اگر محبوبہ بھارت ماتا کی جے نہ بولیں تو مرکزی حکومت کو کشمیر
حکومت سے تعلقات پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔مقبوضہ کشمیر میں تعینات سینٹرل
ریزرو پولیس کے ڈائریکٹر کے درگا نے پہلی مرتبہ اس بات کو تسلیم کیا کہ
کشمیر میں جاری جد دجہد آزادی صرف کشمیری عوام کی شروع کی گئی ہے، مارچ کے
مہینے میں کشمیری نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر ایک مہم جاری کی جس میں بھارتی
سرکار کی جانب سے آرایس ایس اور کشمیر میں بھارتی فوج کو حب الوطنی کے
سرٹیفکیٹ بانٹنے کا اختیار دے دیا ہے۔ قوم پرستی کی آڑ میں کشمیر ی
نوجوانوں کا استحصال کیا جا رہا ہے۔
اپریل 2016ء
اپریل کا مہینہ کشمیر میں ظلم و بربریت کی ابتداء کا مہینہ تھا ، جب ضلع
کپواڑہ میں ایک سترہ سالہ طالبہ کے ساتھ بھارتی فوجی کی جانب سے جنسی
زیادتی کی گئی۔اس کے خلاف ریاست بھر میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔جن کو
روکنے کے لئے بھار تی فوج نے طاقت کا وحشیانہ استعما ل کیا ۔ جس میں دو
عورتوں سمیت پندرہ کشمیر ی شہید ہوئے۔وادی میں لینڈ لائن اور انٹر نیٹ کو
بند کردیاگیا جبکہ کرفیو اور گھر گھر تلاشی کے عمل میں تیزی لائی گئی۔اپریل
ہی میں بھارتی کابینہ نے مقبوضہ کشمیر میں مزید فوج بھیجنے کی منظوری دے
دی۔بھارتی میڈیا کے مطابق 17 میں سے 5 انڈین ریزرو بٹالینز مقبوضہ کشمیر
میں، 4 چھتیس گڑھ میں، 3 جھارکھنڈ میں، 3 اڑیسہ میں اور 2 بٹالینز مہاراشٹر
میں تعینات ہوں گی۔ واضح رہے کہ کشمیر میں پہلے ہی سات لاکھ سے زائد فوج
تعینات ہے۔ یہ منظوری کشمیر میں جدو جہد آزادی میں تیزی کے بعد دی
گئی۔بھارتی فوج کے آرمی چیف نے مقبوضہ کشمیر کا خصوصی اور تفصیلی دورہ کیا
، تاہم ان کے دورے کے دوران مسلسل ایک ہفتہ تک مکمل ہڑتال رہی جبکہ بھارتی
فوج پر سنگ باری کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا۔
مئی2016ء
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ریاستی دہشتگردی کی کارروائیوں میں گزشتہ
ماہ کے دوران 21 کشمیریوں کو شہید کیا۔کشمیر مانیٹر کے مطابق ایک سروے
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فوج نے مئی کے مہینے میں ریاستی دہشتگردی
کی کارروائیوں میں 21 کشمیری شہید کئے جن میں چار خواتین اور تین یتیم بچے
بھی شامل ہیں رپورٹ کے مطابق بھارتی پولیس اور پیراملٹری کے اہلکاروں کی
پرامن مظاہرین کے خلاف وحشیانہ طاقت کے استعمال کے نتیجے میں 71 افراد بْری
طرح زخمی ہوئے جبکہ صرف مئی میں ہی 591 بے گناہ شہری جن میں اکثریت حریت
رہنماؤں اور کارکنوں کی ہے کو گرفتار کیا گیا رپورٹ کے مطابق چار خواتین کی
بیحرمتی کی گئی اور چار رہائشی گھر تباہ کئے گئے۔21 مئی کو مقبوضہ کشمیر
میں یوم شہدا ء منایا گیا۔ جس کے دوران حریت کانفرنس کی اپیل پر ریاست بھر
میں مکمل ہڑتال کی گئی۔
جون2016ء
کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی عوام کی جانب سے شدید تنقید کا شکار رہی
ہیں۔کشمیری پنڈتوں کو دوبارہ بسانے کے معاملے میں ان کا بیان کافی متنازعہ
رہا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ کشمیری پنڈتوں کی آباد کاری کی مخالف تو
نہیں ہیں تاہم وہ کبوتر کو بلی کے سامنے نہیں چھوڑ سکتیں۔سید علی گیلانی نے
اسی مہینے میں بھارت نواز سیاسی جماعتوں کو ووٹ دینے کے معاملے میں کہا کہ
ایسی جماعتوں کی حمایت کرنا کفر ہے۔ بھارتی اخبار دا اکانومک ٹائمز کے
مطابق حریت کے رہنماؤں سید علی شاہ گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور دیگر نے
بالاتفاق رائے فوجیوں اور پنڈتوں کی مخصوص علیحدہ کالونیوں کی تعمیر کے
خلاف اپنے موقف کا اعادہ کیا اور کہا کہ وہ وادی میں ایسا نہیں ہونے دیں گے
اور سول سوسائٹی کے اراکین سے مل کر وہ کشمیری پنڈتوں سے رابطہ قائم کریں
گے۔یہ کمیٹی پنڈتوں کو یہ باور کرائے گی کہ ’کشمیری ان کی واپسی کے خلاف
نہیں ہیں بلکہ پوری وادی میں ان کا بھائیوں اور اچھے پڑوسی کی طرح استقبال
ہے اور کوئی بھی انھیں ان کے بھارت نواز موقف کے لیے نقصان نہیں پہنچائے
گا۔جبکہ 25جون کو کشمیری مجاہدین کی جانب سے بھارتی فوج کے ایک کانوائے پر
حملے کے دوران آٹھ فوجی ہلاک جبکہ بیس سے زائد زخمی ہوئے۔
جولائی2016ء
8جولائی کا دن کشمیر ی عوام کی جدوجہد آزادی کو ایک نئی روح پھونکنے کا دن
تھا، جب بھارتی فورسسز کی جانب سے ایک جعلی مقابلے میں حزب المجاہدین کے
کمانڈر برہان ونی کوشہید کردیا، وانی سوشل میڈیا پر متحرک تھا جس کی وجہ سے
وادی کے نوجوانوں کے لئے ایک رول ماڈل تھا۔ وانی کی نماز جنازہ کے بعد
مقبوضہ کشمیر میں پرتشدد مظاہرے شروع ہوگئے ، جن میں صرف ماہ جولائی میں
عورتوں اور بچوں سمیت چوالیس افراد شہید ہوئے۔جبکہ تین سو پچپن افراد شدید
زخمی ہوئے۔احتجاج میں شدت دیکھتے ہوئے بھارتی حکومت نے حریت کانفرنس کے
رہنماؤں کو نظر بند کردیا، انٹرنیٹ اور موبائل سروس بند کردی جبکہ وادی کے
تین بڑے اخبارات پر پابندی لگا دی۔ پاکستان نے برہان وانی کی شہادت کی شدید
الفاظ میں مذمت کی۔ جبکہ پاکستان بھر میں کشمیر کی جد وجہد آزادی کی حمایت
کے لئے آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئیں۔دفتر خارجہ کے ترجمان نے بھارتی حکومت
کو باور کرایا کہ وہ ریاستی دہشت گردی کر رہا ہے۔29جولائی کو کشمیر ی قیادت
نے آزادی مارچ کا اعلان کیا جس کو ناکام کرنے کے لئے بھارتی فوج کی جانب سے
کرفیو لگادیا۔ جولائی کے مکمل ماہ کشمیر بھر میں شدید کرفیو رہا۔
اگست 2016ء
اگست کا مہینہ پاکستان اور بھارت دونوں کی آزادی کا مہینہ ہے، وزیر اعظم
پاکستان نے 2016ء کا یوم آزادی کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کے نام کرنے
کااعلان کیا۔یوم آزادی پر قوم کے نام اپنے پیغام میں وزیراعظم نواز شریف نے
کہا کہ اہلِ کشمیرکی نئی نسل نے نئے جذبے کے ساتھ آزادی کا عَلم اٹھایا ہے۔
میں اس سال 14اگست کو ان اہلِ کشمیر کے نام کر تاہوں جنھوں نے ریاستی جبر
کا مقابلہ کیا مگر آزادی کے جذبے کوزندہ رکھا ہوئے ہے۔ جس کے بعد بھارتی
حکومت کی جانب سے غیض و غضب کا اظہار کیا گیا۔ پاکستان کے یوم آزادی کے
موقع پر پوری وادی میں جشن منایا گیا جبکہ لوگوں نے پاکستانی پرچم لہرائے۔
ہندوستانی حکومت نے بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر کسی بھی قسم کی تقریب
سرکاری سطح پر منانے سے انکار کردیا، بھارت کے یوم آزادی کو کشمیری عوام نے
یوم سیاہ کے دور پر منایا۔اگست کے مہینے میں مظاہروں اور پرتشدد کارروائیوں
کی وجہ سے باون لوگ شہید جبکہ درجنوں شدید زخمی ہوئے۔حریت کی ساری قیادت
اگست کے ماہ میں مکمل نظر بند رہی جبکہ تاریخ میں کشمیر کے مبلغ میر واعظ
کو گرفتار کیا گیا۔
ستمبر 2016ء
ستمبر کا مہینہ بھی کشمیری عوام کے لئے ستم گر بنا رہا ۔ عید الاضحی کے
موقع پر بھی وادی میں کرفیو رہا ہے۔ کشمیری عوام نے عید کی نماز پڑھی نہ ہی
قربانی کا فریضہ سر انجام دیا۔کشمیر میں مظاہروں کے دوران بھارتی فوج کی
جانب سے پیلٹ گن کے استعمال کی گونج اسی مہینے میں سنائی دی۔ کشمیر مانیٹر
کے مطابق پیلٹ گن کے استعمال سے اس مہینے میں تیرہ سو سے زائد مرد، خواتین
، بزرگ اور بچے اپنی بینائی سے محروم ہوئے۔ جبکہ پولیس نے دوہزار سے زائد
نوجوانوں کو ستمبر میں گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا۔ اس ماہ کے اختتام پر
مقبوضہ کشمیر میں مکمل کرفیو کے چوراسی دن ہوگئے تھے۔ بانہال میں چھے
مجاہدین کو قتل کرنے کا دعویٰ فوج کی جانب سے کیا گیا مگر بعد ازاں میڈیا
نے بتایا کہ یہ افراد بھی عام شہری ہی تھے۔ ستمبر کے مہینے میں کشمیری عوام
پر ڈھائے جانے والے مظالم کی داستان دنیا بھر کو سنائی گئی، امریکہ،
برطانیہ، کنیڈا، برازیل، جنوبی افریقہ سمیت دنیا بھر میں کشمیر ی عوام کے
حق میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔اس ماہ کے دوران بیس افراد کو شہید جبکہ تین
ہزار کے قریب نوجوان کوزخمی کیا گیا۔ ان زخمیوں میں پیلٹ گن سے زخمی ہونے
والے افراد بھی شامل تھے۔ستمبر میں انڈیا کا پارلیمانی وفد یہاں کشمیریوں
سے بات چیت کرنے آیا۔ اس دن پیرا ملٹری اور پولیس کی فائرنگ میں 600 نہتے
کشمیر زخمی ہو گئے۔ یہ کسی ایک دن میں زخمی ہونے والوں کی سب سے بڑی تعداد
تھی۔ستمبر کے ماہ میں اوڑی میں بھارتی فوجی کیمپ پر حملہ کیا گیا، جس کا
براہ راست الزام پاکستان پر لگا دیا گیا۔
اکتوبر 2016ء
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارتی فوجیوں کی ریاستی دہشت گردی کی جاری
کارروائیوں میں اکتوبر میں 2 بچوں سمیت 17 کشمیریوں کو شہید کیا۔بھارتی
فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی مظاہرین پرپیلٹ گن اور آنسوگیس سمیت طاقت کے
وحشیانہ استعمال سے ایک ہزا ر2 سو76 کشمیری شدیدزخمی ہوئے جبکہ اس عرصے کے
دوران1ہزار5سو48شہریوں کو جن میں بیشتر نوجوان اور حریت کارکن شامل تھے
گرفتار کیاگیا۔12اکتوبر کو پاکستان کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی
جارحیت کے خلاف دستاویز اقوام متحدہ میں پیش کی گئی۔کشمیر میں بھارتی فوج
کی جانب سے جاری تشدد اور کرفیو کے سو دن مکمل ہونے پر ایک بار پھر بڑے
پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کئے گئے جن میں پاکستان کے پرچم لہرائے گئے۔اسی
ماہ میں بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن پر سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ کیا گیا۔
نومبر 2016ء
نومبر کا مہینہ بھارت نے لائن آف کنٹرول پر حملوں کی نظر کیا ، جس کی وجہ
سے پاکستانی عوام کی نظریں کشمیری عوام کی جد وجہد کی بجائے لائن آف کنٹرول
کی جانب مرکوز ہو گئیں ۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق اس ماہ میں ایک زیر
حراست فرد سمیت چوبیس افراد شہید، تین سو باون زخمی ، دو سو دو افراد کو
گرفتار، ایک سو اکیس گھروں کو تباہ کیا گیا ، جبکہ پندرہ خواتین کی عزتیں
لوٹی گئیں۔ 22نومبر کو اقوام متحدہ میں غیر ملکی تسلط کے خلاف اور کشمیریوں
کے حق خود ارادیت کے حق میں قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی ۔
قرارداد میں حق خود ارادیت کو کشمیری عوام کا بنیادی انسانی حق قرار دیا
گیا تھا اور لوگوں کے حق خود ارادیت کو دبانے کے لیے کارروائیوں کی مذمت کی
گئی ۔قرارداد پیش کرنے میں چین، ملائشیا، برازیل سمیت 72 ممالک نے تعاون
کیا۔ قرارداد کی سماجی، انسانی و ثقافتی امور کی 193 ارکان پر مشتمل کمیٹی
نے منظوری دی جس میں مصر، ایران، نائیجیریا، سعودی عرب، لبنان اور جنوبی
افریقہ بھی شامل تھے۔حریت قیادت نے بھارتی تسلط کے خلاف احتجاجی تحریک کو
یکم دسمبر تک توسیع دینے کا اعلان کیا تھا۔
دسمبر 2016ء
7دسمبرکو مقبوضہ کشمیر کے علاقے بیج بہاڑہ میں مجاہدین اور بھارتی فورسز کے
درمیان طویل جھڑپ ہوئی جس میں تین بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی
جبکہ اسی دوران چار مکانات بارودی مواد سے اڑائے گئے۔امریکہ میں انسانی
حقوق کی ایک تنظیم نے کہا ہے کہ کشمیر میں مظاہرین کے خلاف پیلٹ گنز کے
استعمال سے سینکڑوں افراد مستقل طور پر معذور ہو گئے ہیں، جن میں سے متعدد
افراد ایسے ہیں جن کی بینائی جا چکی ہے۔تنظیم کا کہنا ہے کہ انڈین سکیورٹی
فورسز نے کشمیری مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے 12 بور کی جو ’شاٹ گن‘
استعمال کی تھیں وہ مظاہرین کو قابو کرنے کے لیے بالکل ناموزوں ہیں۔فزیشنز
فار ہیومن رائٹس نامی ڈاکٹروں کی اس تنظیم نے پیر کو امریکہ میں جاری کی
گئی ایک رپورٹ میں الزام لگایا ہے کہ وادی میں احتجاج کے دوران سکیورٹی
فورسز بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے زخمیوں کے علاج میں
رکاوٹیں ڈالتی رہی ہیں۔دوسری جانب وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے الزام عائد
کیا کہ ان مظاہروں کے پیچھے نیشنل کانفرنس کا ہاتھ ہے ۔
جولائی سے لے کر تادم تحریر تین سو سے زائد کشمیریوں کو شہید جبکہ5000سے
زائد کو زخمی کیا گیا۔ان میں سے 2330کو پیلٹ گن کے ذریعے زخمی کیا گیا ہے۔
22نوجوانوں کو پیلٹ گن سے زخمی کر کے بینائی سے محروم کر دیا گیا
307نوجوانوں کو معمولی نوعیت کی آنکھو ں کی بینائی کا شکار کیا گیا، 6500
مکانات تباہ کیے گئے، 37 سکولوں کی عمارتیں تباہ کی گئیں۔ 9700 لوگوں کو
غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا ، 608 لوگوں کو کالے قانون کے تحت گرفتار
کیا گیا۔ 2016تو گزر رہا ہے مگر اس سال کے دوران کشمیر میں بھارتی افواج کی
جانب سے جو قہر ڈالے گئے ان کی مثال نسل انسانی میں کہیں نہیں ملتی ۔ ضرورت
اس امر کی ہے کہ کشمیر میں جاری تشدد کو اقوام عالم کے سامنے پیش کیا جائے
اور کشمیریوں کو ان کا جائز حق ، حق خود ارادیت استعمال کرنے کا موقع دیا
جائے۔ |
|