قابض اسرائیل کے خلاف سلامتی کونسل کی قرار داد اور اسرائیل کا ردّ عمل

اﷲ رب العزت جسے چاہتے ہیں عزت و احترام ، دولت و ثروت اور خوشحالی و تندرستی سے نوازتے ہیں تو کسی کو آزمائشی دور سے گزارتے ہوئے دنیوی زندگی کا اختتام فرمادیتے ہیں۔ آج عالمی سطح پر مسلمان جن حالات سے دوچار ہیں یا جس طرح ان پر مظالم کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے اسے دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کی آہیں انشاء اﷲ العزیز ایک نہ ایک دن ضرور بہ ضرور رنگ لائینگی۔ شام، عراق، افغانستان، فلسطین ، یمن وغیرہ کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو مظلوم مسلمانوں پر دشمنانِ اسلام جس طرح ظلم و بربریت ڈھارہی ہے اسے دیکھ کر انسانیت شرمسار ہوجائینگی۔ شام کے شہر حلب کو جس طرح بشارالاسد کی فوج اور ایران و روس کی فوج و شیعہ ملیشیاء نے ملیامیٹ کردیا ، ہزاروں افرادبشمول معصوم بچوں و خواتین بے گھر ہوچکے ہیں جن کے کھانے پینے رہن سہن کے لئے کوئی انتظامات نہیں۔ ان معصوم و بے قصور بچوں اور خواتین کی آہیں یوں ہی خالی نہ جائینگی۔ بشارالاسد اور پوتین کی فوج کہیں پر مدارس، ہاسپتلوں میں فضائی حملوں کے ذریعہ قتل عام کررہی ہیں توکہیں پر مذہبی مقامات و شہری علاقوں کوکو نشانہ بنایا گیا اور یہ ظلم و بربریت کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ایک طرف ظالم بشارالاسد اورروس و ایران کی فوج شام کے ان بے گناہوں لو شہید و زخمی کررہے ہیں تو دوسری جانب امریکہ اور دیگر اتحادی ممالک داعش و دیگر جہادی تنظیموں کو ختم کرنے کے نام پر عام شہریوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔روس کی شام میں ظالمانہ کارروائیوں کو خلاف عالمی سطح پرمسلمانوں کی جانب سے آوازاٹھائی جارہی ہے اس کے باوجود وہ بشارالاسد کے اقتدار کیلئے اپنی ظالمانہ کارروائیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔گذشہ دنوں روسی وزارت دفاع کے ایک طیارے کا حادثہ عالمی سطح پر ایک معمہ بن گیا ہے۔روس ، شام میں مقیم اپنی فوج کو سال نو کے موقع پر موج و مستی کرنے کے انتظامات کرنے جارہا تھا ۔ کہا جارہا ہے کہ ملک ِشام آنے والے اس فوجی جہاز کامعاملہ منظر عام پر آنے کے بعد دشمنانِ اسلام کی آنکھ کھل جانی چاہیے تھی۔ 25؍ ڈسمبر کو بحیرہ اسود میں گرکر تباہ ہونے والے روسی فوجی طیارے نے دشمنانِ اسلام کو حیرت زدہ کردیا کیونکہ روسی میڈیا کی ایک آڈیوریکارڈنگ کے مطابق طیارے اور ایئر ٹرایفک کنٹرولر کے درمیان ہونے والی آخری گفتگو پرسکون بتائی گئی ہے یعنی طیارے میں سوار مسافروں کی جانب سے کسی قسم کا شور شرابہ سنائی نہیں دیا۔اسی دوران غیر متوقع طور پر طیارے سے رابطہ منقطع ہوجاتا ہے اور ایئر ٹریفک کنٹرولر دوبارہ رابطہ بحال کرنے کی بے سود کوشش کرتے سنائی دیتے ہیں۔ماسکو سے اُڑان بڑھنے والا یہ طیارہ ساحلی شہر سوچی کے ایڈلر ہوائی اڈے پر ایندہن بھرنے کے لئے رکا تھااور یہاں سے اڑان بھرنے کے صرف چند منٹ بعد سمندر میں گرکر تباہ ہوگیا جس میں سوار تمام 92افراد ہلاک ہوگئے ۔ طیارہ کا حادثہ تکلیف دہ ضرور ہے لیکن سال نو کے موقع پر جن ظالموں کی موج و مستی کیلئے یہ طیارہ اُڑان بھرا تھااُن کے لئے ماتم کدہ بن گیا۔ وزارت دفاع کے اس طیارے میں عملے کے ارکان ، فوجی اہلکار ، فوجی میوزک بینڈ اور صحافی سوار تھے جو تمام کے تمام ہلاک ہوگئے ۔حادثہ کے بعد روسی صدر ولایمیر پوٹین کی جانب سے دوشنبہ کو یوم سوگ منایا گیا۔ روس کے وزیرٹرانسپورٹ میکسم سوکولوف نے اس حادثہ کو پائلٹ کی غلطی یا پھر تکنیکی خرابی بتایا ہے لیکن اصل معاملہ تو صاف سمجھ میں آتا ہیکہ اﷲ تعالیٰ نے ان معصوم بے گناہ شامی مظلوموں کی آہوں کا ایک معمولی سا احساس اس ظالم روسی صدر و فوج کو دلایا ہے ۔ شام میں اب تک تین لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ لاکھوں کی تعداد میں زخمی وبے آسرا ہوچکے ہیں۔ ہزاروں کی تعدادمیں بے گھر افراد ان دنوں جان لیوا سردیوں کی وجہ سے پریشان کن صورتحال سے دوچار ہیں۔ ان حالات میں عالمی سطح پر شامی پناہ گزینوں اور مظلوم و بے کس مسلمانوں کی مدد امت مسلمہ کا فریضہ بن چکاہے اسی کے مدّ نظر سعودی عرب نے شامی مظلوموں کی امداد کا اعلان کیا ہے۔

سعودی فرمانروا کی جانب سے شام کیلئے امداد
سعودی فرمانروا خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود نے شام کے مظلوم وبے گھر عوام کے ساتھ ہمدری اور یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے سعودی شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ شامی بھائیوں کے لیے دل کھول کرامداد کریں۔عرب ٹیلی ویژن کے مطابق خادم الحرمین الشریفین کی ہدایت پر ملک گیر مہم کا آغاز ہوا ہے۔ جس میں شامی عوام کے لیے امداد جمع کی جائے گی۔ذرائع ابلاغ کے مطابق شاہی دفتر سے جاری شاہ سلمان کے بیان میں کہا گیا ہے کہ شام کے شہرحلب اور دوسرے علاقوں میں ستم رسیدہ شامی بھائیوں کی مدد ہم سب کی ذمہ داری ہے اور تمام شہریوں کو مشکلات اور مصائب میں گھرے شامی شہریوں کی دل کھول کر امداد کرنی چاہیے۔شاہ سلمان نے شام میں خانہ جنگی سے متاثرہ شہریوں کے لیے 10 کروڑ ریال جمع کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ اس امدادی مہم کی نگرانی اور سرپرستی شاہ سلمان ریلیف سینٹر کررہا ہے تاہم ملک میں ریلیف اور امدادی مہمات چلانے والے دوسرے ادارے بھی اس کار خیر میں پیش پیش ہیں۔ سعودی عرب میں جمع کی جانے والی امدادی رقم سے شام میں جنگ سے متاثرہ شہریوں کے لیے ادویات، اشیاء خوردو نوش اور دیگر بنیادی ضروریات جمع کی جائیں گی۔شامی عوام کے لیے شروع کی جانے والی اس امدادی مہم میں شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے 20 ملین ریال، ولی عہد شہزادہ محمد بن نایف بن عبدالعزیز نے 10 ملین اور نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن عبدالعزیز کی جانب سے 8 ملین ریال کی رقم عطیہ دینے کا اعلان کیا ہے۔سعودی عرب کی جانب دی جانے والی امداد کو بشارالاسد اور روسی فوج مظلوم مسلمانوں تک پہنچانے دیں کیونکہ اس سے قبل کئی مقامات پر امدادی اشیاء کو مظلوموں تک پہنچانے سے روک دیا گیااس لئے ضروری ہے کہ امداد مظلوم شامی مسلمانوں کو امداد پہنچانے کے لئے وسیع تر انتظامات کا جائزہ لیں اور ظالموں کو اسے تباہ و برباد کرنے سے روکے رکھے۔

شامی فوج مغربی حلب کے اطراف میں نئے حملے کے لیے تیار
شام کے شہر حلب میں شہریوں کے وحشیانہ قتل عام کے بعد بشارالاسد کی وفادار فوج اور اجرتی قاتل مغربی حلب کے اطراف میں واقع علاقوں میں حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ایرانی میڈیارپورٹس کے مطابق حلب کے محاذ جنگ سے ملنے والی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ شامی فوج مغربی حلب میں الراشدین اور خان العسل کے مقامات کی طرف پیش قدمی کی تیاری کررہی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق شامی فوج نے حلب کے جنوب اور مغرب میں فوجی کمک جمع کرنا شروع کردی ہے تاکہ مغربی حلب میں فوجی کارروائی شروع کی جا سکے۔ اسدی فوج مغربی حلب اور اس کے اطراف میں نئی فوجی کارروائی شروع کرنے کے لیے تیار ہے،اسدی فوج نے الراشدین میں موجود جنگجوؤں کو چند دنوں میں علاقہ خالی کرنے کی مہلت دی ہے، اس کے بعد فوج باقاعدہ آپریشن شروع کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔

قابض اسرائیل کے خلاف سلامتی کونسل کی قرار داد اور اسرائیل کا ردّ عمل
اسرائیل یہودی آبادکاری کے لئے فلطسینی علاقوں پر آئے دن مختلف طریقوں سے قبضہ کرتا جارہا ہے ، اس کے اس قبضہ کے خلاف عالمی سطح پر آواز اٹھتی رہی ہے ۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے گذشتہ دنوں اسرائیل کی جانب سے غرب اردن میں غیر قانونی بستیوں کے قیام کے خلاف ایک قرار داد منظور کرلی ہے۔ سلامتی کونسل کے پندرہ رکن ممالک میں سے 14نے اس قرار داد کی حمایت میں ووٹ ڈالے جبکہ امریکہ نے ووٹ ڈالنے سے انکار کردیا۔ تاہم امریکہ نے اس موقع پر قرار داد کے خلاف ویٹو کا حق استعمال نہیں کیا۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ ماضی میں امریکہ نے ایسی قرار داد کو ویٹو کرکے اسرائیل کی مدد کی ہے، تاہم اوباما انتظامیہ نے روایتی امریکی پالیسی چھوڑ کر اس مرتبہ اس قرار داد کو منظور ہونے دیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ قرار داد مصر کی جانب سے پیش کی گئی تھی تاہم گذشتہ چند روز میں امریکی نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت کے بعد مصر نے اسے موخر کردیا تھا۔ اس کے بعد سلامتی کونسل کے دیگر ممالک نیوزی لینڈ، سینیگال ، وینزویلا اور ملائیشیا نے مصر کی جانب سے قرار داد واپس لینے کے فیصلہ پر تنبیہ کی اور کہا ہے کہ وہ اس قرار داد کو پیش کرنے کا اپنا حق برقرار رکھے ہوئے ہیں، یہ چار ممالک سلامتی کونسل کے مستقل ارکان نہیں تاہم وہ دو دو سال کی تقریری رکھتے ہیں۔ذرائع ابلاغ کے مطابق ان ممالک نے اس قرار داد کو دوبارہ پیش کیا اور اسے منظور کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے اس قرار داد کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل اس میں طے کی گئی شرائط پر عمل نہیں کریگا۔ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر اس قرار داد کے منفی اثرات کا مقابلہ کرنے کے لئے پرامید ہے۔ سلامتی کونسل کی قرار داد کے بعد اسرائیل نے نیوزی لینڈ اور سینگال سے اپنے سفیر واپس بلالیے ہیں، اس کے علاوہ سینگال اور یوکرین کے وزرائے خارجہ کے اسرائیل کے دوروں کو بھی منسوخ کردیا ہے۔ اقوام متحدہ کی قرار داد کی منظوری کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بن یامن نتن یاہو نے امریکہ کے خلاف غصہ کا اظہار کیا ، جس کے جواب میں امریکہ وزیرخارجہ جان کیری نے ایک ایک پریس کانفرنس میں اسرائیل کو خبردار کیا کہ اگر اس نے فلسطینی زمین پر بستیاں قائم کرنے کی پالیسی ترک نہ کی تو دو ریاستی حل کے امکانات ختم ہوجائیں گے۔اسرائیل نے غرب اردن میں درجنوں یہودی بستیاں قائم کیں جن میں چار لاکھ اسرائیل قیام پذیر ہیں جبکہ 26لاکھ فلسطینی بھی اسی سرزمین پر بستے ہیں۔ ان یہودی بستیوں کی وجہ سے اسرائیل اور فلسطین کے مابین معاہدہ ممکن نہیں ہوپارہا ہے اور یہی معاہدہ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

فلسطین کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ سیب ارکات نے اس قرار داد کو بین الاقوامی قانون کی فتح اور اسرائیل میں شدت پسند عناصر کی شکست قرار دیا۔ غربِ اردن میں اسرائیل کی جانب سے تعمیر کردہ یہودی بستیاں فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان ایک انتہائی متنازعہ موضوع ر ہے ہیں جسے خطے میں قیامِ امن کے لئے اہم رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔یہ پہلا موقع نہیں ہے اس سے قبل بھی اسرائیل کی جانب سے تعمیر کردہ یہودی بستیوں کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے علاوہ، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی، انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس اور بین الاقوامی ریڈکراس بھی انہیں غیر قانونی قرار دے چکی ہیں۔

1967کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد سے اسرائیل نے غربِ اردن اور مشرقی یروشلم میں تقریباً 140بستیاں تعمیر کی ہیں جن میں کم و بیش پانچ لاکھ یہودی رہتے ہیں۔ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر سمینتھا پاول نے اس موقع پر کہا کہ یہ قرار داد زمینی حقائق کی عکاسی کرتی ہے کہ بستیوں میں اضافے کی رفتار تیز ہورہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بستیوں کا مسئلہ اس قدر بدتر ہوچکا ہے کہ اب یہ دو ریاستی حل کے لئے خطرہ ہے۔

انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ کوئی بھی بستیوں میں اضافے اور دو ریاستی حل، دونوں کو اپنا موقف نہیں رکھ سکتا۔تاہم انہو ں نے کہا کہ امریکہ نے قرار داد کے حق میں اس لئے ووٹ نہیں ڈالا کیونکہ اس کی توجہ صرف بستیوں پر ہی مرکوز ہے۔اب دیکھنا ہیکہ اسرائیل اقوام متحدہ کی قرار داد کو خاطر میں لاتا ہے یا پھر ماضی کی طرح اپنی ظالمانہ کارروائیوں کو جاری رکھتے ہوئے فلسطینی علاقوں میں پر قبضہ جماتے ہوئے آگے بڑھتا ہے۰۰۰
Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209255 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.