2016 کی سیاست ۔۔۔ خداحافظ

تاریخ گواہ ہے کہ جوبھی نیا سال آیا وہ ایک سال سےزیادہ ٹک نہیں پایا 2016 کا سال بھی ختم ہو گیا لیکن جو چیز ٹکی وہ کرپشن کا جن ہے جس پر ہم آج تک قابو نہیں کر پا سکے بلکہ حضرت جن نے اپنی فطری چالاکی ،مکاری اور عیاری سےکچھ نازک اندام چڑیلوں کو بھی اپنے دام التفات میں پھنسا لیا ایسے میں نومولود جنوں اور چڑیلوں کی جو فصل نو بہار تیار ہو ئی ہے ان کی کرپشن کی رام کہانیاںمستقبل کی کسی پاناما پیپرز میں ہی درج ہوں گی، لیکن2016 کے اپریل میں کرپشن کا جو بھاری بھرکم جن برآمد ہوا اس سے بعض سیاست دانوں کی لاٹری اور بعض کی جان نکل گئی ہے یعنی جنہوں نے دہائیوں سے عوام کی جان نکال ہوئی تھی اب جب ان کی جان پر بنیہے توعوام کی جان میں جان آئی ہے۔

ہمارے ایک دوست جمہوریت بہترین انتقام کی گردان کرتے پررتے ہیں اصل میں یہ بین کرپشن ہے اور کرپشن کی اخلاقی قسم ہے کرپشن اور جمہویت کی بات ہو رہی ہو اور ایک سابق صدر کا ذکر نہ ہو تو بات بنتی نہیں ہے موصوف ڈیڑھ سال بعد 23 دسمبر کو پاکستان کے دورے پرتشریف لائے اور ساتھ ہی جانے کی تاریخ بھی دے ڈالییہ تو ان کا ذاتی معاملہ ہے کہ وہ کس کے لئے آئے اور کس کے لئے جا رہے ہیں بہر حال بعض جیالے مفاہمت کے سوداگر )بادشاہ نہیں( کے آنے سے زیادہ خوش نہیں ہیں ۔موصوف بھی بعض بڑے پارٹی رہنماؤں سے خوش نہیں، ویسےناراض تو ان کے دوستِ خاص وزیراعظم بھی ہو جاتے ہیں لیکن ان کا جمہوری انتقام اور جمہوری صلہ لینےدینے کا اپنا ہی طریقہ ہے تو جناب بات ہو رہیتھی مرد حر کے ناراض ہونے کی اس کی بڑی مثال تو جناح انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر استقبالیہ قطار میں موجود یوسف رضا گیلانی ،راجا پرویز اشرف اور سید خورشید شاہ سے مختلف انداز میں ملنا تھا اور خود زرداری صاحب نے بھی واضح کردیا کہ وہ اب مفاہمت نہیں سیاست کریں گے۔ یہ شاید انہوں نے دل سے نہیں کہا اگر کہا ہوتا تو 25 دسمبر کو مزار قائد پر حاضری کے وقت ان کی زبان نہ لڑکھڑاتی کہ آج قائد اعظم علیہالسلام کی برسی ہے وہ تو پیچھے کھڑ ے شخص کا بھلا ہو جس نےیاد دلا دیا کہ حضور آج بابائے قوم کی برسی نہیں سالگرہ ہے جس کی انہوں نے فوری تصیح کر لی لیکن انہیں رحمتہ اللہ علیہ اور علیہ السلام کا فرق بتانے والا کوئی نہیں تھا ۔ساڑھے تین سال کی چھوٹ کے بعد پیپلز پارٹی کے لئے یہ ضروری ہوچکا تھا کہ وہ مفاہمت نہیں عوام کے لئے سیاست کرے جو اس کا خاصہ ہے اور جہاں تک ایک تند بیان دے کر بھاگنے کی بات ہے تو یہ روئیے اب ترک کر دینے چاہئیں کہ قومی اداروں ،جمہوریت ،عوام اور پاکستان کی حفاظت ہم سب نے کرنی ہے۔

2016 کی سیاست بھی حکمران ن لیگ اور تحریک انصاف کے گرد گھومتی رہی پاناما کے کھونٹے کے ساتھ دونوں جماعتیں بندھی ر ہیں۔پی ٹی آئی والوں نے 2 نومبر کو اسلام آباد بند کرنا تھا لیکن ایک روز پہلے عدلیہ کی یقین دہانی کے بعد معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا پاناما کمیشن بنانے کی نوبت نہیں آئی اور نہ پی ٹی آئی اب اس کے لئے تیار ہے البتہ نئے چیف جسٹسثاقب نثار کی نامزدگی اور سرما کی تعطیلات کے باعث معاملہ قدرے کھٹائی میں پڑ گیا ہے دوسری طرف پیپلز پارٹی کے 4مطالبات بھی قریب قریب دفن ہی سمجھیں ۔

2016 میں متحدہ متحد نہ رہ سکی اورعسکری گملے میں اس کی نئی قلمی شاخیں پھوٹ پڑیں۔ پاک سرزمین پارٹی کے بعد ایم کیو ایم کا پاکستان اور برطانیہ میں بٹورا ہوا پاک سرزمین پارٹی کے روح رواں مصطفی کما ل نے جہاں ایم کیو ایم کےبانی کا تمام کچا چھٹا کھول کررکھ دیا وہیں متحدہ کے ڈاکٹر نے بھی اپنی جماعت کے دائمی مریض کی تشخیص کرکےا نہیں سیاسی موت کا انجکشن لگا دیا ۔ دوسری جانب پی ایس پی اب بھی یہ آس لگائے بیٹھی ہے کہ معصوم لوگ ان کے پاس آ جائیں گے جبکہ معصوم لوگ بھولے بھٹکے اورنادان دوستوں کی راہ تکتے رہے یہ قضیہ بھی نئے سال میں حل ہو جائے گا۔
جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کا کردار جو ماضی میں تھا وہ 2016 میں بھی نہیں بدلا حکمرانوں کی چٹکی بھی لیتے رہے اور گال بھی پیش کرتے رہے ۔سراج الحق صاحب نے کرپشن کے خلاف جو نحیف آواز بلند کی اس پر ان کو بہت مان ہے جبکہ مولانا فضل الرحمان نے اور سب تو کیا لیکن کشمیر کمیٹی سے متعلق ان کی جو ذمہ دارایاں تھیں وہ انہوں نے پوری نہیں کیں 2016 میں بھی انہیں عمران فوبیا کا مرض لاحق رہا اور وہ عمران خان کو یہودی ایجنٹ قرار دینے کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور لگاتے رہے اس بے کار کی مشق پر موصوف کو کئی بار اسپتال بھی جانا پڑا۔

کشمیر کا ذکر ہوا تو کشمیری شیخ ،شیخ رشید احمد یاد آ گئے جن کے لئے یہ سال بھی زیادہ اچھا نہیں رہا اور ان کی حکومت کے خاتمے اور قربانی سے متعلق تمام پیش گوئیاں غلط ثابت ہوئیں البتہ پنڈی کے کمیٹی چوک میں انہوں نے موٹر سائیکل پر جو دبنگ انٹری ماری اسے سال کی بہترین نیوز ویڈیو قرار دیا جا سکتا ہے جبکہ پی آئی اے والوں نے سانحہ حویلیاں کے بعد اے ٹی آر-42 طیاروں کےسامنے بکروں کی قربانی کا جو سلسلہ شروع کیا اور میڈیا کو اس کی تصویریں جاری کیں وہ سال کی بہترین فوٹو گرافی رہی ہاں اگر کالے بکروں کے ساتھ ساتھ پی آئی اے کی کالی بھیڑوں کو بھی قربان کردیا جاتا تو ادارے اورمسافروں دونوں کا بھلا ہو جاتا لیکن باکمال لوگوں کو ایسے تیر بہدف نسخہ آخر دے کون ؟
فوج 2016 میں بھی قومی افق پر چھائی رہی جنرل)ر) راحیل شریف نے25 جنوری کو مدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائرمنٹ لینے اور ایکسٹینشن نہ لینے کی بات کی تھی جو انہوں نے پوری کردی ۔ 29نومبر کو جنرل قمر جاوید باجوہ نے بری فوج کی کمان سنبھال لی۔ دہشت گردی کو کافی حد تک ختم کردیا گیا، اکا دکا واقعات نے البتہ فضا مکدر کی ۔ بری ،بحری اور فضائی افواج نے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کی ، راکے ایجنٹوں کو پکڑا، ان کے عزائم کو ناکام بنایا، شیطانی گٹھ جوڑ ختم کیا، نیشنل ایکشن پلان کےاہداف کافی حد تک حاصل کئے)پنجاب میں البتہ ٹارگٹ کو ٹارگٹ نہ کرنا سمجھ سے بالا ہے( عوام میں فوج کا امیج مزید بہتر ہوا جس میں سابق سپہ سالار کی جہاں بہادری کا دخل ہے وہیں لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجود کی بطور ڈی جی آئی ایس پی آر شاندار ابلاغی حکمت عملی بھی اس میں شامل ہے۔
ملک میںبآلاخر بلدیاتی انتخابات کامرحلہ2016 میں مکمل ہو گیا بلوچستان اس حوالے سے بازی لے گیا خیبرپختوا نخوا دوسرے ،سندھ تیسرے اور پنجاب چوتھے نمبر پر رہا ،شریف برادران کے آبائی صوبے پنجاب میں سب سے آخر میں بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ مکمل ہونا افسوس ناک ہے بلدیاتی ادارے جمہوریت کی نرسری کہلاتے ہیں لیکن کئی سال سے اقتدار میں رہنے والی جماعت مسلم لیگ ن نے سب سےآخر میں یہ جمہوری ذمہ داری نبھائی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ نہیں چاہتی جمہوریت کی نرسریاں پروان چڑھیں ،بلکہ وہ توجمہوریت کو چند خاندانوں کی لونڈی بنانے کے حق میں ہیں تاکہ عوام پرآمر کا دیا ہوا حق حکمرانی استعمال کرتے رہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پارلیمنٹ سیاست دانوں کےلئے ماں کا درجہ رکھتی ہے لیکن اس کی ناخلف اولاد نے 2016 میں بھی اس کی عزت نہیں کی ، وہ الیکشن میں سارا زور اور سارا سرمایہ اس تک پہنچنے کے لئے لگاتے ہیں لیکن جب یہاں پہنچتے ہیں تو پھر یہ کہیں اور پہنچ جاتے ہیں اور ماں بے چار ی ایڑھیاں رگڑتیرہ جاتی ہے ،کسی نے پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کیا تو کسی نے اسے ربڑ سٹمپ کہا جبکہ پارلیمنٹ کے سب سے سگے یعنی وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان نے سال میں بہت ہی کم بار ماں کو محبت بھری نظر سے دیکھا ہو گا اور اگر دیکھا بھی تو تب جب بجٹ پاس کرانا ہو یا پھر کوئی ضروری بل یا پھر یہ کہ جب ترکی کے صدر کی آمد پر مشترکہ اجلاس ہونا ہو ۔۔۔ جب بڑے ہی ماں کی بےقدری اور بے تو قیری کریں گے تو چھوٹوں نے تو ان کے ہی نقشقدم پر چلنا ہے۔

اور جہا ں تک بے چارے عوام کا تعلق ہے تو وہ جیسے کل تھے ویسے آج ہیں اور مستقبل میں بھی ایسے ہی ہوں گے،پیٹ بھر کر کھاتے ہیں، سر پر چھت ہے تن پرکپڑے بھی ہیں لیکن زبان پر کلمہ شکر نہیں ہوتا۔ اب نئے سال میں نئے مسائل ہوں گے ، انتخابات سے پہلے تمام سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی خوب پگڑیاں اچھالیں گی ۔دشنام طرازی ہو گی ، سیاسی مخالفین کے خانگی اسکینڈل بنا ئے جائیں گے جبکہ اپوزیشن پاناما پیپرز ،کرپشن ،لوٹ مار اور اقربا پروری کا رونا روئے گی اور ہم سب مزید ایک سال سیاست دانوں کی قلابازیاں دیکھیں گے اورپھر کہیں گے2017 کی سیاست۔۔خدا حافظ!!!
Shahzad Iqbal
About the Author: Shahzad Iqbal Read More Articles by Shahzad Iqbal: 65 Articles with 48251 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.