آدمیت کے اُفق پہ ہوصداقت پھرطلوع

عالم اسلام اور مغرب کامکالمہ
یورپی یونین کے کئی سرکردہ دانشوروں نے تسلیم کیاہے کہ آئندہ نسل انسانی کی بقاء اور عالمی امن کیلئے عالم اسلام کے بارے میں نفرت انگیزاورمنفی پروپیگنڈہ کوبتدریج ختم کرنے کیلئے مثبت کوششوں کی فوری ضرورت ہے۔ہو سکتا ہے کہ ساری کوشش کے نتیجے میں محض چند ’’نرم اور مہذب الفاظ‘‘ کے علاوہ کوئی چیز وجود میں نہ آئے، تاہم یورپی یونین کے پالیسی سازوں نے، جو مسلم ممالک کے ساتھ مضبوط تر تعلقات قائم کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں، اپنے سر ایک نئی ذمہ داری لے لی ہے۔ یعنی ایسی گائیڈ لائنز کی تیاری جو اسلام کے حوالے سے تحقیر آمیز اصطلاحات کے استعمال کو ممنوع قرار دیں۔ اس کوشش کا اصل ہدف یورپی بلاک کے سرکاری عہدے داروں کے بیانات اور دستاویزات میں ایسے الفاظ کے استعمال سے اجتناب برتنا ہے، جن سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہو یا یہ تاثر پیدا ہوتا ہو کہ دہشت گردی کے خلاف یورپ کی جدوجہد کا ہدف خاص طور پر مسلمان ہیں۔

اس مہم کا آغاز گزشتہ سال دسمبر میں کیا گیا تھا اور موجودہ حالات میں اس کی اہمیت اور فوری نوعیت (Urgency) اس اعتبار سے بڑھ گئی ہے کہ حالیہ سال کے آغاز میں متعدد یورپی اخبارات میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں شائع ہونے والے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے بعد یورپی یونین مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ ان خاکوں کی وجہ سے بہت سے مسلم ممالک میں غم و غصے کی ایک لہر پھیل گئی جس کا نتیجہ پرتشدد مظاہروں، بہت سے مظاہرین کی ہلاکت اور یورپی سفارت خانوں پر حملوں کی صورت میں نکلا۔ یورپی یونین نے ذرا ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرنے اور بہت سے ایسے بیانات جاری کرنے کے بعد جن میں آزادیٔ صحافت اور آزادیٔ رائے کے تقدس پر زور دیا گیا تھا، بالآخر اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ ان خاکوں سے بہت سے لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ یورپی یونین کے کمشنر برائے خارجہ تعلقات بینٹافیریرو والڈنر (Benita Ferrero-waldner) نے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ ’’آزادیٔ رائے کے حق پر کوئی پابندی خارج از بحث ہے، لیکن آزادیٔ مذہب کا حق اور ایک دوسرے کا احترام ملحوظ رکھنا بھی اتنا ہی اہم ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہمیں مختلف ثقافتوں اور مذاہب کے مابین، چاہے وہ یورپی یونین کے اندر ہوں یا دنیا میں کہیں بھی، افہام و تفہیم کی فضا کو بہتر بنانے کے لیے مسلسل محنت کرنا ہوگی‘‘۔

خاکوں کی وجہ سے مسلم دنیا کے ساتھ پیدا ہونے والا یہ بحران واقعات کے اس سلسلے کی تازہ ترین کڑی تھا، جس کا آغاز نائن الیون ۲۰۰۱ء کو امریکا پر حملوں سے ہوا تھا اور جس کی وجہ سے مغربی دنیا کی توجہ عالم اسلام پر مرکوز ہوگئی۔ تاہم اسلام سے متعلق آگاہی کی اس نئی فضا کے باوجود یورپ کے اندر اور باہر بہت سے یورپی لوگ ہنوز اسلام کے بنیادی عقائد تک سے ناواقف ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ مسلسل اپنے قارئین کے سامنے اسلام کی ایک بالکل سیدھی اور ایک یکطرفہ تصویر پیش کر رہے ہیں، جس سے بالعموم یہ تاثر ابھرتا ہے کہ عالم اسلام جنونیوں اور انتہا پسندوں سے بھرا ہوا ہے اور تمام مسلمان خواتین پردے میں محبوس اور محکومیت اور جبر کا شکار ہیں جوکہ سراسر لاعلمی اورمتعصب پروپیگنڈہ پرمبنی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ گزشتہ سال فرانس کے بعض نواحی علاقوں میں بے اطمینانی کا شکار افریقی اور عرب نوجوانوں کی طرف سے کیے جانے والے فسادات کے بعد یورپی حکومتوں میں یورپ کی مسلم اقلیتوں کی بڑھتی ہوئی بے چینی کا ادراک بھی بہتر ہو رہا ہے۔ یہ اقلیتیں عام طور پر یورپی معاشرے میں غیر مساوی حیثیت کی حامل ہیں۔

یورپی یونین کے ذمہ دار حضرات کا کہنا ہے کہ اسلام کے حوالے سے درست اصطلاحات کی تلاش کی حالیہ کوشش ۲۵ ملکوں پر مشتمل یورپی بلاک میں داخلی طور پر جاری اس بحث و مباحثے کا ایک حصہ ہے، جس کا عنوان یہ ہے کہ مسلم ممالک کے ساتھ گہرے تعلقات کیسے استوار کیے جائیں اور یورپ میں مقیم ۲۰ ملین مسلمانوں کے ساتھ بہتر روابط کیسے قائم کیے جائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے حصول کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ یہ بات واضح کر دی جائے کہ اہل یورپ اسلام اور دہشت گردی کو مترادف نہیں سمجھتے۔ تازہ گائیڈ لائنز میں اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت کے مابین، جو امن پسند ہے اور مرکزی دھارے سے کٹی ہوئی اس اقلیت کے مابین، جو اپنے مقاصد کے لیے غلط طور پر اسلام کا نام استعمال کر رہی ہے، واضح طور پر فرق ملحوظ رکھا جائے۔ یورپی یونین کے ایک عہدیدار کے بقول ’’ہمارا مقصد اسلام کے حوالے سے یورپی یونین کے موقف کو واضح کرنا اور اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ دہشت گردی کا رشتہ کسی مخصوص مذہب کے ساتھ نہ جوڑا جائے‘‘۔ مذکورہ عہدیدار نے مزید کہا کہ حالیہ کوشش کا مقصد ’’ایسے الفاظ کو فروغ دینا ہے، جن سے غلط فہمی پیدا نہ ہو اور خیالات کی غلط ترجمانی سے بچا جاسکے‘‘ ۔

یورپی یونین کے واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ اس کوشش کے نتیجے میں ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ اور ’’بنیاد پرستی‘‘ جیسی اصطلاحات کو تَرک کردیا جائے گا جنہیں ناقدین کے بقول یورپی یونین کے عہدیداران مسلم دنیا میں رہنے والے یا وہاں سے تعلق رکھنے والے انتہا پسندوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ ’’عوامی سطح پر بیانات کے لیے مبینہ غیر جذباتی زبان‘‘ کی رو سے عہدیداروں کو جہاد سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے بھی احتیاط برتنی ہوگی۔ اگرچہ اس وقت مسلم دنیا کی بعض انتہا پسند تنظیمیں اس لفظ کو ’’غیر مسلموں کے خلاف جنگ‘‘ کے مفہوم میں استعمال کرتی ہیں، تاہم بہت سے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب ایک ’’داخلی اور روحانی جدوجہد‘‘ ہے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ مجوزہ نئی اصطلاحات کی پابندی لازم تو نہیں ہوگی لیکن جون میں برسلز میں ملاقات کے موقع پر یورپی بلاک کے قائدین اس کی تائید کردیں گے۔

تاہم یورپی پارلیمنٹ کے برطانوی رکن سجاد کریم اور ان کے ہم خیال لوگوں کے نزدیک اسے کوئی فوری اقدام نہیں کہا جاسکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے عہدیداروں کو اسلام کا لبادہ اوڑھنے والے دہشت گرد گروہوں سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے زیادہ احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ سجاد کریم کا کہنا ہے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ یورپ میں لوگ مشرق وسطٰی میں رونما ہونے والے تشدد کے بارے میں بات کرتے ہوئے اسلامی دہشت گردی کا لفظ استعمال کرتے ہیں حالانکہ امریکاویورپ میں رونما ہونے والے واقعات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔کشمیراور فلسطینی عوام کی بے چینی ، اضطراب اوران پرہونے والے ظلم وستم کونہ روکاگیاتواس کے مضراثرات اب ساری دنیاکومتاثرکریں گے۔ سجاد کریم کا اصرار ہے کہ گزشتہ سال فرانس کے مسلم نوجوانوں کا احتجاج بھی دراصل اس حقیقت کی عکاسی کر رہا تھا کہ یہ نوجوان یورپی تعصب کی بناء پرمعاشرے میں گھل مل نہیں سکے۔ اس سارے معاملے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

یورپی یونین کے عہدیدار جن میں کمشنر برائے خارجہ تعلقات Benita ferrero-waldner بینٹافیریرو والڈنر اور سیکورٹی پولیس چیف Javier Solana جیویرسولانہ شامل ہیں، جہاں اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ آیا سیاسی سطح پر درست اصطلاحات کے استعمال سے یورپ اور مسلم ممالک کے مابین موجودہ تناؤ کو کم کرنے میں کوئی مدد ملتی ہے یا نہیں، وہاں وہ اپنے طور پر بھی اس خلیج کو پاٹنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان دونوں عہدیداروں نے گزشتہ ماہ Salzburg سالزبرگ میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ سے کہا کہ یورپی یونین کو اقوام متحدہ، عرب لیگ اور اسلامی کانفرنس تنظیم کے ساتھ مل کر مسلم ممالک کے ساتھ اعتماد کے رشتہ کو بحال کرنے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ ان کی طرف سے یورپی دارالحکومتوں کو ارسال کی جانے والی مجوزہ حکمت عملی میں بھی کہا گیا ہے کہ خارجہ پالیسی کے تحت کیے جانے والے اقدامات کی مزید تائید داخلی سطح پر سخت قانون سازی کے ذریعے سے کی جانی چاہیے جس کے تحت اسلام کے بارے میں پائے جانے والے خوف کا تدارک کیا جاسکے اور یورپ میں مقیم مسلمانوں کے ساتھ مکالمہ کی فضا کو بہتر بنایا جاسکے۔

یہ اقدامات اور نئی اصطلاحات کا استعمال سالوں پر محیط غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے کافی نہیں ہوں گے۔ یورپی یونین کے کارپردازوں کا اعتراف ہے کہ مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات کو ازسرنو بحال کرنے کی جدوجہد طویل اور کٹھن ہوگی اور یورپی مسلمانوں کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے لیے بھی صبر و حوصلہ اور ثابت قدمی سے کام لینا ہوگا۔ تاہم متفکر یورپی پالیسی ساز اس بات سے بھی خبردار کرتے ہیں کہ آغاز کہیں نہ کہیں سے کرنا ہی ہوگا۔ بہت سے لوگوں کو امید ہے کہ الفاظ اور اصطلاحات میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ اہل اصطلاحات میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ اہل یورپ کے اسلام اور مسلمانوں سے متعلق فرسودہ اوربالعموم تعصب پر مبنی خیالات میں بھی تبدیلی رونما ہوگی۔

یقیناً یورپی دانشوروں کی اس تحریک کوعالم اسلام میں بڑی تحسین میسرہوگی جب ان بنیادی وجوہات کی نشاندہی کرکے اس کے ازالہ کیلئے ایسےعملی اقدامات اٹھائے جائیں اورزمینی حقائق اس کی گواہی دیں ۔جب تک فلسطین، کشمیراور روہنگیا میں ظلم وتشددکے خاتمے اوران کے مستقل حل کی طرف کوئی قدم نہیں اٹھایاجاتا،اس وقت تک عالم اسلام کو مطمئن کرناازحدمشکل ہوگا۔ پچھلی چاردہائیوں سےافغانستان میں بہتے ہوئے خون ناحق کوختم کرنا ہو گاجہاں اب تک چارملین سے زائدافرادکوموت کے گھاٹ اتاردیاگیااورسارے ملک کو کھنڈرات میں تبدیل کردیاگیاہے۔عراق پربے بنیادالزام لگا کراس کی آدھی سے زیادہ آبادی کوتہہ تیغ کردیاگیااورقدیم تاریخ بابل ونینواکےامین ملک کانہ صرف حلیہ بربادکردیا گیابلکہ تیل کی بیش بہادولت سے مالامال ملک کوبری طرح لوٹ کرکنگال کردیاگیا۔اسی پراکتفانہیں کیاگیابلکہ عرب اسپرنگ کے نام پرلیبیا اورتیونس کو بھی بربادکر دیا اوراب شام میں مسلکی جنگ کی آڑمیں عالم اسلام میں ایک گہری دراڑ پیداکرکے بڑے پیمانے پرخانہ جنگی کے منصوبوں پرعمل درآمد جاری ہے۔ مسلم ملک ترکی کی تیزی سےابھرتی ہوئی معاشی وعسکری ترقی اورمسلمانوں پرہونے والے مظالم پربھرپوراحتجاج کرنے والے طیب اردگان کوسزادینے کیلئے پہلے ایک ناکام بغاوت اوراب انقرہ میں اس کے سفیر کوقتل کرواکرایک نئے فساداورخطرناک سازش کی بنیادرکھ دی گئی ہے ۔عالم اسلام کی نوجوان نسل ان تمام حالات کابخوبی جائزہ لے رہی ہے اوریہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ اگرمشرقی تیمورکامسئلہ ہوتووہ چندماہ میں اس کا اپنے حق میں فیصلہ کروالیاجاتا ہے،سوڈان کی تقسیم کامعاملہ ہوتووہاں بھی بزور شمشیر اپناناجائزحق بھی منوالیاجاتاہے لیکن کیاوجہ ہے کہ تمام قیامتوں کا حقدار صرف مسلمان ہی کیوں ہے؟
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 390086 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.