سندھ حکومت اور کراچی کی انتظامیہ کب ہوش میں آئے گی ؟

منی پاکستان اور روشنیوں کا شہر کہلائے جانے والا کراچی آج بلتے ہوئے گٹروں ،میٹھے پانی کی لائنوں کے رساؤ،ٹوٹی ہوئی سڑکوں ،کچرے کے ڈھیر وں اور بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ایک انتہائی پس ماندہ اور غیر ترقی یافتہ شہر کا منظر پیش کررہا ہے حالانکہ کراچی کا شمار دنیا کے بین الاقوامی شہروں میں کیا جاتا ہے اور کراچی پاکستان کا وہ شہر ہے جو سب سے زیادہ ریونیو فراہم کرکے ملکی معیشت کو رواں دواں رکھنے کے سلسلے میں کلیدی کردار ادا کررہا ہے لیکن افسوس وفاقی ،صوبائی اور شہری حکومتوں کی لاپرواہی اور فرائض سے غفلت نے کراچی کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا ہے۔

کراچی کے شہری جو کہ بدامنی ،دہشت گردی ،ٹارگٹ کلنگ ،لینڈ مافیا کے ہتھکنڈوں اوربھتہ خوروں سے پہلے ہی تنگ تھے ان کے لیئے کراچی کی سڑکوں کی بدحالی ،کچرے کے ڈھیروں،ابلتے ہوئے گٹروں اور بجلی کی آنکھ مچولی نے روزمرہ کی زندگی گزارنا بھی مشکل بنا دیا ہے۔کراچی میں ایک طویل عرصے سے جاری بدامنی اور دہشت گردی پر تو پاک فوج اور رینجرز کی موثر کارروائیوں کی وجہ سے بہت حد تک قابو پالیا گیا ہے لیکن افسوس کراچی کے شہریوں کواپنی رہائش گاہوں کے قریب درپیش مسائل کے حل کے لیئے سندھ حکومت اور کراچی کی انتظامیہ نے ایک طویل عرصہ سے کچھ نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ کراچی کے لوگ شدید ذہنی اذیت کا شکار ہو کر مختلف بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں،گندگی ،تعفن اور آمدورفت کے راستوں کی خستہ حالی نے کراچی کے باشندوں کا جینا دوبھر کردیا ہے لیکن افسوس سندھ حکومت اور شہری انتظامیہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگی اور وہ حسب سابق خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے۔

کراچی کے چند پوش ایریا ز کے مخصوص علاقوں کو چھوڑ کرباقی آپ کراچی کے کسی بھی علاقے میں نکل جائیں راستے میں جگہ جگہ ابلتے ہوئے گٹر،ٹوٹی ہوئی سڑکیں ،کچرے کے ڈھیر اور ان سے اٹھتی ہوئی ناقابل برداشت بدبو اور تعفن آپ کا استقبال کریں گے۔کراچی کے باشندے جو سب سے زیادہ ٹیکس اداکرتے ہیں انہیں اس طرح لاوارث چھوڑ دینا ہماری حکومتوں کی نا اہلی کو ظاہر کرتا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کراچی کا ہر مسئلہ حل کرنے کے لیئے فوج اور رینجرز کو بلایا جائے گا؟ کیاعوام کے پیسوں سے بڑی بڑی تنخواہیں وصول کرنے والے ہمارے منتخب نمائندے اس قابل نہیں ہیں کہ وہ کراچی کو درپیش مسائل کو حل کرسکیں؟ یا وہ جان بوجھ کر اس شہر کے مسائل حل کرنا نہیں چاہتے ؟کیا اب کراچی کی گلیوں اور مرکزی شاہراہوں کے بلدیاتی نوعیت کے مسائل کے حل کے لیئے بھی فوج اور رینجرز سے کام لینا پڑے گا؟ اور اگر سارے کام فوج یا رینجرز کو ہی کرنے ہیں تو پھر اس شہر کو ان سیاسی بازی گروں کی کیا ضرورت ہے جو عوام کے ووٹوں سے کامیاب ہونے کے بعد اپنے ووٹرز اورجن علاقوں سے وہ منتخب ہوکر آتے ہیں ان کے مسائل ہی بھول جاتے ہیں؟ کراچی میں حالیہ ہونے والی بارش نے سندھ حکومت اور کراچی انتظامیہ کی کارکردگی کا پول کھول کررکھ دیا ہے اور لوگ یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ کراچی والوں کے ووٹوں سے منتخب ہوکر اسمبلیوں میں پہنچنے والوں نے کراچی کے لیئے گزشتہ 8 سالوں میں کیا کیا ؟

ان مفاد پرست سیاسی بازی گروں سے بہتر تو ہماری فوج ،رینجرز اور دیگر سیکورٹی ادارے ہیں جنہوں نے کراچی کے بیشتر مسائل کو حل کرنے میں شاندار کامیابی حاصل کرکے عوام کے دل جیت لیئے ہیں اورجب کوئی پاک فوج اور رینجرز کی تعریف کرتا ہے تو ان نام نہاد جمہوری رہنماؤں کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ فوج اور رینجرز کو عوامی نمائندوں کے کاموں میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیئے لیکن جب عوامی نمائندے اسمبلیوں میں جانے کے بعد اپنے ذاتی مفاد کے علاوہ ہر بات بھول جائیں گے تو کوئی تو عوام کو درپیش مسائل حل کرنے آئے گا یا پھر عوام کو لاوارث چھوڑ دیا جائے تاکہ یہ جمہوری نمائندے جمہوریت بہترین انتقام ہے کا نعرہ لگا کر عوام سے اس بات کا انتقام لیں کے انہوں نے انہیں ووٹ کیوں دیئے؟

کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے ؟ اور ان سب چیزوں سے بڑھ کر خوف خدا ہوتا ہے تو کیا شرم وحیا کے ساتھ خوف خدا بھی ان جمہوری نمائندوں کے دلوں سے اٹھ گیا ہے ؟ جو انہوں نے کراچی جیسے بین الاقوامی شہرت یافتہ شہر کو بے یارومددگار چھوڑ رکھا ہے ۔اب اگر کوئی پرویز مشرف کے دور میں کراچی میں نمایاں ترین ترقی یافتہ کاموں کے حوالے سے اس دور کے سٹی ناظم مصطفی کمال کی شاندار کارکردگی کی تعریف کرتا ہے تو یہ تعریف بھی ان منتخب نمائندوں کو بہت بری لگتی ہے کہ آج وہی مصطفی کمال ایم کیوایم کو چھوڑ کر اپنی نئی سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی کے پلیٹ فارم سے ایک نہایت فعال اور دلیر سیاستدان کے طور پر منظر عام پر آکر خلوص دل کے ساتھ اپنی قابلیت ،صلاحیت اور تجربے کی بنا پر پاکستان اورکراچی کے مسائل کے حل کے لیئے تجاویز پیش کررہا ہے تو اسے توجہ اور غور سے سن کر اس کے مطابق عملی کارروائیوں کا آغاز کیا جانا چاہیئے کہ مصطفی کمال کے 5 سالہ دورنظامت میں جو قابل ذکر ترقیاتی کام کراچی میں کیئے گئے لوگ آج بھی اسے ایک مثال کے طور پر پیش کرتے ہوئے مصطفی کمال کی تعریفیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ مصطفی کمال کے جانے کے بعد سے لے کر آج تک کسی نے کراچی کے لیئے اس تیز رفتاری اور مہارت کے ساتھ ترقیاتی کام نہیں کیئے کہ ان کا کوئی تذکرہ کیا جائے یہی وجہ ہے کراچی آج کچرے کا ڈھیر بن چکا ہے اور کراچی کے باشندوں کی اکثریت کے لبوں پر یہی سوال ہے کہ سندھ حکومت اور کراچی انتظامیہ کو کب ہوش آئے گا؟

سندھ حکومت نے عوام اور میڈیا کی تنقید سے گھبرا کر یا تنگ آکر ایک نمائشی کام یہ کیا کہ سندھ کے عمر رسیدہ وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کو ہٹا کر ان کی جگہ نسبتا ایک جوان منتخب سیاستدان مراد علی شاہ کو وزیراعلی سندھ بنادیا ہے ،گوکہ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے لیکن ابھی تو نئے وزیراعلی کی آمد کوچند ماہ ہی ہوئے ہیں اور وہ آتے ہی کراچی کے مختلف علاقوں کے دوروں میں مصروف ہوگئے ہیں جن کی پرزور تشہیر اخبارات اور ٹی وی چینلز پر کی جارہی ہے مگر کراچی والے سکھ کا سانس تب لیں گے جب نئے وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کراچی کے باشندوں کو درپیش مسائل کے حل کے لیئے مقامی انتظامیہ کو ہنگامی بنیادوں پر تیزرفتار کام کرنے کی ہدایات جاری کرکے ان کی عملی کاروائیوں کی خود نگرانی کریں گے اور نئے وزیراعلیٰ کی آمد کے بعد شہر میں بعض مقامات پر کچھ ترقیاتی کام شروع ہوتے بھی دکھائی دے رہے ہیں لیکن ان کی تعداد بہت کم اور رفتار بہت سست ہے لیکن امید کی جاسکتی ہے کہ آئندہ کراچی کو کچرے سے صاف کرنے اور کراچی کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی مرمت اور استر کاری کے حوالے سے تیزرفتار ی کے ساتھ عملی کاموں کا آغاز کیا جائے گا ویسے کراچی کے کچرے کو 100 دن میں صاف کرنے کا دعوی تو کراچی کے نئے مئیر وسیم اخترنے بھی فاروق ستار کے ہمراہ بڑے ذوروشور سے کیا تھا کچھ دن نمائشی کام بھی ہوتے دکھائی دیئے اس کے بعد لیڈر بھی ٹھنڈے پڑ کرگئے اور کام بھی ،تھوڑا بہت فرق ضرور پڑا ہے لیکن جس بے دلی اور سست رفتاری کے ساتھ کام شروع کیا گیا ہے اس کو دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ 100 دن تو کیا 1000 دن میں بھی کراچی کو کچرے سے مکمل طور پر صاف نہیں کیا جاسکے گا اور ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستار اور کراچی کے مئیر وسیم اختر بس دعوے اور وعدے ہی کرتے رہ جائیں گے کہ ان لوگوں کو اپنی سیاسی سرگرمیوں سے فرصت ملے گی تو یہ کراچی کے لیئے کچھ کریں گے لیکن حسب سابق یہ لوگ وعدوں اور دعووں کی سیاست میں مصروف نظر آتے ہیں لیکن وعدے اور دعوے اور میڈیا کوریج تو کراچی والے ایک طویل عرصہ سے سنتے اور دیکھتے آرہے ہیں اب انہیں نمائشی کاموں کی نہیں عملی کاموں کی ضرورت ہے جو بھی کراچی کے مسائل کے حل کے لیئے عملی طور پر کچھ کرے گا کراچی والے آنے والے کل میں اسی کا ساتھ دیں گے ،اب یہ کراچی میں سیاست کرنے والی سیاسی جماعتوں اور حکومت میں شریک منتخب نمائندوں پر منحصر ہے کہ وہ 2018 کے عام انتخابات میں کراچی والوں کے ووٹ لینا چاہتے ہیں یا نہیں؟کہ لیڈر کسی بھی صوبے کا ہو اگر وہ کراچی کو نظر انداز کرے گا تو اس کا خمیازہ اس کو کسی نہ کسی صورت میں بھگتنا ضرور پڑے گا کہ کراچی حکومتیں بنانے اور حکومتیں گرانے میں ہمیشہ کلیدی کردار ادا کرتا رہا ہے اور کراچی کی اس اہمیت کو ہر سیاستدان کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے کہ وقت اور حالات بدلتے دیر نہیں لگتی اور اب تو کراچی کی سیاست میں مصطفی کمال کی پاک سرزمین پارٹی بھی بہت تیزی کے ساتھ مقبولیت حاصل کررہی ہے کہ لوگ ماضی میں کراچی کی تعمیر و ترقی کے لیئے اس وقت کے مئیر مصطفی کمال کے ناقابل فراموش کاموں کو آج بھی نہیں بھولے یہی وجہ ہے کہ مصطفی کمال کو نئے سیاسی روپ میں آتے ہی پذیرائی ملنی شروع ہوگئی تھی جو کہ مصطفی کمال کے کرپشن سے پاک صاف ستھرے اور بے داغ کردار اور مثالی کارکردگی کی بدولت ممکن ہوا جبکہ عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف پہلے ہی کراچی میں اچھے خاصے ووٹ لے کر کراچی میں گزشتہ 30 سالوں سے زبان اور نسل کی بنیاد پر مہاجر ازم کی سیاست کرنے والوں کے لیئے خطرے کی گھنٹی بجا چکی ہے ۔

کراچی میں سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے والی تمام جماعتوں کو نوشتہ دیوار پڑھ کر کراچی کے عوام کے مسائل کے حل کے لیئے سنجیدہ کوششیں کرنی ہونگی ورنہ 2018 کے انتخابات میں بڑی بڑی نام نہاد سیاسی جماعتوں کا صفایہ ہوجانا کوئی انہونی بات نہیں ہوگی کہ کراچی کے باشندے اب مزید ٹوپی ڈراموں اور سیاسی چالوں میں نہیں آئیں گے اور اس بار کراچی سے ووٹ صرف اسی جماعت کو ملے گا جو خلوص دل کے ساتھ کراچی کے دیرینہ مسائل کو حل کرنے کا قابل عمل پروگرام لے کر انتخابی میدان میں اترے گی ۔
تحریر : فرید اشرف غازی۔کراچ
Fareed Ashraf Ghazi
About the Author: Fareed Ashraf Ghazi Read More Articles by Fareed Ashraf Ghazi : 119 Articles with 124204 views Famous Writer,Poet,Host,Journalist of Karachi.
Author of Several Book on Different Topics.
.. View More