یوں تو ہم ایک خاموش قوم ہیں سوال نہ کرنے
والی قوم ہمیں آج تک معلوم نہ تھا کہ حکمرانوں کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور
وہ کیا کر رہے ہیں ہمارے ہی اربوں روپوں میں سے چند لاکھ ہم پر خرچ کر کے
ہم پر کیسے احسان جتلایا جاتا ہے مگر بہت سی خامیوں کے سے بھرپورمیڈٖیا اور
تحریک انصاف کی بدولت ہمیں یہ معلوم ہوا کہ حکمران دراصل عوام کے خادم ہوا
کر تے ہیں عوام کی خدمت اور فلاح ہی حکمرانوں کی ذمہ داری ہے جسے پورا کرنے
سے وہ قاصر ہیں اب معاملہ بہت دلچسپ ہو چکاکل تک عوام کو اندھیرے میں رکھ
کر بے وقوف بنا یا جا رہا تھا اور اب عوام کو بلیک میل کیا جا تا ہے اور
ڈرایا جاتا ہے ان وردی والوں سے جنہیں عوام ہی پالتی ہے ایوان اقتدار میں
بیٹھے خوف زدہ لوگوں کو یہ سمجھنا چاہیئے کہ اب دور بدل چکا قوم اب آپ سے
سوال کرتی ہے اور بدلے میں آپ کو جواب دینا چاہیئے نہ کہ یہ کہہ کر ڈرانا
چاہئے کہ آپ سے سوالات جمہوریت کیلئے خطرہ ہیں جمہوریت کا لفظ قلمبند کرنے
سے پہلے تک میرا موضوع وہ میثاق جمہوریت تھا جس کہ شب و روز چر چے سننے کو
مل رہے ہیں لیکن اب جب جمہوریت کا ذکر آیا تو اچانک ایک سوال ذہن میں ابھرا
کہ یہ جمہوریت ہے کیا اور یہ کون لوگ ہیں جو دن رات جمہوریت کیلئے اپنی اور
اپنی مرحوم قیادت کی قربانیوں کا ذکر کرتے تھکتے نہیں ان محافظانِ جمہوریت
کے تعاقب میں مجھے 50ء کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے میجر جرنل
سکندر مرزا کو لکھا گیا وہ خط یاد آ گیا جس کی بنیاد پر بھٹو مستقبل کے’
جمہوری‘لیڈر بنے پہلے سکندر مرزا اور پھر ایوب خان کے زیر سایہ سیاسی تربیت
پانے والے بھٹو خود کو جمہوری حکمران کہلوانا پسند کرتے تھے یہ الگ بات ہے
کہ ان کے دور میں دھاندلی کیخلاف آواز اٹھانے والوں کہ ساتھ جو سلوک کیا
گیا وہ شاید کسی آمر کے دور میں بھی نہ کیا گیا ہوشاید پہلی اور آخری بار
تھی جب مبینہ طور پر مظاہرین نے محفوظ جگہ جانتے ہوئے مسجد کا رخ کیا لیکن
مسجد کی قالینیں بھی خون کی نذر ہوگئیں کیونکہ پولیس کو بھٹو صاحب کی خوشی
عزیز تھی اور جببوئی فصل کاٹنے کا وقت آیا تو اسے جمہوریت کیلئے قربانی
قرار دیا گیا ذوالفقار بھٹو نے جب میاں محمد شریف کی فیکٹری کو حکومتی
تحویل میں لے کر ایک نفرت کا بیچ بویا تھا وہ نفرت جس نے ایک کاروباری شخص
کو سیاست بطور کاروبار استعمال کرنے کیلئے مجبور کر دیا انتقام کی بنیاد
میں میدان سیاست میں قدم رکھنے والے میاں محمد نواز شریف کوبھی جمہوری
تربیت ایک آمرکی نرسری میں ہی دی گئی جنرل ضیاء کے چہیتے جنرل جیلانی کے
شاگرد خاص جناب نواز شریف صاحب کو ضیاء الحق سے اتنی محبت تھی کہ ضیاء الحق
کی پہلے برسی پر نواز شریف کا فرمان تھا ’’قوم ضیاء الحق کی خدمات کو کبھی
فراموش نہیں کر سکے گی ان کے مقاصد کی تکمیل ہی میری زندگی کا مقصد ہے‘‘اب
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نواز شریف نے اپنے ادوار میں پیسہ ملک سے باہر
بھیجنے سمیت نت نئے طریقوں سے کرپشن کے جو ریکارڈ قائم کئے وہ جرنل ضیاء کی
زندگی کے مقاصد تھے جنہیں وہ تکمیل تک پہنچا رہے تھے یا جمہوریت کیلئے
قربانی؟اس سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل حیرت انگیز سوال یہ ہے کہ آمریت کی
نرسریوں میں پروان چڑھنے والے سیاستدان دان جن کی سیاسی تربیت ہی جر نیلوں
نے کی ہو وہ جمہوری کیسے ہو سکتے ہیں !یا یہ کہ وہ جمہوریت کیلئے کیوں اور
کیسے قربانی دے سکتے ہیں حتیٰ کہ جمہوری نظامِ حکومت ان کیلئے قابل برداشت
بھی کیسے ہو سکتا ہے؟
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہو تا ہے کہ یہ جمہوریت نہیں تو کیا ہے ؟ایک مدت سے
یکساں سوچ کے حامل چند خاندانوں کی ہم پر حکمرانی نے ہمیں دال روٹی کے چکر
میں پھنسا کر ہماری سوچ پر پہرے لگا دیے تاکہ نہ ہم اس نظام کی ساکھ
جاننیکی کو شش کر سکیں اور نہ ہی ہم اس میں بہتری کی جسا رت کر سکیں لیکن
ہم پر یہ واضح ہو جانا چاہیئے کہ ہمیں ایک عام سا چمکتا موتی دکھا مجبور
کیا جارہا ہے کہ اسے ہیرا تسلیم کر لیا جائے اور ہم چونکہ ہیرے سے ناواقف
ہیں اس لئے انجانے میں اسے ہیرا تسلیم کر بیٹھے ہیں ہم اس نظام کو کیسے
تسلیم کر لیں جہاں ڈکیتو ں سے پیسے وصول کر کے انہیں چھوڑ دیا جائے ‘جس
نظام میں غریب کی بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھنے والا کوئی نہ ہو ‘محا فظ ہی
لٹیر ے بن جائیں ‘جہاں مریض پرٹوکول کی بھینٹ چڑھ کر ایمبولینس میں سسک سسک
کر مر جائیں جہاں انصاف کرنے والے ہی ملزم ہوں ‘ہمیں یہ جاننا پڑے گا کہ
چور کو تحفظ اور ایماندار کو غیر محفوظ بنانے والا نظام کبھی عوام دوست
نہیں ہو سکتا‘چندخاندان ہیں جو اس نظام کوسینچ رہے ہیں اور اس نظام کی بقاء
میں ہی ان کی بقاء پوشیدہ ہے‘ہمیں بتایا جائے جہاں انصاف دولتمند کے دروازے
پر بکتا ہوں ‘قانون جاگیردار وں اور وڈیروں کے گھروں کی لونڈی ہو ‘تعلیم
اور ہنر پر غریب کا حق تسلیم نہ کیا جائے ‘سیاست لٹیروں کی وراثت بن جائے
‘کالے کوٹ والوں کے منہ میں پیسے ٹھونس کرسیاہ کو سفید قرار دیا جاتا ہوں
اور بے شمار خامیوں کا مرکب یہ نظام جمہوی کیسے ہوسکتا ہے اس نظام کو چاہے
جو بھی نام دیا جائے یہ ہمارے لئے ناقابل قبول ہے جہاں تک ہمارے حکمرانوں
کا جمہوری ہونے کا سوال ہے تو مسلسل اسرار پر انہیں آمریت کی نافرمان
اولادیں تو کہا جاسکتا ہے لیکن جمہوری لیڈر ہر گز نہیں ۔
|