لکڑی کی تلوار چنار کہانی
(Muhammad Saghir Qamar, )
شیخ سعدی ایک حکایت میں فرماتے ہیں کہ شیر کی دلیری اور
مار دھاڑ سے تنگ آ کر جنگل کی مخلوق ایک زمانہ شناس پیر کے پاس جمع ہو ئی
اور شکایت کی کہ بادشاہ سلامت کی ’’ شیرانہ قوت ‘‘ سے تمام جانور خائف ہیں
لہٰذا انہیں کچھ نصیحت کی جائے ۔ شیر بادشاہ کو طلب کیاگیا وہ جب پیر کے
دربار میں حاضر ہوا توشکایت سن کر پریشان ہوا ۔ گھٹنے ٹیک کر اپنے لیے حکم
کی استدعا کی چنانچہ پیر مکرم نے اسے ایک نسخہ دیا اور ساتھ حکم بھی جاری
کیا وہ اپنا کروفر ‘نام و نمود ‘ قوت اور غرور پامال کرنے کے لیے دیہات کے
چوراہے میں جا کر لیٹ جائے ۔ انسان ‘ جانور چرند پرند ‘ حشرات الارض تمہارے
اوپر سے گزریں گے لیکن تم نے انہیں چھیڑنا نہیں ۔شیر باادب وہاں سے حکم کی
تعمیل میں چلا گیا ۔ کئی روز تک وہ چوراہے میں لیٹا رہا جس جس کو خبر ہوئی
ایرا غیرا نتھو خیرا جنہیں اپنے گھر والے بھی نہیں جانتے تھے۔ وہ بھی اور
جن کو نان نفقہ اور نسوار تک میسر نہیں تھی وہ بھی شیر پر سے پھلانگنے لگے۔
شیر کی بے بسی انتہا کو پہنچی کھال ادھڑ گئی ‘ جسم زخم زخم ہوا تو ایک روز
اپنی حالت دکھانے پیر خانے پہنچ گیا ۔ پیر صاحب نے اس کا حال دیکھا تو حیرت
سے پوچھا یہ کیا ہوا ؟ عرض کیا حضور ! آپ کے حکم پر چوراہے میں لیٹ گیا تھا
سب نے مل کر میری درگت بنا ڈالی۔ اب تو میرے اندر سکت نہیں میں اپنے آپ کو
گیدڑ بھی کمتر محسوس کر رہا ہوں ۔
پیر صاحب مسکرائے اور پوچھا تم نے اپنے اوپر سے گزرنے والوں کو کچھ کہا
نہیں ؟
عرض کیا حضور ! آپ نے منع کیا تھا کسی کو مارنا یا چیرنا پھاڑنا نہیں ۔
یہ سن کر پیر صاحب بولے ’’ سنو!جنگل کے بادشاہ ! میں نے تمہارا غرور مٹانے
کے لیے ایسا کیاتھا اور یہ نصیحت کی تھی کہ کسی کو نقصان نہیں پہنچانا۔یہ
ہر گز نہیں کہا تھا کہ تم نے چنگھاڑنا اور دھاڑنا بھی نہیں ۔ دیکھو ! تم
لیٹے رہے ‘ تمہارا یہ حال ہوا تم چنگھاڑے ‘ دھاڑتے تو تمہارا یہ حال نہ
ہوتا ۔ تمہارے پاس طاقت ہے یہ خدا کی بڑی نعمت ہے ۔ تمہارے پاس گرجدار آواز
ہے ‘یہ اس سے بڑی نعمت ہے ۔کاش تم نے اس بڑی نعمت کی قدر کی ہوتی تو تمہاری
کھال کا یہ عالم نہ ہوتا ۔ نعمت کا درست استعمال عروج ہوتا ہے لیکن نعمت کی
قدر نہ ہو تو یہ زحمت بن جاتی ہے ۔کائنات کا مالک عذاب نازل کرتا ہے ۔ جو
قوت ترقی اور خوشحالی کا ضامن سمجھی جاتی ہے وہ زوال کا موجب بن جاتی ہے ۔
قوت کے ساتھ فراست اور ذہانت نہ ہو تو یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ کے ہاتھ میں
لکڑی کی تلوار ۔
پاکستان اور بھارت کے تعلقات سات دہائیوں سے اتار چڑھاؤ کا شکار چلے آ رہے
ہیں ۔ اس عرصے میں قریبی ہمسائیوں کی طرح کبھی بھی تعلقات مثالی نہیں رہے۔
اس کی بنیادی وجہ وہ مسائل ہیں جو بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ہونے کے
باوجود بھارت کی ہٹ دھرمی سے حل نہیں ہو رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کے بعد
دونوں ملک چار بڑی جنگوں اور لا تعداد سرحدی جھڑپوں کی زد میں رہے ۔ اگرچہ
اس شدت کو کم کرنے کے لیے پاکستان نے بارہا مخلصانہ کوششیں کیں لیکن بھارتی
حکمرانوں کی انتہا پسندطبیعت کو کبھی بھی صلح راس نہیں آئی ۔ جب بھی
پاکستان اخلاص کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کی بات کرتا ہے بھارت نئے مسائل
کھڑے کر کے اس عمل کو سبوتاژ کر دیتا ہے ۔ حالیہ دنوں میں پاکستان کی طرف
سے بعض ذمہ داروں نے پاکستان میں کھلی مداخلت اور دہشت گردی کے افسوس ناک
واقعات کے پیچھے بھارت کا ہاتھ’’تلاش‘‘ کر لیا ہے ۔ اگرچہ یہ ایک ’’انکشاف
‘‘ ہے لیکن اس کھلی حقیقت کا بالآخر اظہار بھارت کے چہرے سے نقاب الٹنے کے
مترادف ہے ۔اٹھارہ کروڑ عوام کے دلوں میں سکون کی لہر اتری ۔ آخر ہم اپنے
اصل دشمن کو پہچاننے میں کامیاب ہو گئے ۔ جنگ کوئی بھی نہیں چاہتا کیونکہ
یہ مسائل کا حل نہیں ہوتیں ۔ بزدلی ‘ کم ہمتی اور پسپائی بھی مسائل کا حل
ہر گز نہیں ہوتی۔ بھارت ہمیشہ ہمیں آنکھیں دکھا کر مذاکرات کی میز پر لاتا
ہے اور پھر آنکھیں دکھا کر میز کی دوسری طرف سے فارغ کر دیتا ہے ۔کوئی نہیں
کہتا کہ توپ و تفنگ لے کر نکل پڑیں اور بھارت کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں ۔ کس
کا مطالبہ ہے کہ پاکستانی قوم ایٹمی ہتھیار اٹھا لے اور دہلی کو صفحہ ہستی
سے مٹا ڈالے ۔جناب والا ! قوم تو یہ کہتی ہے کہ آپ بھارت جیسے مکار دشمن کی
چالوں کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔ آپ فرماتے ہیں کہ ایٹمی ہتھیار ہمارے لیے
نعمت ہی سہی ۔یہ نعمت ان کے لیے ہوتی ہے جن کو اس کے صحیح استعمال کا سلیقہ
آتا ہو ۔ بندر کے ہاتھ میں بندوق ہوگی تو وہ یہ سب کے لیے خطرہ بن جائے گی
اور کون نہیں جانتا کہ یہ ’’ نعمت ‘‘ بھارت جیسے دیوانے کے ہاتھ میں پہلے
سے ہے ۔ہم عقل مند اور ذمے دار قوم ضرور ہیں لیکن بے حمیت نہیں ۔ کوئی نہیں
چاہتا‘ یہ کسی کا بھی مطالبہ نہیں کہ ہماری حکومت طبل جنگ بجا دے ۔ کس کی
آرزو ہوگی کہ یہاں آتش و آہن کی بارش ہو ۔ نہ بھارتی نہ پاکستانی چاہتے
ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ حکومتی وزراء اور ترجمان ذرائع ابلاغ کو یہ طعنے دیتے
سنے گئے کہ ہمارا میڈیا جنگ کا ماحول بنا رہا ہے ۔
انہیں کون سمجھائے کہ اقتدار کے نشے میں سر مست خدا کے بندو! دشمن کے
مقابلے کے لیے تیار رہنا الگ کام ہے اوردشمن پر ٹوٹ پڑنا بالکل الگ بات ہے
۔ دشمن کا میڈیا ہمارے منہ میں جو بات ڈالے ہم وہی کہہ دیتے ہیں ہمیں کان
سے سن کر اپنے دماغ سے فیصلہ کرنا ہوگا ۔ بھارت سے ہماری دشمنی پرانی ہے ‘
لیکن دوستی کی خواہش بھی نئی نہیں ہے ۔ ساٹھ سے زائد اسلامی ملکوں کو تو ہم
اپنے قریب نہیں لا سکے لیکن یہ ضرور کہتے آئے ہیں کہ بھارت ہمسایہ ہے ۔
دوست اپنی مرضی سے بدلے جا سکتے ہیں لیکن ہمسائے بدلے نہیں جا سکتے ۔
ہمسائے بدلنے کا مطالبہ بھی کسی کا نہیں ۔ اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام
حکمرانوں سے صرف چاہتے کہتے ہیں کہ حکمران اپنا رویہ بدلیں ۔ایران کو بش
اور اوبامہ نہیں کھا سکے تو دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کو بھارت جیسا ملک
کیسے نگل سکتا ہے جس کے حکمرانوں کو بچپن سے یہ پڑھایا جاتا ہے ۔
’’ جو طاقت میں برابر اور بات کرنے میں باجرات ہو اس سے بنا کر رکھو
۔(چانکیہ کو ٹلیہ )
اور یہ بھی کوئی نہیں کہتا کہ پاکستان پہل کرے اور بھارت کو سبق سکھا دے ۔
مطالبہ تو صرف اتنا ہے کہ پاکستان کو برابری کی سطح پر آنا چاہیے ۔
بیس برسوں میں کشمیریوں پر قیامت ٹوٹ گئی ۔جب اس دورکے حکمرانوں نے قومی
موقف کی دھجیاں بکھیر دیں ‘ آپ کو بھی کوئی نہیں کہتا کہ آپ بھارت کے ساتھ
جنگ کریں ۔ قوم صرف یہ کہتی ہے کہ کشمیر پر قومی موقف سے پیچھے نہیں
ہٹنااور بھارت جو خود زوال آشنا ہے ۔ اس سے ڈرنے کے بجائے برابری کی سطح پر
معاملات طے کریں ۔ بھارت ہمیں نہیں کھا سکتا وہ امت مسلمہ کے اندر ایک ایسا
جزیرہ ہے جس کے تمام خارجی راستوں پر اسلامی ملک کھڑے ہیں ۔
اگر ہم چوراہے میں پڑے رہیں گے تو نتھو خیرے ہماری کھال ادھیڑڈالیں گے ۔
قوم تو اتنا کہتی ہے چنگھاڑتے دھاڑتے رہیے ورنہ ہماری کھال پر مرہم رکھنے
والا بھی کوئی نہ ہوگا ۔ |
|