قاضی صاحب۔قریہ دل کے مہمان

تذکرہ کسی اور لمحے کا تھا کہ قاضی صاحب یادآئے ،وہ خوشبو کی طرح مہکنے لگے ۔ ان کی یاد عود بن کر آئی ۔

حصار جسد کی طرح ان کی یادیں چار سال بعد بھی دل میں گداز پیدا کرتی ہیں ، یوں تو قاضی حسین احمد کا اصل حوالہ جماعت اسلامی ہے لیکن یہ محض ایک اتفاق ہے کہ وہ جماعت اسلامی میں شامل ہوئے اور اس کے امیر منتخب ہوگئے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے خاص بندے اﷲصدیوں کے بعد اتارتے ہیں جواقوام کی قیادت کرتے ہیں۔ کسی جماعت کے ساتھ نتھی ہو جانا محض ایک اتفاق ہے اسے کوئی حسن اتفاق کہے یا سوئے اتفاق ۔

قاضی صاحب کی زندگی بھی نقادوں کے نشتروں کی زد میں رہی ۔آخر کار ( End of the day) وہ کامیاب و کامران اپنے رب کے حضور چلے گئے ۔ ایسی کامیابی خال خال لوگو ں کے نصیب میں ہوتی ہے ۔ زمانے نے انہیں کوہ سفید ( سپین غر) کے معرکوں سے کشمیر کی وادیوں تک اور عالم اسلام کے ایوانوں سے اسلام آباد کے ایوان تک بہت قریب سے دیکھا ۔انہیں چلتے پھرتے ، اٹھتے بیٹھتے لوگوں سے ملتے اور معاملات طے کرتے دیکھا ۔ انہیں اﷲ کے حضور جھکتے اور طاغوتی طاقتوں کو للکارتے ۔ان کے سامنے سینہ تانے کھڑے دیکھا ، اپنوں کی تنقید اور غیروں کے ستم سہتے دیکھا، بچوں سے پیار کرتے اور بوڑھوں کو سہارا دیتے دیکھا، امت کے بزدل حکمرانوں کو ہمت دلاتے اور منتشر امت رسول ؐ کو متحد کرتے دیکھا۔ انڈونیشیا سے مراکش تک جہاں جہاں جب جب افتاد پڑتی وہ لپک لپک کر جاتے ۔ عمر کے آخری حصے تک نوجوانوں کی طرح توانائی کے ساتھ بر سرپیکار رہے ۔ بڑھاپا ان کو چھو کر بھی نہیں گیا تھا ۔کسی نے خوب کہا کہ قاضی حسین احمد پاکیزہ اور مسنون سیاست کی ایک مسلسل اور بے نظیر مثال تھے۔
وہ زمانہ طالب علمی میں ہی اسلامی تحریک سے وابستہ ہو گئے تھے، بائیس برس تک جماعت اسلامی کی قیادت کی ۔ وہ جس بات کو درست خیال کرتے تھے اس پر عمل بھی کرے تھے ،انہوں نے اپنے ویژن کے مطابق جماعت اسلامی کو ایک نئے دور میں داخل کرنے کا عزم کیا ۔ یہی وہ زمانہ ہے جب ملک میں طویل ضیائی مارشل لاء کے بعد مایوسیوں کے گرداب میں گھرے عوام کو ایک نئے عزم ، حوصلے اور پامردی کی ضرورت تھی ۔قاضی حسین احمد کی صورت میں ایک مسیحا جلوہ گر ہوا ۔آپ نے خیبر سے کراچی تک ’’ کاررواں دعوت و محبت‘‘ کا آغاز کیا ۔ شہر شہر ، گاؤں گاؤں جا کر قوم کو ایک ولولہ تازہ عطا کیا ۔یہی وہ دور تھاجب یہ خطہ سوویت یونین کے نیپام بموں سے جل رہا تھا اور دوسری جانب یورپ کے اندر بوسنیا ہرزیگونیا میں ہزاروں مسلمان بھونے جا رہے تھے۔ قاضی حسین احمد ایک بے چین اور مضطرب روح لے کر پیدا ہوئے تھے۔ چو مکھی جنگ لڑنا انہی کا خاصا تھا۔ ایک طرف انہوں نے جماعت اسلامی کی دعوت کو عام کرنے کی جدوجہد شروع کی اور ’’ گوربا چوف‘‘ کا نام پایا ۔دوسری طرف ملک میں جاری برسوں کی بے یقینی اور مایوسی کا سبب بننے والے مافیا کو للکار کر ’’ ظالمو قاضی آ رہا ہے ‘‘ کے نعرے کو محاورہ بنا دیا ۔جماعت اسلامی کے اندر کچھ اضطرابی لہریں محسوس کی گئیں اور جماعت مخالف حلقوں نے ان معمولی لہروں کو طوفان میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ راتب خور دانش وروں کے قلم سے زہر اگلنے لگا۔اس زہر کی ہلاکت خیزی یہاں تک پہنچی کہ جماعت کے چند پرانے بزرگ قاضی صاحب کا ساتھ چھوڑ گئے ۔ قاضی صاحب نے ۱۹۹۳ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی کوایک نئے تجربے سے گزارا اور قومی سطح پر مختلف افراد اور گروپوں کو جمع کرکے ’’ اسلامک فرنٹ ‘‘ کے نام سے الیکشن میں حصہ لیا۔ بظاہر اسلامک فرنٹ کی پبلسٹی اور ہلہ گلہ اتنا زیادہ تھا کہ اس کے لیے ’’ دوسری بڑی پارلیمانی جماعت‘‘ کا لفظ ذرائع ابلاغ میں استعمال کیاگیا ۔ انتخابی مہم زوروں پر تھی ۔ اسی عرصے میں ریاست جموں وکشمیر میں تحریک آزادی بھی پورے جوبن پر تھی۔ ہزاروں نوجوان سیز فائر لائن کراس کر کے آزاد کشمیر آ گئے تھے، جب کہ ریاست کے کوچہ و بازار آزادی کے نعروں سے گونج رہے تھے۔ قاضی حسین احمد اس تحریک کے روح رواں سرپرست اور رہنما کی حیثیت سے کردار ادا کر رہے تھے ۔ انتخابی مہم کے ہنگامہ خیز دنوں میں قاضی صاحب کشمیر سے متعلق ایک میٹنگ میں شرکت کے لیے اسلام آباد آئے تھے تو بہت سارے کشمیری رہنما ان سے گلے شکوے کرنے لگے۔کشمیریوں کی رائے میں قاضی صاحب کو اس مرحلے پر تحریک کشمیر پر توجہ دینی چاہیے تھی اور ان کے خیال میں یہ الیکشن لڑنے کا وقت نہیں تھا۔ محترم قاضی صاحب نے بہت خوب صورتی کے ساتھ انہیں دلیل سے قائل کر لیا ۔ ایک صاحب نے پوچھا ’’قاضی صاحب اسلامک فرنٹ کتنی سیٹیں حاصل کرے گا ‘‘خاصی دیر تک مسکراتے رہے اور حسب عادت اپنی بات کا آغاز ’’ ویسے جی ‘‘ کیا ۔
’’ویسے جی ہمارا مقصد مختلف منتشر گروپوں اور با اثر لوگوں کو متحد کرنا ہے ، جسد واحد بنانا ہے تا کہ اختلافات کی خلیج کم سے کم سطح تک پہنچ جائے ۔ ‘‘
’’ قاضی صاحب آپ کتنی نشستیں لے لیں گے؟ ‘‘ پھر سوال کیاگیا ۔
قاضی صاحب مسکرائے اور کہا ۔
’’ ویسے جی انتخابات جیتنے کے لیے لڑے جاتے ہیں اور جیتنے کے لیے ماحول بنایاجاتا ہے ، قیادت کا کام ہے کہ وہ حوصلے بڑھائے ، امید زندہ رکھے۔ قبل از وقت تو کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن ہم Motivationکر رہے ہیں ۔ آپ دعا کریں ۔ ‘‘ حکمت کے ساتھ انہوں نے بتا دیا تھا کہ ’’ زیادہ توقع نہ رکھنا ‘‘۔ انتخابات ہوئے اور’’ اسلامک فرنٹ‘‘ چھ نشستوں ( جو کہ اکثر جماعت اسلامی جیت لیا کرتی تھی) کے علاوہ سب لوگ ہار گئے ، یہاں تک کہ خود قاضی صاحب بھی شکست سے دو چار ہوئے ۔ مایوسی ، بے چینی اور اضطراب نے جماعت کے عدم یکسو لوگوں کو گھیر لیا ۔ قاضی صاحب شدید تنقید کی زد میں آ گئے اور انہیں امارت سے استعفیٰ دینا پڑا ۔ دوبارہ انتخاب امیر کا مرحلہ آیا ۔ مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن سابق ممبر قومی اسمبلی راجہ محمد ظہیر خان ( مرحوم) جو قاضی صاحب کی پالیسیوں سے اتفاق نہیں رکھتے تھے اور مجلس شوریٰ کے اکثر اجلاسوں میں اپنے اختلاف کا اظہار کرتے تھے ۔ قاضی صاحب کے بڑے ’’ناقدوں‘‘ میں شمار ہوتے تھے ۔ انہی دنوں غریب خانے پر تشریف لائے ۔ رات گئے تک جماعت اسلامی کی پالیسیوں اور اختلافات کی باتیں ہوتی رہیں ۔ الیکشن سے پہلے اور بعد کراچی سے شائع ہونے والے ایک ہفت روزہ میگزین میں الزامات اور بے سروپا مضامین کا سلسلہ جاری تھا۔ میں نے سونے سے پہلے وہ میگزین راجہ صاحب کے کمرے میں رکھ دیے ۔راجہ صاحب رات بھرجاگتے رہے اور پڑھتے رہے ۔اگلے روز انہوں نے صبح صبح منصورہ جانے کا فیصلہ کرلیا ۔ کہنے لگے ۔ اس ہفت روزے میں جو جھوٹ لکھا ہے اس کے بعد ’’ جماعتی غیرت ‘‘ کا تقاضا ہے کہ قاضی صاحب پھر سے امارت کے منصب پر فائز ہوں ۔ باہر سے تیر چلانے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ تیرے ہمارے سینوں کو چیر کر ہی ہمارے امیر تک پہنچ سکتے ہیں۔ ‘‘ اسی جماعتی غیرت کا نتیجہ تھا کہ قاضی صاحب۸۷فیصد ووٹ لے کر پھر امیر منتخب ہو گئے۔

۱۹۹۳ء کے انتخابات کی مایوسی اور شکست کو قاضی صاحب نے فتح میں بدلنے کا فیصلہ کیا ۔ انہوں نے نئے عزم سے بنیاد سحر رکھنے کا اعلان کیا ۔ اگلے انتخابات کا انہوں نے بائیکاٹ کر دیا اور پھر جنرل مشرف نے اقتدار پر قبضہ کرلیا ۔ قاضی صاحب کی خطر پسند طبیعت صیاد کی تلاش میں رہی وہ ایک طرف مظلوموں کی جنگ لڑتے رہے ۔ جیلوں اور نظر بندیوں سے نبرد آزما رہے اور دوسری جانب اتحاد ملت کے داعی کی حیثیت سے مختلف مسالک کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔ ۱۹۹۳ء کی شکست کو انہوں نے ۲۰۰۲ء کے انتخابات میں فتح میں بدل دیا ۔ جماعت اسلامی کی پوری تاریخ میں اتنی بڑی تعداد میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ارکان نہیں گئے تھے جو متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے اسمبلی میں پہنچے ۔قاضی صاحب کی سو چ سے اختلاف رکھنے والے بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ان کی نیک نیتی ، خلوص ، عزم اور جرات بے مثل تھی ۔ وہ ایک کامیاب زندگی گزار کر اﷲ کے حضور حاضر ہوئے ہیں ۔اﷲ کی اطاعت او رسول ؐ اﷲ سے ان کی محبت نے انہیں ساری زندگی بے چین رکھا ۔ کشمیر کے لالہ زاروں سے افغانستان کے کہساروں تک ،کنار نیل تا آبنائے باسفورس۔ جبل الطارق سے آبنائے ملاکاتک وہ مسلم نوجوانوں اور اسلامی تحریکوں کے ہردلعزیز قائد تھے ۔ وہ بے قرار اور مضطرب روح تھے۔ امت اور اتحاد امت کے لیے بے چین رہتے تھے۔ یہی بے چینی انہیں تین بار دل کے آپریشن کی طرف لے گئی لیکن وہ ہسپتال سے نکلتے ہی پھر چل پڑتے یہاں تک کہ اﷲ نے ان کو اپنے پاس بلا لیا وہ اﷲ سے اور اﷲ ان سے راضی ہوا۔انہیں ہم سے رخصت ہوئے اب چار برس بیت گئے جب جب ان کا تذکرہ آتا ہے تو ان کے کردار عزم اور جرات مندی کی خوشبوئیں عود بن کر اٹھتی اور مشام جاں معطر کر دیتی ہیں ۔ کیسا لمحہ ہوا کیسے حالات ہوں وہ تادم آخریں قریہ دل کے مہمان رہیں گے۔
Muhammad Saghir Qamar
About the Author: Muhammad Saghir Qamar Read More Articles by Muhammad Saghir Qamar: 51 Articles with 34051 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.