بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلام عَلَی
النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِوَعَلیٰ آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔
سچائی ایسی صفت ہے جس کی اہمیت ہر مذہب اور ہر دور میں یکساں طورپر تسلیم
کی گئی ہے۔ اس کے بغیر انسانیت مکمل نہیں ہوتی۔ اسی لئے شریعت اسلامیہ میں
اس کی طرف خاص توجہ دلائی گئی ہے، اور بار بار سچ بولنے کی تاکید کی گئی ہے،
چنانچہ محسن انسانیت نبی اکرم ﷺ نے ہمیشہ سچ بولنے کی تعلیم دی اور جھوٹ
بولنے سے منع فرمایا۔ آپ ﷺ ہمیشہ سچ بولتے تھے، حتی کہ آپ ﷺکو نبی ورسول نہ
ماننے والوں نے بھی آپﷺ کی سچائی اور امانت داری سے متاثر ہوکر آپ کو صادق
اور امین جیسے القاب سے نوازا تھا۔ اسلام کا سب سے بڑا دشمن ابوجہل بھی
تسلیم کرتا تھا کہ محمد (ﷺ) کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔
تمام انبیاء کرام نے بھی ہمیشہ سچ بولنے کی تاکید فرمائی۔ حضرت ابراہم علیہ
السلام کے متعلق فرمان الٰہی ہے: ’’اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو، بے شک
وہ نہایت سچے پیغمبر تھے‘‘ (سورۃ مریم ۴۱) ،حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے
میں قرآن کریم (سورۃ یوسف ۵۱) میں ہے: ’’(اصل قصہ یہ ہے کہ) میں (حضرت
زلیخا) نے اس کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا اور وہ (حضرت یوسف علیہ السلام)
بے شک سچا ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں بھی پوری انسانیت کو متعدد مرتبہ سچ بولنے
کی تعلیم دی ہے چنانچہ ارشاد ہے: اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرو اور سچے لوگوں
کا ساتھ دو۔ (سورۃ التوبۃ ۱۱۹) اسی طرح فرمان الٰہی ہے: (خدا فرمائے گا کہ)
آج وہ دن ہے کہ سچ بولنے والوں کو ان کی سچائی ہی فائدہ دے گی۔ (سورۃ
المائدہ ۱۱۹) اﷲ تعالیٰ جھوٹ بولنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرماتا
ہے: اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کو راہ نہیں دکھاتے جو اسراف کرنے والے ہیں اور
جھوٹے ہیں۔ (سورۃ المؤمن ۲۸)
چونکہ جھوٹ کے نتائج سخت مہلک اور خطرناک ہیں، اور جھوٹ بولنے والے کے ساتھ
ساتھ دوسرے بھی اس کے شر سے محفوظ نہیں رہتے، اسی لئے آپ ﷺ نے جھوٹ بولنے
والوں کے لئے سخت وعیدیں بیان فرمائیں:
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:
سچائی کو لازم پکڑو کیونکہ سچ نیکی کی راہ دکھاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف
لے جاتی ہے، اور آدمی یکساں طور پر سچ کہتا ہے اور سچائی کی کوشش میں رہتا
ہے یہاں تک کہ اﷲ کی نظر میں اس کا نام سچوں میں لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ
سے بچے رہو اس لئے کہ جھوٹ گناہ اور فجور ہے اور فجور دوزخ کی راہ بتاتا ہے،
اور آدمی مسلسل جھوٹ بولتا ہے اور اسی کی جستجو میں رہتا ہے یہاں تک کہ اﷲ
کے نزدیک اس کا شمار جھوٹوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔ (بخاری ومسلم) سچ بولنے
کی کیسی عظیم اہمیت ہے کہ انسان اپنی سچائی کے ذریعہ جنت میں داخل ہوسکتا
ہے، جو ہر انسان کی پہلی اور آخری خواہش ہے، جبکہ جھوٹ بولنے کی وجہ سے
انسان کو جہنم کی دہکتی ہوئی آگ میں جلنا ہوگا، اگر موت سے قبل حقیقی توبہ
نہیں کی۔ ظاہر ہے کہ ہر انسان چاہتا ہے کہ وہ دوزخ سے بچ جائے۔ قیامت تک
آنے والے انس وجن کے نبی اکرم ﷺ نے جنت کے حصول اور جہنم سے نجات کے لئے
بتایا کہ اﷲ تعالیٰ کے دیگر احکام کو بجالاکر سچ بولنے کو اپنے اوپر لازم
کرلیں۔
حضرت حکیم بن حزام رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:فروخت
کرنے والے اور خریدار کو اختیار ہے جب تک وہ مجلس سے جدا نہ ہوں۔اگر دونوں
نے حقیقت کو نہ چھپایا اور سچ بولا تو ان کی خریدوفروخت میں برکت ڈال دی
جائے گی اور اگر حقیقت کو چھپایا اور جھوٹ بولا تو بیع کی برکت ختم کردی
جائے گی۔ (بخاری ومسلم) اِن دنوں ہم نے تجارت کو خالص دنیاداری کا کام سمجھ
لیا ہے، اس لئے ہمارا یہ ذہن بن گیا ہے کہ جھوٹ اور دھوکہ دھڑی کے بغیر اب
تجارت کامیاب نہیں ہوسکتی۔ حالانکہ اگر تجارت اﷲ کے خوف کے ساتھ کی جائے
اور کسی کو دھوکہ دینے کی غرض سے نہیں بلکہ سچائی اور امانت داری کو اپنا
معمول بناکر کی جائے اور ناجائز کاموں سے پرہیز کیا جائے تو یہی تجارت
عبادت بنے گی اور حلال تجارت کے ذریعہ حاصل شدہ رقم کو اپنے اور گھر والوں
کے اوپر خرچ کرنے پر اجر عظیم ملے گااور اس کی وجہ سے ہمیں آخرت میں
کامیابی حاصل ہوگی ان شاء اﷲ، جیساکہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو
تاجر سچا اور امانت دار ہو وہ قیامت کے دن انبیاء، صدیقین اور شہداء کے
ساتھ ہوگا۔ یہ حدیث مختلف کتب حدیث میں موجود ہے، اس کی سند پر بعض علماء
نے کلام کیا ہے ، لیکن یہ حدیث اچھے معنی اور مفہوم اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔
لہٰذا ہمیں کاروبار میں بھی کبھی جھوٹ نہیں بولنا چاہئے۔
آخری حدیث میں بیان کیا گیا کہ خریدو فروخت کرنے والوں کو مجلس سے جدا ہونے
سے قبل اپنے فیصلہ سے رجوع کرنے یعنی خریدو فروخت کو منسوخ کرنے کا حق رہتا
ہے۔ لیکن مجلس سے جدا ہونے کے بعد خریدو فروخت مکمل ہوجاتی ہے، اب بیچنے
والے کو یہ اختیار نہیں کہ وہ یہ کہے کہ میں اس چیز کو نہیں بیچنا چاہتا یا
خریدار کہے کہ میں اس چیز کو خریدنا نہیں چاہتا۔ ہاں دونوں اپنی رضامندی سے
اس ڈیل کو ختم کرسکتے ہیں۔اگر بیچنے والا چیز کے قابل ذکر عیوب کو چھپاکر
کوئی چیز فروخت کرے یا خریدنے والا دھوکہ دینے کا ارادہ رکھتا ہو تو خرید
وفروخت میں کیسے برکت ہوسکتی ہے؟ اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم خرید وفروخت میں
بھی جھوٹ کا سہارا نہ لیں بلکہ ہمیشہ سچ ہی بولیں۔ ہمارے اسلاف نے ہمیشہ سچ
بول کر تجارت کی، اس لئے ہر میدان میں کامیاب ہوئے۔ شہر مکہ مکرمہ کی مشہور
تاجرہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا نے سب سے افضل بشر حضور اکرم ﷺکی تجارت میں
دیانت داری کو دیکھ کر ہی تو نکاح کا پیغام بھیجا تھا۔
حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ مجھے حضور اکرم ﷺ کی یہ باتیں
یاد ہیں: جو بات شک میں مبتلا کرے اس کو چھوڑ دو اور اس کو اختیار کر جو شک
میں نہ ڈالے۔ سچائی اطمینان ہے اور جھوٹ شک ہے۔ (ترمذی) یعنی جس کے حلال
ہونے میں شک ہو اس کو چھوڑ دو اور اس کو اختیار کرو جس میں کوئی شک وشبہ نہ
ہو۔ اور ہمیں جھوٹ کا سہارا نہیں لینا چاہئے، صرف اور صرف سچ ہی بولنا
چاہئے۔ ایک جھوٹ کو صحیح ثابت کرنے کے لئے متعدد جھوٹ بولنے پڑتے ہیں،
لہٰذا ہم صرف سچ بات ہی کہیں۔
سچ بولنے کا بہترین بدلہ: سچ بولنے پر بہترین بدلہ ملنے کے متعدد واقعات
کتابوں میں موجود ہیں۔ قرآن وحدیث میں مذکور ایک واقعہ پیش ہے۔ ۹ ہجری میں
واقع ہونے والے غزوۂ تبوک میں آپ ﷺ کے ساتھ شامل نہ ہونے ولے تین حضرات
حضرت کعب بن مالک، حضرت مرارہ بن ربیع اور حضرت ہلال بن امیہ رضی اﷲ عنہم،
جب آپ نے ان سے غیرحاضری کے متعلق سوال فرمایا تو انہوں نے جھوٹ سے گریز
کرتے ہوئے تمام صورت حال سچ سچ عرض کردی، اﷲ تعالیٰ نے ان پر یہ عنایت
فرمائی کہ ان کی توبہ کو قبول فرمایا۔ اور آپ ﷺ نے حضرت کعب رضی اﷲ عنہ کو
اس عظیم نعمت کی بشارت دیتے ہوئے فرمایا: تمہیں اس دن کی خوشخبری جو کہ
تمہاری والدہ کے جنم دینے کے دن سے لے کر آج تک کے تمام دنوں سے تمہارے لئے
بہترین ہے۔ لیکن جن لوگوں نے آپ ﷺکے سامنے جھوٹ بولا، اﷲ تعالیٰ نے ان کے
متعلق سورۃ التوبہ میں آیات (۹۴۔۹۶) نازل فرمائیں جوکہ پانچ دنیوی واخروی
سزاؤں سے متعلق ہیں:
۱) ان کے ساتھ قطع تعلق کا حکم: (فاعرضوا عنہم) ان سے اعراض کرو۔ ۲) ان پر
ناپاک ہونے کا حکم: (انہم رجسٌ) بلاشبہ وہ ناپاک ہیں۔ حافظ ابن کثیر ؒ
فرماتے ہیں:یعنی ان کے باطن اور اعتقادات خبیث ہیں۔ ۳) ان کا ٹھکانا جہنم
ہونا: (وماواہم جہنم) ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔ علامہ قرطبی ؒ اس کی تفسیر میں
تحریر کرتے ہیں : یعنی ان کی منزل اور جگہ (جہنم ہے)۔ ۴) اﷲ تعالیٰ کا اُن
سے راضی نہ ہونا: (فان ترضوا عنہم فان اﷲ لا یرضی عن القوم الفاسقین) سو
اگر تم ان سے راضی بھی ہوگئے تو یقینا اﷲ فاسق لوگوں سے راضی نہیں ہوتے۔ ۵)
ان کو فاسق قرار دینا: علماء فرماتے ہیں کہ ضمیر کے بجائے فاسقین کا لفظ
استعمال کیا گیا تاکہ ان کے بارے میں یہ نشاندہی کی جاسکے کہ وہ اطاعت (اِلٰہیہ)
سے نکل چکے ہیں اور یہی بات ان پر نازل ہونے والے عذابوں کا سبب بنی۔
حضرت کعب بن مالک رضی اﷲ عنہ نے سچ بولنے پر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہونے
والی نوازشات کا تقابل جھوٹ بولنے والوں پر اﷲ کی ناراضگی سے کرتے ہوئے
بیان فرمایا: اﷲ کی قسم! اﷲ کی توفیق سے مشرف با اسلام ہونے کے بعد میری
نظر میں آپ ﷺ کے روبرو اس سچ بولنے سے بڑھ کر مجھ پر کوئی احسان نہیں ہوا
کہ میں نے جھوٹ نہیں بولا اور ایسے ہلاک نہیں ہوا جیسا کہ جھوٹ بولنے والے
ہلاک ہوگئے تھے، بذریعہ وحی اس قدر شدید وعید فرمائی کہ اتنی سخت کسی دوسرے
کے لئے نہیں فرمائی گئی۔حافظ بن حجرؒ فرماتے ہیں کہ اس میں سچ کا فائدہ ہے
اور جھوٹ کے انجام نحوست کی وضاحت ہے۔ سچ بولنے پر تینوں حضرات کو اﷲ کی
جانب سے توبہ کی توفیق ملی اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کامیاب ہوئے۔ جبکہ
دیگر منافقین نے جھوٹ کا سہارا لیا، حالانکہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی کو وحی
کے ذریعہ اُن کے جھوٹے ہونے کے متعلق اطلاع فرمادی تھی، اس لئے ہمیشہ کے
لئے جہنم میں ڈالے جائیں گے۔
جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہے، اگر ہم نے کبھی جھوٹ بولا ہے تو اﷲ تعالیٰ سے
پہلی فرصت میں معافی مانگیں کیونکہ کبیرہ گناہ ہونے کی وجہ سے اس کے لئے
مستقل توبہ ضروری ہے۔ بعض مواقع پر جھوٹ بولنے کی اجازت دی گئی ہے مثلاً
میاں بیوی میں شدید اختلاف ہوگیا ہے، اور جھوٹ بولنے کی وجہ سے صلح ہوسکتی
ہے تو بدرجہ مجبوری اس کی اجازت ہے، لیکن جھوٹ بولنے کی عادت بنانا یا کسی
شخص کو دھوکہ دینے کے لئے جھوٹ بولنا بہت بڑا گناہ ہے اور اس کے معاشرہ میں
بڑے نقصانات ہیں۔ اے اﷲ ہمیں سچ بولنے کی توفیق عطا فرمااور اس کے ثمرات سے
مالا مال فرما، جھوٹ اور اس کے زہریلے اثرات سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہمیں
محفوظ فرما، آمین، ثم آمین۔ |