پردہ کتاب اﷲ اور سنت رسول ﷺ کی روشنی میں
(Rizwan Ullah Peshawari, Peshawar)
اسلام امن پسند مذہب ہے اور مکمل ضابطہ حیات ہے ،جس کے
ذریعہ انسان بشریت کے تقاضوں کو پورا کر سکتا ہے ، تاریکیوں کو اجالوں میں
بدل سکتا ہے ۔ اسلام اور اسلامی نظام ِ حیات‘ ایک پاک وصاف معاشرے کی تعمیر
اور انسانی اخلاق وعادات کی تہذیب کرتا ہے ۔ اسلام نے جہالت کے رسم ورواج
اور اخلاق وعادات کو جو ہرقسم کے فتنہ وفساد سے لبریز تھے ‘ یکسر بدل کر
ایک مہذب معاشرے اور تہذیب کی داغ بیل ڈالی‘ جس سے عام انسان کی زندگی میں
امن ‘ چین اور سکون ہی سکون درآیا۔
اسلام اپنے ماننے والوں کی تہذیب اور پرامن معاشرے کے قیام کے لئے جو پہلی
تدبیر اختیار کرتا ہے وہ ہے : انسانی جذبات کو ہرقسم کے ہیجان سے بچانا‘ وہ
مرد اور عورت کے اندر پائے جانے والے فطری میلانات کو اپنی جگہ باقی رکھتے
ہوئے انہیں فطری انداز کے مطابق محفوظ اور تعمیری انداز دیتاہے،
اسلام یہ چاہتا ہے کہ عورت کا تمام ترحسن وجمال‘ اس کی تمام زیب وزینت اور
آرائش وسنگھار میں اس کے ساتھ صرف اس کا شوہر شریک ہو‘کوئی دوسرا شریک نہ
ہو‘ عورت اپنی آرائش اور جمال صرف اپنے مرد کے لئے کرے ۔اگر دیکھا جائے تو
عورت درحقیقت تمام تر سنگھار وآرائش مرد کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور اس کی
خصوصی توجہ کے حصول کے لئے ہی کرتی ہے ‘ اسلام ایسا دین ہے جو انسان کی
زندگی کے ایک ایک لمحے کی تہذیب کرتا ہے ‘ ان کے لئے پاکیزہ طریقہ وضع کرتا
ہے ‘ تاکہ کوئی مسلمان اور اہل ایمان کسی طریقے سے کسی برائی میں مبتلا نہ
ہو اور ان کے میلانات جائز طریقوں تک محدود رہیں‘ اﷲ ہی ہے جو تمام احتیاطی
تدابیر اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے ‘ جس سے انسانی فطرت کی نفسیاتی تعلیم
وتربیت ہوتی ہے ۔ عورت کے حسن وجمال کو اس کی زیب وزینت کو اﷲ تعالیٰ نے اس
کے شوہر کی دل بستگی اور توجہ کے لئے محدود کردیا ہے ‘ تاکہ وہ اپنی ساری
توجہ اپنی بیوی کی طرف مرکوز رکھے اور اس کی عورت غیروں کی ہوس ناک نظروں
سے محفوظ ومامون رہے ۔
اﷲ تعالیٰ نے شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے ۔ یہ ان کی
قربت اور ہم نفسی کی علامت ہے ‘ اسلام جب پردے کی تاکید کرتا ہے تو اس سے
مراد ایک نہایت پاک وصاف سوسائٹی کا قیام ہے۔
اگر ہم اپنے چاروں اطراف نظر ڈالیں تو بخوبی اندازا کر سکتے ہیں کہ احکام
الٰہی سے اعراض اور روگردانی کے کیسے کیسے بھیانک اور عبرت ناک مناظر سامنے
آرہے ہیں۔
مغربی دنیا خصوصاً یورپ اور امریکی معاشرے میں جہاں کسی قسم کے پردے اور
حجاب کا گزر نہیں‘ جہاں ہرطرف لطف اندوزی‘ ہیجان خیزی ‘ شہوت پرستی اور
گوشت پوست کی لذت اندوزی کا سامان ہورہا ہے ‘ ایسے ایسے اقدامات اٹھائے
جارہے ہیں جن سے ہر وقت جنسی ہیجان پیدا کیا جارہا ہے ‘ جس کے نتیجے میں
جنسی پیاس بڑھتی جارہی ہے جو کسی طرح بجھتی ہی نہیں‘ انسان کی خوابیدہ
حیوانیت کو جگادیا گیا ہے اور انسان بے قید شہوت رانی کا شکار ہوگیا ہے ‘
اس کے اعصاب اور نفسیات کے اندر ہیجان خیز امراض پیدا ہورہے ہیں۔
مرد اور عورت میں ایک دوسرے کے لئے کشش ایک فطری امر ہے اور یہ انسان میں
تخلیقی طور پر ودیعت کی گئی ہے ‘ کیونکہ انسان کو اس زمین پر اپنے منصبِ
خلافت کی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہے ‘ اس زندگی کا بڑا اور اہم حصہ زمین
پر زندگی کے تسلسل کو قائم رکھنا ہے ‘ اس لئے یہ کشش دائمی ہے ۔ یہ کشش ہی
انسان کو ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے ‘ عورت اور مرد کے ملاپ سے ایک خاندان
ایک گھر انہ وجود پاتا ہے اور دونوں ایک دوسرے کے ذریعہ فطری تسکین پاتے
ہیں اور افزائش نسل کے ذریعے ایک خاندان کی تشکیل کا ذریعہ بنتے ہیں اور
اگر کہیں دونوں فریقوں کے درمیان نا آسودگی رہے ‘ اپنے فطری تقاضوں کی
تسکین نہ کر سکیں تو پھر بے چینی اور بے قراری جنم لیتی ہے جو اعصاب پر اثر
انداز ہوتی ہے اور انسان کو برائی کی طرف ابھارتی ہے ۔
امریکہ اور یورپ کا معاشرہ ہمارے سامنے ہے ‘ جہاں ہر طرف ہرقسم کی جنسی
آزادی عام ہے ‘ مرد عورتوں سے مطمئن نہیں‘ عورتیں مردوں سے نا آسودہ ہیں‘
جنسی تسکین وآسودگی کے لئے تمام غیر فطری طریقے استعمال کرنے کے باوجود نا
آسودگی سے دو چار ہیں‘ مرد مردوں سے ‘ عورت عورتوں سے اور حیوانات تک سے
اختلاط وملاپ کے باوجود ایک ہیبت ناک نا آسودگی کا شکار ہیں۔ وہاں کھلے عام
ہرقسم کی بے پردگی‘ فحاشی‘ عریانی اور تمام غیر فطری طریقوں کے باوجود جوبے
چینی اور بے کلی‘ عام پائی جاتی ہے ‘ اسلام اپنے ماننے والوں کو ان تمام
خرابیوں سے بچاتا ہے اور بچائے رکھتا ہے۔
ایسے تمام ممالک جہاں ہرقسم کا جسمانی ملاپ عریانی اور جنسی بے راہ روی عام
ہے ‘ ہرقسم کی قید وبند سے وہ آزادہیں‘ان کے نزدیک تمام ممکن شکلیں جائز
ہیں‘ لیکن اس کے باوجود ان کی جنسی پیاس جنون کی حد تک بڑھ گئی ہے اوران کی
تسکین کا نام ونشان تک مٹ گیا ہے ‘ جس کے باعث وہاں جنسی اور نفسیاتی
بیماریوں کا ایک طوفان امڈ آیا ہے ‘ ایسے تمام مسائل سے وہ معاشرے دوچار
ہیں جو جنسی محرومی‘ نا آسودگی سے پیدا ہوتے ہیں‘ اس کے باوجود وہاں جنسی
تعلقات اور ملاپ مویشیوں اورحیوانات کی طرح راستوں پر عام دیکھا جاسکتا ہے
‘ جب کہ اسلام جو انسان کے ہرجذبے کی نا صرف تطہیر کرتا ہے ‘ بلکہ انہیں
پاک صاف کرتا ہے ‘ انہیں تہذیب وشائستگی سے ہم کنار کرتا ہے اور اپنے ماننے
والوں کو ایک آسودہ اور پر سکون زندگی بسر کرنے میں بھی مدد فراہم کرتا ہے
۔عورتوں کا بے پردہ ہونا‘ بے حجاب ہونا ‘ فیشن کو اپنانا‘ بن سنور کر
غیرمردوں کے سامنے آنا‘ انہیں دعوت نظارہ دینا‘ بے پردگی اور بے حجابی کے
نام پر شعائر اسلامی کو پامال کرنا‘ یہ سب اسلامی نہیں ‘ مغربی اور غیر
اسلامی معاشرت اور روایات ہیں جن کے بھیانک نتائج ہمارے سامنے ہیں۔
اسلام نے اسلامی معاشرے کا ذوق ہی بدل دیا ہے ‘ لوگوں کے جمالی احساسات کو
بدل دیا ہے ‘ اسلام کے ماننے والوں کے لئے حسن وجمال کی تمام حیوانی ادائیں
مطلوب ومستحسن نہیں رہیں‘ بلکہ اسلام حسن وجمال کا ایک مہذب رنگ ڈھنگ اور
معیار قائم کرتا ہے ‘ جس میں ہرطرح کی عریانی سے بچاجاتا ہے اور سنجیدگی‘
وقار اور پاکیزہ جمال کا ذوق پیدا کرتا ہے جو انسان کے اور ایک اہل ایمان
کے لائق ہوتا ہے ۔اسلام ایک سچی مومنہ عورت کی تربیت اس انداز سے کرتاہے کہ
وہ نا صرف اپنے حسن وجمال کا درست طریقے سے استعمال کرسکے اور اپنی تمام
معاشی‘ معاشرتی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ اپنی فطری جبلی ضرورتوں اور تقاضوں کو
بھی فطرت کے عین مطابق پورا کرسکے ۔
آج دور جدید کی بظاہر ترقی یافتہ خواتین دو مردوں کے شانہ بشانہ ہم قدم ہو
کر چلنا پسند کرتی ہیں اور بے حجابی وبے پردگی کی علم بردار ہیں۔ اگر وہ
اپنی دیانت داری سے خود اپنا جائزہ لیں اور اپنی نگاہ میں ایک دقیانوسی با
پردہ‘ باشرع خاتون کا جائزہ لیں تو انہیں بخوبی اندازا ہو جائے گا کہ
معاشرے میں مردوں کے شانہ بشانہ چلنے میں انہیں کیسی کیسی ٹھوکریں کھانا
پڑتی ہیں‘ کیسی کیسی مشکلات سے دو چار ہونا پڑتا ہے اور دن بھر کی بک بک‘
جھک جھک کے بعد رات اپنے شوہر کی قربت میں بسر کرتی ہیں تو کیا وہ دونوں
جسمانی وروحانی طور پر جنسی و نفسانی طور پر اس قدر آسودہ ومطمئن ہوپاتے
ہیں جس قدرایک پردہ نشین وخانہ دار خاتون اپنے خلوص سے آسودگی اور طمانینت
حاصل کرتی ہے ؟ اس کی یہ آسودگی‘ یہ طمانینت واطمینان اسلامی شعائر پر عمل
پیراہونے کے باعث ہوتی ہے ‘ وہ اپنے گھر تک محدود ہوکر اﷲ اور اس کے رسول ا
کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل پیرا ہوکر خود کو اپنے گھر تک محفوظ ومامون
رکھ کر اپنے گھر‘ اپنے بچوں کی تہذیب وتربیت کرکے جس آرام وسکون کو حاصل
کرلیتی ہے ‘ وہ کبھی بھی کسی بھی طرح ایک بے پردہ‘ بے حجاب خاتون جو دربدر
پھرتی ہے ‘ حاصل نہیں کرسکتی۔ پردے کے اسلامی احکام کا مقصد ومطلب ہی یہ ہے
کہ وہ اپنے ماننے والوں کو بے راہ وروی‘ فحاشی‘ بے حیائی اور شہوانی فتنہ
انگیزی سے بچائے اور وہ خفیہ شہوانی جذبات نہ بھڑ کنے پائیں جو عورت کے بے
پردہ ہونے سے بھڑک سکتے ہیں۔
اسلام نے ہماری اجتماعی زندگی کا حال مردوں کے حوا لے کیا ہے اور مستقبل
عورتوں کے حوالے ۔ اسلام نے عورت پر جو فرائض عائد کئے ہیں وہ ا س قدر اہم
ہیں کہ انہیں غیر ضروری سمجھ کر ترک کردینا نہایت خطر ناک غلطی ہے ۔ عورت
کے فرائض اس قدر وسیع اور ہمہ گیر ہیں کہ وہ اگر ان کی طرف کما حقہ توجہ دے
تو اسے کسی دوسری سرگرمی کی جانب دیکھنے کا وقت بھی نہ ملے ۔ ملک کی ترقی
کے لئے جتنی ضرورت اچھے سائنسدانوں منتظموں سپہ سالاروں اور سیاست دانوں کی
ہے اتنی ہی ضرورت اچھی ماوں اور اچھی بیویوں کی بھی ہے ۔ جو لوگ یہ سمجھتے
ہیں کہ عورت بیرونِ خانہ سرگرمیوں میں الجھ کر بھی بچوں کی درست اور صحیح
نگہداشت کرسکتی ہے وہ حقیقت سے ناواقف ہیں۔
نوعِ انسانی کی افزائش و حفاظت کے لئے فطرت نے چار ادوار مقرر کئے ہیں یعنی
حمل وضعِ حمل رضاعت اور تربیت۔ ان میں سے ہر دور انتہائی مشکل ہے جس کے
دوران غفلت بچے کے لئے مہلک ثابت ہوتی ہے ۔ نسلِ انسانی کی فلاح کے نقطہ
نظر سے ان میں سب سے اہم دور‘ تربیت کا زمانہ ہے۔ بچہ جب عالمِ غیب سے دنیا
میں قدم رکھتا ہے تو اس کا ذہن ایک ایسی تختی کی مانند ہوتا ہے جو ہر قسم
کی تحریر لکھے جانے پر آمادہ ہوتی ہے ۔ ایسی حالت میں جو بات بھی اسے
سکھائی جائے وہ نقش کا لحجر ہوجاتی ہے ۔ ماں کا فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد کو
اچھی تربیت دے اور اسے برے بھلے کی تمیز سکھائے ۔ ظاہرہے کہ ایسی ماں جسے
معاشی اور سیاسی سرگرمیوں سے فرصت نہ ملتی ہو اپنی اولاد کی درست تربیت
نہیں کرسکتی۔ عورت کا فرض ، فیکٹریوں میں اشیاء کی پیداوار نہیں ہے بلکہ
انسانیت سازی ہے ۔
اولاد کی تربیت کے علاوہ گھر میں رہتے ہوئے عورت مرد کی کمائی اور وسائل کو
بڑے سلیقے ‘ کفایت شعاری اور منصوبہ بندی سے استعمال میں لاسکتی ہے ۔ جتنا
ضروری وسائل کی فراہمی کا معاملہ ہے اتنا ہی اہم ان کا مناسب استعمال ہے ۔
شرعی پردہ:شرعی پردہ دراصل دو پردوں پر مشتمل ہے ۔ ایک ہے گھر کے اندر کا
پردہ جس کے بارے میں احکامات سورۃالنور میں بیان ہوئے ہیں۔ ان احکامات کو ”
احکاماتِ ستر “ کہا جاتا ہے ۔ دوسرا ہے گھر کے باہر کا پردہ جس کے بارے میں
احکامات سورۃالاحزا ب میں وارد ہوئے ہیں اور یہ احکامات” احکاماتِ حجاب“
کہلاتے ہیں۔
ستر و حجاب میں فرق:پردے کے حوالے سے اکثر لوگ ستر اور حجاب میں کوئی فرق
نہیں کرتے حالانکہ شریعتِ اسلامیہ میں ان دونوں کے احکامات الگ الگ ہیں۔
سترجسم کا وہ حصہ ہے جس کا ہر حال میں دوسروں سے چھپا نا فرض ہے ماسوائے
زوجین کے یعنی خاوند اور بیوی اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ مرد کا ستر ناف سے لے
کر گھٹنوں تک ہے اور عورت کا ستر ہاتھ پاؤں اور چہرے کی ٹکیہ کے علاوہ پورا
جسم ہے ۔ ایک دوسری روا یت کے مطابق عورت کا سارا جسم ستر ہے سوائے چہرے
اور ہاتھ کے ۔ البتہ عورت کے لئے عورت کا ستر ناف سے لے کر گھٹنوں تک ہے ۔
معمول کے حالات میں ایک عورت ستر کا کوئی بھی حصہ اپنے شوہر کے سوا کسی اور
کے سامنے نہیں کھول سکتی۔ ستر کا یہ پردہ ان افراد سے ہے جن کو شریعت نے ”
محرم “ قرار دیا ہے ۔ ان محرم ا فراد کی فہرست سورۃ النور آیت ۱۳ میں موجود
ہے ۔ ستر کے تمام احکامات سورۃ النور میں بیان ہوئے ہیں جن کی تفصیلات
احادیث نبوی میں مل جاتی ہیں۔ گھر کے اندر عورت کے لئے پردے کی یہی صورت ہے
۔
حجاب عورت کا وہ پردہ ہے جسے گھر سے باہر کسی ضرورت کے لئے نکلتے وقت
اختیار کیا جاتا ہے ۔ اس صورت میں شریعت کے وہ احکامات ہیں جو اجنبی مردوں
سے عورت کے پردے سے متعلق ہیں۔ حجاب کے یہ احکامات سورۃ الا حزاب میں بیان
ہوئے ہیں۔ان کا مفہوم یہ ہے کہ گھر سے باہر نکلتے وقت عورت جلباب یعنی بڑی
چادر ( یا برقع ) اوڑھے گی تاکہ اس کا پورا جسم ڈھک جائے اور چہرے پر بھی
نقاب ڈ الے گی تاکہ سوائے آنکھ کے چہرہ بھی چھپ جائے ۔ گویا حجاب یہ ہے کہ
عورت سوائے آنکھ کے باقی پورا جسم چھپائے گی۔
گھر کے اندر کا پردہ’’ احکاماتِ ستر ‘‘:
٭ کسی کے گھر میں داخل ہوتے وقت اجازت طلب کی جائے
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اے ایمان والو دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہو جب
تک اپنی پہچان نہ کرالو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج دو یہ ہی تمہارے لئے
بہتر ہے شاید کہ تم یاد رکھو ۔(سورۃ النور)
اس آ یت میں ہدا یت کی گئی ہے کہ اچانک اور بلا اطلاع کسی کے گھر میں داخل
نہ ہوجا یا کرو۔ ا سلام سے پہلے عرب میں رواج تھا کہ لوگ بے تکلف دوسروں کے
گھر میں داخل ہو جاتے اور بسا اوقات اہلِ خانہ اور خواتین کو ایسی حالت میں
دیکھ لیتے جس میں دیکھنا خلافِ تہذیب ہے ۔ اس لئے حکم دیا گیا کہ لوگوں کے
گھروں میں نہ داخل ہو جب تک یہ معلوم نہ کر لو کہ تمہا را آنا صاحبِ خانہ
کے لئے ناگوار تو نہیں ہے ۔ داخل ہونے سے پہلے سلام کرکے اجازت لے لیا کرو۔
اجازت لینے کے لئے مسنون طریقہ یہ ہے کہ تین مرتبہ مناسب وقفوں سے باآوازِ
بلند سلام کیاجائے یا دستک دی جائے ۔ اگر جواب نہ ملے یا کہاجائے کہ چلے
جاو تو دروازے پر جم جانا درست نہیں ہے بلکہ برامانے بغیر لوٹ جاناچاہیئے ۔
اسی طرح اس سورۃ کی آیت ۸۵ میں حکم ہے کہ نمازِ فجر سے قبل ‘ نمازِ ظہر کے
بعد اور نمازِ عشاء کے بعد یعنی ایسے اوقات میں جب عام طور پر شوہر اور
بیوی خلوت میں ہوتے ہیں ‘ ملازم اور بچے وغیرہ بلا اجازت کمروں میں داخل نہ
ہوا کریں۔ ان امور کی مزید وضاحت حسبِ ذیل احادیث مبار کہ میں بیان کی گئی
ہے :
٭ نبی اکرمﷺ کا اپنا قاعدہ یہ تھا کہ جب کسی کے ہاں تشریف لے جاتے تو
دروازے کے عین سامنے کھڑے نہ ہوتے کیوں کہ اس زمانے میں دروازوں پر پردے نہ
لٹکائے جاتے تھے ۔ آپ دروازے کے بائیں یا دائیں جانب کھڑے ہو کر اجازت طلب
فرمایا کرتے ۔ ( ابوداود) فقھاء
نے نابینا کے لئے بھی اجازت مانگنا لازم قرار دیا ہے تاکہ گھر والوں کی
باتیں سننے کا احتمال نہ ہو ۔
٭ اجازت لینے کے لئے نبی اکرم نے زیادہ سے زیادہ تین مرتبہ پکارنے کی حد
مقرر کی اور فرمایا اگر تیسری بار پکارنے پر بھی جواب نہ آئے تو واپس ہو
جاو(متفق علیہ)
٭ حضرت ہزیل بن شرحبیل کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺکے ہاں حاضر ہوا
اورعین دروازے پر کھڑے ہوکر اجازت مانگنے لگا۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ
وسلم نے فرما یا کہ تیرا یہ کیا معاملہ ہے اجازت مانگنے کا حکم تو ا س لئے
ہے کہ نگاہ نہ پڑے ۔ ( ابوداود)
٭ حضرت ثوبان ؓکی روا یت ہے کہ نبی اکرم نے فرمایاکہ جب نگاہ داخل ہوگئی تو
پھر خود داخل ہونے کے لئے اجاز ت مانگنے کا کیا موقع رہا۔ ( ابوداود)
٭ ایک شخص نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے ہاں آیا اور دروازے پر آکر
کہا کیا میں گھس آوں؟ نبی اکرم نے اپنی لونڈی روضہ سے فرمایا کہ یہ شخص
اجازت مانگنے کا طریقہ نہیں جانتا ذرا اٹھ کر اسے بتاو کہ یوں کہنا چاہیے
السلام علیکم ! اَ اَدخل کیا میں داخل ہو جاوں؟ ( ابوداود)
٭ حضرت کلدہ بن حنبل ؓایک کام سے نبی اکرم کے ہاں گئے اور سلام کیے بغیر
یوں ہی جا بیٹھے ۔آپ نے فرمایا باہرجاو اور السلام علیکم کہہ کر اندر آؤ۔
(ابوداود)
٭ حضرت جابر بن عبداﷲ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم کے ہاں گیا اور دروازے پر
دستک دی۔ آپ نے پوچھا کون ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ ” میں ہوں “ آپ نے دو تین
مر تبہ فرمایا ” میں ہوں ! میں ہوں ! “ یعنی اس ” میں ہوں “ سے کوئی کیا
سمجھے کہ تم کون ہو۔ ( ابوداود)
اجازت لینے کا حکم ا پنے گھر کی صورت میں :
٭ ایک شخص نے نبی اکرم سے پوچھا کہ کیا میں اپنی ماں کے پاس جاتے وقت بھی
اجازت طلب کروں؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں۔ اس نے کہا میرے سوا ان کی خدمت کرنے
والا کوئی نہیں ہے ‘ کیا ہر بار جب میں ان کے پاس جاوں تو اجازت مانگوں ؟
فرمایا کہ کیا تو پسند کرتا ہے کہ اپنی ماں کوعریاں دیکھے ؟ ( ابن جریر )
٭ عبداﷲ بن مسعود کا قول ہے کہ” اپنی ماں بہنوں کے پاس بھی جاو تو اجازت لے
کر جاو“۔ ان کی بیوی حضرت زینب سے روا یت ہے کہ جب و ہ گھر پرآتے تو ایسی
آواز کرتے جس سے ان کی آمد کاعلم ہو جاتا۔ ((ا بن کثیر )
نگاہ نیچی رکھنا:سورۃ النور میں فرمایاگیا: ” اے نبی ! مومن مردوں سے کہو
کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اوراپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں “۔ اسی سور(کی
آیت۱۳ میں ارشاد ہوتا ہے :
” اے نبی ! مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی
شرمگاہوں کی حفاظت کریں“۔
نگاہوں کی حفاظت کا حکم گھرسے باہر بھی ہے تاکہ نامحرموں پر نگاہ نہ پڑے
لیکن اصلًا یہ حکم گھر کے اندر کے لئے ہے کیوں کہ باہر چلتے ہوئے نگاہیں
نیچی رکھنے سے کسی شے سے ٹکرانے کا خطرہ ہو سکتاہے ۔ گھر کے اندر اس حکم کا
تقاضا یہ ہے کہ محرم خواتین پر بھی نگاہ نہ ڈالی جائے ۔ بلاشبہ محرم خواتین
کے ساتھ ایک تقدس کا رشتہ ہے لیکن بہر حال بحیثیت جنسِ مخالف ہونے کے ‘ مرد
اور عورت میں ایک دوسرے کے لئے کشش ہے اور نگاہوں کی بے احتیاطی فتنہ کا
سبب بن سکتی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ بدنظری ہی بدکاری کے راستے کی پہلی سیڑھی ہے ۔ اسی وجہ سے
اس آیت میں نظروں کی حفاظت کے حکم کو حفاظتِ فرج کے حکم پر مقدم رکھا گیا
ہے ۔ روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک نابینا صحابی حضرت عبد اﷲ بن ام مکتوم نبی
اکرم کے حجرہ مبارک میں تشریف لائے تو حضرت عائشہ اور ام سلمہ سے آپ نے
فرمایا : ” ان سے پردہ کرو “ ! وہ کہنے لگیں : ” کیایہ نابینا نہیں ہیں “ ؟
آپ نے فرمایا ” مگر تم تو نابینا نہیں ہو“۔ ہمارے معاملات آج اس نہج پر
پہنچ چکے ہیں کہ ہم نے نوجوان لڑکیوں کو مخلوط تعلیمی اداروں ‘ دفاتر اور
دیگر محافل میں غیر محرموں کے ساتھ آزادانہ میل جول کی اجازت دے رکھی ہے ۔
بعض والدین کہتے ہیں کہ ہمیں اپنی بچی پر اعتماد ہے ۔ کیا نبی اکرمﷺ کو (
نعوذ باﷲ ) حضرت عائشہ پر اعتماد نہیں تھا جن کی پاکیزگی کی گواہی خود رب
العزت نے سورۃالنورکے دوسرے رکوع میں دی ہے ۔ بد نظری کے نتیجے میں شیطان
آنکھ کے راستے سے دل میں اتر جاتا ہے پھر دونوں فریق ہم کلام ہوتے ہیں اور
یوں بات آگے بڑھتی چلی جاتی ہے ۔
نگاہوں کی حفاظت سے مراد صرف یہ نہیں ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے چہرے
کو نہ دیکھیں بلکہ اس سے مراد یہ بھی ہے کہ دوسروں کے ستر پر نگاہ نہ ڈالی
جائے اور نہ ہی کسی قسم کے فحش مناظر یا تصاویر کودیکھا جائے ۔ اس حوالے سے
مندرجہ ذیل احادیث سے رہنمائی حاصل ہوتی ہے :
٭ نبی اکرم ﷺنے فرمایا” اے علی ! ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالنا۔ پہلی
نگاہ (جو بلا ارادہ پڑ گئی معاف ہے مگر دوسری نہیں “۔ ( مسندِ احمد، ترمذی
)
٭ حضرت جریر بن عبداﷲ بجلیؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم سے پوچھا ” اچانک
نگاہ پڑ جائے توکیاکروں۔فرمایا فوراً نگاہ پھیر لو یا نیچی کر لو“۔( مسلم ،
ترمذی ، ابوداود، نسائی)
٭ ” جس مسلمان کی نگاہ کسی عورت کے حسن پر پڑے اور وہ نگاہ ہٹالے تو اﷲ اس
کی عبادت میں لطف اور لذت پیدا کردیتا ہے “۔ ( مسند احمد )
٭ ” اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ نگاہ ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر
ہے ۔ جو شخص مجھ سے ڈر کر اس کی حفاظت کرے گا میں اس کے بدلے ایسا ایمان
دوں گا جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں پائے گا۔ ( طبرانی )
نوٹ : کسی اجنبی عورت کو دیکھنے کی بعض صورتوں میں اجازت ہے مثلًا : اگر
ایک شخص کسی عورت سے نکاح کرنا چاہے تو اسے اجازت ہے کہ چوری چھپے اس پر
ایک نظر ڈال سکتا ہے ۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ نے ایک جگہ نکاح کا پیغام
بھجوایا۔ رسول اﷲ نے پوچھا کہ تم نے لڑکی کو دیکھا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا
نہیں۔ فرمایا اسے دیکھ لواس طرح زیادہ توقع کی جاسکتی ہے کہ تمہارے درمیان
موافقت ہوگی۔ عدالتی کا رروائی یا گواہی کے لئے قاضی کا کسی عورت کو
دیکھنا۔ تفتیشِ جرم کے لئے پولیس کاکسی عورت کو دیکھنا۔ علاج کے لئے طبیب
کا مریضہ کو دیکھنا۔
ا یک اہم نکتہ:نگاہ نیچی رکھنے کا حکم عورتوں کے لئے بھی ہے اور مردوں کے
لئے بھی۔ لیکن عورتوں کے مردوں کو دیکھنے کے بار ے میں سختی کم ہے ۔ جس مرد
سے عورت کا براہِ راست رابطہ ( Contact ) کا امکان ہے اسے دیکھنا تو منع ہے
البتہ جس مرد سے رابطہ کا امکان نہیں اسے کسی ضرورت اور مقصد کے تحت دیکھا
جاسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ گھر سے با ہرنکلنے پرعورتوں کے لئے تو چہرے کا
پردہ ہے لیکن مردوں کے لئے نہیں۔ایک روا یت میں ہے کہ ۷ھ میں حبشیوں کا ایک
وفد مدینے آیا اوراس نے مسجد نبوی کے پاس تماشا کیا۔ نبی نے خود حضرت عائشہ
کو یہ تماشا دکھایا ۔(بخاری ، مسلم، مسندِ احمد )
دوسروں کے ستر پر نگاہ نہ ڈالنے کی تاکید ذیل کی احادیث میں بیان ہوئی ہے :
٭ ” کوئی مرد کسی مرد کے ستر کو نہ دیکھے اور کوئی عورت کسی عورت کے ستر کو
نہ دیکھے “۔ ( مسندِ احمد ، مسلم ، ا بوداود )
٭ حضرت علی ؓکی روایت ہے کہ نبی اکرم نے مجھ سے فرمایا کہ کسی زندہ یا مردہ
انسان کی ران پرنگاہ نہ ڈالو۔ (ابوداود ، ابن ماجہ )
ستر کی حفاظت کرنا:سورۃ النور میں مردوں اور عورتوں دونوں کو تلقین کی گئی
کہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔شرمگاہوں کی حفاظت کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ
کہ وہ خود کوجنسی بے راہروی اور زنا سے بچا کراپنی عصمت و عفت کی حفاظت
کریں اور دوسرے یہ کہ وہ اپنا ستر کسی کے سامنے نہ کھولیں۔اس کی وضاحت ذیل
کی احادیث سے ہو تی ہے :
٭ نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ اپنے ستر کو اپنی بیوی اور لونڈی کے سوا ہر ایک
سے محفوظ رکھو۔ سائل نے پوچھا جب ہم تنہائی میں ہوں ؟ فرمایا اﷲ تعا لیٰ اس
کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے شرم کی جائے۔(ابوداود ، ترمذی ، ابن ماجہ)
٭ حضرت عائشہ ؓسے روا یت ہے کہ ان کی بہن حضرت اسماء ؓنبی اکرم کے سامنے
آئیں اور وہ باریک کپڑے پہنے ہوئے تھیں۔ نبی اکرم نے منہ پھیر لیا اور
فرمایا اے اسماءؓجب عورت بالغ ہو جا ئے تو جائز نہیں ہے کہ منہ اور ہاتھ کے
سو ا اس کے جسم کا کوئی حصّہ نظرآئے ۔ (ابوداود)
٭ نبی اکرم ﷺنے فرمایا کہ” اﷲ کی لعنت ہے ان عورتوں پر جو لباس پہن کر بھی
برہنہ رہیں“۔ حضرت عمر اس حدیث کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ اپنی عورتوں کو
ایسے کپڑے نہ پہناو جوجسم پر اس طرح چست ہوں کہ سارے جسم کی ہیئت نمایاں
ہوجائے ۔ ( المبسوط )
٭ حفصہ بنتِ عبد الرحمن حضرت عائشہ ؓکی خدمت میں حاضر ہوئیں اور وہ ایک
باریک دوپٹہ اوڑھے ہوئے تھیں۔ حضرت عائشہؓ نے اس کو پھاڑدیا او رایک موٹی
اوڑھنی ان پر ڈال دی۔(موطا امام مالک)
نوٹ : بحالتِ مجبوری یا بغرضِ علاج ، طبیب کے سامنے ستر کھولا جا سکتا ہے ۔
سینہ پر اوڑھنی ڈ النا:سورۃالنور میں خواتین کو حکم دیاگیا :” اور اپنے
سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈال لیں“۔
یعنی چادر سے اپنا گریبان چھپائے رکھیں۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ :’’ جب
سورۃ النور نازل ہوئی تو رسول اﷲ سے اس کو سن کر لو گ اپنے گھروں کی طرف
پلٹے اور جاکر انہوں نے اپنی بیویوں بیٹیو ں ا ور بہنوں کو اس کی آیات
سنائیں۔ انصاری عورتوں میں سے کوئی ایسی نہ تھی جو آیت ’مذکورہ آیت کے
الفاظ سن کر اپنی جگہ بیٹھی رہ گئی ہوں۔ ہر ایک اٹھی اور کسی نے اپنا کمر
پٹہ کھول کر اور کسی نے چادر اٹھا کر فوراً اس کا دوپٹہ بنالیا اور اوڑھ
لیا۔ دوسرے روز صبح کی نماز کے وقت جتنی عورتیں مسجدنبوی میں حاضرہوئیں سب
دوپٹے اوڑھے ہوئی تھیں “۔ (ابوداود)
عورتیں ا پنی زیب و زینت مخفی رکھیں:سورۃ النور میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے
:
” اور عورتیں اپنی زیب و زینت کسی پر ظاہر نہ کیا کریں سوائے اس کے جو از
خود ( بغیر ان کے اختیار کے)ظاہر ہوجائے “یعنی عورتیں نامحرم مردوں کے
سامنے اپنی زینت یعنی حسن اور بناوسنگھار کو ظاہر نہ ہونے دیں سوائے اس
زینت کے جو از خودظاہر ہو یا ظاہر ہوجائے ۔ قرآنِ حکیم میں اس کے لیے سوائے
اس زینت کے جواز خود ظاہر ہو جائے “ کے الفاظ آئے ہیں۔ یوں نہیں فرمایا گیا
کہ ” سوائے اس زینت کے جسے عورتیں خود ظاہرکریں “۔زینت سے مراد جسم کے وہ
حصے ہیں جن میں مرد کے لئے کشش ہے یا جہاں مختلف آرائشیں‘ بناوسنگھار یا
زیورات کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس آیت کی روشنی میں عورت نامحرم مردوں کے
سامنے اپنی زینت ظاہر نہیں کر سکتی ، سوائے اس زینت کے جو از خودظاہر ہو یا
ظاہر ہوجائے مثلاً عورت کی جسمانی ساخت یعنی قد کاٹھ ‘ بیرونی لباس‘ چادر
سرسے ڈھلک جائے یا ہاتھ پاؤں کی کسی زینت کا اظہار ہوجائے تو اس پر گرفت
نہیں ہے ۔ آگے چل کر اسی آیت میں مزید وضاحت فرمادی گئی کہ :’ اور عورتیں
اپنی زیب و زینت ظاہر نہ کیا کریں سوائے اپنے شوہر وں اور باپ اور خسراور
بیٹوں اور شوہروں کے بیٹوں اور اپنے بھائیوں اور بھتیجوں اور بھانجوں اور
اپنی جان پہچان کی عورتوں اور اپنی کنیزوں وغلاموں کے نیز ان خدام کے جو
عورتوں سے کوئی غرض نہیں رکھتے یا ایسے بچوں سے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں
سے ابھی واقف نہیں ہوئے “۔
آیت کے اس حصے سے معلوم ہوا کہ عورت کوشوہر کے علاوہ ان رشتہ داروں کے
سامنے اظہارِ زینت کی اجازت ہے جو اس کے محرم ہیں یعنی جن سے نکاح حرام ہے
۔ اس اجازت کی حکمت یہ ہے کہ گھر میں رہنے اور کام کاج کرنے میں کوئی تنگی
اور دشواری نہ ہو۔ اس آیت میں ماموں اور چچا کا ذکر نہیں لیکن سورۃ النساء
کی آیت ۳۲ میں ان کو بھی محرم رشتے داروں میں شامل کیا گیا ہے ۔ اسی طرح
دادا ‘ نانا‘ پوتے ‘ نواسے ‘سوتے لے اور رضاعی رشتہ دار بھی محرموں میں
شامل ہیں۔” اس آیت میں بیان شدہ محرم رشتہ داروں کی فہرست اس بات کا تقاضا
کرتی ہے کہ عورت صرف اِنہی رشتے داروں کے سامنے اظہارِ زینت کرسکتی ہے ۔ ان
کے علاوہ دیگر مردوں کے سامنے وہ اپنی زینت اور خاص طور پر زینت کے مرکز
یعنی چہرے کو ظاہر نہیں کرسکتی۔ اب جو لوگ نا محرم مردوں سے عورت کے چہرے
کے پردے کے قائل نہیں ہیں کیا ان کے نزدیک اس آیت میں بیان شدہ محرم رشتہ
داروں کی فہرست کی کوئی اہمیت نہیں؟ کیا وہ تمام ہی مردوں کے سامنے عورت کے
اظہارِ زینت کو جائز سمجھتے ہیں؟ “
ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ اس آیت میں بیان شدہ محرم رشتہ داروں کی فہرست
میں شوہر کے والد کا ذکر بھی ہے اور شوہر کے بیٹے کابھی لیکن شوہر کے بھائی
کا ذکر نہیں۔ جب یہ آیت نازل ہو ئی تو نبی اکرم سے دریافت کیا گیا کہ کیا
دیور سے بھی پردہ ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : دیور تو موت ہے ! ( بخاری ، مسلم
، مسندِ احمد)اصل میں پردے کے احکامات کی حکمت ہی یہ ہے کہ ان محرکات پر
پابندیاں لگائی جائیں جن سے زنا کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے
ایک عورت کو سب سے زیادہ خطرہ ان نامحرم رشتہ دار مردوں سے ہو سکتاہے جو
گھر میں موجود ہوں یا جن کا گھر میں آناجانا آسان ہو۔ اس لئے نبی ﷺنے دیور
یا جیٹھ کے بارے میں فرمایا کہ وہ تو بھابھی کے لئے موت ہیں۔
مخلوط معاشرت کی ممانعت:سورۃ النور کی اس آیت میں محرم مردوں کے سامنے
اظہارِ زینت کا حکم دے کر اﷲ تعالیٰ نے غیر محرم مردوں کے ساتھ مخلو ط
معاشرت کی ممانعت فرمادی ہے ۔ارشادِ نبوی ہے :
” جو شخص اﷲ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتاہے اسے چاہیے کہ کسی عورت کے ساتھ
ایسی خلوت میں نہ ہو جہاں کوئی محرم موجود نہ ہو کیونکہ ایسی صورت میں ان
دو کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے “۔( مسندِ احمد )
نیز آپ نے اسے سخت نا پسند فرمایا کہ مرد نا محرم خواتین کو چھوئیں یا ان
سے مصافحہ کریں۔
ایک متفق علیہ حدیث ہے کہ :’’ یہ تو گوارا کیا جاسکتا ہے کہ آدمی کے سر میں
لوہے کی کیل ٹھونک دی جائے لیکن یہ گوارا نہیں کہ وہ کسی ایسی عورت کو
چھوئے جو اس کے لئے حلال نہ ہو“۔
چنانچہ نسائی اور ابن ماجہ میں مذکور ہے کہ” نبی اکرم جب عورتوں سے بیعت
لیتے تو مصافحہ نہیں فرماتے تھے اور صرف زبانی اقرار کرواتے تھے “۔اسلام
میں مخلوط معاشرت کی جو ممانعت ہے اس کا سب سے نمایاں اظہار محفلِ نکاح میں
ہوتا ہے ۔ نکاح ایک مردا ور ایک عورت کے درمیان ایسا پختہ معاہدہ ہے جو
زندگی بھرکے لئے ہوتا ہے ، لیکن اس معاہدے کے انعقاد کے وقت محفلِ نکاح میں
معاہدے کے ایک اہم فریق یعنی دلہن کو آنے کی اجازت نہیں۔ قاضی کے سامنے
دلہن کی طرف سے نمائندگی ایک وکیل اور دو گواہوں کے ذریعہ ہوتی ہے ۔ جو
دانشور عورتوں کو ہر کام میں مردوں کے شانہ بشانہ شریک کرنے کی بات کرتے
ہیں وہ محفلِ نکاح میں دلہن کی عدم شرکت کی کیا توجیہ پیش کریں گے ؟
عورتیں اپنی مخفی زیب و زینت کو بھی چھپائیں:سورۃ النور آیت۱۳ کے آخر میں
فرمایا گیا :
” اور عورتیں اپنے پاؤں (اس طرح زمین پر ) نہ ماریں کہ ان کی پوشیدہ زینت(
زیور کی جھنکار ) ظاہر ہوجائے اور مومنو ! سب اﷲ کے حضور توبہ کرو تاکہ تم
فلاح پاو“
نبی اکرمﷺ نے زیب و زینت کو صرف زیور کی جھنکار تک محدود نہیں ر کھا بلکہ
ان تمام چیزوں سے منع فرمایاجو مرد کے جنسی احساسات کو مشتعل کرنے کا باعث
ہو سکتی ہیں۔ اس حوالے سے آپ کے حسبِ ذیل ارشادات سے رہنمائی حاصل ہوتی ہے
:
٭ ” مردوں کے لئے وہ عطر مناسب ہے جس کی خوشبونمایا ں اور رنگ مخفی ہواور
عورتوں کے لئے وہ عطر مناسب ہے جس کا رنگ نمایاں اور خوشبو مخفی ہو“۔
(ترمذی ، ابوداود )
٭ ” اﷲ کی بندیوں کو اﷲ کی مسجدوں میں آنے سے منع نہ کرو مگر وہ خوشبو لگا
کرنہ آئیں“۔ ( ابوداود ، مسندِ احمد )
٭ ” جو عورت عطر لگا کر لوگوں کے درمیان سے گزرتی ہے وہ آوارہ قسم کی عورت
ہے “۔ (مسلم ، موطا امام مالک )
٭ ” جو عورت عطر لگا کر راستے سے گزرے تاکہ لوگ اس کی خوشبو سے لطف اندوز
ہوں تووہ ایسی ہے اور ایسی ہے “۔ آپ نے اس کے لئے سخت الفاظ ارشاد فرمائے ۔
( ترمذی ، ابودا ود ، نسائی )
٭ ایک عور ت مسجد سے نکل کر جارہی تھی کہ حضرت ا بو ہریرہ اس کے پاس سے
گزرے اور انہوں نے محسوس کیا کہ و ہ خوشبو لگائے ہوئے ہے ۔ انہوں نے اسے
روک کر پوچھا ” اے خدائے جبار کی بندی کیا تو مسجد سے آرہی ہے ؟ “ اس نے
کہا ہاں ! بولے ” میں نے اپنے محبوب ابوالقاسم ﷺکو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو
عورت مسجدمیں خوشبو لگاکر آئے اس کی نماز اس وقت تک قبول نہ ہوگی جب تک وہ
گھر جاکرغسل جنابت نہ کرے “۔ (ابوداود ، نسائی ، ابن ماجہ ، مسندِ احمد )
٭ نماز میں اگر امام بھول جائے تو مردوں کو حکم ہے کہ سبحان اﷲ کہیں مگر
عورتوں کو ہدا یت کی گئی ہے کہ اپنے ایک ہاتھ پر دوسرا ہاتھ مار کر امام کو
متنبہ کریں۔ ( بخاری ، مسلم ، ترمذی ، ابو داود ، نسائی ، ابن ماجہ )
گھر سے باہر کا پردہ ” احکاماتِ حجاب “:سورۃالاحزا ب میں گھر سے باہر کے
پردے کے بارے میں احکامات دیے گئے ہیں۔ ان احکامات کے تذکرے سے قبل ضروری
ہے کہ ایک اشکال کا ازالہ کردیا جائے ۔ ان احکامات کے بیان میں خطاب نبی
اکرم ﷺکی ازواجِ مطہرات سے ہے لیکن ان کا اطلاق تمام مومنات پر ہوتا ہے
۔قرآنِ حکیم میں یہ طرزِ تخاطب ا س لئے اختیار کیا گیا ہے کہ مردوں کے لئے
تو ہر اعتبار سے نمونہ رسول اﷲ ہیں لیکن خواتین کے لئے ان کے نسوانی پہلووں
کے لحاظ سے نمونہ ازواجِ مطہرات ہیں۔ یہاں اگرچہ براہِ راست خطاب ازواجِ
مطہرات سے ہے لیکن ان کے واسطے سے پوری امت کی خواتین ان احکامات کی مخاطب
ہیں۔
نامحرم سے بات کرتے ہوئے نرم لہجہاختیا ر نہ کرنا:سورۃ الاحزاب میں حکم د
یا گیا : ” نبی کی بیویو ! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم اﷲ سے
ڈرنے والی ہو تو ( نامحرم ) سے بات میں نرم انداز اختیار نہ کرو مبادا دل
کی خرابی میں مبتلا کوئیشخص ( جنسی )لالچ میں پڑ جائے بلکہ بات کرو
کھری“۔یعنی عورتوں کو اگر نامحرم مردسے بات کرنا پڑے تو سیدھے سادے کھرے
اور کسی حد تک خشک لہجے میں گفتگو کی جائے آواز میں کوئی شیرینی یا لہجے
میں کسی قسم کی لگاوٹ نہ ہوتا کہ سننے والا کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہو
جائے ۔
خواتین وقار کے ساتھ گھر پر رہیں اوربلاضرورت باہر نہ نکلیں:سورۃ الاحزاب
کی آیت۳۳ میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :” اپنے گھروں میں وقار کے ساتھ رہو
اور دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو“۔
اس آ یت سے معلوم ہوا کہ عورت کے لئے زیادہ پسندیدہ طرز عمل یہی ہے کہ وہ
گھر میں سکون اور وقار کے ساتھ رہے ۔ در اصل اسلام میں مردوں کو ان امور کی
انجام دہی سونپی گئی ہے جن کا تعلق گھر کے باہر سے ہے اور عورتوں کو ان
امور کی جن کا تعلق گھر کے اندر سے ہے ۔ مردوں اور عورتوں کے ان دائرہ ہائے
کار کا تعین ان کے مزاج اور صلاحیتوں کے اعتبارسے کیا گیا ہے ۔یہ تعین کرنے
والا خود خالقِ کائنات ہے جس کے علم اور جس کی حکمت پر کوئی شبہ نہیں کیا
جا سکتا۔
سورۃالملک آیت ۴۱ میں ارشاد ہوتا ہے :” کیا وہی نہ جانے گا جس نے پید اکیا
ہے ؟ حالانکہ وہ باریک بین اور باخبر ہے “مردوں اور عورتوں کی جسمانی اور
ذہنی ساخت اور صلاحیتوں میں اختلاف بالکل واضح اور ظاہر ہے ۔ مرد کو مضبوط
جسمانی اور دماغی اعصاب جذبات سے زیادہ عقل سے کام لینے کی صلاحیت اور
شدائد ( جنگی یا کاروباری مصائب )کا مقابلہ کرنے والی فطرت عطا کی گئی ہے
جبکہ عورت کو نرم مزاج لطیف جذبات شیرینی اور نزاکت دی گئی ہے ۔ مرد کی
فطرت میں شدت سخت گیری سرد مزاجی تحکّم اور مزاحمت ہے جبکہ عورت کی ساخت
میں قدرتی طور پر جمنے اور ٹھہرنے کے بجائے جھکنے اور ڈھل جانے کی خاصیت ہے
۔ مرد کی فطرت میں اقدام اور جسارت ہے جبکہ عورت کی فطرت گریز اور فرار سے
عبارت ہے ۔ درحقیقت دونوں صنفوں کی قوتوں اور صلاحیتوں پر ایک نظر ڈالی
جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ کس صنف کو کس مقصد کے لئے پیدا کیاگیا ہے ۔عورت
اپنی رائے عقل مزاج اور ظاہر ی و باطنی ساخت کے لحاظ سے صاحبِ عقل مرد اور
بے عقل بچے کے درمیان کی کڑی ہے ۔ اگر فطری قانون میں بالغ اور بچے کے عمل
کی حدود، جدا جدا ہیں تو عورت اور مر د کے فرائض بھی یکساں نہیں ہوسکتے ۔
اسی لئے اسلام نے مردوں اور عورتوں کے فرائض بالکل جدا اور علاحدہ طے کیے
ہیں۔
یہ درست ہے کہ ایسی عورتیں بھی ہوتی ہیں جو ذہنی اورعقلی صلاحیتوں کے
اعتبار سے مردوں کی ہم پلہ ہوتی ہیں اور ایسے بھی مرد ہوتے ہیں جو جذبات کے
اعتبار سے عورتوں جیسے ہوں مگر یاد رکھنا چاہیے کہ قانون اور ضابطے اکثریت
کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ استثناء اپنا کلیہ نہیں بناتے بلکہ دوسرے کلیات کو
ثابت کرتے ہیں۔ چونکہ اﷲ تعالیٰ سب کا خالق ہے اور سب کی کمزوریوں
اورصلاحیتو ں کو بھی جانتا ہے ‘ لہٰذا اس بات کا فیصلہ کرنے کاحق بھی اسی
کو ہے کہ کس کا دائرہ کار کیا ہو ؟ ہمارا فرض تو یہ ہے کہ اس کے فیصلے کے
سامنے سرجھکا دیں۔
شریعتِ اسلامیہ میں عورت کو بیرونی ذمہ داریوں سے فارغ کرکے گھر کے اندر کے
مسائل کی دیکھ بھال کی ذمہ داری تفویض کی گئی ہے ۔ اس حوالے سے مندر جہ ذیل
احادیث پر غور فرما ئیے :
٭ ” بلاشبہ ایک خاتون چھپانے کے لائق ہے ۔ جب وہ گھر سے نکلتی ہے تو شیطان
اس کو تاکتا ہے اور وہ ا پنے رب کی رحمت کے زیادہ قریب اس وقت ہوتی ہے جب
وہ اپنے گھر کے اندرونی حصّہ میں ہوتی ہے “۔( ترمذی )
٭” عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگران ہے اور وہ اپنی رعیت ( اولاد) کے لئے
جواب دہ ہے‘‘۔(ترمذی )
٭ اسلام میں جمعہ اور جماعت کی اہمیت کوئی مخفی امر نہیں مگرنبی اکرم نے
عورتوں کو جمعہ کی نماز سے مستثنیٰ فرمایا ہے ۔ آپ کا ارشاد ہے ” جمعہ کی
نماز باجماعت ادا کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے مگر چا راشخاص مستثنیٰ ہیں یعنی
غلام عورت بچہ اور مریض۔ (ابوداود )
٭حضرت ام حمید ساعدی سے روا یت ہے کہ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! جی
چاہتاہے کہ آپ کے ساتھ نماز پڑھوں۔آپ نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے لیکن تیرا
ایک گوشے میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ تو اپنے حجر ے میں نماز پڑھے اور
حجرے میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ تو گھر کے آنگن میں نماز پڑھے اور
تیرا گھر کے آنگن میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ تو اپنے محلّے کی مسجد
میں نماز پڑھے اور تیرا اپنے محلّے کی مسجد میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے
کہ تو جامع مسجد میں نماز پڑھے “۔( ابوداود )
٭ حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ عورتوں نے نبی اکرم ﷺسے عرض کیا کہ” ساری فضیلت
تو مرد لوٹ کر لے گئے ۔ وہ جہاد کرتے ہیں اور خد اکی راہ میں بڑے بڑے کام
کرتے ہیں۔ ہم کیا عمل کریں کہ ہمیں بھی مجاہدین کے برابر اجر مل سکے “ ؟
جواب دیا ”جو کوئی تم میں سے گھر بیٹھی رہے ( تاکہ شوہر کے مال‘ اولاد اور
عصمت کی حفاظت کرسکے )وہ بھی مجاہدین کا سا بدلہ پائے گی “۔ اگر چہ عورت کا
دائرہ عمل اس کا گھر ہے تاہم اس کا گھر سے باہر نکلنا بالکل ہی ممنوع نہیں
کیاگیا اور کسی اشد ضرورت کے تحت وہ گھر سے باہر جاسکتی ہے ۔ ارشادِ نبوی
ہے :” اﷲ نے تم کو اپنی ضروریات کے لئے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے “۔ (
بخاری )
البتہ سورۃ الاحزاب کی آیت۳۳ میں فرمایا گیا دورِ جاہلیت کی سی سج دھج نہ
دکھاتی پھرو“۔ یہاں لفظ ” تبرج “ آیا ہے جس کا مطلب ہے نمایا ں ہونا ا
بھرکراور کھل کر سامنے آنا ظاہر ہونا۔ عورت کے لئے تبرج کا مطلب ہے اپنے
حسن کی نمائش کرنا لباس اور زیور کی خوبصورتی کا اظہار کرنا اور چال ڈھال
سے اپنے آپ کو نمایا ں کرنا۔ مطلب یہ ہے کہ عورتیں جب باہر نکلیں تو اپنے
آپ کو لوگوں کے سامنے نمایاں کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ احتیاط کے ساتھ
چادر میں مستور ہوکر نکلیں۔
مرد اجنبی عورتوں سے بوقتِ ضرورت پس پردہ بات کریں:سورۃالاحزاب کی آیت ۳۵
میں مردوں کو ہد ا یت کی گئی ہے کہ :’ اور جب تمہیں نبی اکرم کی بیویوں سے
کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو“۔
گویا ایک مرد کے لئے جائز ہی نہیں کہ بلا ضرورت کسی اجنبی عورت سے بات کرے
۔ البتہ اگر اجنبی عورت سے کوئی کام ہو تو بھی روبرو ہو کر بات کرنے کی
اجازت نہیں۔ تصور کیجئے کہ یہ حکم امت کی ماوں کے لئے ہے جن کے ساتھ ایک
مسلمان کا رشتہ اپنی حقیقی ماں کی طرح پاکیزہ اور متبرک ہے تو عام مسلم
خواتین کے ساتھ بغیر پردے کے بات چیت یا لین دین کرنے کی اجازت کس طرح
ہوسکتی ہے ؟ اسی لئے شریعتِ اسلامی میں اجنبی عورت کے ساتھ بلا ضرورت گفتگو
کے تدارک کے لئے اس کے ساتھ خلوت میں موجودگی ہی کی ممانعت کر دی گئی ہے ۔
نبی اکرم کایہ ارشاد اس سے قبل بیان کیا جا چکاہے کہ :
” جو شخص اﷲ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتاہے اسے چاہیے کہ کسی عورت کے ساتھ
ایسی خلوت میں نہ ہو جہاں کوئی محرم موجود نہ ہو کیونکہ ایسی صورت میں ان
دو کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے “۔ ( مسندِ احمد )
ٔ چہرے کا پردہ کرنا:سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر ۹۵ میں مذکور ہے :
”اے نبی اپنی بیویوں بیٹیوں اورمسلمان عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر
اپنیچادروں کا پلو لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب ہے تاکہ وہ پہچان لی
جائیں اورانہیں ستایا نہ جائے ۔ اﷲ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے ۔“
اس آیت میں ” جلباب“ کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ جلباب اس بڑی چادر کو کہتے
ہیں کہ جو پورے جسم کو چھپالے ۔ مراد یہ ہے کہ چادر اچھی طرح لپیٹ کر اس کا
ایک حصہ اپنے اوپر لٹکا لیا کرو تاکہ جسم اور لباس کی خوبصورتی کے علاوہ
چہرہ بھی چھپ جائے ۔ البتہ آنکھیں کھلی رہیں۔ مندرجہ ذیل احادیثِ مبارکہ سے
ظاہر ہوتا ہے کہ نبی اکرم کے زمانے میں اس حکم پرعمل کس طرح کیا گیا :
٭ واقعہ افک ( جس کے دوران عبداﷲ بن ابی نے حضرت عائشہؓ پر بہتان لگایا تھا
)کے متعلق حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جنگل سے واپس آ کر جب میں نے دیکھا کہ
قافلہ چلاگیا ہے تومیں بیٹھ گئی اور نیند کا غلبہ ایسا ہوا کہ میں وہیں پڑ
کر سو گئی۔ صبح کو حضرت صفوان بن معطل ؓوہاں سے گزرے تو دور سے کسی کو پڑے
دیکھ کر وہاں آگئے ۔ وہ مجھے دیکھتے ہی پہچان گئے کیوں کہ حجاب کے حکم سے
پہلے وہ مجھے دیکھ چکے تھے ۔ مجھے پہچان کر جب انہوں نے ”اِنَّا لِلّٰہِ
وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعون َ“ پڑھا تو ان کی آوا ز سے میری آنکھ کھل گئی او
ر میں نے اپنی چادر سے منہ ڈھانک لیا“۔حدیث میں الفاظ یوں ہیں کہ”فخمرت
وجھی عنہ بجلبابی“ میں نے ان سے اپنے چہرے کو اپنی چادر کے ذریعے ڈھانپ لیا
‘ ‘۔ ( بخاری ، مسلم )
٭ایک خاتون جن کا نا م ام خلاد تھا ‘ نبی اکرم کی خدمت میں اپنے بیٹے کا جو
قتل ہوچکا تھا انجام دریافت کرنے آئیں اور و ہ نقاب پہنے ہوئے تھیں۔ نبی
اکرم کے ایک صحابی نے ان کی اس استقامت پرتعجب کرتے ہوئے کہا کہ نقاب پہن
کر آپ بیٹے کا حال دریافت کرنے آئی ہیں۔ انہوں نے اس کے جواب میں فرمایا کہ
میرا بیٹا مرا ہے میری حیا نہیں مری ہے ۔ اس کے بعد رسول اﷲﷺ نے ان کوتسلی
دی کہ تمہارے بیٹے کو دو شہیدوں کا اجر ملے گا۔ انہوں نے دریافت کیا کہ
ایساکیوں ہوگا یا رسول اﷲ ؟ آپ نے فرمایا ا س لئے کہ ا س کو اہلِ کتاب نے
قتل کیا ہے “۔ (ابوداود )
٭ حضرت عائشہ حجۃالوداع کے موقع پر سفر کے بارے میں فر ماتی ہیں کہ” قافلے
ہمارے پاس سے گزرتے تھے اور ہم رسول اﷲ کے ساتھ احرام باندھے ہوئے تھیں۔ جب
قافلے ہمارے سامنے آتے ہم بڑی چادر سر کی طرف سے چہرے پر لٹکا لیتیں اور جب
و ہ گزر جاتے ہم اس کو اٹھا دیتیں “۔ (ابوداود )
٭ حضر ت جابر بن عبد اﷲ انصاری ؓسے روا یت کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع
پر نبی اکرم ﷺکے چچا زاد بھائی فضل بن عباس ( جو اس وقت نوجوان لڑکے تھے )
مشعرِحرام سے واپسی کے وقت نبی اکرم کے ساتھ اونٹ پر سوار تھے ۔ راستے سے
جب عورتیں گزرنے لگیں تو فضل بن عباس ان کی طرف دیکھنے لگے تو نبی اکرم نے
ان کے منہ پر ہاتھ رکھا اوراسے دوسری طرف پھیر دیا“۔(ابوداود)
خلاصہ تحریر :آخر میں ‘ میں تمام حضرات و خواتین کو دعوتِ غور و فکر دیتا
ہوں۔ طرز معاشرت کے لئے ایک طرف تو وہ ضوابط و ہدایات ہیں جو قرآن و سنت سے
حاصل ہوتے ہیں۔ دوسری طرف وہ مادر پدر آزاد روش ہے جسے مغربی تہذیب اور
ہندو ثقافت کے زیرِ اثر جملہ ذرائع اِبلاغ کے ذریعہ فروغ دیاجارہا ہے ۔ اب
ہمیں ان میں سے کسی ایک کو ترجیح دے کراختیار کرنے کا فیصلہ کرنا ہے ۔البتہ
فیصلہ کرنے سے پہلے ہم سوچ لیں کہ عنقریب ہمیں روزِ قیامت ‘ عدالتِ خداوندی
میں پیش ہونا ہوگا اور وہاں معاملہ یہ ہوگا کہ ینَبَّؤ ا الاِنسَا ن
یَومَئِذٍ م بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ (ہر انسان کو اس روز جتلا دیا جائے گا
کہ اس نے کس شے کو ترجیح دی اور کس شے کو چھوڑ دیا )
اﷲ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس کی خوشنودی کے حصول کے لئے
زندگی کے جملہ معاملات میں اس کے احکاما ت کی پیروی کریں ۔اگر اﷲ تعالیٰ
توفیق دے توہرمرد اور عورت کو سورۃ نورکاترجمہ اور تفسیر سیکھنا چاہئے ۔
اَللّٰہمَ ّ وَفِّقنَا لِمَا تحِبّ وَ تَرضٰی ! آمین
|
|