انقلاب کا راستہ

پاناما لیکس کا مقدمہ عدالت کے سامنے ہے اور وہی اس پر حتمی فیصلہ صا در کرے گی۔عمران خان کی کامیابی یہی ہے کہ وہ شریف فیملی کو عدالت کے روبرو لے گیا ہے۔عدالت سے شریف فیملی اپنی بے گناہی لے کر باہر آتی ہے یا کرپشن کا ناسور ان کی ذات کے ساتھ نتھی ہو جاتا ہے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے لیکن ایک بات یقینی ہے کہ شریف فیملی کی جس طرح جگ ہنسائی ہو رہی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔ بہت سے ممالک میں کرپشن کے الزامات پر کئی وزرائے اعظم مستعفی ہو چکے ہیں لیکن پاکستان میں بوجوہ ایسا نہیں ہو پا رہا کیونکہ ہمارے سیاسی کلچر میں مستعفی ہونے کا رحجان نہیں ہے۔ سپریم کورٹ میں دوبارہ پاناما لیکس کی شنوائی ہو چکی ہے اور اس میں پی ٹی آئی نئے ثبوتوں کے ساتھ ایک دفعہ پھر مسلم لیگ (ن) پر چڑھائی کئے ہوئے ہے۔وہ بڑی ہی جارح بن کر سامنے آئی ہے۔مقدمے میں تھوڑڑی سی تا خیرہونے اور نیا بنچ بننے سے اسے جو سبکی ہوئی تھی اس کی کافی حد تک تلافی ہو چکی ہے۔اب نئے شواہد کی موجودگی میں وہ بڑی ہی پر عزم او پر یقین ہے۔وہ اپنے تئیں یہ سمجھ رہی ہے کہ وہ ،قدمہ جیت چکی ہے حالانکہ ایسا سوچنا حقائق کا منہ چڑھانے کے مترادف ہے۔ میری ذاتی رائے ہے کہ پاناما لیکس کی عدالتی کاروائی کی وجہ سے شریف فیملی اپنی اخلاقی برتری ضائع کر چکی ہے ۔پاناما لیکس پر شریف فیملی جس طرح بدنامی سمیٹ رہی ہے وہ سب پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے لیکن اس کے باوجود میاں محمد نواز شریف مسعفی ہونے کیلئے آمادہ نہیں ہیں۔ان کا خیال ہے کہ وہ ذاتی اثرو رسوخ، سیاسی جوڑ توڑ اور چالاکیوں سے اس آزمائش سے بھی نکل جائیں گے۔اگر ہم پاکستان میں عدالتی تاریخ پر طائرانہ نظر دوڑائیں تو ہمیں یہ باور کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہو گا کہ شریف فیملی کو عدالتوں سے ہمیشہ ٹھنڈی ہوائیں ہی آتی رہی ہیں ۔ یہ تو پی پی پی ہے جس کے خلاف عدلیہ کا کلہاڑا پوری شدت سے چلتا رہتا ہے ۔شائد رجائیت کایہی وہ احساس ہے جو میاں محمد نواز شریف کو عمران خان کے سامنے ڈٹ جانے کا حوصلہ بخش رہا ہے۔یہ بھی شنید ہے کہ شائد حکومتی دباؤ کی وجہ سے عدالت کمیشن بنانے کا فیصلہ صادر فرما دے ۔اگر ایسا ہو گیا تو پھر میاں محمد نواز شریف کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکے گا کیونکہ پاکستان میں کمیشن کبھی بھی کسی شخص کو کو کوئی سزا نہیں دے سکا ۔شائد یہی وجہ ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کمیشن کے قیام کی مخالف ہے۔وہ سپریم کورٹ کے نئے بنچ سے اس مقدمہ کا فیصلہ چاہتی ہے اور جلدی چاہتی ہے ۔پی ٹی آئی کا مطالبہ ہے کہ ا گر کمیشن بنانا ضروری ہے تو میاں محمد نواز شریف پہلے وزارتِ عظمی سے مستعفی ہوں کیونکہ ان کے ہوتے ہوئے شفاف اور غیر جانبدار تحقیقات ممکن نہیں ۔ان کی منطق میں کافی وزن ہے کیونکہ وزیرِ اعظم کی موجودگی میں شفاف تحقیقات کا بالکل کوئی امکان نہیں ہے۔نیب ،ایف بی آر،ایف آئی اے اور دوسری ایجنسیوں میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ وہ وزیرِ اعظم کے خلاف غیر جانبداراہ تحقیقات کا ڈول ڈال سکیں ۔،۔

سچ تو یہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف ایک متنازعہ شخصیت بن چکے ہیں جس سے ان کی اپنی جماعت میں پھوٹ پڑ چکی ہے۔ایک دھڑا نواز شریف کے استعفی کا مطالبہ کر رہا ہے اور ان کی جگہ وزیرِ داخلہ چوہدری نثار کو وزارتِ عظمی کی مسند پر دیکھنے کا خواہش مند ہے جبکہ دوسرا دھڑا خواجہ آصف اور اسحاق ڈار کی صورت میں اس کی مخالفت کر رہاہے۔مسلم لیگ (ن) اس وقت بند گلی میں داخل ہو گئی ہے اور جیسے جیسے عدالتی کاروائی آگے بڑھے گی اس کی مقبولیت ہوا ہوتی جائے گی۔پی پی پی ۲۷ دسمبر کو احتجاج کی دھمکی دے رہی تھی لیکن اس کے احتجاج اور دھرنے کا دور دور تک کہیں نام و نشان نہیں ہے ۔پی پی پی اب بغلیں جھا نک رہی ہے کیونکہ آصف زرداری کی نئی حکمتِ عملی نے سارا منظر نامہ ہی بدل دیا ہے اور مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے خلاف احتجاج اور دھرنا قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ابھی تک تو یہ واضح نہیں ہو سکا کہ پاناما لیکس کا مقدمہ جب عدالت میں ہے تو پی پی پی دھرنے سے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے ؟ کیا وہ انقلاب کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتی ہے؟کیا وہ فوج کو شب خون کیلئے دعوت دینا چاہتی ہے ؟ کیا وہ انتشار کو ہوا دینا چاہتی ہے؟ کیا وہ سیاسی بد امنی پھیلا نا چاہتی ہے؟اس کے دھرنے کے مقاصد کیا ہیں اسے خود بھی علم نہیں ہے۔اس کا نیا نعرہ ہے کہ ہم نواز شریف کو بھاگنے نہیں دیں گے حالانکہ پہلے تو یہی کہتی رہی ہے کہ کوئی مائی کا لال نواز شریف سے استعفی نہیں لے سکتا۔کیسی تبدیلی ہے کہ دھرنے کی مخالفت کرنے والے اب دھرنے کا اعلان کر رہے ہیں ۔سیاست میں ٹائمنگ بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔پاناما لیکس کسی غیبی امداد سے کم نہیں لیکن پی پی پی کی قیادت اس کا بر وقت ادراک کرنے سے معذور رہی جبکہ عمران خان نے اس کا بھر پور فائدہ اٹھا کر عوام کو کرپشن کے خلاف کھڑا کر دیا ہے۔عمران خان نے شریف فیملی کے خلاف جو کچھ کرنا تھا وہ کر چکاہے اور اب وہی کرپشن مکاؤ جنگ کا ہیرو ہے۔اس صورتِ حال میں پی پی پی ایک تماشائی کا رول ہی ادا کر سکتی ہے ۔ کرپشن کے خلاف عوام کی نفرت کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے یا عمران خان کا تیر ناکامی سے دوچار ہوتا ہے اس کا فیصلہ بہت جلد ہو جائیگا لیکن اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ عدالتی فیصلے کے بعد عمران خان مسلم لیگ (ن) کا پیچھا چھوڑ دے گا تو وہ سخت غلطی پر ہیں۔،۔

پاناما لیکس کا فیصلہ کچھ بھی ہوشریف فیملی کی کرپشن کے خلاف عمران خان کا رویہ تبدیل نہیں ہوگا ۔انتخابی دھاندلی کے خلاف کیااس کی آواز دھیمی پڑ گئی ہے؟ وہ اب بھی حکومت کو دھاندلی کی پیدا وار کہہ کر مخا طب کرتا رہتاہے ۔ کیا عدالت کا یہ کہہ دیناکہ میاں محمد نواز شریف باکل صاف اور پاک دامن ہیں عوام کو مطمئن کر سکے گا ؟عوام کے اذہان میں جو شکو ک و شبہات پرورش پا رہے ہیں اور جو کچھ وہ اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اس پر انھیں کوئی بھی مطمئن نہیں کر سکے گا؟ انھیں کون یقین دلا سکے گا کہ میاں برادران نے بے پناہ دولت کے جو انبار لگائے ہیں اس میں کر پشن اور لوٹ مار کا کوئی عمل دخل نہیں ہے؟عمران خان اس بات پر بالکل واضح ہیں کہ میاں برادران نے اپنی دولت کرپشن سے بنائی ہے لہذا وہ میاں برادران کی غیر قانونی دولت کے ارتکاز کے خلاف کسی بھی وقت دھرنے کی کال دے سکتے ہیں۔عوام جب قانونی راستوں سے ملزموں کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالنے سے قاصر ہو جائیں تو پھر وہ انقلاب کا راستہ اختیار کرنے کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔میری ذاتی رائے ہے کہ یہی ایک راستہ ہے جس سے پاکستانی سیاست پاک صاف ہو سکتی ہے۔موجودہ قوانین کرپشن کو ختم کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے کیونکہ یہ بے اثر ہو چکے ہیں۔ حکمران حیلے بہانوں سے انصاف کی راہ میں روک بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور یوں قومی دولت ان کے ذاتی تجوریوں کی زینت بنتی رہتی ہے۔عوام کے پاس ا نقلاب کے علاوہ کوئی ایسا راستہ نہیں بچا جس سے وہ حکمرانوں سے ان کی لوٹ مار کا حساب لے سکیں۔۔سیاسی جماعتوں کی چالاکیاں اور مک مکا کی پالیسیوں نے عوام کے ساتھ جو کھلواڑ کیا ہے اس نے عوام کا جینا حرام کر رکھا ہے۔اب اگر انھیں اپنے حقوق کا حصول ممکن بنا نا ہے تو شائد اس کا آخری راستہ انقلاب ہی رہ گیا ہے ۔ قوم لوٹ مار اور کرپشن کا کلچر دیکھ دیکھ کر تنگ پڑ چکی ہے لیکن اسے منزل نہیں مل رہی۔وہ ترقی کرنا چاہتی ہے اور خوشخالی سے اپنا دامن بھرنا چاہتی ہے لیکن حکمرانوں کی لوٹ مار ان کے راستے کی دیوار بن چکی ہے ۔ اب اس دیوار کو ڈھانا ہی ان کے لئے آخری حل رہ گیا ہے ۔تمام جمہوریت پسندوں کی خواہش ہے کہ پاکستان کا مقدر ایک ایسے ملک کاہو جس میں قانون کی حکمرانی ہو اور جمہوریت ہی اس کی پہچان ہواور قومی خزانے کو ذاتی مقاصد کیلئے خرچ کرنا قومی جرم قرار پائے لیکن اگر جمہوری انداز سے حاصل ہونے کی ساری راہیں مسدود ہوجا ئیں تو پھر انقلاب کی راہ ہی آخر ی راہ قرار پاتی ہے۔،۔
 
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 516827 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.