16 ربیع الثانی……یوم وفات مولانا خلیل احمد سہارنپوری ؒ (دوسری اور آخری قسط:)
(Mufti Muhammad Waqas Rafi, )
(دوسری اور آخری قسط:)
1290 ھ میں اﷲ تعالیٰ نے آپ ؒ کو ایک فرزند عطا فرمایا جس کا نام محمد
ابراہیم رکھا ۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے اڑھائی اڑھائی سال کے وقفہ سے دو
لڑکیاں پیدا ہوئیں ، لیکن دوسری لڑکی کی ولادت بحکم قضائے الٰہی ماں اور
بیٹی دونوں کے لئے عالم آخرت کا بلاوا تھی ۔ چنانچہ صرف تین دن گزارنے کے
بعد اوّل معصوم نے دنیا کو الوداع کہا اور پھر اس کے بعد اسی دن والدہ بھی
راہی آخرت ہوگئیں۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔
1297 ھ میں آپؒ کا دوسرا نکاح انبیٹہ میں حاجی نظام الدین صاحب کی بیوہ
بیٹی کے ساتھ دو ہزار روپے مہر کے عوض ہوا ، جن سے تین لڑکیاں ( زبیدہ ،
سلمیٰ اور ام ہانی )پیدا ہوئیں جن میں سے ایک لڑکی تو لڑکپن ہیں اور دوسری
دو شادی کے بعد عنفوانِ شباب ہی میں وفات پاگئی تھیں ۔
1293 ھ میں آپؒ امام ربانی قدس سرہ کی اجازت سے بطورِ مدرس کے بھوپال تشریف
لے گئے ، حتیٰ کہ جب حج کا موسم آیا تو آپؒ کے دل میں حج بیت اﷲ اور زیارتِ
روضۂ رسولؐ کا داعیہ اور شوق پیدا ہوا اس لئے آپؒ نے حج کی درخواست جمع
کرائی اور کچھ پیشگی تنخواہ لے کر سفر حج کے لئے نکل پڑے ۔
حج اور مدینۃ الرسولؐ کی زیارت کرنے کے بعد چند روز وطن رہ کر مدرسہ
اسلامیہ سکندر آباد میں بطورِ مدرس اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے ، لیکن اہل
سکندر آباد کے لئے آپؒ کے فیوض و برکات سے مستفید ہونا مقدر نہ تھا اس لئے
بعض ایسی صورتیں پیش آئیں کہ وہاں سے آپؒ کو مستعفی ہوکر وطن واپس لوٹنا
پڑا ۔ اس کے بعد چیف جج بھوپال نے مولانا محمد یعقوب صاحبؒ کی خدمت میں ایک
درخواست بھیجی کہ ہمیں ایک لائق اور قابل مدرس کی ضرورت ہے ۔ مولانا محمد
یعقوب صاحبؒ کی نظر انتخاب آپؒ پر ٹھہر گئی ۔ آپؒ نے ہرچند کہ اپنی نااہلیت
کا اظہار کیا مگر مولانا محمد یعقوب صاحب نے آپ کی ایک نہ سنی اور آپؒ کو
بطورِ مدرس دوبارہ بھوپال روانہ کردیا ، اور پھر اسی قیام بھوپال کے زمانہ
میں آپؒ کو دوسرے حج کا اتفاق بھی نصیب ہوا ۔
آپؒ کے قیام بھوپال کے زمانہ میں ایک متبع سنت بزرگ نے بریلی میں مصباح
العلوم کے نام سے ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی اور امام ربانی قدس سرہ سے اس کے
لئے مدرس اوّلتجویز کرنے کی درخواست کی ، امام ربانی قدس سرہ نے مولانا
خلیل احمد سہارن پوریؒ کو 40 روپے مشاہرہ پر مدرس اوّل بناکر بریلی بھیج
دیا ۔ اس کے بعد 1308 ھ میں امام ربانی قدس سرہ کی نظر دور بین نے آپؒ کو
بریلی سے واپس بلا بھیجا اور 30 روپے مشاہرہ پر دار العلوم دیوبند کا مدرس
دوم (نائب مدرس) مقرر کردیا ۔
1314 ھ میں جب مولانا حبیب الرحمن صاحبؒ نے مظاہر العلوم سہارن پور سے
استعفیٰ دے دیا تو مدرسہ کے ممبران نے حضرت گنگوہیؒ کی خدمت میں ایک زور
دار درخواست لکھی کہ مولانا خلیل احمد سہارن پوریؒ یہاں مدرس اوّل بناکر
بھیج دیا جائے ، حضرت نے یہ درخواست منظور فرمالی اور مولانا خلیل احمد
سہارن پوریؒ کو بطورِ مدرس اول مظاہر العلوم روانہ فرمادیا ، جہاں تقریباً
31 برس تک مسلسل ایک ہی جگہ بیٹھ کر آپؒ علوم نبویہؐ کا درس دیتے رہے
اورتشنگانِ علوم کو اپنے علمی فیوض و برکات سے برابر سیراب کرتے رہے ۔
مولانا خلیل احمد سہارن پوریؒ کو علم حدیث اور علم فقہ سے ایک خاص قسم کی
مناسبت تھی اور طبعی طور پر آپؒ ان ہی دو علوم سے خاصی رغبت اور دلچسپی
رکھتے تھے ، چنانچہ آپ ؒ کی زندگی کا ماحاصل اور نچوڑعلم حدیث میں’’ بذل
المجہود‘‘ کی صورت میں جب کہ علم فقہ میں’’ فتاویٰ خلیلیہ‘‘ کی صورت میں اس
حقیقت پر شاہد عدل ہیں ۔
آپ ؒ کی جملہ تصانیف یہ ہیں : (۱) بذل المجہود عربی شرح سنن ابی داؤد (۲)
ہدایات الرشید (۳) مطرقۃ الکرامہ (۴) اتمام النعم (۵) تنشیط الآذان (۶)
المہند علیٰ المفند (۷) فتاویٰ مظاہر العلوم المعروف بہ فتاویٰ خلیلیہ
وغیرہم۔
مولانا خلیل احمد سہارن پوریؒ کو حق تعالیٰ نے ظاہری حسن صورت کے ساتھ ساتھ
باطنی حسن سیرت میں سے وافر حصہ عطا فرما رکھا رکھا تھا ۔چنانچہ آپؒ کا قد
مبارک مائل بہ طویل تھا، رنگ صاف تھا، جس میں سرخی جھلکتی تھی ، بدن دبلا
اور چھریرا نہایت ہی نرم اور نازک تھا اور چہرہ مبارک چودہویں کا چاند گویا
گلاب کا تازہ پھول معلوم ہوتا تھا۔ بول چال میں صاف گو اور نصیحت و خیر
خواہی میں شفاف جو ، تہجد کی دس یا بارہ رکعتوں میں روزانہ دو پارے پڑھنے
کا معمول تھا ۔ چال چلن میں تیزی تھی ۔ فجر کی نماز سے لے کر اشراق تک
مراقبہ فرماتے ۔ سفرو حضر میں مسواک کا اہتمام رہتا۔ شوربہ چپاتی آپؒ کا
مرغوب کھانا تھا ۔ آم ، انجیر اورپنیر شوق سے کھاتے ۔ دودھ اور شکر والی
بلا نمک چائے پسند تھی ۔ دن کو کھانے کے بعد گھنٹہ سوا گھنٹہ قیلولہ کرنے
کی عادت تھی ۔ ہمہ وقت باوضو رہتے ۔ لباس میں کرتہ ، پائجامہ اور صدری زیب
تن فرماتے ۔ سفید رنگ کا لباس پسند تھا ۔ عطر سے رغبت تھی ۔ مزاج انتہائی
نفیس اور ہنس مکھ تھا۔ نشست و برخاست میں سادگی اور بے تکلفی عام تھی۔رمضان
المبارک کا پورا مہینہ تلاوت کلام الٰہی کا عمومی اور اخیر عشرہ میں اعتکاف
کا خصوصی اہتمام رہتا ۔
قیام سہارن پور کے زمانہ میں 16 شوال 1344 ھ کو آپ ؒ ڈیڑھ سال کی رخصت لے
کر اپنی معیت میں ایک بہت بڑے قافلہ کے ساتھ حجازِ مقدس تشریف لے گئے ۔
پہلے ہجرت کا ارادہ نہیں تھا مگر چند ماہ بعد جب آپؒ اپنے رفقاء کو
ہندوستان بھیج چکے تو ہجرت کی نیت پختہ کرلی ۔
یہ عجیب حسن اتفاق دیکھئے کہ مدرسہ مظاہر العلوم سہارن پور سے ڈیڑھ سال کی
حاصل کردہ رخصت ہی بالآخر آپؒ کی بقیہ حیات دنیویہ کی مدت ثابت ہوئی کہ اس
میں نہ ایک دن کم ہوا اور نہ زیادہ ۔ یہ رخصت کا زمانہ 16/ ربیع الثانی کو
ختم ہورہا تھا اور سورج ڈوبنے میں صرف ایک گھنٹہ باقی تھا کہ مؤرخہ16 ربیع
الثانی 1346 ھ بروز بدھ کو مکمل 24 گھنٹے عالم خاموشی میں گزار کر جاں کنی
کے وقت ’’اﷲ اکبر ، اﷲ اکبر ‘‘کہتے ہوئے علم و عمل کا یہ آفتاب جہاں تاب
اور ماہتاب عالم تاب مدینہ منورہ کے افق میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا
اور جنت البقیع جیسے مقدس اور پاکیزہ قبرستان میں حضرات اہل بیت کے عین
متصل آغوشِ لحد میں محو استراحت کردیا گیا ۔
(ختم شد) |
|