16 ربیع الثانی……یوم وفات مولانا خلیل احمد سہارنپوری ؒ (پہلی قسط:)
(Mufti Muhammad Waqas Rafi, )
یہ ماہِ صفر 1297 ھ کے اواخر کی بات ہے کہ
شاہ مجید علی نامی شخص کے یہاں ایک بچہ نے جنم لیا ، جس کا نام گھر والوں
نے ’’ خلیل احمد‘‘ رکھا ۔ شاہ مجید علی چوں کہ ریاست میں ملازم تھے اورسفر
کی وہ سہولتیں جو آج کل ہم لوگوں کو بآسانی میسر ہیں انہیں قطعاً میسر نہیں
تھیں ،اس لئے برسوں بعد وطن واپس آنا ہوتا تھا ۔ اس وجہ سے مولانا خلیل
احمد سہارن پوریؒ کی پرورش اور ابتدائی تربیت زیادہ تر اپنے ماموں اور نانا
کے یہاں ہوتی رہی ، تاہم آپؒ کی والدہ ماجدہ آپؒ کو لے کر انبیٹہ آتیں اور
یہاں سسرال میں بھی کافی قیام کیا کرتی تھیں۔
جب آپؒ نے اپنی عمر کی پانچویں بہار میں قدم رکھا تو آپؒ کو مکتب میں
بٹھانے کی تجویز ہوئی اور خود آپؒ کے نانا مولانا مملوک علی صاحبؒ نے تبرکا
ً بسم اﷲ شریف پڑھا کر آپؒ کو ابتدائی قاعدہ شروع کرادیا ۔ چوں کہ فطرتاً
آپؒ انتہائی ذکی اور ذہین تھے اس لئے ناظرہ قرآن شریف جلد ہی ختم کرلیا۔
قرآن مجید ختم کرنے کے بعد اردو اورفارسی کی ابتدائی تعلیم آپؒ نے انبیٹہ
اور نانوتہ میں مختلف اساتذہ سے حاصل کی ۔ لیکن جس نظم اور قابلیت کے ساتھ
آپؒ جلد فارغ ہونا چاہتے تھے وہ انبیٹہ یا نانوتہ میں کہیں نظر نہ آتا تھا
۔ اتفاق سے آپ ؒ کے چچا مولوی انصار علی صاحبؒ ( جوکہ ریاست گوال یار میں
صدر الصدور کے عہدہ پر فائز تھے) رخصت لے کر وطن واپس تشریف لائے اور
بھتیجے کا ذوق و شوق اور اس کی ذکاوتِ حس دیکھ کر اسے اپنے ساتھ گوال یار
لے جانے کے خواہش مند ہوئے اور وہاں لے جاکر خود عربی و دینیات کی کتابیں
پڑھائیں ۔
لیکن اس کے کچھ ہی عرصہ بعد اتفاق سے آپؒ کے والد ماجد شاہ مجید علی ریاست
کی ملازمت ترک کرکے وطن واپس تشریف لے آئے تو ساتھ ہی اپنے لخت جگر کو بھی
گوال یار سے واپس بلالیا (کہ خود پردیس سے وطن واپس آکر بھی اگر لختِ جگر
پردیس میں نگاہوں سے اوجھل رہے تو مزاہی کیا ہے؟۔ )
چنانچہ والدین کی محبت بھری آغوش اور نظر کے زیر سایہ رہ آپؒ کی تعلیم
مولوی سخاوت علی صاحبؒ کے حوالہ ہوئی جو قصبہ کے مشہور استاذ اور انتہائی
قابل احترام عالم دین تھے ، آپؒ نے ان سے ’’کافیہ‘‘ تک پڑھا ، مگر آپؒ کی
ذکاوت ٗ استاذ میں جس قابلیت اور تعلیم میں جس نظم کی جویاں تھی وہ یہاں
حاصل نہ تھی اور یوں بھی وطن کا قیام اور گھر کا عیش و آرام اس شوق کو پورا
نہ ہونے دیتا تھا جو آپؒ کے قلب میں موجیں مار رہا تھا ۔
آخر کار بعض اعزہ کی رائے یہ ہوئی کہ اس طرح عمر ضائع کرنے سے کیا حاصل؟ ان
کو کسی انگریزی سکول میں داخل کرادیا جائے تاکہ انگریزی پڑھ لیں ۔ چنانچہ
آپؒ اور آپؒ کے چچا زاد بھائی مولانا صدیق احمد صاحبؒ قصبہ کے انگریزی سکول
میں داخل ہوگئے جس کا ماسٹر ہندو تھا، اور ’’کافیہ‘‘ تک نحوی استعداد ہونے
کی وجہ سے چھ ماہ میں ان دونوں حضرات نے اتنی انگریزی سیکھ لی کہ دو سال سے
انگریزی پڑھنے والی کلاس کا مقابلہ کرنے لگے ۔ اور گرائمر ( انگریزی تراکیب)
پر تو اتنے قادر تھے کہ ماسٹر حیران ہوتا اور کہا کرتا کہ تم ایسی جلد اور
صحیح ترکیب کرتے ہو کہ میں بھی نہیں کرسکتا ۔ مولانا صدیق احمد صاحبؒ نے
جواب دیا کہ ہم نے عربی میں ’’شرحِ جامیؒ‘‘ پڑھی ہے ، اس لئے نحوی تراکیب (
گرائمر) کسی بھی زبان کی ہوں ہمیں کوئی دشواری نہیں ہوتی ۔ اس نے کہا کہ ہم
کو بھی عربی پڑھا دو ! فرمایا بہت اچھا! َمگر اس کو پڑھانے کا وقت کیا آتا
خود انگریزی پڑھنے کا وقت ہی ختم کے قریب تھا ، گوکہ اپنے بڑوں کی تعمیل
میں انگریزی شروع کردی تھی مگر دل اُچاٹ تھا اور وہ قلب جو ’’علوم عربیہ‘‘
کی لذت سے آشنا ہوچکا تھا اس بات کا خواہش مند تھا کہ اے کاش! علوم دینیہ
کی تعلیم کا کوئی بہترین انتظام ہوجائے اور یہاں سے چھٹکارا نصیب ہو۔
اُدھر سنہ1283 ھ میں دار العلوم دیوبند کے قیام کی خبر آپؒ کے کانوں میں
پڑی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ وہاں کے صدر مدرس آپؒ کے ماموں حضرت مولانا
محمد یعقوب صاحبؒ قرار پائے ہیں ، اس لئے آپؒ کی طلب میں اور بھی جوش آیا
اور والدین سے دیوبند جانے کی اجازت طلب کرلی، چنانچہ والدین نے بخوشی
اجازت دے دی اور آپ ؒنے دار العلوم دیوبند میں آکر داخلہ لے لیا۔
دارالعلوم دیوبند داخل ہوجانے کے چھ ماہ بعد سنہ 1283 ھ میں جب مدرسہ مظاہر
العلوم سہارن پور کا افتتاح ہوا تو آپؒ کا دل کسی طرح دارالعلوم دیوبند سے
اُچاٹ ہوگیا اور آپؒ سہارن پور چلے آئے اور یہاں آکر مدرسہ مظاہر العلوم
سہارن پور میں داخلہ لے لیا ۔
مظاہر العلوم سہارن پور میں آپؒ نے حدیث و فقہ اور اصول و تفسیر کی اکثر و
بیشتر کتابیں مولانا محمد مظہر صاحبؒ سے پڑھیں ، جب کہ منطق و فلسفہ اور
ہیئت و ریاضی کی کتابیں دوسرے اساتذہ سے پڑھیں ۔حتیٰ کہ محض 19 سال کی عمر
میں پانچ سال کی قلیل مدت میں درس نظامی کا کورس مکمل کرکے 1288 ھ میں
مدرسہ مظاہر العلوم سہارن پور سے آپؒ نے سند فراغت حاصل کی۔
علوم عقلیہ و نقلیہ سے فراغت حاصل کرنے کے بعد معرفت الٰہیہ کی جستجو میں
آپؒ کی نظر انتخاب قطب الاقطاب حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ پر جاٹھہری
اور آپؒ حضرت گنگوہیؒ کے ہاتھ پر بیعت کرنے ان کے یہاں حاضر ہوگئے ۔ حضرت
گنگوہیؒ نے پہلے تو انکار فرمایا، لیکن جب بعد میں آپؒ کی سچی عقیدت اور
دلی محبت کو محسوس کیا تو فوراً آپؒ کو بیعت کرلیا اور پھر کچھ ہی عرصہ بعد
خلافت جیسے عظیم منصب پر آپؒ کو فائز کردیا ۔
1289 ھ میں جب آپؒ کی عمر کا اکیسواں سال شروع ہوا تو آپؒ کے عقد نکاح کی
تاریخ مقرر کی گئی اور تقریباً بارہ یا چودہ اعزہ کی بہت ہی مختصر اور سادہ
برات چار یا پانچ بہل میں سوار ہوکر انبیٹہ سے گنگوہ روانہ ہوئی ۔ مولانا
رشید احمدگنگوہیؒنے خطبۂ نکاح پڑھ کر اڑھائی ہزار روپیہ مہر مقرر کرکے اپنے
روحانی بیٹے کا عقد نکاح کیا۔(جاری ہے) |
|