دل والوں کی دلی

دہلی جسے مقامی طور پر دِلّی کہا جاتا ہے، بھارت کا دار الحکومتی عملداری ہے۔ 17 اعشاریہ 3 ملین آبادی کے ساتھ یہ بھارت کا دوسرا اور دنیا کا آٹھواں سب سے بڑا شہر ہے۔ دریائے جمنا کے کنارے یہ شہر چھٹی صدی قبل مسیح سے آباد ہے۔ سلطنت دہلی کے عروج کے ساتھ یہ شہر ایک ثقافتی، ثقافتی و تجارتی مرکز کے طور پر ابھرا۔ شہر میں عہد قدیم اور قرون وسطیٰ کی کئی یادگاریں اور آثار قدیمہ موجود ہیں۔ سلطنت دہلی کے زمانے کا قطب مینار اور مسجد قوت اسلام ہندوستان میں اسلام کی شان و شوکت کے اولین مظاہر ہیں۔ عہد مغلیہ میں جلال الدین اکبر نے دارالحکومت آگرہ سے دہلی منتقل کیا جبکہ 1639ء میں شاہجہاں نے دہلی میں ایک نیا شہر قائم کیا جو 1649ء سے 1857ء تک مغلیہ سلطنت کا دارالحکومت رہا۔ یہ شہر شاہجہاں آباد کہلاتا تھا جسے اب پرانی دلی کہا جاتا ہے۔ غدر (جنگ آزادی 1857ء ) سے قبل برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کر چکی تھی اور برطانوی راج کے دوران کلکتہ کو دارالحکومت کی حیثیت حاصل تھی۔ بالآخر جارج پنجم نے 1911ء میں دارالحکومت کی دہلی منتقلی کا اعلان کیا اور 1920ء کی دہائی میں قدیم شہر کے جنوب میں ایک نیا شہر "نئی دہلی" بسایا گیا۔ 1947ء میں آزادء ہند کے بعد نئی دہلی کو بھارت کا دارالحکومت قرار دیا گیا۔ شہر میں بھارتی پارلیمان سمیت وفاقی حکومت کے اہم دفاتر واقع ہیں۔ آج دہلی بھارت کا ثقافتی، سیاسی و تجارتی مرکز ہے۔دلی 28.61°N 77.23°E طول البلدوعرض البلدپرواقع ہے جو ہندوستان کے شمال میں ہے۔اس کی سرحدشمال،مغرب اور جنوب میں ہندوستان کی ریاست ہریانہ سے ملتی ہے اورمشرق میں اتر پردیش (UP) سے ملتی ہے۔ برطانوی دور اقتدار میں دلی صوبہ پنجاب کا حصہ تھا اور ابھی بھی تاریخی اور ثقافتی طور پر دلی صوبہ پنجاب سے جڑا ہوا ہے۔یمنا کے سیلابی میدان اوردلی کی نا ہموار چوٹیاں یہ دلی کے دو نمایاں جغرافیائی پہلو ہ ہیں۔ یمناندی پنجاب اور یوپی کے بیچ تاریخی سرحدہیں، اور اس کے سیلا بی میدان زراعت کے لیے زرخیز مٹی فراہم کراتے ہیں لیکن ڈھلان سطح سیلاب کی باز گشتی کی وجہ بھی بنتے ہیں۔یمنا ندی ہندؤ ں کی مقدس ندی ہے جوکہ دلی سے گذرنے والی واحد بڑی ندی بھی ہے۔ہندن ندی غازی آباد کو دلی کے مشرقی حصے سے الگ کرتی ہے۔دلی کا پہاڑی سلسلہ جنوب میں اراولی پھاڑی سلسلے سے شروع ہوتا ہے اور شہر کے مغربی،شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے کا محاصرہ کرتا ہے۔اس کی بلندی ۸۱۳ فٹ ہے یہ اس کی سب سے اہم خوبی ہے۔

جامع مسجد دہلی : مسجد جہاں نما، جو جامع مسجد دہلی کے نام سے مشہور ہے، بھارت کے دارالحکومت دہلی کی اہم ترین مسجد ہے۔ اسے مغل شہنشاہ شاہجہاں نے تعمیر کیا جو 1656ء میں مکمل ہوئی۔ یہ بھارت کی بڑی اور معروف ترین مساجد میں سے ایک ہے۔ یہ پرانی دلی کے مصروف اور معروف ترین مرکز چاندنی چوک کے آغاز پر واقع ہے۔مسجد کے صحن میں 25 ہزار سے زائد نمازپڑھسکتے ہیں۔ اس کی تعمیر اس زمانے میں 10 لاکھ روپے کی لاگت آئی تھی ۔شاہجہاں نے اپنے دور حکومت میں دہلی، آگرہ، اجمیر اور لاہور میں بڑی مساجد تعمیر کرائیں جن میں جامع مسجد دہلی اور لاہور کی بادشاہی مسجد کا طرز تعمیر تقریباً ایک جیسا ہے۔مسجد کے صحن تک مشرقی، شمالی اور جنوبی تین راستوں سے بذریعہ سیڑھیاں رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ مسجد کے شمالی دروازے میں 39، جنوبی میں 33 اور مشرقی دروازے میں 35 سیڑھیاں ہیں۔ مشرقی دروازہ شاہی گزر گاہ تھی جہاں سے بادشاہ مسجد میں داخل ہوتا تھا۔مسجد 261 فٹ طویل اور 90 فٹ عریض ہے، اس کی چھت پر تین گنبد نصب ہیں۔ 130 فٹ طویل دو مینار بھی مسجد کے رخ پر واقع ہیں۔ مسجد کے عقبی جانب چار چھوٹے مینار بھی واقع ہیں۔

دہلی کا لال قلعہ : اس زمانے میں دریائے جمنا کے نزدیک واقع لال قلعہ مغلیہ سلطنت کے سنہری دور کی یادگارہے۔حالانکہ اب جمنا ندی وہاں نہیں ہے ،اسے سترویں صدی میں مغل بادشاہ شاہجہان نے تعمیر کرایا تھا۔ اسی قلعے کے دیوان خاص میں تخت طاؤس واقع ہیجہاں بیٹھ کر مغل بادشاہ ہندوستان کے طول و عرض پر حکومت کرتے تھے۔یہ سلسلہ 1857ء کی جنگ آزادی تک جاری رہا جب غدر کے دوران انگریز فوج نے دلی (دہلی)پر اپنے قبضے کے بعد اس وقت کے مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو قلعے سے نکل جانے کا حکم دیا تھا اور انہیں شہر کے جنوب میں واقع قطب مینار کے احاطے میں منتقل کر دیا تھا۔سن اٹھارہ سو ستاون سے لے کر سن انیس سو سینتالیس تک لال قلعہ برطانوی فوج کے قبضے میں رہا اور اس میں انہوں نے اکثر ہندوستانی قیدیوں کو قید رکھا۔آزادی کے بعد لال قلعہ کے بیشتر حصے ہندوستانی فوج کے قبضے میں آگئے اور یہاں سنگین نوعیت کے مجرموں کو رکھنے کے سیل بھی بنائے گئے۔قلعے کے دو دروازے ہیں جن میں سے ایک دلی دروازہ جبکہ دوسرا لاہوری دروازہ کہلاتا ہے۔ جب یہ قلعہ تعمیر کیا گیا تھا اس وقت دریائے جمنا اس کی عقب کی دیواروں کو چھوکر گزرتا تھا لیکن اب وہ کچھ فاصلے پر بہتا ہے۔ہر سال یوم آزادی کے موقع پر وزیر اعظم اسی قلعے کی فصیل سے خطاب کرتے ہیں۔

قطب منار : ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں واقع یہ72.5 میٹر لمبے مینار کی تعمیر، در حقیقت ایک اجتماعی تعمیر ہے، جس میں مینار، مسجد اور دیگر تعمیرات ہیں، اس مجمع کو ‘‘قطب کامپلیکس‘‘ کہتے ہیں۔ مانا جاتا ہے کہ اس کی تعمیر ہندو اور جین مندروں کو ڈھا کر کی گئی ہے۔ اس کی تعمیر قطب الدین ایبک کے زیر اہتمام 1193ء میں شروع ہوئی۔

 
Shuaiburrahman Aziz
About the Author: Shuaiburrahman Aziz Read More Articles by Shuaiburrahman Aziz: 14 Articles with 19920 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.