نئی دہلی میں''آئی ایس آئی'' کی بلڈنگ

نرملا دیش پانڈے نے اچانک کہا کہ آپ پاکستان سے آئے ہیں تو آپ کا قیام ''آئی ایس آئی '' کی بلڈنگ میں ہو گا۔ہم سب بہت حیران ہوئے کہ دہلی میں '' آئی ایس آئی '' کی بلڈنگ اور ہمارا وہاں قیام۔ہماری اس الجھن پر وہ مسکراتے ہوئے بولیں،جی ہاں '' آئی ایس آئی '' کی بلڈنگ۔ببیتا چودھری کی رہنمائی میں گاڑیوں پہ سوار ہو کر روانہ ہو ئے۔گاڑیاں ایک بڑی عمارت کے سامنے رک گئیں۔وہ ایک ہاسٹل تھا جہاں غیر ملکی بھی ٹہرتے تھے۔ہاسٹل کے گیٹ کے اوپر لگے بورڈ پہ لکھا ہوا تھا''آئی ایس آئی( انڈین سوشل انسٹیٹیوٹ)''۔
لاہور سے پی آئی اے کی فلائٹ سے دہلی پہنچے۔امیگریشن کی کاروائی مکمل کرانے کے بعد لائونچ میں پہنچے تو بھارتی رکن پارلیمنٹ،معروف سماجی ورکر،نرملا دیش پانڈے(آنجہانی) کی سیکرٹری ببیتا چودھری ہمیں لینے کے لئے موجود تھیں۔انہوں نے ہمارے لئے دو گاڑیوں کا انتظام کیا تھا لیکن گروپ کے12میں سے تین افراد کے لئے جگہ کم پڑ گئی چناچہ ایک ٹیکسی کا انتظام کیا گیا ۔میںدوساتھیوں کے ہمراہ ٹیکسی میں سوار ہو گیا۔تین گاڑیوں کا قافلہ نرملا دیش پانڈے کی سرکاری رہائش گاہ کی طرف روانہ ہو ا۔ٹیکسی ڈرائیور کو اس علاقے کا نام بتاتے ہوئے اگلی گاڑیوں کے پیچھے آنے کی ہدایت کی گئی تھی لیکن ٹریفک کے رش کی وجہ سے ہماری ٹیکسی پیچھے رہ گئی۔ڈرائیور نے بتائے گئے علاقے میں سرکاری علامات والی ایک بڑی عمارت کے احاطے میں ٹیکسی داخل کر دی۔وہاں وردیوں اور بغیر وردیوں میں ہر طرف بھارتی فوجی نظر آئے۔ایک دفتر نما عمارت کے سامنے رک کر وہاں موجود سادہ لباس میں موجود تین چار فوجیوں سے ایڈریس معلوم کیا لیکن وہ لا علم تھے۔خوش قسمتی سے ہمارے پاس ببیتا چودھری اور نرملا دیش پانڈے کے گھر کا نمبر موجود تھا،ہم نے ٹیلی فون کے بارے میں معلوم کیا تو انہوں نے کہا کہ ہاں آپ ٹیلی فون کر سکتے ہیں۔ہم نے ٹیکسی ڈرائیور کو فون نمبر دیئے اور وہ ٹیلی فون کرنے عمارت کے اندر چلا گیا۔اتنے میں سادہ لباس میں ایک گورکھا فوجی،جو شراب کے نشے میں چور تھا،ہماری گاڑی کے پاس آ گیا اور پوچھنے لگا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں؟ ہم نے جواب دیا،پاکستان سے،تو وہ حیران ہوا اور ہنسے لگا کہ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔میں نے کہا کہ ہم واقعی پاکستان سے آئے ہیں،تو اس کی خوش اخلاقی میں مزید اضافہ ہو گیا اور وہ اظہار محبت میں ہم سے لپٹنے لگا اور اصرار کرنے لگا کہ آپ چائے پی کر جائیں۔اس گورکھا فوجی کی محبت حد سے بڑہنے لگی تو اس کے ساتھیوں نے اسے الگ کرتے ہوئے معذرت کی کہ ان کا ساتھی نشے میں ہے۔ شاہجہان روڈ پر واقع منسٹر ز کالونی میں نرملا دیش پانڈے کی سرکاری رہائش گاہ پہنچے تو انہوں نے ہمارا استقبال کیا۔انہوں نے بتایا کہ ان کے گھر پاکستان سے آئے مہمان ٹہرتے رہتے ہیں اور انڈین حکام اس بات پہ اعتراض بھی کرتے ہیں لیکن انہوں نے کبھی ان کے اعتراض کی پرواہ نہیں کی۔رات ہو چکی تھی، نرملا دیش پانڈے نے اچانک کہا کہ آپ پاکستان سے آئے ہیں تو آپ کا قیام ''آئی ایس آئی '' کی بلڈنگ میں ہو گا۔ہم سب بہت حیران ہوئے کہ دہلی میں '' آئی ایس آئی '' کی بلڈنگ اور ہمارا وہاں قیام۔ہماری اس الجھن پر وہ مسکراتے ہوئے بولیں،جی ہاں '' آئی ایس آئی '' کی بلڈنگ۔ببیتا چودھری کی رہنمائی میں گاڑیوں پہ سوار ہو کر روانہ ہو ئے۔گاڑیاں ایک بڑی عمارت کے سامنے رک گئیں۔وہ ایک ہاسٹل تھا جہاں غیر ملکی بھی ٹہرتے تھے۔ہاسٹل کے گیٹ کے اوپر لگے بورڈ پہ لکھا ہوا تھا''آئی ایس آئی( انڈین سوشل انسٹیٹیوٹ)''۔

بھارتی پارلیمنٹ کے رکن عبدالرشیدشاہین کی دعوت پر وفد کے ارکان نے بھارتی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا دورہ کیا۔ پارلیمنٹ کی تعمیر برطانیہ کے دور حکومت کے دوران 12 فروری 1921 ء میں شروع ہوئی اور 6 سال کی مدت میں 83 لاکھ کی لاگت سے 1927 ء میں مکمل ہوئی۔1928 ء میں آل انڈیا اسمبلی کا پہلا اجلاس ہوا۔ اس کاڈیزائن ہربرٹ بیکراورایڈمن لوئیس نے تیار کیا تھا۔ بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھا کے 545 ارکان ہیں جبکہ ایوان میں 550 ارکا ن کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ ایوان میں ووٹنگ کے لئے ہر رکن کی نشست پرالیکٹرانک ووٹنگ کا سسٹم نصب ہے۔ ایوان کے اوپر گیلری میں سفارتکاروں صحافیوں اور پبلک کے بیٹھنے کے لئے الگ الگ حصے ہیں۔ پارلیمنٹ کے ایوان بالا راجیہ سبھا کا ایوان لوک سبھا سے ذرا چھوٹا ہے۔ ارکان کی تعداد 245 ہے جبکہ ہال میں 250 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ راجیہ سبھا کے رکن کی معیاد 6 سال جبکہ لوک سبھا کے رکن کی معیاد 5 سال ہے۔راجیہ سبھا کے ایک تہائی رکن ہر دو سال بعد ریٹائرڈ ہوتے ہیں۔ راجیہ سبھا اور لوک سبھا کے درمیان میں مشترکہ اجلاس کے لئے ہال ہے اس ہال کے سامنے ایک احاطہ ہے جس میں عبدالکلام آزاد جواہر لعل نہروں پٹیل اور جے پرکاش نارائن کے دیوقامت مجسمے نصب ہیں۔ جائنٹ سیشن کے اس ہال میں انگریزوں نے تقسیم برصغیر کا اعلان کیا تھا اور اسی ہال میں 113 اجلاسوں کے بعد بھارت کا آئین منظور ہوا تھا۔ جائنٹ سیشن کے ہال کے مرکزی دروازے کے دونوں طرف دیوار میں گوپال کرشن کھوکھلے اور اروند گھوس (فلاسفر) کے چہروں کے مجسمے نصب ہیں ۔ پارلیمنٹ کی عمارت میں سرخ رنگ کا راجھستانی پتھر نصب ہے اس پتھر کا تعمیرات میں استعمال سب سے پہلے مغلوں نے کیا۔پارلیمنٹ کی عمارت سے باہرنکلیں تو سامنے ہی گاندھی کا مجسمہ نصب ہے۔ پارلیمنٹ کی بیرونی دیوار کے اندر الیکٹرانک تاروں کا جھال بچھا ہوا ہے۔ پارلیمنٹ میں عبدالرشید شاہین سے تعارف اور گفتگو ہوئی۔ ایک بات پر انہوں نے کہاکہ پاکستان سے کشمیریوں کے وفد کا کشمیر کے دورے پر آنا آسمان سے برف توڑ کر لانے کے متراد ف ہے۔
دہلی میں حضرت نظام الدین اولیاء اورحضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے مزاروں کے علاوہ مرزا غالب کے مزار پر بھی گئے۔پرانی دہلی کے علاقے بلیماران میں مسلمان کانگریس عہدیدار نے وفد کے اعزاز میں اپنے گھر افطار ڈنر دیا۔ یہ گھر مرزا غالب کے محلے میں واقع حویلی نما یہ گھر دہلی کی ثقافت کا آئینہ دار ہے۔ ہمارے میزبان نے یہ گھر مولانا فارقلید سے خریدا تھا جو اخبار ''الخدمت'' کے ایڈیٹر تھے۔ مرزا غالب کی حویلی احاطہ کالے صاحب میں واقع ہے۔ نرملا دیش پانڈے کے گھر پہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے وزیراعلیٰٰ مفتی سعید کی دختران محبوبہ مفتی اورڈاکٹر ربیعہ سعید سے ملاقات ہوئی ۔بھارت کے مرکزی اور سماج وادی پارٹی کے سربراہ وزیر رام دلاس پاسوان نے پاکستان سے آئے کشمیری وفد کو اپنے افطار ڈنر میں مدعو کیا جس میں بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی مرکزی وزراء ارکان پارلیمنٹ پاکستانی ہائی کمشنر عزیز احمد خان اور کئی ملکوں کے سفیر بھی شریک تھے۔اسی رات پونے بارہ بجے وفد کے ارکان جے پور راجھستان سے آنے والی ٹرین کے ذریعے دہلی سے جموں کیلئے روانہ ہوئے۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 768 Articles with 610972 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More