امریکا: تقریب حلف برداری قریب…… 200 سے زاید تنظیمیں سراپا احتجاج
(عابد محمود عزام, Lahore)
امریکا کے صدارتی انتخابات میں کامیاب ہونے
والی متنازعہ شخصیت ڈونلڈ ٹرمپ نفرت انگیز انتخابی مہم ، متنازعہ بیانات
اور اخلاقی دیوالیہ پن کے متعدد اسکینڈلز کی وجہ سے ہمیشہ میڈیا پر چھائے
رہے ہیں۔ متنازعہ بیانات کے سبب امریکا میں انتخابی مہم چلنے سے پہلے ان کے
خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے تھے، جن میں انتخاب میں کامیاب ہونے کے بعد
شدت آگئی تھی۔ امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ دنیا کی سپر پاور کے 45
صدر کی حیثیت سے 20 جنوری بروز جمعہ حلف اٹھائیں گے، لیکن اسے سے پہلے ایک
بار پھر ان کے خلاف امریکا بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔
انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کے متعدد متنازعہ بیانات جن میں مسلمانوں
اور خواتین کے خلاف دیے جانے والے بیانات سرفہرست ہیں، ان کی وجہ سے حریف
جماعت ڈیمورکریٹک پارٹی کے ساتھ خود اپنی جماعت ری پبلکن پارٹی کی بھی سخت
مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازعہ بیانات سے ری پبلکن
پارٹی کے 70 ری پبلکن اراکین نے پارٹی کی قومی کمیٹی کے چیئرمین کے نام خط
میں لکھا تھا کہ ٹرمپ کی نااہلی، متنازع بیانات اور ریکارڈ غیرمقبولیت
پارٹی کو لے ڈوبے گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران کئی متنازع اور
نسلی امتیاز پر مبنی بیانات دیے اور خاص طور پر مسلمانوں کو دہشت گردی سے
جوڑنے کی کوشش کی۔ وائٹ ہاؤس کا بادشاہ بننے کی دوڑ میں اترنے کے لیے ٹرمپ
نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز ’’دشمن‘‘ کے خلاف ’’جنگ‘‘ کے عنوان سے کیا اور
اسلام و مسلمانوں پر تابڑ توڑ ’’حملے‘‘ کرنا شروع کیے۔ ٹرمپ شاید امریکا کے
عہدہ صدارت کے پہلے متمنی شخص تھے، جنہوں نے مسلمانوں کے امریکا میں داخلے
پر پابندی کا مطالبہ کیا اور صدر بننے کے بعد امریکا میں موجود تمام مساجد
کو بند کرنے کے احکامات جاری کرنے کا عندیہ بھی دیا۔ مساجد اور مسلمانوں کی
نگرانی اور مسلمانوں کے رجسٹریشن ڈیٹابیس کا بھی مطالبہ کیا اور یہ بھی کہا
کہ اسلام امریکا سے نفرت کرتا ہے اور عالمِ اسلام کی اکثریت امریکا سے سخت
نفرت کرتی ہے۔
مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے متنازعہ اور سخت گیر خیالات کا اظہار کر
کے پورے ملک میں ہیجان اور بے چینی پیدا کی، جس کے بعد انتخاب سے قبل ہی
ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف امریکا بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔ امریکی
عوام کی بڑی تعداد نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکا اور میکسیکو کے درمیان
حائل دیوار تعمیر کرنے، گیارہ ملین غیرقانونی پناہ گزینوں کو ملک سے نکالنے
اور مسلمانوں کی امریکا میں داخلے پر پابندی عاید کیے جانے، امیگریشن اور
ماحولیات بارے بیانات دینے پر بڑے پیمانے پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔
جب ڈونلڈ ٹرمپ امریکی انتخاب میں کامیاب ہوگئے تو اس کے بعد بھی امریکی
عوام نے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف کھل کر اپنے غصے کا اظہار کیا اور امریکا بھر
میں مظاہرے کیے۔ مظاہرین نے نہ صرف ٹرمپ کے پْتلے، بلکہ امریکی پرچم بھی
نذر آتش کیے جس سے واضح ہوتا ہے کہ ٹرمپ کی کامیابی سے امریکی عوام میں
مخالفت کا غبار کس حد تک بھر چکا ہے، جبکہ ٹرمپ کے منتخب ہونے کے بعد
امریکی اقلیتوں کی جانب سے اس خوف کا برملا اظہار کیا گیا کہ ٹرمپ کی
کامیابی سے نسل پرستی بڑھے گی۔ ملک میں موجود نسل پرست اور متعصب عناصر
مزید بے باک ہو جائیں گے اور ایسا ہوا بھی ہے، جب سے ڈونلڈ ٹرمپ امریکی
انتخابات میں کامیاب ہوئے ہیں، امریکا میں مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف
تعصب اور نفرت کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق امریکا
میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے بعد امریکا میں ہسپانویوں، سیاہ فاموں، عورتوں،
ایشیائیوں اور مسلمانوں کے خلاف تعصب اور نفرت انگیز جرائم کی شرح میں غیر
معمولی اضافہ ہوا ہے۔
امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری کو امریکا کے 45 صدر کی حیثیت
سے حلف اٹھائیں گے۔ امریکا میں ہر چار سال کے بعد نئے صدر کے چناؤ کے بعد
حلف برداری کی تقریب منعقد ہوتی ہے۔ امریکا کے نئے صدر کے باضابطہ تقرر اور
اقتدار کی منتقلی کے اس اہم موقعے کو پوری دنیا میں نئی تبدیلیوں کے تناظر
میں دیکھا جاتا ہے۔ تقریب حلف برادری میں سابق امریکی صدور، اہم عالمی
شخصیات اور امریکا کے دوست ممالک کے سربراہان خصوصی طور پرشرکت کرتے ہیں۔
ملک کے 12 سے زاید سیکورٹی ادارے تقریب کے مقام کی سیکورٹی کو یقینی بنانے
کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں اور اس وقت تک سیکورٹی انتظامات پر رقم 10
کروڑ ڈالر سے زاید رقم خرچ ہو چکی ہے، توقع ہے کہ یہ رقم آخری روز تک اس سے
بھی کہیں زیادہ ہو جائے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی سیکورٹی کے حوالے
سے اتنے بڑے پیمانے پر اخراجات کی ایک وجہ یہ ہے کہ نو منتخب صدر کے وائٹ
ہاؤس میں داخلے کے موقع پر امریکا میں 26 احتجاجی مظاہرے بھی منعقد ہو رہے
ہوں گے، جن میں ایک اندازے کے مطابق تقریباً 40 ہزار سے زاید لوگ ٹرمپ کے
صدر منتخب ہونے کی مخالفت میں سڑکوں پر ہوں گے۔ امریکی اخبار نے مقامی
ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ تقریب کے موقع پر واشنگٹن میں 32 ہزار پولیس
اہل کاروں کے ساتھ نیشنل گارڈز کے 8 ہزار اہلکار تعینات ہوں گے، اس کے
علاوہ 5 ہزار سیکورٹی اہلکار پوری تقریب کے دوران واشنگٹن کی نگرانی کے
فرائض انجام دیں گے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ سیکورٹی اداروں کے لیے سب
سے اہم مسئلہ تقریب کے دوران دہشت گرد کارروائی کی روک تھام اور ٹرمپ کے
خلاف احتجاج کو پر تشدد کارروائیوں اور جھڑپوں میں تبدیل ہونے سے روکنا ہو
گا، کیونکہ انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں نے ہفتے کے روز سے دارالحکومت
واشنگٹن میں مظاہرے شروع کر دیے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب سے
پہلے شروع کیے جانے والے ان مظاہروں میں سرگرم کارکنوں کا ہدف آنے والی
امریکی انتظامیہ پر یہ زور دینا ہے کہ وہ انصاف اور مساوات کے لیے کام کرے۔
انسانی حقوق کے ایک سرگرم راہنما الفرڈ شارپٹن جو نیئر کی قیادت میں ہزاروں
مظاہرین نے شدید سردی اور بارش میں نیشنل مال سے مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی
یادگار تک دو میل کے راستے پر مارچ کیا اور ’’انصاف نہیں تو امن بھی نہیں‘‘
کے نعرے لگائے۔ مظاہرے کے قائدین نے کہا کہ وہ انصاف اور مساوات کے حصول کے
لیے اپنی جنگ جاری رکھیں گے۔ اپنی طویل انتخابی مہم کے دوران مسٹر ٹرمپ کے
تارکین وطن، خواتین، صدر اوباما کے صحت کی دیکھ بھال کے قانون کے خلاف
بیانات نے بہت سے لوگوں کو برہم کیا ہے اور ان میں سے کئی افراد ان مظاہروں
کے ذریعے اپنی ناراضی کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔ تقریباً 30 گروپس اور
تنظیموں نے ٹرمپ مخالف مظاہروں کا اجازت نامہ بھی حاصل کیا ہے۔ یہ مظاہرے
مسٹر ٹرمپ کی حلف برداری سے پہلے، حلف برداری کے موقع پر اور اس کے بعد ہوں
گے۔ ہزاروں مظاہرین نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ حلف برداری کی تقریب میں رکاوٹ
ڈالیں گے، جس میں حلف برداری کی پریڈ کے راستے پر قائم سیکورٹی کی چوکیوں
کو بند کرانا شامل ہے۔
امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ 20جنوری کو امریکا کے 45ویں صدر کے طور
پر حلف لیں گے، جبکہ اس کے ایک روز بعد 21 جنوری خواتین بھی ٹرمپ کے خلاف
مظاہرے کر نے کا پروگرام بنا رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں روزنامہ واشنگٹن پوسٹ میں
شائع ہونے والی خبر کے مطابق ہزاروں خواتین ٹرمپ کے عورتوں کے لیے امتیازی
نقطہ نظر کے خلاف 21 جنوری کو کانگریس کے جوار میں مظاہرہ کریں گی۔ امریکا
کی تاریخ میں خواتین کے حقوق کے لیے سب سے بڑے احتجاجی مظاہرے کی تیاری ہو
رہی ہے، جس میں دو سو سے زیادہ ترقی پسند تنظیمیں حصہ لے رہی ہیں۔ مظاہرے
کا اہتمام سوشل میڈیا پر ایک تجویز سے شروع ہوا اور اب یہ مظاہرہ امریکی
تاریخ میں عورتوں کے حقوق کے لیے سب سے بڑے مظاہرے میں تبدیل ہوتا نظر آ
رہا ہے۔ یہ مظاہرہ واشنگٹن کے علاقے لنکن میموریل سے شروع ہو کر وائٹ ہاؤس
کے باہر ختم ہوگا۔ مظاہرے کے منتظمین اب ہر ریاست میں اسی نوعیت کے مظاہرے
کے لیے فیس بک پیچ تیار کر رہے ہیں اور ابھی تک متعدد ریاستوں میں احتجاج
کے لیے فیس بک پیچ سامنے آچکے ہیں۔ مظاہرے کے منتظمین کا کہنا ہے کہ لنکن
میموریل سے وائٹ ہاؤس تک پرامن مارچ کے ذریعے وہ نئے امریکی صدر سے اپنی
ناپسندیدگی کا اظہار کریں گے۔ مظاہرے میں تمام خواتین، ٹرانسجینڈر اور حقوق
نسواں کے حامیوں کو مظاہرے میں شرکت کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ مظاہرے کے
منتظمین کا کہنا ہے کہ وہ اس مظاہرے کے ذریعے ایسے وقت عورتوں کے حقوق کی
بات کرنا چاہتے ہیں جب ملک میں جنسی حملوں کے مرتکب افراد کو ’’معاف‘‘ کرنے
اور انہیں اعلیٰ عہدوں کے لیے قابل قبول بنایا جا رہا ہے۔ منتظمین کا کہنا
ہے کہ ہر وہ شخص جو عورتوں کے حقوق کا حامی ہے، اسے اس مظاہرے میں شرکت کی
دعوتِ عام ہے۔ مظاہرے کے منتظمین اپنے دوسرے شہروں سے آنے والے مظاہرین سے
کہہ رہے ہیں کہ جلد از جلد ہوٹل میں بکنگ کروا لیں کیونکہ صدر کی حلف
برداری تقریب کی وجہ سے واشنگٹن میں پہلے ہی ہوٹلوں میں بکنگ مشکل ہو چکی
ہے۔ سیاہ فام وکلا عورتوں کی تنظیم کی سربراہ کیلن وائٹنگہیم نے کہا ہے کہ
امریکا جیسے متنوع ملک میں کسی ایک مسئلے پر اتنا بڑا مظاہرہ پہلے کبھی
نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے کہا ’’ہمیں ایک طاقت کے طور پر اکٹھے ہونا ہے تاکہ
کوئی ہمیں نظر انداز نہ کر سکے۔‘‘ جمہوری ریاستوں میں عوام کو اظہار رائے
کی آزادی کا حق حاصل ہوتا ہے، لیکن امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف عوام کی
جانب سے جو ردعمل انتخاب کے بعد اور اب سامنے آرہا ہے، وہ ظاہر کرتا ہے کہ
امریکا میں اب مخالفانہ رجحانات کا ابال اپنی انتہا تک پہنچ چکا ہے۔ بلاشبہ
اس میں زیادہ قصور ڈونلڈ ٹرمپ کی متنازعہ شخصیت اور ان کے پالیسی بیانات کا
بھی ہے، جس نے نہ صرف امریکی عوام، بلکہ دنیا کے بیشتر ریاستوں کو ان کے
خلاف کر دیا۔ عالمی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسکینڈلز میں پھنسے ڈونلڈ
ٹرمپ کے لیے حکومت کرنا آسان نہیں ہوگا، متنازعہ بیانات کی وجہ سے انہوں نے
اپنے لیے بہت سے مسائل کھڑے کر لیے ہیں اور عوام میں ان کے خلاف نفرت شدت
اختیار کرتی جارہی ہے، جس کے بعد ممکن ہے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھی شدت
اختیار کرتا جائے۔
|
|