امریکہ کا نیا صدراور عالمِ اسلام ۰۰۰

امریکی پالیسی فلسطین کے حق میں یا اسرائیل کے۰۰۰

20؍ جنوری کو امریکی صدارت پر ایک اور شخصیت کا نام ضبطِ تحریر ہوجائے گا۔ صدر بارک اوباما جنہوں نے اپنی تقریب حلف برداری کے موقع پر جس نام کے ذریعہ صدر امریکہ کی حیثیت سے حلف لیا تھا وہ بارک حسین اوباما تھا ۔ سوپر پاور ملک کی تقریب حلف برداری اور وائٹ ہاؤس میں سیاہ فام صدر کا داخلہ دنیا کے لئے حیرت کا باعث تھا۔ لیکن بارک حسین اوباما نے آٹھ سالہ دور اقتدار میں یعنی دو میعاد مکمل کرتے ہوئے عالمی سطح پرسیاہ فام افراد کو احساسِ کمتری سے نکالنے کی کوشش کی یا نہیں یہ الگ بات ہے لیکن اتنا ضرور ہیکہ انہوں نے اپنے سابق صدور کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے عالمِ اسلام کے لاکھوں مسلمانوں کے قتل عام میں اہم کردار ادا کیا۔ دنیا میں سوپر پاور کہلائے جانے والا امریکہ خود اپنے صدارتی انتخابات میں روس کی دخل اندازی کو محسوس نہ کرسکا اور نومنتخبہ امریکی صدر ٹرمپ کی کامیابی اور ہلیری کلنٹن کی ناکامی کے لئے صدر روس ولایمیرپوتین کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی جس سے امریکہ کی نااہلی ثابت ہوتی ہے۔ اوباما کے نام کے ساتھ جب مسلمانوں نے حسین کا نام دیکھا تو سمجھا تھا کہ شایداب عالمِ اسلام کے ان ممالک میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و بربریت کا خاتمہ ہوجائے گا کیونکہ جس طرح سینئر بش اور جونیئر بش اور بل کلنٹن کے دورِ اقتدار میں عراق ، افغانستان و دیگر اسلامی ممالک میں مسلمانوں کا قتل عام اور انکی معیشت کو شدید نقصان ہوا تھا اور اس دور کا خاتمہ ہوجائے گا۔لیکن بارک حسین اوباما کے دور اقتدار میں اس میں مزید اضافہ ہوا اور داعش جیسی نام نہاد جہادی تنظیم کا وجود ہی نہیں بلکہ اس نے عراق اور شام کے کئی حصوں پر قبضہ کرکے اپنی خلافت کا اعلان کردیا ۔داعش کا سربراہ البغدادی کون ہے اور کیا چاہتا ہے اس سلسلہ میں متضاد خبریں میڈیا کے ذریعہ عالمی سطح پر گردش کرتی رہیں اور آج بھی داعش کی وحشیانہ سرگرمیوں کی خبریں میڈیاکے ذریعہ منظرعامِ پر آتی ہیں جس میں داعش کے ارکان کی ظالمانہ کارروائیوں کو پیش کیا جاتا ہے۔ اس میں کتنی صداقت ہے اور کیا واقعی داعش ایک جہادی تنظیم ہے اس سلسلہ میں عالمِ اسلام کی معتبر شخصیات نے داعشی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے اسے اسلام کے خلاف قرار دیا ہے۔ ایک طرف امریکہ اور دیگراتحادی ممالک شام کے صدر بشارالاسد کے خلاف تو دکھائی دیتے ہیں لیکن داعش و دیگر نام نہاد جہادی شدت پسندتنظیموں کے خاتمہ کے لئے کارروائی کرتے ہوئے عام مسلمانوں کا قتل عام کررہے ہیں تو دوسری جانب روس اور ایران ، بشارالاسد کے مخالف تنظیموں کے خلاف کارروائی کو حق بجانب قرار دیتے ہوئے عام مسلمانوں کا قتل عام کررہے ہیں۔ تیسری جانب داعش و دیگر تنظیمیں بھی عام مسلمانوں کے قتل عام میں پیچھے نہیں ہے۔ اس طرح شام کی خانہ جنگی میں ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر معصوم و گناہ بچے، مرد و خواتین شامل ہیں۔ عراق میں جس طرح الزامات عائد کرکے بش نے صدر صدام حسین کے اقتدار کو ختم کیا اور صدام حسین کو ایک ایسے دن پھانسی کی سزا دی گئی جبکہ اقوام عالم کے مسلمان حج کی سعادت سے فیضیاب ہورہے تھے۔ صدام حسین نے جس بہادری سے اپنی جانِ آفریں کو کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے خالق حقیقی کے سپرد کیا اسے دیکھ کر مسلمان ہی نہیں دشمنانِ اسلام بھی حیرت زدہ رہ گئے اور یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ صدام حسین حق پر تھے جو شہادت کا درجہ پاگئے اور ظالم بش و ظالم بلیئر اپنی ناکامی یا اسلامی دشمنی کو چھپانے کے لئے عالمِ اسلام کو دہشت گردی کی خطرناک گھاٹی میں ڈال کر تماشا دیکھ رہے ہیں ۔ ان ظالم حکمرانوں اور انکے ماتحتین نے اپنی ناکامی اور غلطی کا اظہار کیا لیکن اس کے باوجود دنیا کی کوئی طاقت نے ان ظالم حکمرانوں اور انکے اتحادی خیر خواہوں کو سزا دینے کی بات تک نہیں کی۔ آج عراق، افغانستان، شام، یمن، پاکستان و دیگر اسلامی ممالک میں دہشت گرد تنظیموں کا وجود ان ہی ظالم حکمرانوں کی وجہ سے ہوا ہے اور اب یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے بلکہ اب یہی دہشت گرد تنظیمیں خود عام معصوم ، بے بس ، بے سہارا مسلمانوں کے قتل عام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں اس کے پیچھے دشمنانِ اسلام کی سازشوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جہادی تنظمیں ان ہی افراد کو اپنا نشانہ بنارہی ہے جو اسلام کے ماننے والے یعنی مسلمان ہیں۔ اب جبکہ 20؍ جنوری کو ایک اور امریکی صدر کی صدارت کا خاتمہ ہوجائے گا اور اب اس پر فائز ہونے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تعلق سے بھی مسلمانوں میں کوئی بہتر رائے نہیں ہے کیونکہ ذرائع ابلاغ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی تقاریر کے دوران مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے کی کوشش کی ہے اسی لئے ان سے کوئی اچھی امید نہیں رکھی جاسکتی۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ مسلمانوں کے خیر خواہ ہیں تو سب سے پہلے وہ امریکی مسلم لڑکیوں و خواتین کے ساتھ بعض علاقوں میں جو مخالفت ہورہی ہے یا جس طرح حجاب پہنی ہوئی مسلم لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ بُراسلوک کیا جارہا ہے اس کے خلاف کارروائی کریں۔ عالمِ اسلام کے ساتھ انکے دور اقتدار میں کس طرح کا ماحول رہے گا اس سلسلہ میں ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا لیکن اتنا ضرور ہے کہ وہ اپنی تجارتی سرگرمیوں کے دوران مسلم تجارتی ساتھیوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھے ہوئے تھے۔ اب دیکھنا ہیکہ ڈونلڈ ٹرمپ جو روسی صدر ولایمیر پوتین کے ساتھ بہتر تعلقات بنائے رکھتے ہیں یا نہیں، کیونکہ انہو ں نے انتخابی تقاریر کے دوران ولایمیر پوتین کی تعریف کی تھی جبکہ امریکہ اور روس کے درمیان تعلقات اتنے بہتر نہیں جتنے کے ٹرمپ اور پوتین کے درمیان سمجھے جارہے ہیں۔ نئے نامزد امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلر سن کے مطابق میکسیکو ہمارا دیرینہ دوست اور پڑوسی ہے، ہمیں اس سے تعلقات رکھنے چاہئیے،روسی صدر پیوٹن کو جنگی جرائم کا مجرم نہیں سمجھتاتاہم امریکہ کیلئے روس خطرے کا باعث ہے۔اور اْس کی حالیہ سرگرمیاں امریکی مفادات کو نظرانداز کرنے کی مترادف ہیں۔ اوباما کے دور اقتدار تک شام کے معاملے میں بھی روس اور امریکی پالیسی مختلف رہی ہے اب دیکھنا ہیکہ کیا ٹرمپ اور پوتین کے درمیان کوئی خفیہ معاہدہ طے پاتا ہے جس کے ذریعہ بشارالاسد کے اقتدار کو مضبوطی حاصل ہو اس سلسلہ کی ایک کڑی کا آغاز ہوچکا ہے اور روس کی جانب سے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ شام امن بات چیت کیلئے پہل ہوچکی ہے۔ روسی وزیر خارجہ کے مطابق ماسکو نے امریکہ کی نئی انتظامیہ کو قازغستان میں شامی بات چیت کے لئے مدعو کیا ہے، انہوں نے ایک نیوز کانفرنس میں کہاکہ روس کو امریکی منتخبہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دہشت گردی سے نمٹنے کے مسئلہ پر حوصلہ افزائی کی ہے، لاریوف نے توقع ظاہر کی ہے کہ شامی بحران پر اوباما انتظامیہ کے بہ نسبت نئی انتظامیہ بہتر اور نتیجہ خیز تعاون کرے گی۔ اب دیکھنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اور روس کے درمیان بات چیت نتیجہ خیز ثابت ہوکر شام کے حالات پرسکون ہوتے ہیں یا پھر وہی ماضی کی طرح بشارالاسد کی فوج شامی اپوزیشن اور عام عوام پر کسی نہ کسی بہانے فضائی کارروائی کرتے ہوئے ظالمانہ کارروائی جاری رکھتی ہے۔ اگر روس اورنئی امریکی انتظامیہ کے درمیان نتیجہ خیز بات چیت ہوتی ہے پھر دیکھنا ہوگا کہ سعودی عرب ، عرب امارات و دیگر اسلامی ممالک جو بشارالاسد کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لئے امریکہ پر زور دیتے رہے ہیں وہ خاموشی اختیار کریں گے یا پھر بشارالاسد نے جس درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شام کے عام عوام کو اپنی ظالم فوج اور روس و ایران کی ظالم افواج کے ذریعہ قتل عام کیا اس کو مدنظر رکھ کر بشارالاسد کی بے دخلی کیلئے ڈٹے رہیں گے اور اگر امریکہ روس کی بات مان کر بشارالاسد کا ساتھ دیتا ہے تو ان اسلامی ممالک اور امریکہ کے درمیان تعلقات خراب ہوسکتے ہیں۰۰۰
امریکی پالیسی فلسطین کے حق میں یا اسرائیل کے۰۰۰

ایک طرف امریکہ فلسطین کے حق میں دکھائی دیتا ہے تو دوسری جانب اس کی پالیسیوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اسرائیل کی کسی نہ کسی طرح بھرپور مدد کررہا ہے ویسے دنیا جانتی ہے کہ امریکہ ، اسرائیل کی ہمیشہ تائید و حمایت کرتا رہا ہے یہ اور بات ہے کہ گذشتہ دنوں اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف ویٹو نہ کیا ۔ ٹرمپ کی پالیسی اسرائیلی حق میں دکھائی دیتی ہے اس سلسلہ میں مفتی اعظم فلسطین اور مسجد اقصیٰ کے امام وخطیب الشیخ محمد حسین نے نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اسرائیل میں امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کیے جانے کے اعلان کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اورکہاہے کہ امریکی سفارت خانے کہ مقبوضہ بیت المقدس منتقلی پورے عالم اسلام پر حملہ تصور ہوگا۔عرب ٹی وی کے مطابق الشیخ محمد حسین نے دوٹوک الفاظ میں بیت المقدس کا دفاع کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کیا جاتا ہے تو یہ دنیا بھر کے مسلمانوں پر ظلم کے مترادف ہوگا۔انہوں نے کہا کہ نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اسرائیل میں امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کا وعدہ صرف فلسطینی قوم ہی نہیں بلکہ عرب ممالک اور پوری مسلم امہ پر حملہ کے مترادف ہوگا۔ ایسے کسی بھی اقدام پر عالم اسلام اور عرب ممالک خاموش نہیں رہیں گے۔الشیخ محمد حسین نے کہا کہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کا چلن انتہائی خطرناک ہے۔ اس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں مزید ابتری اور بدامنی پھیلے گی اور قیام امن کی مساعی کو شدید نقصان پہنچے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنا عالمی معاہدوں اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔اب دیکھنا ہیکہ عالمِ اسلام اس سلسلہ میں کوئی پیشرفت کرتے ہوئے ٹرمپ کے فیصلہ کی مخالفت کرتے ہیں یا خاموشی اختیار کرتے ہیں۔

سوڈان پرعائد امریکی پابندیاں جزوی طور پربرخواست
بارک اوباما کے دور کے ان آخری دنوں میں امریکی حکومت نے سوڈان پر بیس سالوں کے دوران عائد پابندیوں کو جزوی طور پر ختم کردیا ہے۔عرب ٹی وی کے مطابق امریکی حکومت نے یہ اقدام سوڈانی حکومت کا دہشت گردی کے خلاف مثبت اقدامات کے اعتراف میں کیا ہے، تاہم ابھی تک اس کی وضاحت نہیں کی گئی کہ امریکہ نے کون سی پابندیاں ختم کی ہیں۔سوڈان کے خلاف امریکہ نے پہلی مرتبہ1997 میں اور دوسری مرتبہ 2006 میں پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ گزشتہ سال ستمبر میں امریکی وزارت خارجہ نے انسداد دہشت گردی پر تعاون کرنے پر سوڈان کا خیر مقدم کیا تھا۔بتایا جاتا ہے کہ سوڈان اپنی سرزمین پر داعش اور دیگر انتہاپسند گروپوں کو کنٹرول کرنے میں کامیاب رہا ہے۔خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود نے سوڈان کے صدر محمد عمر البشیر کو ٹیلیفون پر امریکہ کی جانب سے سوڈان پرعاید بعض پابندیاں اٹھائے جانے پرمبارک باد پیش کی ۔دوسری جانب سوڈانی صدر نے خادم الحرمین الشریفین اور سعودی حکومت کی طرف سے خرطوم پر عاید امریکی پابندیوں میں کمی کے لیے کی جانے والی مساعی کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔ سوڈانی صدر کا کہنا تھا کہ ان کے ملک پر عاید امریکی پابندیوں میں نرمی میں سعودی عرب کی مساعی کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔متحدہ عرب امارت کی مسلح افواج کے نائب سربراہ اور ابوظہبی کے ولی عہد شیخ محمد بن زائد النہان نے بھی سوڈان کے صدر عمرحسین البشیر کو سوڈان پر عائد امریکی پابندیوں کے خاتمے پر مبارک باد پیش کی ہے۔سوڈانی صدر سے اپنے ٹیلیفونک رابطے میں شیخ محمد بن زائد النہان نے اس فیصلے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے سوڈان کی مالی مشکلات حل ہوں گی اور اس کی اقتصادی حالت میں بہتری آئے گی۔دونوں رہنماؤں نے باہمی دلچسپی کے امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔

یو اے ای میں داؤد ابراہیم کی املاک ضبط۰۰؟
متحدہ عرب امارات نے ہندوستانی دعویٰ کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے امارات میں داؤد ابراہیم کی املاک کو ضبط کئے جانے کی خبر کو غلط قرار دیا۔ ہندوستان میں متعین متحدہ عرب امارات کے سفیر احمد البنّٰی نے نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ متحدہ عرب امارات میں انڈرورلڈڈان داؤد ابراہیم کی 15,000ڈالر کی املاک کو ضبط کرنے کی اطلاع غلط ہے۔ 4؍ جنوری کوشائع ہونے والی اس خبر فرقہ پرست تنظیموں کیلئے نئی کامیابی سمجھی جارہی تھی لیکن ان فرقہ پرست طاقتوں کو اس وقت شدید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب ہندوستان کومطلوب ممبئی 1993ء کے بم دھماکوں کے سلسلہ میں مجرم سمجھے جانے والے ڈان داؤد ابراہیم کی املاک کی ضبطی کی خبر کو غلط کہا گیا ۔ بی جے پی نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے مودی حکومت کی کامیابی قرار دیا تھااور ملک کی پانچ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات کے اعلان کے بعد اس خبر کے عام ہوتے ہی اسے انتخابی کامیابی کایک اہم ایشو سمجھا جارہا تھا ، اس خبر کے غلط ثابت ہونے پر نریندر مودی کی ناکامی ہی نہیں بلکہ بی جے پی کے لئے بھی ایک بڑا دھکہ ہے۔

روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ظلم و ستم کی آزادانہ تحقیقات ہونی چاہئیے،اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کی خصوصی رابطہ کار برائے میانمار یانگھی لی شورش زدہ صوبے راکھین پہنچ گئیں، جہاں وہ ملکی سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے روہنگیا مسلمانوں پر مبینہ ظلم و ستم کی چھان بین کریں گی۔میڈیارپورٹس کے مطابق سفارتی ذرائع نے بتایا کہ اقوام متحدہ کی خصوصی رابطہ کار برائے میانمار یانگھی لی اپنے بارہ روزہ دورے کے دوران روہنگیا مسلم برادری پر بڑھتے ہوئے تشدد کی چھان بین کرنے کے بعد ایک رپورٹ مرتب کریں گی۔ اقوام متحدہ کی خصوصی رابطہ کار برائے میانمار یانگھی لی نے راکھین کی صورتحال کو ’ناقابل قبول‘ قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اس صوبے میں مسلمان اقلیت کے ساتھ جنسی زیادتی، قتل، ظلم و ستم اور لوٹ مار کے الزامات کی آزادانہ طور پر تحقیقات کرائی جانا چاہییں۔ میانمار روانہ ہونے سے قبل اس خاتون سفارت کار نے کہا کہ راکھین کی صورتحال ابتر ہو رہی ہے اور اس تناظر میں عالمی برادری کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 358 Articles with 255935 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.