جذبہِ ایمانی کا اظہار

۲۰ جنوری ۲۰۱۷؁ کاڈولنڈ ٹرمپ کی حلفِ وفاداری کا دن ہے۔ایک نئے انسان کے عروج و اقتدارکا نیا دن۔ایک نیا سورج طلوع ہو گا اور اس کی شعاؤں سے پورا عالم منور ہو جائے گا۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ سورج دنیا کو امن اور رواداری کی روشنی سے سرفراز کرے گا یا یہ بھی اپنے پیشروؤں کی طرح دنیا میں کشت و خون کو ہوا دے گا؟نومبر میں ہونے والے انتخابات کے بعد منتخب صدر تقریبا ستر دنوں کے وقفے کے بعد حلف اٹھا تا ہے۔مقصد اس کا صرف یہی اتنا ہوتا ہے کہ اس وقفہ میں اسے ریاستی امور کے بارے میں جانکاری دی جائے اور امریکی ترجیحات سے اسے آگاہ کیا جائے۔اسی سلسلے میں صدر بارک حسین اوباما سے ڈولنڈ ٹرمپ کی کئی ملاقاتیں بھی بہو چکی ہیں جو اسی جانکاری کا حصہ ہیں ۔ خفیہ ایجنسیاں اور دوسرے اہم ادارے بھی اپنی اپنی سطح پر جانکاری کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں اور اس ساری مشق کا لبِ لباب یہ ہوتا ہے کہ نیا صدر جب وہائٹ ہاؤس میں بحثیتِ صدر اپنا پہلا قدم رکھے تو وہ ریا ستی امور کے ہر شعبہ سے با خبر ہو تا کہ اسے فیصلہ سازی میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔حلف برداری میں اتنی طویل مدت کا انتظار امریکی نظامِ حکومت کی مضبوطی کا مظہر ہے ۔چونکہ یہ آئینی معاملہ ہے لہذا اس پر کوئی اعتراض اور بحث و مبا حثہ نہیں ہوتا ۔ہارنے اور جیتنے والا دونوں اتنے دنوں کی خلیج کو بسرو چشم قبول کرتے ہیں اورآئین کی پاسداری کا عہد کرتے ہیں۔اس بات سے ہرشخص آگاہ ہے کہ امریکی صدر پورے عالم کا صدر تصور ہوتا ہے کیونکہ اسے بڑے بڑے فیصلے کرنے ہوتے ہیں اور اس کے فیصلوں سے ساری اقوامِ عالم کو پالا پڑنا ہوتا ہے اور اس کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ حلف اٹھانے سے قبل مکمل طور پر اپ ڈیٹ ہو جائے۔ڈولنڈ ٹرمپ شائد امریکی تاریخ کا پہلا صدر ہے جو طاقتور ہونے کے ساتھ ساتھ متنازعہ بھی ہے۔اس کی جیت پربھی کئی سوالیہ نشان ہیں۔ای میل سکینڈل اور روسی مداخلت ایک ایسا باب ہے جس پر سارے انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ الیکشن سے دو ہفتے قبل تک ہیلری کلنٹن کا پلڑا بھاری تھا لیکن پھرای میل سکینڈل نے ہیلری کلنٹن کی برتری پر سوالیہ نشان ڈال دئے اور پھرروسی ایجنسیوں کی کارستانی نے معاملات کو مزید الجھا دیا۔امریکی عوام ذہنی طور پر ڈولنڈ ٹرمپ کو قصرِ صدارت میں دیکھنے سے خائف ہیں کیونکہ ڈولنڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں جس طرح کے نعرے بلند کئے تھے انھوں نے امریکی معاشرے کے تار پور ہلا کر رکھ دئے ہیں۔کبھی یہ نہیں سنا گیا تھا کہ منتخب صدر کے حلف اٹھانے سے قبل ہی اس کے خلاف جلسے جلوسوں،ریلیوں اور احتجاج کا آغاز ہو جائے۔انتخابی نتائج کے فورا بعد پورے امریکہ میں احتجاج کی لہر دوڑ گئی تھی اور اب ایک دفعہ پھر حلفِ وفاداری سے قبل احتجاج کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے۔انسانی حقوق کی تنظیمیں اور خواتین کی عالمی تنظیمیں اس احتجاج میں پیش پیش ہیں۔ خواتین کے بارے میں ڈولنڈ ٹرمپ کے خیالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ڈولنڈ ٹرمپ سرِ عام خواتین کی تذلیل کرتے ہیں اور انھیں رسوا کرنے میں لیت لعل سے کام نہیں لیتے۔وہ خواتین کو جس طرح آڑے ہاتھوں لیتے ہیں اس نے ان کے امیج کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔خواتین ایک امریکی صدر سے اس طرح کے رویوں کی امید نہیں رکھتے لیکن مشکل یہ ہے کہ ڈولنڈ ٹرمپ کو اپنی اس طرح کی سوچ پر کوئی ندامت نہیں ہے۔وہ اب بھی اپنی پرانی رجعت پسندانہ سوچ کے ساتھ کھڑے ہیں جس کی وجہ سے خواتین عدمِ تحفظ کا شکار ہیں۔،۔

ڈولنڈ ٹرمپ ایک کاروباری انسان ہیں اور وہ ریاستی اور سیاسی معاملات کو کاروباری نگاہ سے د یکھنے پر یقین رکھتے ہیں۔قصرِ صدارت میں قدم رکھنے سے قبل ہی ان کی ذات متنازعہ بنتی جا رہی ہے۔ان کا یہ اعلان کہ امریکی سفارے خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیا جائیگا پوری دنیا میں وجہِ نزاع بنا ہوا ہے۔ فرانس میں ستر ممالک کے اجتماع میں اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔اہلِ کانفرنس کاکہنا ہے کہ یہ ایک متنازعہ فیصلہ ہے لہذا اس سے اجتناب کیا جائے۔مسئلہ فلسطین چونکہ ابھی تک غیر حل شدہ ہے لہذا یروشلم کی حیثیت بھی متنازعہ ہے اور ایسے متنازعہ شہر میں امریکی سفارت خانے کا قیام دنیا کو ایک ایسا پیغام دیگا جو اسرائیل کو مزید شیر بنا دیگا۔ اسرائیل نے پہلے ہی فلسطینیوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے جبکہ ارضِ فلسطین پر یہودی بستیوں کی تعمیر اور معصوم فلسطینیوں کے قتلِ عام کی روش سے دینا پہلے ہی انتہائی بیزار ہے اور اس دلدوز فضا میں یروشلم میں امریکی سفارت خانے کا قیام ایک ایسا فیصلہ ہے جسے حریت پسند فلسطینی اپنے لئے بلیک وارنٹ تصور کرتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ ہر امریکی صدر اسرائیل کی پیٹھ ٹھونکتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی ہر صدر ایسے فیصلے کرنے سے اجتناب کرتا ہے جو صریحاانصاف و قانون کا منہ چڑائیں ۔اسرا ئیل کی حفاظت اور اس کا استحکام امریکی پالیسی کا بنیادی پتھر ہے اور اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ دنیا میں ساری اقوام اپنے اتحادی بناتی ہیں اور اس کی انھیں مکمل آزادی ہوتی ہے لہذا اگر امریکہ نے اسرائیل کے ساتھ اتحاد کا کوئی صفحہ لکھ رکھا ہے تو اس پر کسی کو کئی اعتراض نہیں ہے لیکن اس کے معنی یہ تو نہیں کہ وہ دوسری اقوام کو ان کا مطیع،فرمانبردار اور غلام بنانے کا قصد بھی کر لے۔اقوامِ متحدہ تمام انسانوں کی آزادی اور حریت کی ضمانت دیتی ہے لہذا یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ شہر جو اقوامِ متحدہ کی نگاہ میں غیر متنازعہ نہیں ہے وہاں امریکہ اپنا سفارت خانہ منتقل کر دے ۔امریکہ کو اس بات کا احساس ہونا چائیے کہ اس کے اقدامات کو پوری دنیا کے لئے مثال بننا ہو تا ہے لہذا اسے ہر فیصلہ انتہائی سوچ چو بچار کے بعداٹھانا چائیے ۔یہ دنیا تو پہلے ہی کشت و خون میں لتھری ہوئی ہے، اور بد امنی نے اس کو لہو لہان کر رکھا ہے۔جس طرف بھی نظریں دوڑائیں جنگی جنون ،بے چینی اور دھشت گردی نے انسانیت کے چہرے کو خون میں لت پت کر رکھا ہے۔حیرانگی ہوتی ہے کہ سائنسی ترقی کے اس شاندار دور میں بھی انسان محفوظ نہیں ہے۔وہ اب بھی امن کے خواب دیکھ رہا ہے لیکن اس کے امن کی آشا دھشت گردی کے ہاتھوں تار تار ہو رہی ہے۔امریکہ جیسے ملک کو امن کے عمل کو یقینی بنانا ہو گا لیکن اگر وہ بھی اس طرح کی جانبداریوں کا شکار ہو جائے گا تو قیامِ امن کی ضمانت کون دیگا؟یہ سچ ہے کہ نامریکہ مسلمان ممالک کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔اسے خدشہ ہے کہ مسلمان ممالک کا اتحاد ہی وہ واحد قوت ہو سکتا ہے جو اس کی سپر میسی کے زعم کو خاک میں ملا سکتا ہے کیونکہ اسلامی دنیا اپنا شاندار ماضی رکھتی ہے۔اسے خبر ہے کہ مسلمانوں نے ایک وقت میں پوری دنیا پر حکومت کی تھی،وہ اب بھی آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے اور آنے والے چند سالوں میں وہ دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔مسلم ممالک ۵۷(ستاون)اسلامی ممالک کا ایک بہت بڑا بلاک ہے جو دنیا میں اپنے اثرو رسوخ ،دولت،تیل کی دولت اور معدنی ذخائر کے لحاظ سے دنیا میں اپنا خاص مقام رکھتا ہے۔ امریکہ لاکھ کوشش کے باوجود بھی اسلامی ممالک سے اپنے کینے اور نفرت کو چھپا نہیں سکتا۔ایک زمانہ تھا کہ روس امریکہ کا سب سے بڑا دردِ سر تھا لیکن افغانستان میں روسی شکست و ریخت کے بعد روس میں اتنی سکت نہیں رہی کہ وہ امریکہ کے سامنے کھڑا ہو سکے۔مسلم ممالک اپنے ایمانی جذبے ،فکر ، سوچ ، نظریہِ حیات اور اقدار کی وجہ سے امریکہ اور یورپ کی نگاہوں میں کھٹک رہے ہیں لہذا وہ انھیں منتشر کرنے اور عدمِ استحکام کے حوالے کرنے کے حوالے سے انتہائی بے چین ہے۔مسلم ممالک میں خانہ جنگیاں،انتشار اور باہمی سر پھٹول اسی خوف کا غماز ہے لیکن امریکہ بھول چکا ہے کہ کہ یہ سارے ہتھکنڈے بھی مسلمانوں کے جذبہ ایمانی کو کمزور نہیں کر سکتے اور شائد یہی جذبہ ایک دن امریکی سپر میسی کا خاتمہ کرنے کا باعث بن جائے ۔میری ذاتی رائے ہے کہ ڈولنڈ ٹرمپ جیسے جنونی کا دورِ کا اقتدار ہی وہ پہلا زینہ ہو گا جو امریکی اتحاد و یکجہتی کا خاتمہ کرکے مسلم امہ کو اتحاد کی نعمت سے سرفراز کریگا۔،۔
 
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515611 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.