26جنوری یوم جمہوریہ کے طورپر ہر سال
منایاجاتاہے،کیونکہ اسی روز مرتب کردہ آئین اسمبلی کے ذریعہ نافذالعمل
کیاگیاتھا۔ اس دن کا یہ بھی پس منظرہے کہ 1930میں لاہور کے مقام پر دریائے
راوی کے کنارے انڈین نیشنل کانگریس نے اپنے اجلاس میں جس کی صدارت جواہرلال
نہرو نے کی تھی، ڈومنین اسٹیٹس کی بجائے مکمل آزادی کے حصول کو اپنا نعصب
العین قراردے کر 26جنوری کو یوم ِآزادی کے طورپر منانے کا فیصلہ کیاتھا۔
اس روز شاندار فوجی پریڈ اورجھانکیوں کی نمائش کے علاوہ چراغاں اور جشن کی
تقریبات مناکر ہندستانی عوام کو باورکرایا جاتاہے کہ وہ تحریک آزادی کے
اصولوں کی روشنی میں مکمل طورپر آزاد خود مختار ہیں ، اتنا ہی نہیں بلکہ
خوشحالی اورفارغ اُلبالی کی زندگی کی طرف رواں ہیں۔ لیکن عملی دنیا کی
حقیقت یہ ہے کہ ملک نہ تو مکمل طورپر آزادہے اور نہ ہی عوام الناس کو اپنی
خوشحالی اورفارغ اُلبانی کاکہیں نام ونشان مل رہا ہے۔ یہ دُرست ہے کہ سیاسی
طورپر غیر ملکی حکمرانی کاخاتمہ ہوچکاہے اور سفید فام حکمرانوں کی بجائے
گندمی رنگ کے حکمران برسر اقتدار ہیں جو ہر وہ نارواکام کر رہے ہیں جس میں
دور غلامی میں بڑ ھ چڑھ کرفر نگی ملوث تھے ۔ یہ ملک ابھی تک پسماندگی ،
ناخواندگی ، بیماری ، استحصال اور دوسری طرح کی غلامیوں میں جکڑا ہوا ہے ۔
سماجی طورپر منتشر ، سیاسی طورپر استحصال زدہ اور معاشی لحاظ سے اس وقت بھی
ملک برابر نیم آبادیاتی ہے، کیونکہ معیشت پر سامراجی طاقتو ں، ان کے مقامی
دلالوں اوربڑے بڑے لینڈ لارڈ وں کی مشترکہ گرفت مکمل طورپر موجودہی نہیں
بلکہ مضبوط ومستحکم ہے۔ تمام ترمعاشی پالیسیاں ورلڈ بنک، ملٹی نیشنل
کمپنیوں، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اورانٹرنیشنل
کنشوژیم کے کنٹرول میں ہیں۔ چونکہ ملکی دولت کازیادہ تر حصہ سامراجیوں ،
گماشتہ مقامی سرمایہ داروں اوربڑے بڑے لینڈلارڈوں کی تحویل میں چلاجاتاہے،
اس لئے محنت کش عوام کنگال و معاشی طورپر ناآسودہ ہیں۔ اندریں حالات
آزادی اور جمہوریت کا جوخواب ہندوستانی عوام نے بڑے ذوق وشوق سے دیکھاتھا
وہ ادھوراہے ، تشنہ ٔ تعبیر ہے اور اسے پورا کرنے کے لئے سخت جدوجہد اور بے
لوث سیاسی ومعاشی قیادت کی اشدضرورت ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ ہمارے سروں
پر مسلط خود غرض اور استحصالی حکمران وسیاست دان بے شک اپنی منزلِ مُراد…
یعنی لو ٹواور پھوٹو… پرپہنچ چکے ہیں لیکن عوام منزلِ تمنا سے کوسوں دورہیں۔
جس قوم کو خو د کفالت اور خودانحصاری کی پالیسی ترک کرکے لبرل معاشی پالیسی
کے نام پر ملک کو عالمی سرمایہ دار منڈی کے ساتھ نتھی کردیاگیا ہو، جس ملک
کی معاشی ومالی پالیسیاں ورلڈ بنک ، ملٹی نیشنل کمپنیوں، مانیٹری فنڈ، ورلڈ
بنک اورورلڈٹریڈ آرگنائزیشن جیسے سامراجی ادارے طے کرتے ہوں، جہاں بیرونی
سرمایہ داروں کولوٹ کھسوٹ کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہو۔،جب مالی ومعاشی بحران
کا دیوہاہاکار مچا رہا ہو، جب برآمدات اور درآمدات میں تفاوت کے باعث
تجارت میں عدم توازن موجود ہو، جب روپیہ کی قیمت 1960کے مقابلہ میں چار
پیسے رہ گئی ہو، جب آئے دن غیر ملکی سکہ کے مقابلہ میں ہندوستانی روپیہ کی
قیمت کم ہوتی جارہی ہو، جب صنعت وحرفت میں غیر ملکی غلبہ ہو،جب معاشی
پالیسیاں طے کرنے کی آزادی اورخودبینی وخود نگری کا اختیارحاصل نہ ہو تو
اس ملک ، قوم اور معیشت کو آزادکیسے قراردیاجاسکتاہے؟ جب کھلم کھلا غیر
ملکی سامراجی طاقتیں اس ملک کی معیشت وسیاست پر قبضہ کرنے کے لئے آپس میں
برسرپیکار ہوں، تو اسے آزاد معیشت وجمہوری سیاست کا نام کیسے دیا جاسکتاہے؟
یہ سب نیم نوآبادیاتی معاشرہ کی خصوصیات ہیں جو ہم اپنے سروں پر سوار
دیکھتے ہیں ۔اس لئے بلاشبہ ہندوستانی معاشرہ ، نیم نوآبادیاتی معاشرہ ہے
بھلے ہی حکمران کسی شک وشبہ کے بغیر میڈیا کے زور پر اسے آزاد اور حاکمیت
اعلیٰ کا حامل معاشرے کا نام دیں۔
سوال یہ ہے کہ جب متذکرہ بالا سیاسی ومعاشی پالیسیوں کے طفیل صنعتوں پر
بیرونی اور ان کے مقامی گماشتہ سرمایہ داروں کا قبضہ ہو، جب زمین کے غالب
حصہ پر لینڈ لارڈ قابض ہوں تو عوام کی حالت بہتر کیسے ہوسکتی ہے؟ ان غلط
وناہنجار پالیسیوں کی ہی وجہ ہے کہ ملک میں غربت ، مفلسی ، بیکاری،
بیروزگاری، مہنگائی، حق تلفی ،رشوت ،بھرشٹاچار، کنبہ پروری ، اقرباء
نوازی،اور خاندانی راج جیسی بری چیزیں سر بازار بک رہی ہوں، تو مزدور ،
کسان اور درمیانہ طبقہ کے لوگ کیوں نہ کنگال ہوتے ر ہیں۔ اس مخمصے کو کن
معنوں میں آزادی ، خوشحالی اور تعمیر وترقی کا دور کہا جا سکتا ہے جسے یوم
جمہوریہPre. Suppose کر تا ہے اور اسے عوام کی جیت سے کیسے منسوب
کیاجاسکتاہے؟ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ملک میں دولت کے بیشتر حصہ پر
سامراجی مقامی گماشتہ سرمایہ دار اور لینڈلارڈ قابض ہیں اورمحنت کش نیم
فاقہ کشی کی زندگی بسرکرنے پرمجبور ہیں۔ آزادی کا پھل سامراجی ، گماشتہ
سرمایہ دار ، لینڈلارڈ اور سیاسی پارلیمانی شہزادے کھارے ہیں اورمفلوک
الحال عوام مصائب و آلام کے شکارہیں۔ اس لئے یہ کس زبان وبیان کے پیرائے
میں کہاجاسکتاہے کہ آزادی کے 69سال بعد آج عوام جشن وخوشیاں منائیں
کیونکہ وہ حقیقی طورپر آزادی اور معاشی مساوات سے ہمکنار ہیں؟ حقیقت ِ حال
یہ ہے کہ عام آدمی حسب سابق ذلت کے گہرے غار میں پڑا ہوا ، استحصال ، گراں
بازاری اوربے نوائی کے سبب کراہ رہا ہے۔ خدا را بتایئے کہ اس ناگفتہ بہ
صورت حال کوخوش حالی اور فارغ البالی سے کیسے منسوب کیاجاسکتاہے؟ ہاں ،
اقتدار کے رسیا نیتا اگر کانٹوں کو پھول اور مشکالت ومصائب کو راحتیں قرار
دیں تو بھی امرواقع یہی ہے کہ لوگ در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ، بھلے ہی
حکمران ذرائع نشرو اشاعت کے ذریعہ رات دن خیالی جنتوں اور افسانوی خوشحالی
کا ڈھنڈورہ پیٹیں۔
ہندوستان ایک مختلف القومیتی ملک ہے جس میں مختلف مذاہب اور عقائد رکھنے
والے لوگ صدیوں سے حب الوطنی کے بے لوث جذبے کے ساتھ رہتے بستے ہیں۔ اس ملک
کااتحاد، سا لمیت ، یگانگت صحیح معنوںمیں اس وقت قائم رہ سکتی ہے جب یہاں
حقیقی معنو ں میں وفاقی نظام قائم ہو، تمام مذاہب اور عقائد وافکارکو تحفظ
حاصل ہو، ہر نسل اور زبان وثقافت کو پھلنے پھولنے کی راہیں ہموار ہوں تو
پھر ملک کی جمہوریت اور آزادای کے کیا کہنے ! اس کے برعکس جب کہ چھوٹی
قومیتوں اور دیگر اقلیتوں کے آئینی وانسانی حقوق پائمال کرکے عملاً وحدانی
طرز حکومت قائم کردیاگیاہے، جس سے سب مالیات اور ذرائع مرکز کی تحویل میں
ہیں اور ریاستیں مرکز کی دست ِ نگرہیں،مذہبی اقلیتوں میں احساس عدم تحفظ
پایا جائے اور وہ بوجوہ خوفزدہ اور دبے کچلے ہوں، کرسی کے لئے ضمیروں کو
بیچ کھا نے والے حکمرانوں نے اپنے حقیر سیاسی اغراض کے لئے پورے ملک کو ذات
برادریوں میں تقسیم کررکھاہو کہ جس سے قومی یک جہتی بھی خطرے میں ہے، اس
تناظر میں ۲۶ جنوری کی خوشیاں ایک بے سمت سفر اور ایک بے مقصد اچھل کود ہے
تاوقتیکہ حقیقی معنوںمیں فیڈرل نظام قائم نہیں ہوتا تب تک قومی یک جہتی
کیسے قائم ہوسکتی ہے؟ یہ الگ بات ہے کہ ہوس اقتدار رکھنے والے رنگے سیار
اپناالو سید ھا کر نے کے لئےگلا پھاڑ پھاڑ کر قومی اتحادکے ڈنکے بجاتے رہیں۔
دنیا جانتی ہے کہ اس ملک میں انسانی حقوق پائمال ہورہے ہیں، شہری آزادیاں
غارت ہورہی ہیں اور آزادی تحریر و تقریر کی نفی ہورہی ہیں،معصوم وبے گناہ
لوگ دن دھاڑے مارے جارہے ہیں، بے گناہ تختہ مشق بن رہے ہیں اور مجرموں کو
خود غرضانہ سیاست کی چھتر چھا یا حاصل ہونے کی بنا پر حکام کی زبانوں
پرتالے، آنکھوں پر پٹیاں اور ضمیروں پر بےپرواہی کی دھول جمی ہوئی ہے ۔
ایک جانب منظر نامہ یہ ہے اور دوسری جانب سخت گیرانہ کالے قوانین دھڑا دھڑ
بنائےجارہے ہیں۔ یہ سب ان خوابوں کی نفی ہے جوعوام نے انگریز سامراج کے
خلاف دیوانہ وار جد وجہد کے دوران دیکھے تھے گو اس انارکی کو بے ضمیر
حکمران آزادی کا نام ہی دیں۔سیاسی ومعاشی آزادی کی حقیقی منزل پر پہنچنے،
ملک میں خوشحالی لانے اور قومی یک جہتی قائم کرنے کے لئے سامراجیوں، گماشتہ
سرمایہ داری اور لینڈلارڈازم کی گرفت کوتوڑنا اشد ضروری ہے۔ جب تک ملک ان
کی گرفت سے آزاد نہیں ہوتا تب تک آزادی اورجمہوریت کاگن گان بے معنی ہے۔
ایسا موجودہ لٹیرے نظام کی تخریب اور عوامی جمہوریت کے قیام سے ہی ممکن ہے۔
لٹیرے حکمران طبقوں کے مختلف گروہ موجودہ استحصال اور لوٹ کھسوٹ کے نظام کے
ہی نقیب ہیں۔ ان میں بے شک کسی قدر بھی لڑائی جھگڑے بھی ہوں، پھر بھی ایک
ہی تھیلے کے چٹے بٹے ہونے کی بنا پر وہ اس لٹیرے نظام پرکوئی آنچ نہیں
آنے دیتے اور نہ اسے بدل کر پورے سسٹم کو ایک انقلابی سانچے میں ڈھالنے کے
لئے تیار ہو رہے ہیں ۔ اس لئے لازم ہے کہ ان کے مایا جال سے آزادی حاصل
کرکے پارلیمانی نظام کے ابہامات سے آزاد ہوکر ایک انقلابی تحریک کے ذریعہ
عوامی جمہوری انقلاب کرکے ہی سچی آزادی اور جمہوریت سے ہمکنار ہوا
جاسکتاہے اورصحیح معنوںمیں یوم جمہوریہ منانے کی ایک نظریاتی اور عملی
بنیاد فراہم ہو سکتی ہے۔ اس منزل کو حاصل کئے بغیر یوم جمہوریہ کے نام پر
اُچھل کود کرنا محض عوام کی آنکھوں کوخیرہ کرنے اور زمینی حقائق کو عوامی
نظروں سے پوشیدہ رکھنے کی مکروہ چال ہے جسے عوام کو اچھی طرح ذہن نشین کرنے
کی ضرورت ہے ۔موجودہ صورت حال میں ہم جیسے دل جلے لوگ تو فقط یہی کہہ سکتے
ہیں ؎
مالی نے اس لئے چمن کو خون سے سینچاتھا
کہ اس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں
ملیں اس لئے ریشم کے ڈھیر بنتی ہیں
کہ دختر ان وطن تار تار کو ترسیں
اس موقع پرضرورت اس امرکی ہے کہ عوام ان مقاصد کو سمجھیں جن کی خاطر ان سے
پیشتر کی نسلوں نے انمول قربانیاں دے کر سچی آزادی اور حقیقی جمہوریت کے
قیام کے لئے کوششیں کی تھیں، لاتعداد جان بحق لوگوں کا لہو پکارپکار کر
موجودہ نسل کو غور وفکر کی دعوت دے رہاہے کہ ابھی اس ملک میں سچی آزادی
اور حقیقی جمہوریت کا قیام عمل میں نہیں آیا ہے۔اس منزل تاباں پرپہنچنے کے
لئے انہیں انتھک محنت کرناہوگی اور اپنے آباءواجداد کے نقش قدم پر چل کر
قربانیوں کا راستہ اختیار کرناہوگا۔ بصورت دیگرانہیں موجودہ ذلت زدہ حال
میں ہی زندگی بسر کرناہوگی۔ بھارت کا دستور جب مرتب کیا گیا تو بنیادی حقوق
(Fundamental Rights)کی دفعات میں دفعہ 25-26-27-28-29-30میں ہر شہری کو
مذہب کی آزادی اپنے مذہبی رسم و رواج پر عمل کی آزادی۔اپنے تہوار منانے اور
اپنے مذہبی اور تہذیبی خصوصیات کے ساتھ رہنے کی آزادی۔اپنے مذہب کی تبلیغ و
ترویج کی آزادی،مذہبی تقریبات کی آزادی ،اپنے مذہب،زبان اور اپنی تہذیب کے
تحفظ اور فروغ کے لیے ادارے قائم کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔
انگریزی حکومت میں مسلمانوں نے اپنے مسائل اسلامی طریقے پرحل کرنے کی
درخواست دی تو انگریزی حکومت نے مسلمانوں کی درخواست منظور کر لی اور شریعت
ایکٹ 1937پاس کیا۔جب ہمارا ملک آزاد ہوا تو ڈاکٹر امبیڈکر کی رہنمائی میں
دستور ساز کمیٹی تشکیل دی گئی۔اس کمیٹی نے شریعت ایکٹ 1937کو جوں کا توں
برقرار رکھا اسی کو مسلم پرسنل لا کہتے ہیں جو آج بھی ہمارے عدالتی نظام
میں رائج ہے۔
26 جنوری ہندوستان میں "یومِ جمہوریہ" کے یادگار دن کے طور پر منایا جاتا
ہے۔ہندوستان نے برطانیہ کے تسلط سے یوں تو 15۔اگست 1947ء کو آزادی حاصل کی
تھی، لیکن ہندوستان کا آئین 26۔جنوری 1950ء کے دن قائم کیا گیا تھا ، لہذا
حکومتی سطح پر یہی دن (26۔جنوری) ہندوستان کے جمہوری مملکت ہونے کے مبینہ
اظہار کا دن قرار دیا جاتا ہے۔اسی دن ڈاکٹر راجندر پرساد ہندوستان کے پہلے
صدر جمہوریہ کے طور پر منتخب کیے گئے۔"یومِ جمہوریہ" کے اسی قومی دن ہر سال
ہندوستان کے دارلحکومت نئی دہلی میں ایک عظیم فوجی پریڈ کی نمائش ہوتی ہے۔
آرمی ، نیوی اور ایر فورس کی قوتوں کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ صدرِ ہندوستان ،
جو کہ ہندوستانی مسلح فوج کا کمانڈر انچیف بھی ہوتا ہے ، اس موقع پر فوج کی
سلامی لیتا ہے۔یومِ جمہوریہ کی اس پریڈ میں شرکت کے لیے مہمانِ خصوصی کے
طور پر کسی دوسرے ملک کی اہم شخصیت کو دعوت دی جاتی ہے۔ اس سال فرانس کے
صدر اور کچھ ملک کے سربراہان کوبطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیا تھا۔
یومِ جمہوریہ کو سارے ہندوستان میں تعطیل منائی جاتی ہے۔ ساری ریاستوں کے
دارالحکومت میں مختلف رنگین تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ علی الصبح پرچم
کشائی کی تقریب ریاستی گورنر کے ہاتھوں انجام پاتی ہے۔ |